Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

کیا فعل اللہ تعالی کی ذات کے ساتھ قائم ہوتاہے؟

  امام ابنِ تیمیہؒ

[کیا فعل اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ قائم ہوتاہے؟]اگر آپ کہیں : ’’ یہ اس بنیاد پر ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فعل اس کے ساتھ قائم نہیں ہوتا۔کیونکہ اگر فعل اس کے ساتھ قائم ہو تو اس کے ساتھ حوادث کا قیام لازم آتا ہے۔‘‘جواب:....جمہور کا آپ کے ساتھ اس اصول میں اختلاف ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ:’’ ایسا فعل کیسے متصور ہو سکتا ہے جو فاعل کے ساتھ قائم نہ ہو؟ جبکہ ہم خلق وتکوین اور مخلوق مکون کے درمیان فرق سمجھتے ہیں ؟یہ جمہور عوام کا قول ہے مثلاً ابوحنیفہ کے شاگرد، یہی بات لغوی رحمہ اللہ وغیرہ؛ اصحاب شافعی رحمہ اللہ نے اہل سنت سے نقل کی ہے اصحاب احمد مثلاً ابو اسحاق بن شاقلا ابوبکر عبدالعزیز ابوعبداللہ بن حامدد، قاضی ابویعلی رحمہم اللہ کا آخری قول ہے۔ ائمہ صوفیہ ، ائمہ اصحاب الحدیث کاقول ہے۔ اسی کو امام بخاری رحمہ اللہ نے، خلق افعال العباد میں علماء رحمہم اللہ سے مطلقاً نقل کیا ہے۔ یہی قول مرجئہ شیعہ اور کرامیہ وغیرہ کی کئی جماعتوں کا ہے۔پھرجن لوگوں کا عقیدہ ہے کہ:’’ فعل کا اس کے ساتھ قائم ہوتا ہے‘‘ان میں سے بعض کہتے ہیں : اس کا فعل قدیم اور مفعول متاخر ہے۔ جیسا کہ اس کا ارادہ قدیم اور اس سے مراد متأخر ہے۔ جیسا کہ اصحاب ابوحنیفہ اور احمد رحمہ اللہ وغیرہ کا قول ہے ۔اسی کو کلابیہ میں سے ثقفی اور دیگرنے ذکر کیا ہے۔ جبکہ ان کے اور ابن خزیمہ کے مابین اختلاف واقع ہوا تھا۔ان میں سے کچھ اسے حادث نوع کہتے ہیں جیسا کہ شیعہ، مرجئہ اور کرامیہ کا یہی عقیدہ ہے۔ اور ان میں سے کچھ کہتے ہیں :’’ کلام اللہ تعالیٰ کی قدرت اور مشئیت ساتھ دھیرے دھیرے واقع ہوتا ہے۔ لیکن وہ ہمیشہ سے صفت کلام سے متصف رہا ہے۔ یہ حادث الاحاد اور قدیم النوع ہے۔ جیسا کہ یہ قول اصحاب الحدیث کے ائمہ وغیرہ اصحاب شافعی، احمد رحمہم اللہ اور دیگر کئی جماعتوں کا ہے۔ان[شیعہ] میں سے کچھ کے بقول خلق حادث اور قائم بالمخلوق ہے؛ جیسا کہ ھشام بن حکم ؛اور دیگر۔اور ان میں سے کچھ کے بقول وہ قائم بالذات ہے کسی محل میں قائم نہیں ۔ اس کے قائل ابوالھذیل علّاف وغیرہ ہیں ۔ کچھ کے بقول وہ کئی لامتناہی معانی کے ساتھ قائم بالنفس ہے؛ [جو ایک دوسرے کی نفی نہیں کرتے] یہ معمر بن عبّاد وغیرہ کا قول ہے۔
