Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

فصل: خطأ، سہو، نسیان اور عصمت انبیاء علیہم السلام

  امام ابنِ تیمیہؒ

فصل:خطأ، سہو، نسیان اور عصمت انبیاء علیہم السلام پہلی وجہ :.... عصمت انبیاء علیہم السلام میں شیعہ کا اختلاف:[اعتراض]:.... شیعہ کا قول ہے کہ:’’ اوربیشک انبیائے عظام علیہم السلام خطا و سہو اور صغائر و کبائر سے از آغاز عمر تا اختتام حیات معصوم و منزہ ہوتے ہیں ۔ اگر ایسا نہ ہو تو ان کی دعوت و تبلیغ پر کوئی ثقہ اور اعتماد باقی نہ رہے۔ اور ان کی بعثت کا فائدہ حاصل نہ ہو؛ اور ان سے نفرت اور دوری لازم آئے۔‘‘[انتہی کلام الرافضی][جواب]:.... ہم کہتے ہیں :عصمت انبیاء کرام علیہم السلام کا مسئلہ شیعہ کے یہاں مختلف فیہا ہے۔امام اشعری رحمہ اللہ ’’ مقالات الاسلامیین ‘‘ میں فرماتے ہیں :شیعہ میں اختلاف ہے کہ آیا رسول سے معصیت کا صدور جائز ہے یا نہیں ؟ان کے دو گروہ ہیں :ایک فرقہ کا نقطۂ نظر ان سے معصیت کے جائز ہونے کاہے؛ جیسا کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ بدر کے دن قیدیوں کا فدیہ لے کرمعصیت کی تھی۔ البتہ ائمہ سے معصیت صادر نہیں ہو سکتی، کیونکہ رسول جب معصیت کا مرتکب ہوگا تو وحی کے آنے پر اس سے رجوع کر لے گا، مگر ائمہ پر وحی نہیں آتی؛اور نہ ہی ان پر ملائکہ آتے ہیں ؛وہ معصوم ہوتے ہیں ؛ لہٰذا ان سے سہو اور غلطی کا صدور جائز نہیں ؛اگرچہ ہم اسی چیز کو انبیائے کرام کے لیے جائزمانتے ہیں ۔ [1] [1] اس سے یہ حقیقت اجاگر ہوتی ہے کہ شیعہ کے یہاں ائمہ کی عصمت انبیاء کرام کی نسبت اتم و اکمل ہے، باقی رہا یہ عذر کہ انبیاء مورد وحی ہیں ، یہ صرف ظاہری ملمع سازی ہے، اکابر شیعہ سے بکثرت ایسے اقوال محفوظ ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ائمہ کی جانب وحی آنے کے دعوے دار ہیں ، شیعہ کی مشہور کتاب کافی کلینی ہے، جو ان کے ہاں صحیح بخاری کا درجہ رکھتی ہے،اس کا کہنا ہے کہ امام غیب دان ہوتے ہیں ۔ دور حاضر کے شیعہ اپنے اماموں کی قبروں کو مہبط وحی قرار دیتے ہیں حالانکہ ان قبروں میں بوسیدہ ہڈیوں کے سوا اور کچھ بھی نہیں اور بعض قبروں میں تو سرے سے کوئی امام مدفون ہی نہیں ، جب یہ قبور جن میں ائمہ کے علاوہ دوسرے لوگوں کی ہڈیاں مدفون ہیں ، مہبط وحی ہیں تو ان کی عبادت کرنے والوں سے، یہ توقع کیوں کر کی جا سکتی ہے کہ وہ وحی کے معاملہ میں انبیاء و ائمہ کے مابین کچھ امتیاز قائم کریں گے، جو قبرحضرت علی رضی اللہ عنہ کی جانب منسوب ہے اس کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ دراصل وہ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کی قبر ہے، مزید برآں بعض شیعہ انبیاء علیہم السلام کے لئے از ابتدائے عمر تا انتہا و عصمت کے قائل ہیں ، یعنی وہ بعثت سے قبل بھی انبیاء علیہم السلام کو معصوم مانتے ہیں ، حالانکہ اس وقت وحی نہیں آتی۔ یاد رہے کہ متأخرین شیعہ اس مسئلہ میں اپنے اسلاف کی راہ سے ہٹے ہوئے ہیں ۔ امام رضا رحمہ اﷲ سے کہا گیا :’’بے شک کوفہ کی ایک بڑی تعداد کہتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز میں سہو نہیں ہوا۔‘‘ تو انہوں نے فرمایا :’’وہ جھوٹ بکتے ہیں ، ان پر اﷲ کی لعنت ہو، جس ذات کو سہو نہیں ہوتا وہ تو صرف ذات الٰہی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں ۔‘‘اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے : ﴿سَنُقْرِئُکَ ( یہ ہشام بن حکم کا قول ہے: (دیکھئے : مقالات الاسلامیین : ۱؍ ۱۱۵)

دوسرا فرقہ:....ان کا عقیدہ ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کسی بھی طرح اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنا جائز نہیں ۔ اور نہ ہی أئمہ کے لیے ایسا کرنا جائز ہے؛ کیونکہ یہ تمام اللہ تعالیٰ کی حجتیں ہیں ؛جو خطاء اور لغزش سے معصوم ہوتے ہیں ۔ اگر ان کے لیے سہو اور معاصی کے ارتکاب کو جائز تسلیم کرلیا جائے تو پھر ائمہ اور ان کے مقتدیٰ اس جواز میں برابر ہوئے۔ جیسا کہ یہ مامومین کے لیے جائز تسلیم کرتے ہیں ۔ اس جواز کی صورت میں پھر مامومین کو ائمہ کی ضرورت ہی نہ رہے گی کیونکہ یہ دونوں برابر ہیں ۔کیونکہ سہو و نسیان کا صدور ان تمام سے جائز ہے۔[1] [1] فَلاَ تَنسٰی اِِلَّا مَا شَآئَ اللّٰہُ ﴾ ۔[الأعلی۶۔۷] ’’ہم ضرور تجھے پڑھائیں گے تو تو نہیں بھولے گا ۔مگر جو اللہ چاہے۔‘‘ عیون أخبار الرضا: ۱؍۲۱۹۔ ج:۵۔ باب ماجاء عن الرضاع ۔۔۔۔۔‘‘ بحار الأنوار: ۲۵؍۳۵۰۔ ج:۱، (باب نفي السہو عنہم علیہم السلام)۔ یہ واضح رہے کہ : متقدمین شیعہ علماء اس عقیدے سے برأت کا اظہار کرتے آئے ہیں بلکہ اس عقیدے کے قائلین کو کافر قرار دیتے تھے اور انہوں نے بیان کیا ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے سہو کے متعلق ثابت روایات کو رد کرنا دین شریعت کو رد کرنے کا پیش خیمہ ہے ۔ شیعہ شیخ ابن بابویہ لکھتا ہے :’’بے شک غالی اور مفوضہ، ان پر اﷲتعالیٰ کی لعنت ہو، یہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے سہو کا انکار کرتے ہیں ۔۔۔ اگر اس مسئلے میں آنے والی روایات کو رد کرنا جائز ہوتا تو تمام قسم کی روایات کو رد کرنا جائز ہوتا اورر وایات کو رد کرنا در حقیقت دین و شریعت کو رد کرنا ہے۔‘‘[ من لا یحضرہ الفقیہ: ۱؍۱۶۹، ۱۷۰۔ (أبواب الصلاۃ و حدودھا : ج: ۴۸، باب أحکام السہو في الصلاۃ) ۔ دیکھئے بحار الأنوار: ۱۷؍۱۱۱۔ باب سہو۔۔۔‘‘] جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ متاخرین شیعہ اس مسئلے کو ضروری اور دینی ضروریات میں سے شمار کرتے ہیں ۔ اور ضروریات دین کا منکرکافر ہے۔ جیسا کہ تذکرہ ہو چکا ہے۔یہاں تک کہ شیخ شبر کہتا ہے : جوکوئی انسان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے سہو کو جائز سمجھے اس سے اس پر کفر واجب ہوتا ہے۔‘‘[حق الیقین في معرفۃ أصول الدین ۱؍۱۳۵ کتاب النبوۃ؛ الفصل الثاني العصمۃ]  اﷲ تعالیٰ کی اپنی مخلوق پر حجت صرف امام کے ذریعے سے ہی قائم ہوگی۔ ان کے علامہ الکلینی بیان کرتے ہیں کہ: ’’ باب أن الحجۃ لا تقوم للہ علی خلقہ إلا بإمام۔‘‘[اصول الکافی: ۱؍ ۱۲۶۔ کتاب الحجۃ۔ اس میں ۴ روایات ذکرکی ہیں ۔] اﷲ تعالیٰ کی اپنی مخلوق پر حجت صرف امام کے ساتھ قائم ہونے کاباب۔‘‘ پھر ابو عبد اﷲ پر بہتان باندھتے ہوئے روایت کی ہے؛ فرمایا:ہماری عبادت ہی کی بدولت اﷲ تعالیٰ کی عبادت ہوئی اور اگر ہم نہ ہوتے تو اﷲتعالیٰ کی عبادت نہ ہوتی۔‘‘[ اصول الکافی: ۱؍ ۱۳۸۔ کتاب الحجۃ، ح: ۶۔ باب أن الأئمۃ ولاۃ أمراﷲ۔۔ ‘‘ التوحید: ص ۱۵۲، ح ۸، باب تفسیر قول اﷲ عز وجل (کل شی ھالک الا وجھہ )۔] نیز انہوں نے فرمایا :’’اور اگر ائمہ نہ ہوتے تو اﷲ کی معرفت بھی نہ ہوتی۔[اصول الکافی: ۱؍۱۳۹، حدیث نمبر ۲۔] جبکہ ملاں مجلسی نے یہ اضافہ بیان کیا ہے کہ:’’ اگر ائمہ نہ ہوتے تو رحمن کی عبادت کا طریقہ بھی معلوم نہ ہوسکتا۔‘‘ بحارالأنوار: ۳۵؍ ۲۹،حدیث نمبر: ۲۴۔ باب تاریخ ولادتہ وحلیتہ .... ‘‘ مزید برآں بہت سے شیعہ علماء اللہ تعالیٰ کو نقائص سے موصوف کرتے ہیں ۔ جیسا کہ اس سے پہلے بعض کی حکایات بیان کی جاچکی ہیں ۔ سویہ زرارہ بن اعین اور اس کے ہمنواء ہیں ۔ جو کہتے ہیں : اللہ تعالیٰ پر بداء کا ہو جانا جائز ہے۔ اوریہ کہ اللہ تعالیٰ کسی چیز کا حکم دیتے ہیں ؛ اور ان پر ایسی چیز واضح ہوتی ہے جسے وہ پہلے سے نہیں جانتے تھے۔ تو اللہ تعالیٰ اپنی غلطی کے ظاہر ہونے پر اپنے فیصلہ کو توڑ دیتے ہیں ۔[2] 2] شیعہ عالم مجلسی کے نزدیک البداء کے دو معانی ہیں : ۱: کسی چیز کا ظاہر اور منکشف ہونا۔ ۲: نئی رائے کا پیدا ہونا۔ [بحارالأنوار: ۴؍ ۱۱۴۔ ۱۲۲( باب البداء و النسخ ۔] ٭ پس اس جیسے لوگ جب یہ کہیں کہ انبیاء علیہم السلام اور ائمہ پر ان کے کسی فعل کے انجام کا مخفی رہنا جائز نہیں ہے ؛ تو یقیناً یہ لوگ بشر کو تو پاک اور منزہ مانتے ہیں ۔ مگر اس کے ساتھ وہ اللہ تعالیٰ  سے غلطی ہو جانے کو جائز سمجھتے ہیں ۔ ایسے ہی ہشام بن حکم ؛ زرارہ بن اعین اور ان کے امثال و ہمنواؤں کا حال ہے جو کہتے ہیں : اللہ تعالیٰ ان چیزوں کو بھی جانتے ہیں جن کا انہیں پہلے سے علم نہیں تھا۔اور یہ بات معلوم شدہ ہے کہ ایسے کہنا رب سبحانہ وتعالیٰ کے حق میں سب سے بڑا نقص اور کوتاہی ہے۔ اور پھر جب وہ اس کے ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ: بیشک ائمہ اور انبیاء علیہم السلام سے ان کی رائے کے خلاف ظاہرہوسکتا ہے۔ تو اس صورت میں وہ ان ہستیوں کو اس وقت تک کے لیے لاعلم قرار دیتے ہیں جب تک وہ اس کی خبر نہ حاصل کرلیں ۔ اور اس چیز کو انبیاء کے حق میں جائز کہتے ہیں ۔اور جہاں تک غالی شیعہ کا تعلق ہے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خدا مانتے ہیں ؛ اور کچھ آپ کونبی مانتے ہیں ؛ وہ کہتے ہیں کہ جبریل امین نے پیغام پہنچانے میں غلطی کی ۔ یہ معاملہ تو یہاں پر ذکر کرنے کے قابل ہی نہیں ہے۔[1] [1] اپنے اصل کے اعتبارسے’’ البداء‘‘ گمراہ کن یہودی عقیدہ ہے ،حالانکہ خود یہودی نسخ کے قائل نہیں کیونکہ ان کا عقیدہ ہے کہ نسخ سے البداء لازم آتا ہے۔[سفر التکوین، الفصل السادس فقرہ: ۵۔ سفر الخروج: فصل: ۳۲۔ فقرہ: ۱۲۔ ۱۴ سفر القفاۃ: فصل ثانی: فقرہ: ۱۸۔ وغیرہ۔ مزید دیکھیے: مسائل الامامۃ: ۷۵۔] البداء کا عقیدہ سب سے پہلے شیعہ فرقے السبیئہ میں منتقل ہوا تو وہ سب اسی عقیدے کے قائل ہوگئے۔ ان کا عقیدہ ہے کہ اﷲتعالیٰ کو بہت ساری چیزوں کا انکشاف ہوتا ہے(یعنی اﷲ تعالیٰ کو بہت سارے حالات و واقعات کا پہلے علم نہیں ہوتا۔ جب وہ واقع ہو جاتے ہیں تو اﷲ تعالیٰ کو ان کا علم ہوتا ہے۔ ‘‘[ دیکھیے: التنبیۃوالرد: ۱۹۔] البداء شیعہ عقیدے کے اصولوں میں سے ایک ہے۔ لہٰذا روایت کرتے ہیں کہ ابو عبد اﷲ نے فرمایا: البداء جیسی اﷲ کی کوئی اور عبادت نہیں ہے۔‘‘[أصول الکافی: ۱؍ ۱۰۴۔ ۱۰۵۔ کتاب التوحید۔ح :ا ۔ باب البداء۔ التوحید: ۳۲۲ ۔ح:ا باب البداء۔ بحار لأنوار: ۴؍ ۱۰۷۔ح: ۱۹۔ باب البداء والنسخ۔ اس میں ۷۰ روایات ذکر کی ہیں۔] مزید روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا:’’ اگر لوگوں کو عقیدہ البداء کا اجر و ثواب معلوم ہوجائے تو وہ ہر وقت البداء کے متعلق گفتگو کریں ۔