Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

نفرت کے وجوب اور اعتماد کے خاتمہ کے قول پر تبصرہ :

  امام ابنِ تیمیہؒ

نفرت کے وجوب اور اعتماد کے خاتمہ کے قول پر تبصرہ :[اشکال]:....شیعہ کا یہ قول کہ:’’ انبیاء کو گناہ گار ٹھہرانے سے وہ قابل اعتماد نہیں رہتے اور لوگ ان سے نفرت کرنے لگتے ہیں ۔‘‘[جواب]:.... یہ بات درست نہیں ؛نہ ہی نبوت سے پہلے ؛اور نہ ہی اس کے بعد خطاء واقع ہونے کے بارے میں ۔ لیکن اس کی غایت یہ ہوسکتی ہے کہ یہ چیز اس انسان میں موجود ہو جو جان بوجھ کر گناہ کا مرتکب ہو رہا ہو۔ حد سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ : یہ چیز واقعی ہوتی ہے مگر اس وقت جب کوئی جان بوجھ کر گناہ کا ارتکاب کرے۔پس یہ بھی کہا جائے گاکہ: جب کوئی جلیل القدر انسان اپنے گناہ کا معترف ہو کر بارگاہ الٰہی میں توبہ و استغفار کرے اوراللہ سے مغفرت و رحمت طلب کرے ؛اور اس کے لیے اپنی حاجت کا اظہار کرے تو اس سے واضح ہوگا کہ وہ کس قدر صادق ، منکسر مزاج، عجب و کبر سے دور اور دروغ گوئی سے پاک ہے ۔ وہ شخص اس کے عین برعکس ہے جو کہتا ہے کہ مجھے طلب مغفرت اور توبہ ان میں سے کسی چیز کی کوئی ضرورت نہیں ۔اور مجھ سے کوئی ایسا کام سرزد نہیں ہوا جس کی بنا پر مجھے توبہ کی ضرورت ہو۔اور وہ اس بنیاد پر کہ اس سے کوئی ایسی حرکت نہیں ہوتی جس کی بنا پر اسے توبہ اور رجوع إلی اللہ تعالیٰ کی ضرورت پیش آئے؛ وہ اپنے ان ہی اقوال و افعال پر ڈٹا رہتا ہے۔ ایسے شخص کے متعلق جب عام چرچا ہوگا تولوگ اسے متکبر ، جاہل اور کذاب کے القاب سے نوازیں گے۔ صحیح حدیث میں وارد ہے کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’تم میں سے کوئی شخص بھی اپنے اعمال کے بل بوتے پر جنت میں داخل نہ ہوگا‘‘ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا آپ بھی نہیں ؟فرمایا:’’ نہیں مگر یہ کہ اﷲ کا فضل مجھے اپنے دامن رحمت میں چھپا لے۔‘‘[1] [1] صحیح بخاری ۔ کتاب الرقاق۔ باب القصد والمداومۃ علی العمل(ح:۶۴۶۳)، صحیح مسلم کتاب صفات المنافقین، باب لن یدخل احد الجنۃ بعملہ (ح: ۲۸۱۶،۲۸۱۸)۔یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت بڑی مدح سرائی اور قابل تعریف بات تھی۔اور ایسے ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے:’’مجھے میرے مقام سے ایسے نہ بڑھاؤ جیسے نصاری نے حضرت عیسی بن مریم کو بڑھایا تھا۔میں تو ایک بندہ ہوں ۔ پس یوں کہا کرو: ’’اللہ کا بندہ اور اس کا رسول۔‘‘[2]  [2] الحدِیث مروِی عن عمر رضی اللّٰہ عنہ فِی: البخارِیِ(۴؍۱۶۷)کِتاب الأنبِیائِ باب قولِ اللّٰہِ تعالی:واذکر فِی الکِتابِ مریم ۔ سننِ الدارِمِیِ (۲؍۳۲۰)کتاب الرقائِقِ، باب قولِ النبِیِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لا تطرونِی....)۔ جو بھی یہ سنتا ہے ؛ اس کلام کی وجہ سے آپ کی تعظیم و تعریف کرتا ہے۔اور صحیحین میں ہے کہ سالار رسل صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا فرمایا کرتے تھے:(( اَللّٰہُمَّ اغْفِرْلِیْ خطِیئتِی وجہلِی وإِسرافِی فِی أمرِی؛ وما أنت أعلم بِہِ مِنِی، اللہم اغفِر لِی ہَزْلِیْ وَجِدِّیْ وَخَطَاِیْ وَعَمَدِیْ وَکُلُّ ذٰلِکَ عِنْدِیْ۔اللہم اغفِر لِی ما قدمت وما أخرت وما أسررت وما أعلنت وما أنت أعلم بِہِ مِنِی، أنت المقدِم وأنت المؤخِر وأنت علی کلِ شیئٍ قدِیر۔))[3]  [3] صحیح بخاری۔کتاب الدعوات۔ باب قول النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم’’اللّٰھم اغفرلی ما قدمت....‘‘ (ح:۶۳۹۸،۶۳۹۹)، صحیح مسلم۔ کتاب الذکر والدعاء ، باب فی الادعیۃ،(ح:۲۷۱۹)۔’’ اے اللہ تعالیٰ ! میری مغفرت فرما میری خطاء میں ، میری نادانی میں اور میری کسی معاملہ میں زیادتی میں ، ان باتوں میں جن کا تو مجھ سے زیادہ جاننے والا ہے ۔ اے اللہ تعالیٰ ! میری مغفرت کر میرے ہنسی مزاح اور سنجیدگی میں اور میرے ارادہ میں اور یہ سب کچھ میری ہی طرف سے ہیں ؛اے اللہ تعالیٰ ! مجھے معاف فرما؛جو میں نے آگے بھیجا اور جو میں نے پیچھے چھوڑا؛ اور جو میں نے چھپ کر کیا اور جو میں نے اعلانیہ کیا ؛اور ان باتوں میں جن کا تو مجھ سے زیادہ جاننے والا ہے ۔بیشک تو ہی آگے اور پیچھے کرنے والا ہے ؛ اور تو ہر ایک چیز پر قادر ہے۔‘‘اور ایسے ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’میری قبر کومیلہ گاہ نہ بنانا؛ اور تم جہاں کہیں بھی ہو مجھ پر درود پڑھو؛ بیشک تمہارا درود مجھ تک پہنچایا جاتا ہے۔‘‘[1] [1] سننِ أبِی داؤود: کتاب المناسکِ، باب زِیارِۃ القبورِ؛ المسندرقم 8790نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ :’’اے اللہ تعالیٰ میری قبر کو مورتی نہ بنانا کہ اس کی پوجا کی جانے لگے۔‘‘ [2] [2] مؤطا امام مالک ۱؍۱۷۲رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ تواضع تھی جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے آپ کے مقام و مرتبہ کو اور بلند کردیا۔ ایسے ہی جب بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ کو سجدہ کیا تو آپ نے منع کردیا؛ اور فرمایا: ’’سجدہ کرنا صرف اللہ تعالیٰ کے لیے شایان شان ہے۔‘‘ [ سنن الدارمي ۱؍۱۱۔] ایسے ہی کچھ لوگوں نے جب کہا : ’’جو اللہ تعالیٰ چاہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم چاہیں ۔‘‘تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’کیا تم مجھے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک بناتے ہو۔‘‘ تم یوں کہا کرو:’’ ما شاء اللہ ثم شاء محمد۔‘‘’’ جو اللہ تعالیٰ چاہے پھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم چاہیں ۔‘‘ [ سنن ابن ماجۃ ۲۱۱۸۔صحیح ]اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دعا میں یوں فرمایا کرتے تھے :(( أنا البائِس الفقِیر المستغِیث المستجِیر الوجِل المشفِق المعترِف المقِر بِذنبِہِ، أسألک مسألۃ المِساکِینِ، وأبتہِل ِإلیک ابتِہال المذنِبِ الذلِیلِ، و أدعوک دعاء الخائِفِ، من خضعت لہ رقبتہ، وذل جسدہ، ورغِم نفہ لک ))’’ میں ایک بے بس فقیر؛ تیری مدد اورپناہ کا طلب گار؛ گھبرایا ہوا خوفزدہ؛ اپنے گناہوں کامعترف و اقراری ؛ میں تجھ سے مسکینوں کی طرح سوال کرتا ہوں ؛ اور تیری بارگاہ میں پست گنہگارکی طرح گریہ و زاری کرتا ہوں اور گھبرائے ہوئے کی طرح تجھ سے دعا کرتا ہوں ۔ جس کے سامنے تمام گردنیں جھکی ہوئی ہیں ۔ اور جسم اس کے سامنے پست ہیں ؛ اور ناک اس کے سامنے خاک آلود ہیں ‘‘....۔‘‘ان کے علاوہ بھی اس طرح کی تواضع کے دیگر احوا ل بھی تھے؛ جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے آپ کا مقام و مرتبہ بلند کیا ؛ کیونکہ آپ اپنی عبودیت اور فقر کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی کمال ربوبیت کے معترف تھے۔ بے نیاز ہونا ربوبیت کے خصائص میں سے ایک خصوصیت ہے۔ جب کہ بندے کا کمال اس کی بارگاہ ربوبیت میں ضرورت اور حاجتمندی؛ اس کی بندگی؛ اور فقرو فاقہ ہے۔ عبودیت جتنی زیادہ کامل ہوگی؛ اتنا ہی زیادہ افضل ہے۔ اورانسان سے ایسے امور کا صادر ہوجانا جن کی وجہ سے اسے بارگاہ ربانی میں توبہ و استغفار کی ضرورت پڑے؛ اس سے بندے کی تواضع ؛ عبودیت اور فقر میں اضافہ ہوتا ہے۔یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ انبیائے کرام علیہم السلام کی لغزشیں دوسرے لوگوں کے گناہوں کی طرح نہیں ہوتیں ۔ بلکہ جیسا کہ کہا جاتا ہے : ’’ نیک لوگوں کی نیکیاں اور مقربین کی برائیاں ۔‘‘ لیکن ان میں سے ہر ایک کو اس کے مقام و مرتبہ کے حساب سے مخاطب کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ :’’سب بنی آدم خطاکار ہیں ، اور خطا کاروں میں سب سے بہترین توبہ کرنے والے ہیں ۔‘‘[1] [1] الترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ۔ باب (۴۹) (ح:۲۴۹۹) ابن ماجۃ کتاب الزہد۔ باب ذکر التوبۃ) (ح:۴۲۵۱)۔