Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

عقیدہء اھل سنت کی تفصیل

  امام ابنِ تیمیہؒ

[عقیدہء اھل سنت کی تفصیل]من جملہ اہل سنت والجماعت اھل الحدیث اور ان کی طرف منسوب کیے جانے والے (اھل التفسیر، اھل حدیث، اھل فقہ اھل تصوف، مثلاً ائمہ اربعہ اور ان کے متبعین رحمہم اللہ ) اور وہ جماعتیں جن کی نسبت اہل سنت و الجماعت کی طرف ہے ؛ جیسے : کلابیہ، کرامیہ، اشعریہ اور سالمیہ کی طرف ہے؛ سب کہتے ہیں : ’’ کلام اللہ مخلوق نہیں ۔ اورقرآن اللہ تعالیٰ کا کلام غیر مخلوق ہے۔ یہ عقیدہ سلف اور ائمہ اھل بیت وغیرہ سے مشہور اور مستفیض ہے۔[2] [2] امام رضا سے قرآن کی بابت پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا: ’’بے شک وہ اﷲ کی کلام ہے اور مخلوق نہیں ہے۔‘‘ تفسیر العیاشی : ۱؍ ۱۹، حدیث نمبر: ۱۷(فی فضل القرآن )۔لیکن ائمہ اہل بیت کے اس عقیدہ سے انحراف کرتے ہوئے زیادہ دیر نہیں لگی ۔ اور بعد والے شیعہ معتزلہ کی راہ پر چل پڑے۔ چنانچہ شیعہ کے علامہ مجلسی نے اپنی کتاب ’’کتاب القرآن ‘‘ میں ایک باب کا عنوان یہ رکھاہے:’’باب أن القرآن مخلوق۔‘‘ ’’اس بات کا بیان کہ قرآن مخلوق ہے۔ ‘‘بحارالأنوار : ۸۹۸ ؍۱۱۷۔ اس میں گیارہ روایات لکھی ہیں ۔شیعہ کے آیت اﷲ محسن امین اس بات کی تاکید بیان کرتے ہوئے کہتا ہے:’’ شیعہ اور معتزلہ کا عقیدہ ہے کہ قرآن مخلوق ہے۔‘‘(أعیان الشیعہ: ۱؍۴۶۱)یہ صحابہ تابعین اور تبع تابعین سے متواتر منقول ہے اہل الحدیث اور اہل السنۃ کی اس مسئلہ پر بیسیوں تصانیف ہیں جن میں وہ ثابت شدہ سندوں کے ساتھ سلف کے اقوال نقل کرتے ہیں ۔ ان کتب میں سے ’الرد علی الجھمیہ از محمد بن عبداللہ الجعفی[3] [3] ابوعبداللہ محمد بن عبداللہ بن حسین جعفی المعروف ھروانی یا ابن ھروانی مذھب حنفیہ کے بڑے ائمہ میں سے ہیں ۔ 305تا 402ف (العبراز ذھبی 8؍3 اللبابے بن انتیر 289؍3، تاریخ بغداد 472۔73؍5، شذرات الذھب 165؍3، الجواھر المضیہ فی طبقات الحنفیہ از محمد القرشی 65؍2، اس میں الردعلی الھمیہ کا ذکر نہیں ۔ درء سے ملائیں 108؍7۔اور عثمان بن سعید دارمی رحمہ اللہ اس طرح نقض عثمان بن سعید رحمہ اللہ علی بشر المریسیّ والرد علی الجھمیہ از عبدالرحمن بن ابوحاتم۔ السنہ از عبداللہ بن امام احمد [1] [1] ابو عبدالرحمن عبداللہ بن احمد بن حنبل 290۔213، (طبقات حنابلہ 180؍1، تذکرۃ 665؍2 تاریخ الادب العربی از بروکلماز ، 313؍3۔   اور ابوبکر اثرم[2] [2] ابوبکر احمد بن محمد ھانی طائی اسکافی اترم، متوفی 261 تقریباً، (طبقات حنابلہ 66؍1، تذکرہ 570؍2۔   اور خلال کی۔ خلق افعال العباد از امام بخاری رحمہ اللہ ؛ التوحید، ابوبکر بن خزیمہ [3] [3] ابوبکر محمد بن اسحاق بن حزیمہ النیساپوری 223 تا 311، (تذکرہ 720؍2، طبقات شافعیہ 109؍3، الأعلام 235؍6۔ ؛کتاب السنہ لابی القاسم الطبرانی ؛ اور از ابو الشیخ الاصفہانی ؛ اور از عبداللہ بن مندہ ؛ اور اسماء و صفات از ابوبکرالبیہقی رحمہم اللہ ۔