‘‘ [أصول الکافی:۱؍ ۱۰۶۔ التوحید ۳۳۴۔ح: ۷۔ بحارالأنوار: ۴؍ ۱۰۸۔ ح: ۲۶] یہ عقیدہ شیعہ علماء کے نزدیک متفقہ عقیدہ ہے۔ وہ کہتے ہیں :’’ شیعہ علماء نے البداء کو اﷲ تعالیٰ کی صفات میں شامل کرنے پر اتفاق کیا ہے۔‘‘ [أوائل المقالات: ۴۶۔ القول فی الرجعۃ والبداء ....۔‘‘]  شیعہ مذہب سبائیہ کا عقیدہ شامل ہے جس کی بنا پر وہ حضرت علی بن أبی طالب رضی اللہ عنہ رب مانتے ہیں ۔اس میں یہ لکھا ہے کہ شیعی شیوخ حضرت علی علیہ السلام کی نداء ان کلمات کے ساتھ لگاتے ہیں : ’’ یا اوّل یا آخر یا ظاہر یا باطن یا من ھو بکل شی ء علیم ‘‘!! ’’اے اول، اے آخر، اے ظاہر، اے باطن، اے ہر چیز کو جاننے والے ۔۔۔‘‘ سلیم بن قیس الہلالی کی کتاب میں حضرت علی علیہ السلام کو انھیں القابات کے ساتھ مخاطب کیا گیا ہے‘‘: ’’ یا اوّل یا آخر یا ظاہر یا باطن یا من ھو بکل شی ء علیم ‘‘! الذریعۃ إلی تصانیف الشیعۃ، ج ۲؍۱۵۲۔ رجال الکشی:۲؍ ۱۰۰۔ح:۴۴۱ (سلیم بن قیس الھلالی ) مزید دیکھئے: تہذیب الأحکام: ۹؍۲۱۷۴۔ کتاب الوصایا، باب الوصیۃ و وجوبھا، ح:۱۴۔ وسائل الشیعۃ:۷۲؍۱۰۱۔حدیث: ۷۸، باب وجوب العمل بأحادیث النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ۔ بحارالأنوار:۱؍۷۹ ، الفصل الخامس: فی ذکر بعض اس میں کوئی شک باقی نہیں رہتا کہ ان کے پیروکاروں کا غلو اورشرک انہیں بشریت کے دائرہ سے نکال کر خدا بنا دیتا ہے ۔ بلکہ بعض امور میں [بعض شیعہ اپنے ائمہ کو ]خداسے بھی افضل قرار دیتے ہیں ۔جیسا کہ مشرکین کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان گرامی ہے:﴿وَ جَعَلُوْا لِلّٰہِ مِمَّا ذَرَاَ مِنَ الْحَرْثِ وَ الْاَنْعَامِ نَصِیْبًا فَقَالُوْا ھٰذَا لِلّٰہِ بِزَعْمِھِمْ وَ ھٰذَا لِشُرَکَآئِنَا فَمَا کَانَ لِشُرَکَآئِھِمْ فَلَا یَصِلُ اِلَی اللّٰہِ وَ مَا کَانَ لِلّٰہِ فَھُوَ یَصِلُ اِلٰی شُرَکَآئِھِمْ سَآئَ مَا یَحْکُمُوْنَ﴾[الانعام ۱۳۶] ’’اور انھوں نے اللہ تعالیٰ کے لیے ان چیزوں میں سے جو اس نے کھیتی اور چوپاؤں میں سے پیدا کی ہیں ، حصہ مقرر کیا، پس کہا یہ اللہ تعالیٰ کے لیے ہے، ان کے خیال کے مطابق اور یہ ہمارے شریکوں کے لیے ہے، پھر جو ان کے شرکا کے لیے ہے سو وہ اللہ تعالیٰ کی طرف نہیں پہنچتا اور جو اللہ تعالیٰ کے لیے ہے سو وہ ان کے شریکوں کی طرف پہنچ جاتا ہے۔ برا ہے جو وہ فیصلہ کرتے ہیں ۔‘‘[1] [1] مالا بد من ذکرہ۔۔۔ ‘‘ اسی بنا پر انہوں نے ایک قصہ گھڑ کر روایت کرنا شروع کردیا کہ:’’ امیر المومنین باہر نکلے اور ان کے ساتھ حضرت ابو بکر،حضرت عمر اور مہاجرین و انصار کی ایک جماعت بھی تھی۔ آپ بقیع پہنچ کر ایک بلند جگہ پر کھڑے ہوگئے۔ پھر جب سورج طلوع ہوا تو علی علی علیہ السلام نے کہا: اے اﷲ کی نئی مطیع وفرمانبردار مخلوق !السلام علیک۔ تو انہوں نے آسمان سے گنگنا ہٹ سنی جو ایک کہنے والا جواب دے رہا تھا: ’’وعلیک السلام یا اوّل یا آخر یا ظاہر یا باطن یا من ھو بکل شی ء علیم ‘‘!! ’’ اے اول وآخر، ظاہر وباطن، اے ہر چیز کو جاننے والے آپ پر بھی سلام ہو۔‘‘[کتاب سلیم بن قیس، ص ۴۵۳۔ الفضائل، ص ۷۰ ؛ خبر کلام علی مع الشمس۔ یہ کتاب شیخ شاذان بن جبرئیل قمی کی تصنیف ہے۔] ان کا عقیدہ ان کی بنیادی کتب اور معتمد مصادر میں موجود ہے۔ انھوں نے ایک اور جھوٹی روایت بھی بیان کی ہے : اﷲ تعالیٰ نے علی رضی اﷲ عنہ کے بارے میں فرمایا: ’’اے محمد! علی اول ہے علی آخر ہے اور وہ ہر چیز بخوبی جانتا ہے۔ ‘‘ تو انہوں نے عرض کی: ’’اے میرے رب!کیا یہ صفات تو تیری نہیں ؟۔۔۔ ۔ ‘‘ [بصائر الدرجات الکبری ۲؍۴۷۵۔ ح؍۳۵۔ باب النوادر في أئمۃ علیہم السلام و أعاجیبہم۔ بحار الأنوار ۱۸؍۳۷۷؛ ح؍۸۲۔] پھر اسی بات کا ان کی آیت عبدالحسین العاملی نے ببانگ دہل اعلان کر دیا اور بولا : اَبَا حَسَنٍ اَنْتَ عَیْنُ الإِْلٰہِ وَ عُنْوَانُ قَدْرَتِہِ السَّامِیَۃْ وَ اَنْتَ الْمُحِیْطُ بِعِلْمِ الْغُیُوْبِ فَہَلْ عِنْدَکَ تَعْزُبُ مَنْ خَافِیَۃْ وَ اَنْتَ مُدَبِّرُ رَحَی الْکَائِنَاتِ وَعِلَّۃُ اِیْجَادِہَا الْبَاقِیَۃْ لَکَ الْأَمْرُ اِنْ شِئْتَ تُنْجِیْ غَدًا وَ اِنْ شِئْتَ تَسْفَعُ بِالنَّاصِیَۃْ ’’اے ابو الحسن ! تو الٰہ کی انکھ ہے یا تو عین الٰہ ہے اور اس کی بلند قدرت کا پتا اور ایڈریس ہے۔اور تو غیبوں کے علم کا احاطہ کرنے والا ہے کیا جو چیز مخفی ہے وہ تجھ سے پوشیدہ رہ سکتی ہے۔‘‘ ’’ اور تو کائنات کی چکی کا مدبر ہے اور اس کی باقی رہنے والی ایجادات کا باعث ہے۔سارا اختیار تیرے ہاتھ میں ہے کل قیامت کو اگر تو چاہے تو نجات دے دے اور اگر تو چاہے تو پیشانی سے گھسیٹ لے۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿ وَ لَا تَسُبُّوا الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ فَیَسُبُّوا اللّٰہَ عَدْوًا بِغَیْرِ عِلْمٍ کَذٰلِکَ زَیَّنَّا لِکُلِّ اُمَّۃٍ عَمَلَھُمْ ﴾[الانعام ۱۰۸] ’’اور انھیں گالی نہ دو جنھیں یہ اللہ تعالیٰ کے سوا پکارتے ہیں ، پس وہ دشمنی میں کچھ جانے بغیر اللہ تعالیٰ کو گالی دیں گے۔ اسی طرح ہم نے ہر امت کے لیے ان کا عمل مزین کر دیا ہے....۔