جب جمہور آپ کے مخالف ہیں تو اپنے اور اپنے شیعہ ائمہ اور ان کے ہم خیالوں کے مابین جھگڑا مان لیجیے۔ یہ اس بات پر آپ کے موافق ہیں کہ کلام حادّث ہے ۔لیکن وہ ان کے بقول اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ قائم ہے ۔ تو وہ کہتے ہیں :ہم نے اپنی اور تمہاری دلیل یک جا کردی ہے۔ تو ہم کہتے ہیں : عدم کا نہ امر ہوتا ہے نہ وہ نہی بنتا ہے۔ اور ہم نے کہتے ہیں :’’ کلام کا متکلم کے ساتھ قیام ضروری ہے۔‘‘اگر آپ ہم سے یہ کہیں کہ:’’ ہم نے رب کے ساتھ حوادث کے قیام کا قول جوڑا ہے؛ تو آپ کو جواب ملے گا: ’’ ہاں ! ہمارے اس قول کی تائید عقل اور شرع کرتی ہے۔جو یہ کہتا ہے کہ:’’ اللہ تعالیٰ نہ کلام کرتا ہے نہ ارادہ نہ محبت نہ بغض نہ راضی ہوتا ہے نہ آتا ہے نہ جاتا ہے؛ یہ عقیدہ کتاب اللہ کے مخالف ہے۔ اور جو یہ کہتا ہے کہ اس نے موسیٰ علیہ السلام سے ازل سے متکلم ہے؛ تو یہ بات عقل اور کلام اللہ کے خلاف ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿فَلَمَّا جَآئَ ہَا نُوْدِیَ ﴾ (نحل 8)’’جب وہ اس وادی میں آیا تو اسے آواز دی گئی۔‘‘اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿اِِنَّمَا اَمْرُہُ اِِذَا اَرَادَ شَیْئًا اَنْ یَّقُوْلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ ﴾ (یسں 82)’’بس اس کا امر جب وہ کسی شے کا ارادہ کرتا ہے اس سے کہتا ہے ہو جاتو وہ ہو جاتی ہے۔‘‘اس میں مستقبل کا صیغہ استعمال کیا گیا۔ وہ کہتے ہیں :’’ بالجملہ معتزلہ اور شیعہ کی کلام الٰہی کی ہر دلیل مشیت اور قدرت سے متعلق ہے؛اور بیشک وہ جب چاہتا ہے کلام کرتا ہے اور وہ ایک چیز کے بعددوسری چیز کی کلام کرتا ہے۔ تو ہم کہتے ہیں : ’’ ہم بھی یہ عقیدہ رکھتے ہیں ؛اور وہ عقیدہ بھی رکھتے ہیں جو لوگ کہتے ہیں : ’’ بیشک اللہ تعالیٰ کا کلام اس کی ذات کے ساتھ قائم ہے؛ اوروہ اس کی صفت ہے۔ اور صفت موصوف کے بغیر قائم نہیں رہ سکتی ۔ تو ہمارا بھی یہی عقیدہ ہے۔ ان دونوں جماعتوں کے پاس جو بھی حق بات ہے؛ ہم اسے قبول کرتے ہیں ۔اور اس چیز سے دوری اختیار کرتے ہیں جسے عقل اور شریعت دونوں ہی رد کرتے ہوں ۔‘‘اگر وہ ہم پر اعتراض کریں گے کہ: ’’اس سے لازم آتا ہے کہ حوادث اس کے ساتھ قائم ہو ں ۔‘‘تو ہم کہیں گے:’’ آپ سے پہلے سلف اور ائمہ میں سے کس نے اس کا انکار کیا ہے؟ قرآن و سنت کی نصوص کے ساتھ ساتھ عقل صریح سے اس کی تائید ہوتی ہے یہ تمام جماعتوں کے لیے قول لازم ہے؛ جو اس کا منکر ہے اسے لازم و ملزوم کا علم ہی نہیں ۔لفظ ’’حوادث‘‘ مجمل ہے بسا اوقات اس سے مراد امراض و نقائص ہوتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ اس سے پاک ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ کی ذات نیند، اونگھ، تھکاوٹ اور زمین و آسمان کی حفاظت میں تھکن وغیرہ سے پاک ہے ؛یہ منصوص علیہ اور اجماعی مسئلہ ہے ۔ پھر بہت سے منکرین صفات (معتزلہ وغیرہ) اس طرح کی دلیل نفی ِصفات یا مطلقاً حوادث کے قیام کی نفی کے لیے استعمال کرتے ہیں ؛ جو کہ غلط ہے۔ کیونکہ خاص نفی سے عام نفی لازم نہیں آتی۔اور ایسا بھی نہیں کہ جب آپ اس کی ذات سے نقائص و عیوب کی نفی کرتے ہیں تو اس سے صفات جلال و کمال کی بھی نفی ہو جائے۔ لیکن جو چیز وہ چاہتا ہے اور جیسے مقدر کرتا ہے ؛ اس کے ساتھ قائم ہوتی ہے؛ خواہ وہ اس کا کلام ہو؛ یا افعال وغیرہ ؛ جن پر کتاب و سنت سے دلیل ملتی ہے۔جو ذات باری تعالیٰ کے ساتھ ان کے قیام کا انکار کرتا ہے ؛ہم اس سے پوچھتے ہیں : کیا آپ کا صفت کے اس کے ساتھ قائم ہونے کا انکار ایسے ہی کرتے ہیں جیسے معتزلہ اس کے منکر ہیں ؟ یا انکار اس وجہ سے کرتے ہیں کہ جس کے ساتھ حوادث قائم ہوں وہ ان سے خالی نہیں ہوتا جیسا کہ کلابیہ کا قول ہے؟اگروہ پہلی بات کہے؛ تو کلام اصل صفات میں ہے کہ کلام متکلم کے ساتھ قائم ہوتا ہے اس سے منفصل نہیں ہوتا ؛ تو اتنی بات اس باب میں کافی ہے۔ اگر دوسری بات کہے؛ تو ہم کہیں گے:’’ کیا آپ حوادث کے حدوث کو بلا سبب حادث جائز مانتے ہیں یا نہیں ؟ اگر آپ اسے جائز قرار دیں ؛ (جیسے کہ آپ کا قول ہے)؛ تو اس سے لازم آتا ہے کہ حوادث کا ارتکاب وہ کر رہا ہے جو اس کا فاعل نہیں ؛ اور نہ ہی اس کی ضد کا فاعل ہے۔ جب یہ جائز ہے تو یہ جائز کیوں نہیں کہ ایسی ذات کے ساتھ حوادث قائم ہوں جس کے ساتھ یہ قائم نہ رہ سکتے ہوں ؛اور نہ ہی ان کی ضد کے ساتھ۔ معلوم ہوا فعل قبول سے بڑا اور عظیم ہے۔ جب اس کا فعل بلاسبب حادث جائز ہے تو اسی طرح ان کا محل میں قیام بھی جائز ہے۔اگر آپ کہیں کسی شے کا قبول کرنے والا حدوث اور اس کی ضد سے خالی نہیں ہوتا۔تو ہم کہیں گے: ’’ ایسا ہونا ممنوع ہے؛ اس کی آپ کے پاس کوئی دلیل نہیں ۔پھر اگر اس کو تسلیم کر بھی لیں تو یہ کہنے والے کے اس قول کی طرح ہے کسی چیز پر قدرت اس کے فعل اور اس فعل کی ضد سے خالی نہیں ہوتی۔ حالانکہ آپ کے بقول وہ ہمیشہ سے قادر ہے، نہ وہ فاعل ہے نہ تارک۔ کیونکہ آپ کے ہاں ترک مقدوراور وجودی امر ہے۔ اور آپ کہتے ہیں : ’’ اس کے قادر ہونے کے باوجود ازل سے اپنی مقدورات میں سے کسی کا فاعل ہونا اس کے حق میں ممتنع ہے۔‘‘بلکہ تم کہتے ہو:’’ ازل میں قادر ہونے کے باوجود اس کے مقدور کا وجود ممنوع ہے۔‘‘جب آپ کا قول یہ ہے:’’ تو ازل میں مقبول کا وجود بطریق اولیٰ واجب نہیں آتا۔ بلاشک شبہ مقدورِ مقبول اس کی قدرت کے بغیر نہیں پایا جاتا ۔