معتزلہ کا خلق میں بھی اختلاف ہے کیا یہ مخلوق ہے یا غیر مخلوق؟جب وہ کہتے ہیں غیر مخلوق کہتے ہیں ؛ تو کہتے ہیں :’’ معنی بلا محل قائم ہے۔ جیسا کہ بصریوں نے ارادہ میں یہ قول گھڑلیا ہے۔ اور کبھی کہتے ہیں اس کے کئی معانی ہیں ؛ جن کی آن واحد میں انتہاء ممکن نہیں ۔ جیسا کہ معمر اور اس کے اصحاب کہتے ہیں انہیں اصحاب المعانی کہا گیا ہے۔ اور کبھی کہتے ہیں :’’وہ مخلوق کے ساتھ قائم ہے۔‘‘اشعری اور ان کے ہم خیالوں کی خلق کے مخلوق ہونے کی دلیل یہ ہے؛ وہ کہتے ہیں :’’ اگر اس کے علاوہ کوئی چیز ہے توپھر یا قدیم ہے یا محدث۔ اگر قدیم ہے تو اس سے مخلوق کا قدیم ہونا لازم آتا ہے اور یہ اضطراری طور پر اس چیز میں محال ہے جس کا حدوث اضطراراً معلوم ہو۔ اوراس کی دلیل یہ ہے کہ: جس چیزکا حدوث دلیل کی روشنی میں معلوم شدہ ہے؛ اور اگر محدث ہے تو مخلوق ہے۔ چنانچہ ایک خلق دوسری خلق کی محتاج ہوئی۔ اس سے تسلسل لازم آتاہے۔مزید برآں اس سے حوادث کا قیام لازم آتا ہے؛جوکہ نفس امر میں ان کی بنیاد ہے۔ رازی کو تو مسلمان فرقوں کے اقوال؍عقائد سے آگاہی ہی نہیں ؛ چہ جائیکہ معتزلہ، اشاعرہ، اور بعض شیعہ اور کرامیہ کے اقوال سے آگاہی ہو۔ اسی لیے جب انہوں نے اس مسئلہ کو ذکر کیا اس میں ماوراء النھر فقہاء کا اختلاف ذکر کیا ان کا قول وہی ہے جو جمہور مسلمان جماعتوں کا ہے۔جمہور نے ان کے اس بنیادی اصول کے کئی لحاظ سے جوابات دئیے ہیں ؛ ہر قوم نے اپنی استطاعت کے مطابق کام کیا ہے۔ ایک جماعت کا کہنا ہے:’’ بلکہ خلق سے مراد تکوین ہے؛ اور فعل قدیم ہے۔ مکوّن مفعول محدث ہے ؛کیونکہ ان کے ہاں تخلیق کے ساتھ حوادث قائم نہیں ہوتے۔یہ قول بہت سے احناف، حنابلہ کلامیہ اور صوفیہ وغیرہ کابھی ہے۔ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ:’’ اس سے مکوّن کا قدیم ہونا لازم آتا ہے۔‘‘ تو کہتے ہیں : ’’اس میں ہمارا وہی جواب ہے جو تمہارا ارادہ ازلیہ میں ہے؛ تم کہتے ہو:’’ وہ قدیم ہے اگرچہ مراد محدث ہے ؛ اسی طرح تکوین قدیم ہے اگرچہ مکوّن محدث ہے۔‘‘ایک جماعت کہتی ہے:’’ خلق اور تکوین حادث ہیں [یہ اس وقت سے ہیں ] جب اللہ تعالیٰ کسی شے کی تخلیق یا تکوین کا ارادہ کیا ہے۔‘‘ یہ اکثر اھل الحدیث اور کئی اہل کلام ، فقہاء اور صوفیاء کا مذہب ہے۔ ان کا کہنا ہے اللہ تعالیٰ نے افعال کے وجود کا ذکر ایک ایک کر کے کیا ہے جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے:﴿ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ فِیْ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ﴾ (اعراف 54)’’اور آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا ؛ پھر وہ عرش پر مستوی ہو گیا۔‘‘اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿ثُمَّ اسْتَوَی اِِلَی السَّمَآئِ وَہِیَ دُخَانٌ فَقَالَ لَہَا وَلِلْاَرْضِ اِئْتِیَا طَوْعًافَقَالَ لَہَا وَلِلْاَرْضِ اِئْتِیَا طَوْعًا اَوْ کَرْہًا قَالَتَا اَتَیْنَا طَائِعِیْنَ ﴾ (فصلت 11)’’پھر وہ آسمان کی طرف مستوی ہوا جو دھواں تھا سو اس نے اس سے اور زمین سے کہا تم دونوں چاہتے یا نہ چاہتے آؤ ان دونوں نے کہا ہم اطاعت کرتے ہوئے آئیں گے۔‘‘اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿وَلَقَدْ خَلَقْنٰکُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰکُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلٰٓئِکَۃِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ ﴾ (اعراف 11]