‘‘پس یہ لوگ جب ان کے معبودوں کو برا بھلا کہتے ہیں ؛ تووہ جہالت کی وجہ سے اس کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ کو برا بھلا کہتے ہیں ۔ اوروہ اپنے ان معبودوں کو اللہ تعالیٰ کے برابر قراردیتے ہیں ؛ بلکہ ان کے دلوں میں ان معبودوں کی محبت اللہ تعالیٰ کی محبت سے بڑھ کر ہے۔ جیسا کہ آپ بہت سارے مشرکین کو دیکھیں گے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر اپنے ان شریکوں سے اللہ تعالیٰ سے زیادہ محبت کرتے ہیں ۔ آپ ان میں سے کسی ایک کو قسم اٹھاتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے نام کی جھوٹی قسم اٹھالیتا ہے؛ مگر اپنے امام یا شیخ جس کو وہ شریک بنائے ہوتا ہے؛ اس کے نام کی صرف سچی قسم ہی اٹھاتا ہے۔ اس صورت میں اس کے لیے جھوٹ بولنا جائز نہیں ۔آپ اگر ان سے اللہ تعالیٰ کے نام پر کوئی چیز مانگیں توکبھی نہیں دیں گے؛ لیکن ان کے نزدیک قابل تعظیم شیخ یا امام وغیرہ کے نام پر مانگیں تو وہ فوراً دیدیں گے۔ وہ اللہ تعالیٰ کے لیے نمازیں بھی اپنے گھروں میں پڑھتے ہیں ؛ اور دعائیں کرتے ہیں ؛ جن میں نہ ہی زیادہ خشوع ہوتا ہے اور نہ ہی دل لگی۔ مگر جب اپنے بڑوں کی قبروں پر آتے ہیں ؛ تو ان سے بڑی امیدیں وابستہ کئے ہوتے ہیں ۔ اورانہیں پکارتے ہیں ۔ اور ان کے وسیلہ سے دعائیں مانگتے ہیں ۔تو اس وقت ان کا خشوع عجیب ہوتا ہے؛ آنکھوں سے آنسوں نکل پڑتے ہیں ۔ لیکن یہی چیزیں اللہ تعالیٰ کے گھر میں اس کی عبادت کرتے ہوئے مفقود ہوتی ہیں ۔ یا پھر جب کسی امام باڑے میں جمع ہو جاتے ہیں ؛تو آپ دیکھیں گے کہ اگر ان کے کسی بڑے کا ؛ جسے یہ لوگ شریک بناتے ہیں ؛ اس کا کوئی عیب بیان کیا جائے تو بڑے غصہ میں آجاتے ہیں ۔ مگر اللہ تعالیٰ کے لیے جب عیوب اور نقائص ذکر کئے جائیں تو اس پر غصہ نہیں ہوتے۔ اس طرح کی بہت ساری مثالیں مشرکین میں بھی پائی جاتی ہیں اوراس امت کے ان لوگوں میں بھی جن میں شرک کا کوئی شعبہ پایا جاتا ہے۔ ایسے ہی نصاری بہت سارے لوگوں کی ایسی صفات بیان کرتے ہیں جو صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہیں ۔وہ اللہ تعالیٰ کے لیے تو بیٹا ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں ؛ مگر اپنے بڑوں کو اس سے پاک اورمنزہ مانتے ہیں کہ ان کی بھی کوئی اولاد ہو۔بہت سارے عیسائی یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سو جاتے ہیں ۔ جب کہ ان کے نزدیک پوپ [بابا]نہیں سوتا۔ اس کی مثالیں بہت زیادہ ہیں ۔