جبکہ آپ قادر کے وجود کوباوجود مقدور کے امتناعکے قائل ہیں ؛ جبکہ وہ قادر بھی ہے۔ پھر ہم کہیں گے:’’ کسی شے کو قبول کرنے والا اس سے اور اس کی ضد سے خالی نہیں ہوتا ‘‘اس قول سے حوادث کا تسلسل لازم آتا ہے۔ اگر حوادث کا تسلسل ممکن ہے؛ تو اھل الحدیث کا قول صحیح ہے؛ جو کہتے ہیں :’’ اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے متکلم ہے جب چاہتا ہے کلام کرتا ہے؛ جیسا کہ ابن مبارک اور احمد بن حنبل رحمہ اللہ جیسے ائمہ اہل سنت نے کہا ہے۔‘‘ اگر تسلسل حوادث کا ناجائز ہے؛ توپھریہ ممکن ہے کہ اس کے ساتھ حادث قائم ہوں ؛ جبکہ پہلے وہ اس کے ساتھ قائم نہ تھے۔ جیسا کہ وہ حوادث روبہ عمل لاتا ہے حالانکہ؛ وہ پہلے ان کا فاعل نہ تھا۔ہمارا قول ہی صحیح ٹھہرا۔ آپ کا قول دونوں لحاظ سے باطل ثابت ہوا۔
اگر آپ ہم سے یہ کہیں گے کہ:’’آپ تسلسل حوادث کے امتناع پر ہمارے ہم خیال ہیں ؛ جو ہماری اور آپ کی عالم کے قِدم[قدیم ہونے] کی نفی کی دلیل ہے۔‘‘ تو ہم کہتے ہیں : ’’ ہماری آپ سے موافقت الزامی ؍ اورجدلی حجت ہے۔ جب ہم نے تسلسل حوادث کے امتناع میں آپ کے عقیدہ کی موافقت کی؛ تو ہم نے یہ بھی کہا ہے :’’ کسی شے کا قبول کرنے والا اس سے اور اس کی ضد سے خالی ہوتا ہے‘‘ یہ عقیدہ آپ کے مخالف ہے۔‘‘اس لیے کہ آپ کہتے ہیں : حوادث کے اس کو قبول کرنے سے تسلسل لازم آتا ہے۔‘‘حالانکہ آپ اس کے قائل نہیں ۔ہم کہتے ہیں : ’’اگر یہ دونوں مقدمے صحیح ہوں (ہم جن کے موجب کے قائل نہیں تو)؛اس سے ہمارا ان دونوں میں سے ایک میں خطا پر ہونا لازم آتاہے۔ اورجو مسئلہ ہم نے آپ کے فرض کیا کرلیا ہے؛ اس میں ہماری خطاء ؛اس مسئلہ کی نسبت زیادہ الاولیٰ نہیں جس میں ہم آپ کے مخالف ہیں ۔ ایسا ہوسکتا ہے کہ تسلسل حوادث کے امتناع میں ہم غلطی پر ہوں ؛ نہ کہ اس قول میں : ان القابل للشیء یخلو عنہ وعن ضدہ۔لہٰذا ان دونوں میں سے کسی ایک مسئلہ میں ہماری غلطی تمہارے اس مسئلہ درست ہونے کی دلیل نہیں ہوسکتی جس میں ہم نے آپ کی مخالفت کی ہے۔اس باب میں زیادہ سے زیادہ ہمارے ہاں کئی جگہ پر تناقض ہوسکتا ہے۔ اوریہ تناقض ہمیں اورآپ کو اور اکثر متکلمین اور ان کے امثال و ہمنواؤں کو شامل ہے جو بھی اس مسئلہ اور جیسے دیگر مسائل میں بات کرتا ہے ۔ جب ہم میں تناقض پایا جاتا ہے ؛ تو ہمارا ایسے قول کی طرف رجوع کرنا جو عقل و نقل کے موافق ہو؛زیادہ اولیٰ ہے ایسے قول کی طرف رجوع کرنے سے جو عقل و نقل کے خلاف ہو۔پس یہ کہناکہ:’’ متکلم ایسا کلام کرتا ہے جو اس کے ارادے اور مشیت سے متعلق نہیں ہوتا؛ یا اس سے جدا ہوتا ہے؛ اس کے ساتھ قائم نہیں ہوتا؛یہ عقل و نقل کے مخالف ہے۔ اس کے برعکس یہ کہنا کہ: اس کا کلام اس کی مشئیت اور قدرت سے متعلق ہوتا ہے؛ اور اس کی ذات کے ساتھ قائم ہوتا ہے۔ بیشک یہ قول عقل و نقل کے موافق ہے۔ لیکن بسااوقات ہم اس کے لوازم کے قائل نہیں ہوتے؛اس صورت میں تناقض کا شکار ہوجاتے ہیں ۔‘‘ جب ہم میں تناقض پایا جاتا ہے تو لازم ٹھہرتاہے کہ ہم اس قول سے رجوع کر لیں جس میں ہم سے غلطی ہوئی ہے؛ تاکہ اس چیز میں ہمارا اتفاق ہو جائے جس میں ہم حق پر ہیں ۔ہمیں غلطی پر رد کرنے کے لیے حق سے دست بردار نہیں ہوناچاہیے۔پس ہم ان تناقضات سے رجوع کرتے ہوئے اھل الحدیث کا قول ہی اختیار کرتے ہیں ۔اگر آپ کہیں :’’بلا ابتداء حادث کے بعد حادث کا اثبات؛ یہ دھریہ فلاسفہ کا قول ہے ۔تو ہم کہیں گے:’’ بلکہ آپ کا قول اللہ تعالیٰ ازل سے ہی کلام سے معطل ہے؛اس کے لیے کچھ بھی کلام کرنا؛
یا کوئی بھی کام کرنا ممکن ہی نہ تھا؛پھر بعد میں اس کے لیے کلام کرنا اور کام کرنا ممکن ہوگیا؛اور یہ بھی بغیر کسی ایسے سبب کے ہوگیا جو اس کے حدوث تقاضا کرتا ہو۔ تو آپ کا یہ قول تو صریح عقل اور مسلمانوں کے اجماع کے خلاف ہے۔ اس لیے کہ مسلمان علم یقینی کے طور پر جانتے ہیں کہ :’’اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے قادر ہے۔ قدرت کا اثبات کرنے کے ساتھ مقدور کو ممنوع قرار دینا ناممکن اور دو ضدوں کو جمع کرنا ہے۔ مسلمانوں کا واضح عقیدہ رہا ہے کہ وہ ازل سے قادر ہے؛اس سے واضح ہوتا کہ وہ ازل سے فعل اور کلام پر اپنی قدرت اور مشیت سے قادر ہے۔اس کے ہمیشہ سے متکلم ہونے اورہمیشہ سے اپنی مشیت سے فاعل ہونے کا عقیدہ سلف صالحین، ائمہ مسلمین حضرات اھل بیت اور دیگر اہل علم جیسے: ابن مبارک؛ احمد بن حنبل،امام بخاری، عثمان بن سعید دارمی اور دیگر حضرات علماء رحمہم اللہ سے منقول ہے۔ اسی طرح امام جعفر بن محمد الصادق سے افعال متعدیہ میں دوام منقول ہے (چہ جائے کہ افعال لازمہ) یہ اس کے احسان کا دوام ہے۔ یہ ان کا اور مسلمانوں کاقول ہے : یا قدیم الاحسان ‘‘اس سے مراد یہ ہے کہ وہ قدیم سے اس کے ساتھ قائم ہے۔دھریہ فلاسفہ عالم میں افلاک وغیرہ کے قدم کے قائل ہیں ۔اور یہ اس عالم میں حوادث کی کوئی ابتداء نہیں ۔ اور باری تعالیٰ اس عالم کے لیے موجب بذاتہ ہیں ۔ وہ اپنی قدرت، مشیت سے اس کے فاعل نہیں ؛ اور نہ ہی بذات خود تصرف کرسکتے ہیں ۔جبکہ انبیاء ورمرسلین علیہم السلام کے دین میں یہ بات اضطراری طور پر معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا خالق ہے؛اور ہر مخلوق محدث ہے ۔