[عدم ثقاہت اورنفور کے اعتراض کا جواب]٭شیعہ مصنف کا یہ قول کہ ....گناہ کے صدور سے انبیاء قابل اعتماد نہیں رہتے اور لوگ نفرت کرنے لگتے ہیں ۔‘‘میں کہتا ہوں کہ:’’ انبیاء علیہم السلام قابل نفرت اس حالت میں ہوتے اگروہ گناہوں کی کثرت کے باوصف ان پر مصر ہوں ۔ وہ لغزشیں جن کے ساتھ توبہ و استغفار ملے ہوئے ہوں ؛[شاذ و نادر گناہ کے صادر ہونے کے بعد جب وہ کثرت سے توبہ و استغفار کریں گے] تو ہر گز ایسا نہ ہوگا۔یا وہ امور جو کہ کسی تاویل کی بنا پر واقع ہو جائیں ؛ یا پھر ان کا وقوع نبوت ملنے سے پہلے کا ہو۔ پس بیشک یہ باتیں انسان گراں سمجھتاہے؛ جیسا کہ اہل بصیرت کے ہاں واضح ہے۔ یہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہیں ۔آپ جانتے تھے کہ رعایا کس قدر آپ کی تعظیم اور اطاعت گزاری کرتی تھی۔ حالانکہ آپ ہمیشہ ایسے امور کا اعتراف کرتے تھے جن سے آپ کو رجوع کرنا پڑتا۔ جو کہ آپ کی غلطی ہوا کرتے۔ اورجب آپ کسی چیز کا اعتراف کرلیتے؛ اور حق بات کی طرف رجوع کرتے تو لوگوں کی نظروں میں بھی آپ کی محبت و تعظیم اور مقام و مرتبہ اور بڑھ جاتے۔یہ وہ سب سے بڑی وجہ تھی جو کہ خوارج کے حضرت علی رضی اللہ عنہ پر اعتراض کا سبب بنی کہ آپ نے تحکیم حکمین کے مسئلہ سے توبہ نہیں کی۔ اگرچہ خوارج اس مسئلہ میں جاہل تھے؛ لیکن اس بات کی دلیل ضرورہے کہ وہ لوگ توبہ سے متنفر ہونے والے نہ تھے؛بلکہ ان کی نفرت کی وجہ وہ معاملہ تھا جسے خوارج اپنے ذہن میں گناہ تصور کرتے تھے۔حالانکہ خوارج تمام لوگوں سے بڑھ کر گناہوں اور گنہگاروں سے نفرت کرنے والے؛ اور ان کو گراں خیال کرنے والے تھے۔ حتی کہ وہ گناہوں کی وجہ سے کفر کا فتوی لگاتے ۔ اور اپنے کسی بڑے سے گناہ کا ہونا برداشت نہ کرسکتے تھے اور اس کے ساتھ ہی ان کے جس بھی بڑے نے توبہ کی؛ اور اپنے گناہ سے رجوع کیا ؛ تو انہیں نے اس کی تعظیم اور اطاعت ہی کی ہے۔ او رجس نے توبہ نہیں کی؛ وہ اس کے دشمن اسی وجہ سے بن گئے کہ وہ اس معاملہ کو گناہ شمار کرتے تھے؛ بھلے وہ [حقیقت میں ] گناہ نہ بھی ہو۔‘‘
پس اس سے معلوم ہوا کہ توبہ اوراستغفار نفرت کا موجب نہیں ہیں ؛ اور نہ ہی ان کی موجودگی میں ثقہ اور اعتماد ختم ہوتا ہے۔ اس کے عین برخلاف پاک دامنی کا مدعی اور عفت و طہارت کا ڈھنڈورہ پیٹنے والا کہیں زیادہ رجوع و انابت الی اﷲ کا محتاج ہے،یقیناً اس سے نفرت پیدا ہوتی ہے اور اعتماد ختم ہوتا ہے۔اور ایسی حرکت کا ارتکاب کسی انتہائی جھوٹے اور جاہل سے ہی ہوسکتا ہے۔جب کہ پہلی قسم یعنی توبہ و استغفار کا صدور جہان بھر کے سچے اور اہل علم لوگوں سے ہوتا ہے۔یہ بات انتہائی واضح ہے کہ کسی ایک نے انبیائے کرام علیہم السلام میں سے کسی نبی کی نبوت پر اس وجہ سے قدح کی ہو ؛ اور نہ ہی کسی نے ان پر عدم ثقاہت کا کہا۔ کیونکہ نصوص شریعت اس پر دلالت کرتی ہیں کہ ان کی توبہ قبول کرلی گئی۔ مسلمانوں کو ان نصوص میں ایسی تاویل کی کوئی ضرورت نہیں جو کہ تحریف کی جنس سے شمار ہوتی ہے۔ جیسے بعض لوگ ایسی حرکتیں کرتے ہیں ۔ تورات میں اس طرح کی عبارت موجودہے۔