گناہ سے توبہ اور درجات کی بلندی:[تیسری وجہ ]:.... پھر ان سے یہ بھی کہا جائے گا کہ : جمہور مسلمین کا یہ عقیدہ ہے کہ بیشک نبی علیہ السلام کے لیے ضروری ہے کہ وہ تقوی اور نیکی و بھلاائی کی صفات سے موصوف ہو۔ اس میں کمال کی صفات پائی جائیں ۔ اور بعض اوقات میں ان سے بعض لغزشوں کا ہوجانا؛ جس کے فوراً بعد وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ او ررجوع کرتے ہیں ؛ وہ ان کی لغزشوں کی طہارت ؛ اور درجات کی بلندی کا ذریعہ ہوتا ہے؛ اس سے ان کی حالت پہلے سے زیادہ افضل ہو جاتی ہے۔ پس یہ واجب کرلینا کہ نبی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ نہیں کرتے؛ کہ وہ اللہ تعالیٰ کی محبت پاسکیں ؛ اور اللہ تعالیٰ ان کی توبہ سے خوش ہوں ؛ اوران کے مقام و مرتبہ اور درجہ کو بلند کریں ۔ اور اللہ تعالیٰ کے ہاں محبوب اورپسندیدہ عمل توبہ کے بعد ان کی حالت اس سے بہتر ہو جس پر وہ پہلے قائم تھے؛ اس میں کتاب وہ سنت کی تکذیب اور انبیاء کے مناصب میں کوتاہی اوران کے درجات میں کمی ؛ اور ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رحمت و احسات اور مغفرت میں کمی کرنا ہے۔ [پس یہ عقیدہ رکھنا درست نہیں ]
جو شخص یہ عقیدہ رکھتا ہو کہ ہر شخص جو کفر اور گناہوں سے محفوظ ہو، وہ اس شخص سے افضل ہے جو کفر کے بعد مشرف بہ ایمان ہو، ضلالت کے بعد ہدایت یاب ہو اور گناہوں کا مرتکب ہونے کے بعد توبہ تائب ہو تو ایسا شخص یقیناً دین کے اساسی اصول و نظریات کا مخالف ہے۔یہ مسلمہ صداقت ہے کہ سابقین اولین صحابہ رضی اللہ عنہم اپنے بیٹوں سے افضل تھے، جنہوں نے دور اسلام میں آنکھ کھولی۔ اس شخص کی حماقت و جہالت میں کیا شبہ ہو سکتا ہے، جو مہاجرین و انصار کے بیٹوں کو ان کے برابر تصور کرتا ہو۔ بھلا جو شخص اپنی قوت نظر و استدلال اور صبر و توبہ کے بل بوتے پر کفر سے ایمان اور اعمال بد سے نیک اعمال کی جانب متوجہ ہو اس شخص کے مساوی کیوں کر ہو سکتا ہے، جو اپنے آباء و اقارب اور ہم وطنوں کو دین اسلام پر لائے‘ اور امن و عافیت کی زندگی بسر کرتا رہا ہو ۔ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں :’’ بیشک اس وقت اسلام کے کڑے ایک ایک کرکے ٹوٹنا شروع ہوجائیں گے جب اسلام میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو جاہلیت کو نہ پہچانتے ہوں ۔‘‘اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿وَالَّذِیْنَ لاَ یَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰہِ اِِلٰہًا آخَرَ وَلاَ یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِِلَّا بِالْحَقِّ وَلاَ یَزْنُوْنَ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ یَلْقَ اَثَامًا (69) یُضَاعَفْ لَہٗ الْعَذَابُ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَیَخْلُدْ فِیْہِ مُہَانًا (69) اِِلَّا مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُوْلٰٓئِکَ یُبَدِّلُ اللّٰہُ سَیِّاٰتِہِمْ حَسَنَاتٍ وَّکَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَحِیْمًا﴾ (الفرقان 68۔70)اور وہ جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے اور نہ اس جان کو قتل کرتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہے مگر حق کے ساتھ اور نہ زنا کرتے ہیں اور جو یہ کرے گا وہ سخت گناہ کو ملے گا۔ اس کے لیے قیامت کے دن عذاب دگنا کیا جائے گا اور وہ ہمیشہ اس میں ذلیل کیا ہوا رہے گا۔مگر جس نے توبہ کی اور ایمان لے آیا اور عمل کیا، نیک عمل تو یہ لوگ ہیں جن کی برائیاں اللہ تعالیٰ نیکیوں میں بدل دے گا اور اللہ تعالیٰ ہمیشہ بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔‘‘صحیح مسلم میں حضرت ، ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ میں اس آدمی کو جانتا ہوں جو جنت میں داخل ہونے والوں میں سب سے آخر میں جنت میں داخل ہوگا اور سب سے آخر میں دوزخ سے نکلے گا ۔وہ ایک آدمی ہوگا جو قیامت کے دن لایا جائے گا اور کہا جائے گا کہ:’’ اس کے چھوٹے گناہ پیش کرو اور بڑے گناہ مت پیش کرو۔‘‘چنانچہ اس پر اس کے چھوٹے گناہ پیش کئے جائیں گے اور کہا جائے گا کہ:’’ فلاں دن تو نے یہ کام کیا اور فلاں دن ایسا کیا وغیرہ۔‘‘ وہ اقرار کرے گا اور انکار نہ کرسکے گا۔ اور اپنے بڑے گناہوں سے ڈرے گا کہ کہیں وہ بھی پیش نہ ہوجائیں ۔‘‘حکم ہوگا کہ ہم نے تجھے ہر ایک گناہ کے بدلے ایک نیکی دی۔ وہ کہے گا اے میرے پروردگار میں نے تو اور بھی بہت سے گناہ کے کام کئے ہیں جنہیں میں آج یہاں نہیں دیکھ رہا راوی کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ آپ ہنسے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کنچلی والے دانت ظاہر ہوگئے۔‘‘[1] [1] مسلِم 1؍177؛ ِکتاب الإِیمانِ، باب أدنی أہلِ الجنۃِ منزِلۃ فِیہا . والحدِیث مع اختِلاف یسِیر فِی الألفاظِ بِنفسِ السندِ فِی: سننِ التِرمِذِیِ 4؍112 ؛ کتاب صِفۃِ جہنم، باب ما جاء أن لِلنارِ نفسینِ وما ذکر من یخرج مِن النارِ مِن أہلِ التوحِیدِ۔[[گناہ گنہگار کو اس وقت نقصان دیتا ہے جو وہ اس سے توبہ نہ کرے]]۔تو پھر وہ لوگ کہاں ہو ں گے جن کی برائیوں کو اللہ تعالیٰ نیکیوں سے بدلیں گے۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ جو شخص ہلاکت آفرین اعمال سے تائب ہوگا اور مشرف بایمان ہو کر نیک اعمال انجام دے گا تو اس کی برائیوں کو نیکیوں میں تبدیل کر دیا جائے گا۔ [[جمہور جو انبیاء علیہم السلام سے صغائر کا ارتکاب جائز سمجھتے ہیں کہتے ہیں : انبیاء علیہم السلام گناہ پر قائم نہیں رہتے]]۔یہ تو بالکل ایسے ہی ہے جیسے کوئی اپنے خلاف دشمن کو طیش دلائے تاکہ وہ پھر ان سے جہاد کرکے ان پر غالب آجائے۔ یا پھر شیرکے ساتھ شرارت کرکے بھڑکائے تاکہ اسے قتل کرسکے۔ ایسا بھی ممکن ہے کہ دشمن اس پر غالب آجائے؛ اور شیر اسے چیز پھاڑ کر رکھ دے۔ بلکہ اس کی مثال تو اس آدمی کی طرح ہے جو زہر کا پیالہ پئے ؛ اور پھر اس کے بعد تریاق کا جام بھی لے لے۔ یہ تو سراسر جہالت ہے۔ بلکہ جو کوئی قدرتی طورپر دشمن کے نرغے میں پھنس جائے اور پھر اس پر غالب آجائے؛ وہ اس سے افضل ہے جس کی یہ صورتحال نہ ہو۔ ایسے ہی جس کا اچانک شیر سے آمنا سامنا ہو جائے ؛ اوروہ اس پرغالب آجائے؛ یا جو کوئی اتفاقی طور پر زہر پی لے؛ اور پھر تریاق لے لے؛ اوروہ زہر کو پھیلنے سے روک دے؛ تو اس انسان کا بدن اس آدمی کی نسبت زیادہ صحیح ہوگا جس نے تریاق نہ پیا ہو۔یہ جو صورت بیان کی جارہی ہے اس میں تو ان کا کمال ہے،کیونکہ توبہ کرنے سے ان کے اعمال میں اور اضافہ ہوتا ہے۔اور اعمال کا اعتبار تو آخری عمل کے لحاظ سے ہوتا ہے۔ نصوص و آثار اور اجماع سے مسلک جمہور کی تائید ہوتی ہے۔[ یعنی کتاب و سنت اوراجماع مسلمین اس عقیدہ کی صحت پر دلالت کرتے ہیں ]۔