جس نے اللہ تعالیٰ کی قدامت جیسی قدامت کسی بھی چیز کے لیے ثابت کی؛ تو اسے معلوم ہو جائے گا کہ اس کا قول عقل صریح کے ساتھ ساتھ انبیاء ومرسلین علیہم السلام سے ثابت دین کے بھی خلاف ہے۔ آپ نے ایک باطل عقیدہ پر ان کی موافقت کی ہے؛ آپ کہتے ہیں :’’ وہ بذات خود تصرف کر سکتا ہے؛اور نہ ہی اس کے ساتھ کوئی ایسا امر قائم ہے جس پر اسے اختیار اور قدرت حاصل ہے۔ بلکہ آپ نے اسے جمادات کی طرح سمجھ لیا ہے جس کا نہ ہی کوئی تصرف ہوتا ہے اور نہ ہی کام۔ اور انہوں نے اسے ایسی جامد شے کی طرح سمجھ لیا ہے جو کسی کے ساتھ چمٹا اور لٹکا دی جائے۔اور اس چیز میں اس کو خود سے ہٹانے کی استطاعت یا کسی تصرف کا امکان نہ ہو۔پس آپ نے ان کے بعض باطل امور پر ان کی موافقت کی ہے۔ جبکہ ہم نے وہ بات کی ہے جو عقل و نقل کے موافق ہے۔ وہ اپنی قدرت و مشیت کے ساتھ بذات خود فعل پر قادر ہے۔ وہ جب چاہے اور جیسے چاہے بذات خود کلام کرسکتا ہے۔ اورہم کہتے ہیں : ’’وہ ازل سے صفت کمال سے متصف ہے وہ جب چاہتا ہے کلام کرتا ہے۔ ہم یہ بھی نہیں کہتے اس کا کلام مخلوق اور اس سے جدا ہے۔ اس قول کی حقیقت تو یہ ہے کہ وہ کلام ہی نہیں کرتا۔ اور ہم یہ بھی نہیں کہتے کہ:’’ اس کا کلام ایک ہی چیز ہے۔ امر نہی اور خبر ایک ہی ہیں ۔ اور تورات و انجیل کا معنی ایک ہے۔ امر نہی ایک ہی چیز کی دو صفات ہیں ۔ یہ عقل کے خلاف ہے۔ اور نہ ہی ہم یہ کہتے ہیں : اصوات ازلی مخالف جداگانہ ہیں ۔ کیونکہ آوازیں دو زمانوں میں باقی نہیں رہتیں ۔ اسی طرح اگر ہم اس قول کے؛ اور ماقبل قول کے قائل ہوں تو اس سے لازم آتا ہے کہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کا مخلوق سے کلام، موسی سے کلام اور فرشتوں سے کلام فقط انہیں بتانے کے لیے نہیں ہو گا کیونکہ وہ تو ازل سے متکلم ہے اور ابد تک متکلم رہے گا۔ اور نصوص کی دلالت اس کے برعکس ہے۔ اور ہم یہ بھی نہیں کہتے کہ :’’وہ پہلے متکلم نہیں تھا بعد میں متکلم بنا۔ کیونکہ اس سے تو نقص کے بعد کمال ہے۔ اور اس سے یہ لازم آتا ہے کہ وہ ان حوادث کا محل ہے جنہوں نے اسے نقص کے بعد کامل کیا ۔پھر اس کمال کے حدوث کے لیے کسی سبب کا ہونا ضروری امر ہے۔ جبکہ دوسرا قول پہلے قول جیسا ہے؛ اس میں بلاسبب کمال کی تجدید ہے۔ اور اس سے ازل سے دائمی نقص لازم آتا ہے یہاں تک کہ اسے بلا سبب تجدد حاصل ہوا۔ نیز اس عقیدہ میں اس کی ذات سے صفات کمال کی تعطیل لازم آتی ہے۔