اور ابو ذر الہروی کی : السنہ؛ اور الابانہ، ابن بطہ، شرح اصول السنہ ابوالقاسم لال کائی (۳۳) السنہ ابوحفص بن شاھین ، اصول السنۃ ابوعمر طلمنکی۔لیکن بعد میں آنے والے متاخرین نے آخری سات اقوال میں بحث کی ہے۔ پہلے دو اقوال میں سے پہلا قول دھریہ فلاسفہ کا ہے جو عالم کے قدیم ہونے کے قائل ہیں ۔ صائبہ اور فلاسفہ وغیرہ بھی یہی عقیدہ رکھتے ہیں ۔دوسرا قول معتزلہ سے جھمیہ اور ان کے ہم خیال نجاریہ؛ ضراریہ کاہے۔جبکہ شیعہ کا اس مسئلہ میں اختلاف گزر چکا ہے۔ ان کے قدماء قرآن کو غیر مخلوق کہتے تھے جیسے اھل سنت اور اہل الحدیث کا عقیدہ ہے۔ یہی قول اہل بیت مثلاً حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ، ابوجعفر الباقر، جعفر بن محمد الصادق رحمہ اللہ وغیرہ کا ہے۔اسی وجہ سے امامیہ کا یہ عقیدہ نہیں تھا کہ قرآن مخلوق ہے۔ جب انہیں اہل بیت سے اس عقیدہ کی نفی پہنچی تو انہوں نے اسے محدث مجہول قرا ر دیا۔ اس سے ان کی مراد مخلوق ہوناہے۔ ان کے خیال میں اھل بیت سے نفی غیر مخلوق ہونے کی ہے؛ جوکہ بہت بڑا بہتان اور جھوٹ ہے۔ بلاشبہ مسلمانوں کے ہاں بالاتفاق اس معنی کی نفی ہے۔ کچھ اسے مخلوق کہتے ہیں اور کچھ غیر مخلوق۔ اہل قبلہ میں جھگڑا اس بات کا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ مخلوق ہے؛ یا اللہ تعالیٰ کا کلام ہے ؛جو اس نے خود کلام کیا ہے؛ اورجو اس کی ذات کے ساتھ قائم ہے۔ اہل بیت سے اسی بارے سوال کیا گیا۔ ورنہ اس کا جھوٹ اور بہتان ہونا ایسا مسئلہ ہے جس کے بطلان میں مسلمانوں میں کوئی اختلاف نہیں ۔امامیہ فرقہ کے لوگ اپنے عام اصولوں میں اہل بیت کی مخالفت کرتے ہیں ۔ ائمہ اھل بیت مین حضرت علی بن حسین، ابو جعفر باقر، ان کے بیٹے جعفر بن محمد الصادق، جیسا کہ کوئی دوسرا نہیں ؛ اور ان میں سے کوئی بھی رؤیت باری تعالیٰ کا منکر نہیں تھا اور نہ ہی کوئی قرآن کو مخلوق کہتا تھا؛نہ ہی کوئی تقدیر کا انکار کرتاتھا۔اور نہ ہی خلافت حضرت علی رضی اللہ عنہ کو منصوص مانتا تھا۔نہ کوئی بارہ اماموں کی معصومیت کا قائل تھا؛اور نہ ہی کوئی حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کو گالی دیتا تھا۔ ان ائمہ سے منقولات متواتر طور پر ثابت ومعروف اور موجود ہیں ۔ جن پر اہل سنت اعتماد کرتے ہیں ۔رافضی علماء و مشائخ اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ توحید، صفات اور تقدیر والے ہمارے عقائد نہ تو کتاب و سنت سے ماخوذ ہیں اور نہ ہی ائمہ اھل بیت سے منقول ہیں ۔ بس ان کے خیال میں عقل ان پر دلالت کرتی ہے؛ جیسے کہ معتزلہ کہتے ہیں ۔حقیقت یہی ہے کہ عدل اور توحید کے عقیدہ میں معتزلہ ان کے اکابر و ائمہ ہیں ۔یہ سمجھتے ہیں ہم نے شرائع دینیہ ائمہ سے حاصل کی ہیں ۔ ان کی شرائع سے مراد غالباً اھل سنت کی موافقت ہوتی ہے (یا بعض اہل سنت کی موافقت مراد ہوتی ہے)۔ ان کے تفردات بدترین ہیں جن پر کسی نے بھی ان کی موافقت نہیں کی۔ ان کے مذاھب اربعہ سے تفردات ہیں ۔ جو حقیقت میں غیر اربعہ کے قول ہیں ۔ سلف اھل ظاہر معتزلی فقہاء وغیرہ کے۔ یہ اور اس طرح دیگر اجتہادی مسائل ان میں تفرد آسان بات ہے؛ بخلاف ایسے شذوذ کے جس کی کوئی دلیل کتاب و سنت سے نہیں ملتی؛ اور نہی ہی ان سے پہلے کسی نے یہ بات کہی ہے۔ علماء اسلالم میں سے کوئی بھی یہ نہیں کہتا کہ حق ان چار ائمہ:جیسے امام ابو حنیفہ ؛ امام مالک ؛ امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ تک ہی محصور ہے ؛جیسا کہ شیعہ اہل سنت پر جھوٹاالزم لگاتے ہوئے یہ قول منسوب کرتیہیں کہ : اہل سنت کہتے ہیں کہ: حق ان چار میں محصور ہے۔بلکہ اہل سنت کا اس پر اتفاق ہے کہ جس مسئلہ میں مسلمانوں کا اختلاف ہو؛ اسے اللہ تعالیٰ اور رسول کی طرف لوٹانا واجب ہے۔ بسا اوقات اقوال صحابہ اور آثار تابعین رحمہم اللہ میں کوئی ایسا قول ہوتا ہے جو ائمہ اربعہ کے اقوال کے خلاف ہوتا ہے۔ جبکہ ان ائمہ اربعہ کا قول ثوری ، اوزاعی، لیت بن سعد، اسحاق بن راھویہ وغیرہ کے قول سے زیادہ درست ہوتا ہے۔شیعہ جب ان بعض اقوال میں سے کسی ایک راجح قول کے موافق بات کرتے ہیں ؛ تو اس مسئلہ میں ان کا قول راجح ہو جاتا ہے۔ان کا کوئی ایک مسئلہ بھی ایسا نہیں جس میں انہوں نے تمام اہل سنت خلفائے ثلاثہ کی خلافت کے قائلین کی مخالفت کی ہو؛ اور اس میں وہ حق پر ہوں ؛ بلکہ ان کا قول فاسد ٹھہرتا ہے۔ یہی حال معتزلہ اور دیگر تمام گروہوں جیسے اشاعرہ اورکرامیہ ؛ سالمیہ وغیرہ کا بھی ہے۔ان کا کوئی ایک بھی انفرادی قول ایسا نہیں ہے جس میں یہ امت کے برعکس ہوں ؛مگر وہ قول فاسد ہوتا ہے۔ حق قول وہی ہے جو سلف سے مأثور ہے؛ اور اس کو قبول کرنے میں ہم دیگر تمام گروہوں پر سبقت رکھتے ہیں ۔جب یہ مذاھب معلوم ہو گئے؛ تو پوچھا جائے گاکہ:’’ آپ کے قول ’’ان امرہ و نھیہ واخبارہ حادث لاستحالۃ امر المعدوم ونھیہ واخبارہ‘‘ میں آپ کی مراد حادث فی ذاتہ ہے یا اس سے منفصل ہے۔ پہلا قول شیعہ متقدمین، جھمیہ، مرجئہ، کرامیہ اور بہت سے اھل الحدیث اور دیگر حضرات کا ہے۔٭ پھر جب یہ کہا گیا کہ :’’ حادث ہے‘‘ تو کیا وہ ’’حادث نوع ‘‘ہے؛تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ پہلے کلام نہیں کرتا تھا؛ بعد میں کلام کرنے لگ گیا۔‘‘ یاوہ ’’حادث الافراد ‘‘ ہے؛یعنی اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے متکلم ہے جب چاہتا ہے بولتا ہے۔اوروہ کلام جو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کیا گیا؛اگروہ حادث ہے تو اس کے کلام کی قسم قدیم ہے؛ جس سے وہ ہمیشہ موصوف رہا ہے۔ یہ تینوں اقسام آپ کے قول کے تحت آتی ہیں ۔ اور آپ جان چکے ہیں کہ اگر پہلی قسم مراد لیں تو یہ متاخرین شیعہ کا ہے جنہوں نے تشیع اور اعتزال کو یکجا کر دیا ہے ۔جن کا عقیدہ ہے کہ :’’کلام اللہ کی مخلوق ہے؛ جسے اس نے اپنی ذات سے منفصل پیدا کیاہے۔ امامیہ اگرچہ محدث کے قائل ہیں مگر وہ اسے مخلوق نہیں مانتے؛ محدث سے ان کی مراد وہی مخلوق ہے جو ان[ معتزلہ ] کے ہاں لفظ مخلوق سے مراد ہوتی ہے؛ ان کے مابین نزاع لفظی ہے۔

