Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

رافضیہ وغیرہ فرقے نماز میں ان کی اقتدا کرنا، ان سے سلام مصافحہ کرنا، ان کی ورثہ مسلمان کو یا مسلمان کی وراثت ان کو پہنچتی ہے یا نہیں؟ ان کے ساتھ نکاح کرنا، ان لوگوں سے میل ملاپ رکھنا


رافضیہ وغیرہ فرقے نماز میں ان کی اقتدا کرنا، ان سے سلام مصافحہ کرنا، ان کی ورثہ مسلمان کو یا مسلمان کی وراثت ان کو پہنچتی ہے یا نہیں؟ ان کے ساتھ نکاح کرنا، ان لوگوں سے میل ملاپ رکھنا

سوال: رافضیہ بلا تفضیلیہ معتزلہ جہمیہ، قدریہ، مرزائیہ، چکڑالویہ وغیرہ وغیرہ فرقے قطعی کافر ہیں یا نہیں؟ نماز میں ان کی اقتدا اور ان سے سلام مصافحہ کرنا روا ہے یا نہیں؟ ان کی ورثہ مسلمان کو یا مسلمان کی وراثت ان کو پہنچتی ہے یا نہیں؟ اور مسلمان عورت کو ان کے ساتھ نکاح کرنا جائز ہے یا نہیں؟ اگر مسلمان عورت کا خاوند ان فرقوں میں داخل ہو جائے، مذہب اہلِ سنت و الجماعت بدل لے تو نکاح ٹوٹ جاتا ہے یا نہیں؟ بغیر طلاق کے وہ دوسری جگہ نکاح کر سکتی ہے یا نہیں؟

جواب: ان فرقوں کے گمراہ، زندیق ملحد، بدعتی ہونے میں تو کوئی شبہ نہیں، البتہ کافر ہونے میں تفصیل ہے۔ مرزائیہ، چکڑالویہ یہ تو بے شک کافر ہیں۔ معتزلہ، جہمیہ، قدریہ جبریہ بھی تقریباً ایسے ہی ہیں لیکن صاف کافر کہنا ذرا مشکل ہے۔ رافضیہ میں سے غالی قطعاً کافر ہیں، جو سیدنا صدیقِ اکبرؓ وغیرہم کو مرتد کہتے ہیں۔ اور زیدیہ کافر نہیں، جن کا عقیدہ ہے کہ سیدنا صدیقِ اکبرؓ کی امامت خطا نہیں ہے، مگر سیدنا علیؓ افضل ہے اور سیدنا عثمانؓ کے بارے میں ساکت ہے نہ اچھا کہتے ہے نہ بُرا۔ 

رہا ان لوگوں سے میل ملاپ تو یہ بالکل نا جائز ہے تفسیر ابنِ کثیر: جلد، دوم صفحہ،201 میں مسند احمد وغیرہ سے یہ حدیث شریف ذکر کی ہے کہ: جب تم متشابہ آیتوں کے پیچھے جانے والوں کو دیکھ تو اُن سے بچو۔ 

اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ ان لوگوں سے رشتہ ناطہ وغیرہ کرنا یا ویسے میل ملاپ رکھنا یا نماز میں امام بنانا اس کسی قسم کا تعلق کوئی بھی جاںٔز نہیں بلکہ جو ان میں سے کافر ہیں، اگر اتفاق طور پر ان کے پیچھے نماز پڑھ لی جائے یا غلطی سے ان کے ساتھ نکاح کا تعلق ہوگیا ہو تو نماز بھی صحیح نہیں اور نکاح بھی صحیح نہیں، نماز کا اعادہ کرنا چاہیئے، بلکہ اگر نکاح پڑھا ہوا ہو، اور بعد میں ایسی بدعت کے مرتکب ہوئے جو حدِ کفر کو پہنچ گئی تو بھی نکاح خود بخود نسخ ہو جاتا ہے، طلاق کی ضرورت نہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: وَ لَا تُنْكِحُوا الْمُشْرِكِیْنَ حَتّٰى یُؤْمِنُوْا الخ۔(سورۃ البقرہ: آیت، 221)

ترجمہ: یعنی مشرک مردوں کو نکاح نہ دو۔ اور دوسری جگہ ہے: وَ لَا تُمْسِكُوْا بِعِصَمِ الْكَوَافِرِ الخ۔(سورۃ الممتحنہ: آیت، 10)

ترجمہ: یعنی کافر عورتوں کے ساتھ نکاح مت رکھو۔ اگر اس حالت میں مرجائیں تو مسلمان ان کے وارث نہیں اور یہ مسلمان کے وارث نہیں۔ 

(فتاویٰ علمائے حديث: جلد، 9 صفحہ، 363)