رہا دوام حوادث؛تو اس کامعنی یہاں پر یہ ہے کہ :وہ ہمیشہ سے متکلم ہے جب چاہتا ہے کلام کرتا ہے۔ یہ اس کا دوام ِکمال، صفاتِ جلال اوردوام افعال ہے۔ اور اس طرح یہ کہنا ممکن ہوتاہے کہ:’’ یہ عالم اور اس میں موجود تمام مخلوقات حادث ہیں ؛ پہلے نہ تھیں بعد میں وجود پذیرہوئیں ۔کیونکہ ان کے حدوث کا سبب وہ افعال اور کلمات یا دیگر امورہونگے جو اس کی ذات کے ساتھ قائم ہیں ۔اس سے حوادث کے حدوث کا سبب سمجھا جاسکتا ہے۔ اس سے کسی بھی چیز کے وجود کے قِدیم ہونے کا قول بھی ممنوع قرار پائے گا۔ کیونکہ اگر وہ قدیم ہے اس کا مبدع (بنانے والا) واجب الوجود ہے۔ تو اس کا موجب اور مقتضیٰ لازم ٹھہرے گا کہ جب خالق کسی فعل کا فاعل ہے ؛تو وہ اپنے اختیار اور ارادے اور مشیت سے کہتا ہے ۔اس سے یہ بھی ممنوع ٹھہرا کہ کوئی چیز بذات خود موجب ہو۔ چنانچہ عالم میں کسی بھی چیز کاقدیم ہونا ممنوع ٹھہرا۔ جب فاعل مختار کی طرف سے یہ ممنوع قرار پایا کہ اس سے جڑی ہوئی کوئی چیز؛ یا اس سے جدا چیز؛کا فعل ظہور پذیر ہو؛ اور اس کے ساتھ ہی وہ کوئی فعل اختیاری اس کے ساتھ قائم نہ ہو۔ چنانچہ یوں اس کے ساتھ اختیاری فعل کا قیام بطریق اولی ممنوع قرار پاتاہے۔ کیونکہ اس تقدیر کے مطابق کوئی مفعول اس وقت تک نہیں پایا جاسکتا حتی کہ ایسا فعل اختیاری نہ پایا جائے جو اس کی قدرت اور مشیت سے ہوا ہو۔ پہلی تقدیر کے مطابق اس میں فعل اختیاری اور قدرت و مشیت کا پایا جاناہی کافی ہے۔ معلوم ہوا جو قدرت، مشیت اور اس کے ساتھ قائم فعل اختیاری [پر موقوف ہو]اس کا حدوث اور تأخر زیادہ حق رکھتا ہے بہ نسبت اس کے جس کا کچھ حصہ ان چیزوں پر موقوف ہے۔ان امور پر تفصیلی کلام کسی اور مقام کے لیے اٹھا رکھتے ہیں ۔ اکثر لوگ ان میں سے بہت سارے اقوال کو جانتے نہیں ۔ اسی وجہ سے ان میں قیل و قال بہت زیادہ ہوئی ہے۔اور جو کچھ ہم نے بیان کیا ہے؛اس میں ان تمام مذاھب کی طرف صرف اشارہ کیاگیاہے۔ وہ اصل فرق جس کی بنیاد پر اہل سنت و الجماعت ؛ حضرات صحابہ و تابعین رضی اللہ عنہم و رحمہم اللہ اورحضرات اھل بیت رضی اللہ عنہم اور دیگر تمام ائمہ مسلمین جہمیہ ؛معتزلہ؛اور منکرین صفات سے جدا ہیں ؛ وہ یہ ہے کہ: ’’ اللہ تعالیٰ کی صفات ذاتی ہیں جو اس کے ساتھ قائم ہیں ۔ اس کی مخلوق کی صفات نہیں ہیں ۔ سلف اور جمہوراہل سنت و الجماعت کا[ان لوگوں کے ساتھ] یہی اصل بنیادی اختلاف ہے۔ لیکن معتزلہ نے اشاعرہ (اور ان کے ہم خیالوں کو) اس اصل میں ان کے تناقضات کی وجہ سے کمزور کر دیا ہے۔ کیونکہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے لیے صفات فعلیہ کا اثبات کیا ہے۔ جبکہ ان کے نزدیک فعل اللہ تعالیٰ کے ساتھ قائم نہیں ہوتا۔ اس مسئلہ میں اشاعرہ نے جھمیہ اور معتزلہ کی اتباع کی ہے جو اللہ تعالیٰ کے فعل قائم ہونے کی نفی کرتے ہیں ۔لیکن وہ لوگ تو اشاعرہ کے برعکس صفات کی بھی نفی کرتے ہیں ۔