٭ آپ سے پوچھا جائے گا :’’ اگر وہ کلام اللہ کی مخلوق اور اس سے جداگانہ اس کی تخلیق و ایجاد ہے؛ تو پھر یہ اس کا کلام تو نہ ہوا۔ کیونکہ کلام؛ قدرت؛ علم اور دیگر تمام صفات ؛ جن سے وہ موصوف ہے؛ جو اس کے ساتھ قائم ہیں ؛ نہ اس کی تخلیق ہیں ؛ اور نہ ہی اس نے ا نہیں وجود بخشا ہے۔ اس لیے کہ جب اللہ تعالیٰ حرکت ؛علم اور قدرت کو کسی محل میں پیدا کرتے ہیں ؛ تو وہ محل ہی محترک ؛عالم اورقادر ؛اور ان صفات سے موصوف ٹھہرا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی صفات نہ ہوئیں ۔ بلکہ اس کی مخلوق ہوئیں ۔ اگروہ اپنے سے منفصل مخلوقات سے متصف ٹھہرا؛ توپھر جب جمادات کو قوت گویائی بخشی ؛ جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے:﴿ یٰجِبَالُ اَوِّبِیْ مَعَہٗ وَالطَّیْرَ ﴾(سبأ 10)’’اے پہاڑو اس کے ساتھ عاجزی کرو اور اے پرندو تم بھی۔‘‘اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿یَوْمَ تَشْہَدُ عَلَیْہِمْ اَلْسِنَتُہُمْ وَاَیْدِیْہِمْ وَاَرْجُلُہُمْ بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ﴾ (نور ۲۴)’’قیامت کے روز ان کی زبانیں ، ہاتھ اور پاؤں ان کے اعمال کے سبب ان کے خلاف گواہی دیں گے۔‘‘اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿وَقَالُوْا لِجُلُودِہِمْ لِمَ شَہِدْتُمْ عَلَیْنَا قَالُوْا اَنطَقَنَا اللّٰہُ الَّذِیْ اَنطَقَ کُلَّ شَیْئٍ﴾(فصلت 21)’’وہ اپنے چمڑوں سے پوچھیں گے تم نے ہمارے خلاف گواہی کیوں دی تو وہ کہیں گے ہمیں اس نے بلایا جس نے تمام چیزوں کو قوت گویائی دی۔‘‘اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿اَلْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰٓی اَفْوَاہِہِمْ وَتُکَلِّمُنَآ اَیْدِیْہِمْ وَتَشْہَدُ اَرْجُلُہُمْ بِمَا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ﴾ (یس 65)’’آج ہم ان کے مونہوں پر مہر لگا دیں گے ان کے ہاتھ ہمیں بتائیں گے ان کی کمائی کے سبب ان کے پاؤں ان کے خلاف گواہی دیں ۔‘‘اسی طرح پتھر کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کرنا؛ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں کنکریوں کا تسبیح کرنا، آپ کے کھاتے ہوئے کھانے کا تسبیح کرنا۔ جب اللہ تعالیٰ کا کلام اس کے غیر میں پیداشدہ مخلوق ہی ہوتا ہے؛ تو یہ سب اللہ تعالیٰ کا کلام ٹھہرا کیونکہ اسے اللہ تعالیٰ دوسری مخلوق میں پیدا کیا ہے۔ایسے ہی جب ہاتھ کلام کریں گے تو لازم ہے یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہو۔ جیسا کہ وہ کہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ بن عمران علیہ السلام سے کلام کے لیے درخت میں کلام تخلیق کیا۔ جب اس بات کے خلاف دلیل ثابت ہو گئی کہ بندوں کے افعال و اقوال اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں اور وہی ہر ناطق کو قوت گویائی بخشنے والا ہے؛ تو اس سے واجب ٹھہراکہ ہرموجود کلام اسی کا کلام ہو۔جھمیہ میں سے حلولیہ کا یہی عقیدہ ہے جیسا کہ ’’ الفصوص‘‘کے مصنف ابن عربی کا عقیدہ ہے؛ وہ کہتا ہے:’’وکل کلام فی الوجود کلامہ              سواء ً علینا نثرہ ونظامہ۔‘‘’’وجود میں ہر کلام اسی کا کلام ہے خواہ ہم اس کو نظم میں بیان کریں یا نثر میں ۔‘‘[1] [1] ابن عربی نے اپنی کتاب ’’الفقوحات المکیہ 141؍4میں نقل کیا ہے مطبوعہ، مصطفی حلبی، دارالکتب العربیہ، قاھرہ 1329۔تو پھر اس طرح فرعون کایہ کہنا کہ:﴿اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعْلٰی﴾(نازعات 24) بھی اللہ تعالیٰ کا کلام ہوا۔ جیسے درخت میں مخلوق کلام:﴿اِنَّنِیْٓ اَنَا اللّٰہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنَا﴾ (طہ 14)    کلام اللہ ہے۔ یہ کہتے ہیں : درخت وغیرہ میں مخلوق کلام اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔اسی طرح جو انبیاء علیہم السلام نے لوگوں سے خطاب کیا، انہیں خبر دی کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا؛ اس نے ندادی؛ اس نے سرگوشی کی؛ اس نے کہا؛ انہیں تو سمجھ نہ آئی کہ یہ سب اللہ تعالیٰ سے جداگانہ مخلوقات ہیں بلکہ انہوں نے یہی سمجھا کہ اللہ تعالیٰ نے بذات خود کلام کیا۔ یہ کلام اس کے ساتھ قائم ہے نہ کہ غیر کے ساتھ۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے غیر ناطق معبود کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا ہے:﴿ اَلَمْ یَرَوْا اَنَّہٗ لَا یُکَلِّمُھُمْ وَ لَا یَھْدِیْھِمْ سَبِیْلًا ﴾(اعراف 148)کیا وہ نہیں دیکھتے کہ وہ ان سے بات نہیں کرتا اور نہ ہی راہ دیکھا سکتا ہے۔‘‘’’کسی شے کے متکلم ہو نے یا نہ ہونے کی مدح و ذم تبھی ہو گی جب کلام اس کے ساتھ قائم ہو گا۔‘‘مختصراً لغت اور عقل ایسامتکلم اور قائل معلوم نہیں ہوسکاجس کے ساتھ کلام یا قول قائم نہ ہو؛نہ کسی کی عقل میں ؛ اور نہ ہی کسی کی لغت میں ؛ نہ ہی انبیاء علیہم السلام اور دیگر کی لغت میں ۔ اور نہ ہی کسی کی عقل میں یہ بات آتی ہے کہ کوئی متکلم ایسا کلام کرے جو اس کے ساتھ قائم نہ ہو۔ بلکہ وہ کلام اس سے جدا ہو؛ اورکسی دوسرے میں پیدا کیا گیا ہو۔ جیسا کہ بات یہ عقل میں نہیں آتی کہ کوئی چیز ایسی حرکت کے ساتھ متحرک ہے جسے اس نے اپنے غیر میں پیدا کیا ہے اور نہ ہی یہ متصور ہوسکتا ہے کہ اس کی رنگت ایسے رنگ سے ہے جو اس نے کسی اور میں پیدا کیا ہے۔اور نہ اس کی ایسی خوشبو کی سمجھ آتی ہے جو اس نے اپنے غیر میں پیدا کی ہے۔ یہ بات بھی نامعقول ہے کہ وہ ایسا ارادہ رکھتا ہے جو اس نے اپنے غیر میں پیداکیا، اسی طرح ، محب، راضی، غصہ والا، ناراضگی والا ہونا سمجھ لیں ؛ جو اس نے اپنے غیر میں یہ صفات پیدا کی ہیں ۔