’’ہم نے تمہیں پیدا کیا۔ پھر ہم نے تمہیں صورتیں دیں پھر ہم نے فرشتوں سے کہا آدم کو سجدہ کرو۔‘‘اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِِنسَانَ مِنْ سُلاَلَۃٍ مِّنْ طِینٍ oثُمَّ جَعَلْنَاہُ نُطْفَۃً فِیْ قَرَارٍ مَّکِیْنٍ o ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَۃَ عَلَقَۃً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَۃَ مُضْغَۃً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَۃَ عِظَامًا فَکَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا ثُمَّ اَنشَئْنٰـہُ خَلْقًا آخَرَ فَتَبَارَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ ﴾(مؤمنون 12 14)’’ہم نے انسان کو چکنی مٹی سے پیدا کیا پھر ہم نے اسے ایک مضبوط جگہ میں نطفہ بنایا پھر ہم نے نطفہ کو خون کا لوتھڑا بنایا پھر اس لوتھرے کو گوشت کی بوٹی بنایا پھر اس بوٹی میں ہڈیاں پیدا کیں پھر ان پر گوشت چڑھایا پھر اسے دوبارہ اٹھائیں گے اللہ بہت بابرکت اور بہترین تخلیق کار ہے۔‘‘اس طرح کی دیگر آیات بھی ہیں ۔یہ لوگ لازم ٹھہراتے ہیں کہ امور اختیاریہ اس کے ساتھ قائم ہوتے ہیں ؛ مثلاً :خلق، رضا، غضب، کلام وغیرہ؛ جو نصوص سے ثابت ہیں ۔ اور قرآن میں تین سو سے زیادہ مواقع ان کے عقیدہ کے موافق ہیں اوراحادیث توبہت زیادہ ہیں ؛ اوراس بارے میں سلف صالحین سے منقول اثار متواتر ہیں ۔ فلاسفہ میں سے اکثر بڑے چوٹی کے علماء کا یہی قول ہے۔ پھر تسلسل کے متعلق ان حضرات کے دو قول ہیں ۔ وہ کہتے ہیں :’’ مخلوق، تخلیق سے حاصل ہوتی ہے، اورتخلیق اس کی قدرت و مشیت سے حاصل ہوتی ہے؛ کسی دوسری خلق کی محتاج نہیں ہوتی۔وہ اپنے مخالفین سے کہتے ہیں :’’ جب آپ کے ہاں منفصل مخلوقات کا وجود فقط قدرت و مشیت اور فعل غیر قائم بہٖ کے ذریعے جائز ہیں تو فقط قدرت وارادہ سے فعل کا جواز تو بالاولیٰ ہوا۔اوران میں سے جو تسلسل کے قائل نہیں وہ کہتے ہیں :’’ بذات خود قدیم قدرت اور قدیم ارادہ نے اس کو واجب کردیا تھا جو فعل اور ارادہ حادث ہوا؛ اور اسی سے مخلوق حاصل ہوئی؛ اوریہ سلسلہ زوال پذیر نہیں ہوا۔اور ان میں سے جو تسلسل کے قائل ہیں وہ کہتے ہیں :’’بیشک جو تسلسل ممنوع ہے؛ وہ مؤثرات کا تسلسل ہے ۔اس کامطلب یہ ہے کہ فاعل کے لیے بھی ایک فاعل ہو؛ جوغیر متناہی طور پر آخر تک چلتا جائے۔خواہ اسے علت کی علت تعبیر کریں یا مؤثر کے لیے مؤثر کہہ لیں ۔یا یوں کہا جائے کہ: فاعل کا فاعل ۔یہ تسلسل صریح عقل کے خلاف ہے اسی وجہ سے باتفاق علماء یہ تسلسل ممنوع ہے؛ جیسے کہ ممنوعہ دوردور ِقبلی ہے۔آثار میں تسلسل یہ ہے کہ کوئی بھی چیز تب تک نہیں ہوتی جب تک اس سے پہلے کوئی دوسری چیز نہ ہو۔ اس وقت نہیں ہوسکتی جب تک اس کے بعد کوئی دوسری چیز نہ ہو۔ اس مسئلہ میں لوگ تین اقوال رکھتے ہیں :(۱)۔ یہ کہا گیا ہے کہ: ماضی و مستقبل میں یہ ممنوع ہے ۔(۲)۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ماضی ومستقبل میں بھی جائز ہے۔(۳) یہ بھی کہا گیا ہے کہ: ماضی میں ممنوع مستقبل میں جائزہے۔مطلقاً جواز کا قول سلف، ائمہ حدیث اور جمہور فلاسفہ کا قول ہے؛ جو حدوث عالم اور اس کے قدم کے قائل ہیں ۔دونوں گروہوں کے دلائل کسی دوسری جگہ بیان ہو چکے ہیں ۔ ہم نے اصول دین میں مذکور کلام سے دگنی بحث کر دی ہے اور تمام اقوال پر تنبیہ کر دی ہے۔٭٭٭