منکرین صفات اللہ تعالیٰ کی ایسی صفت بیان کرتے ہیں جو اس کے ساتھ قائم نہیں ۔کبھی وہ صفات کسی دوسرے میں تخلیق شدہ ہوتی ہیں ۔ مثلاً کلام اور ارادہ۔ اور بسااوقات نہ اس کے ساتھ قائم رہتی ہے نہ اس کے غیر کے ساتھ مثلاً علم اور قدرت وغیرہ یہ بھی غیر معقول ہے۔ زندہ وہی ہے جس میں حیات ہے عالم وہ ہے جس میں علم ہے، اسی طرح بالاتفاق متحرک وہ ہے جس میں حرکت ہے۔ عقل اس کا انکار کرتی ہے کہ فاعل اسے کہا جائے جس کے ساتھ فاعل کا فعل قائم نہ ہو۔[اشعریہ اور ان کے ہم خیال جیسے ابن عقیل وغیرہ نے مانا ہے کہ فاعل کے ساتھ فعل قائم نہیں ہوتا؛ جیسا کہ عادل اس کے ساتھ عدل قائم نہیں ہوتا۔ خالق اور رازق کے ساتھ خلق ورزق قائم نہیں ہوتے۔ اسی سے معتزلہ نے ان کے خلاف دلیل لیتے ہوئے کہا ہے جس طرح خالق، رازق کے ساتھ عدل خلق اور رزق (قائم ) نہیں اس طرح وہ نہ عالم وقادر ہے ؛اور نہ متکلم ہے ۔ سلف رضی اللہ عنہم اور جمہور اہل سنت اس اصل کو نہیں مانتے اسی وجہ سے امام احمد رحمہ اللہ اور دیگر حضرات نے کہا ہے: اللہ تعالیٰ کا کلام مخلوق نہیں ۔فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے :((أعوذ بکلمات اللّٰہ تعالیٰ التامات التی لا یجا وزھن برٔ ولا فاجر)) [1] [1] المؤطا 950؍2 کتاب التر باب مایوحربہ من القعوذ)، مسلم 2081؍4 کتاب الذکر والدعاء باب التعوذ من سوء القضاء میں ابوھریرہ سے راوی ہے نبی کریم سے ایک آدمی نے کہا رات مجھے بچھونے ڈس لیا تھا آپ نے فرمایا تو نے رات میں یہ کیوں نہ کہا، اعوذ بکلمات اللہ تعالیٰ التامات من شر ما خلق: اگر کہا ہوتا تو تجھے تکلیف نہ دیتا۔ الردعلی الجھمیہ ازدرمی ص ۹، کتاب التوحید از ابن خریمہ 109۔8 کتاب الاسماء واصنات للبیہقی 185، المسند 15؍15حدیث وہ فرماتے ہیں مخلوق سے توپناہ نہیں پکڑی جاتی۔’’ پناہ مانگتا ہوں میں اللہ کے پورے کلمات کی جن سے کوئی نیک یا بد آگے نہیں بڑھ سکتا۔‘‘اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(( اللھم انی اعوذ برضاک من سخطک وبمعافاتک من عقوبتک وبک منک لا احصی ثناء علیک۔)) [2] [2] مسلم 352؍1، کتاب الصلاۃ ما یقول فی الرکوع والسجود۔’’اے اللہ میں تیری ناراضگی سے تیری رضامندی کے وسیلہ سے پناہ پکڑتا ہوں ؛ اور تیری سزا سے تیری معافی کے وسیلہ سے ؛ اور تجھ سے تیری پناہ مانگتا ہوں ؛ میں تیری حمد شمار نہیں کرسکتا۔‘‘ اس کے متعلق بھی فرماتے ہیں :’’ مخلوق سے تو پناہ نہیں لی جاتی ۔جبکہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم رضا اور معافات سے پناہ مانگی ہے۔ ائمہ اہل سنت کے ہاں یہ بھی انہی صفات میں سے ہیں جورب تعالیٰ کے ساتھ قائم ہیں ؛ جیسے اس کے کلمات اس کے ساتھ قائم ہیں ؛ یہ ان مخلوقات میں سے نہیں ہیں جو اس سے الگ اور جدا ہیں۔جو یہ کہتا ہے: متکلم سے کلام جدا ہوتا ہے ۔ پس مرید؛محب ؛ مبغض ؛ راضی ؛ ناراض وہ ہوتا ہے جس کا ارادہ جس کی محبت، جس کا بغض ؛جس کی رضا، جس کی ناراضگی اس سے جدا ہوتی ہیں ؛ وہ کسی بھی حال میں اس کے ساتھ قائم نہیں ہوتی۔ یہ تو ایک غیر معقول بات کہی ہے۔، انبیاء و مرسلین علیہم السلام نے لوگوں کو یہ نہیں بتایا۔ بلکہ ہر سننے والا جس تک انبیاء نے اللہ کی دعوت پہنچائی ہو؛ وہ ضرورت کے تحت جانتا تھا کہ رسولوں کی مراد اللہ تعالیٰ کا وہ کلام ہے؛ جو اس سے جدا نہیں ۔اس طرح محبت ورضا اور ارادہ وغیرہ بھی اس سے منفصل نہیں ؛ بلکہ اس کی ذاتی صفات ہیں ۔جھمیہ اور معتزلہ کہتے ہیں : متکلم، فعل کلام سے بنتا ہے ؛اللہ تعالیٰ نے جب اپنے غیر میں اسے کلام پیدا کر دیا تو وہ متکلم ٹھہرا۔٭ ان سے کہا جائے گا: اس مسئلہ میں اختلاف کرنے والے متأخرین کے ہاں تین اقوال ہیں :(۱) متکلم وہ ہے جس نے فعل کلام کیاہو؛ چاہے وہ کلام اس سے منفصل ہو (یہ اس کے قائل ہیں ) ۔(۲) متکلم وہ ہے جس کے ساتھ کلام قائم ہو؛ اگرچہ وہ کلام اس کے فعل، مشیت اور قدرت سے نہ بھی ہو۔یہ کلابیہ سالمیہ اور ان کے ہم خیالوں کا موقف ہے۔(۳) متکلم وہ ہے جو اپنے فعل مشیت اور قدرت سے کلام کرے ؛اور وہ کلام اس کے ساتھ قائم ہو۔ یہ قول اکثر اھل الحدیث اور کئی شیعہ، مرحبۂ اور کرامیہ اوردیگر گروہوں کا ہے۔ یہ حضرات کہتے ہیں : کلام موصوف سے منفصل فعل کی صفت ہے؛ نہ کہ ذات کی صفت۔ دوسری قسم والے کہتے ہیں : یہ موصوف کی ذاتی لازمی صفت ہے؛ مشیت اور قدرت سے متعلق نہیں ۔کچھ لوگ کہتے ہیں :’’ یہ ذات اور فعل کی صفت ہے ؛جو ذات کے ساتھ قائم اور مشیت و قدرت سے متعلق ہے۔‘‘ جب بات یہ ہے تو ان کے بقول یہ فعل کی صفت ہے؛ اس میں ایک جماعت کااختلاف ہے۔ اگر ان کے مابین نزاع نہ ہو توان سے کہا جائے گا :’’فرض کریں یہ فعل کی صفت ہے جو قائل و فاعل سے منفصل یا اس کے ساتھ قائم ہے۔ رہی پہلی بات تو وہ آپ کا فاسد قول ہے؛ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ صفت موصوف کے اور قول قائل کے بغیر قائم ہو سکے۔کسی کہنے والے کا یہ کہنا کہ: صفات صفت ذات اور صفت فعل میں منقسم ہیں ۔اور صفت فعل کی تفسیر یہ بیان کی جائے کہ یہ ایسی صفت ہے جو رب سے جدا ہے؛یہ متناقض کلام ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کی صفت کیسے ہو سکتی ہے جو کسی بھی حالت میں اس کے ساتھ قائم نہ ہو؛ بلکہ وہ اس سے جدا مخلوق ہے۔اگرچہ اشعریہ نے معتزلہ کی اتباع میں ایسا کہا ہے؛ لیکن یہ بذات خود غلط ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ میں صفات کا اثبات کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں اس سے جدا ماننا دو مخالف ضدوں کو جمع کرناہے۔ بلکہ ان لوگوں کے اس عقیدہ کی حقیقت یہ ہے کہ فعل رب کی صفت نہیں کیونکہ فعل مخلوق ہے؛ اور مخلوق، خالق کی صفت نہیں ہوسکتی۔ اگر فعل ایسا ہوا جس کا مفعول اس کی صفت ہو؛ تو سب مخلوقات اللہ تعالیٰ کی صفت ٹھہریں گی۔ اس کا تو کوئی بھی عاقل قائل نہیں چہ جائیکہ کوئی مسلمان ایسی بات کہے۔