ہمارے علم کی حد تک بنی اسرائیل یا کسی اور قوم نے کسی بھی کام سے صرف توبہ کرنے کے جرم میں کسی نبی کو ہدف ملامت نہیں بنایا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ان پر جھوٹے الزامات لگاکر ان پر قدح کیا کرتے تھے۔ جیسے وہ حضرت موسی علیہ السلام کو تکلیف دیا کرتے تھے۔ وگرنہ نبوت سے قبل حضرت موسی علیہ السلام کے ہاتھوں قبطی کا قتل ہوا تھا۔ جس سے آپ نے توبہ کرلی تھی۔ اور ایسے ہی پھر آپ نے نبوت کے بعد اللہ تعالیٰ سے دیدار کے مطالبہ سے توبہ کی۔ہمارے علم کی حد تک بنی اسرائیل میں سے کسی ایک نے اس وجہ سے ان پر قدح نہیں کی۔ایسے ہی جو کچھ سورت نجم میں پیش آیا ہے؛ جیسا کہ اس واقعہ میں ہے کہ:یوں کہا:’’وہ بڑی شان والی مورتیاں ہیں ؛ جن کی شفاعت کی امید کی جاتی ہے۔‘‘سلف و خلف کے ہاں یہ مشہور ہے کہ ایسا کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک پر جاری ہوگیا تھا۔ پھر اس تعالیٰ نے اسے ختم کرکے باطل کردیا۔یہ واقعہ ان لوگوں کے قول کے مطابق سب سے بڑا افتراء ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سارے لوگ اس واقعہ کو جھٹلاتے چلے آئے ہیں ۔اگر چہ کچھ لوگ اس کو جائز بھی قرار دیتے آئے ہیں ۔ یا تو نبوت سے پہلے یا پھر نبوت کے بعد۔ کیونکہ ان کا یہ خیال ہے کہ ایسا کرنے سے تبلیغ میں خطأ واقع ہوتی ہے۔ جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تبلیغ دین کے سلسلہ میں بالاتفاق معصوم ہیں ۔جب کہ متفق علیہ عصمت سے مراد یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطا پر برقرار نہ رہنے دیا جائے۔ اس پر تمام لوگوں کا اجماع ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی ایک بھی مشرک کے بارے میں معلوم نہیں ہو سکا کہ اس نے کسی مسئلہ میں آپ کے رجوع کرنے کی وجہ سے آپ سے دوری اختیار کی ہو۔ اور آپ کا یہ فرمان : یہ کلمات شیطان نے ڈال دیے تھے۔ لیکن یہ روایت میں ضرور موجود ہےکہ پھر دوبارہ سے جب آپ نے ان کے معبودوں کی مذمت شروع کردی تو لوگ آپ سے بدکنے اور دور رہنے لگ گئے۔ حالانکہ پہلے انہوں نے یہ گمان کر لیاتھا کہ آپ نے ان کے معبودوں کی تعریف کی ہے۔آپ کا رجوع کرنا اس لیے تھا کہ آپ ہمیشہ ان جھوٹے معبودوں کی مذمت کرتے رہتے تھے۔ ایسا نہیں تھا کہ آپ نے ایک بات کہہ کر پھر یہ کہہ دیا کہ یہ شیطان کی طرف سے القاء ہوگئی تھی۔ جب ایسا واقعہ نفور کا سبب نہیں بنا ؛ تو دوسرے واقعات بالاولی نفور کا سبب نہیں بن سکتے تھے۔مزید برآں یہ ثابت ہے کہ نسخ کی وجہ سے ایک گروہ متنفر ہوگیا تھا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کافرمان گرامی ہے:﴿سَیَقُوْلُ السُّفَھَائُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلّٰھُمْ عَنْ قِبْلَتِھِمُ الَّتِیْ کَانُوْا عَلَیْھَا﴾(البقرۃ ۱۴۲) ’’عنقریب کچھ بے وقوف کہیں گے کس چیز نے انھیں ان کے اس قبلہ سے پھیر دیا جس پر وہ تھے؟۔‘‘اور اللہ تعالیٰ کافرمان گرامی ہے:﴿وَ اِذَا بَدَّلْنَآ اٰیَۃً مَّکَانَ اٰیَۃٍ وَّ اللّٰہُ اَعْلَمُ بِمَا یُنَزِّلُ قَالُوْٓا اِنَّمَآ اَنْتَ مُفْتَرٍ بَلْ اَکْثَرُھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ(۱۰۱) قُلْ نَزَّلَہٗ رُوْحُ الْقُدُسِ مِنْ رَّبِّکَ بِالْحَقِّ لِیُثَبِّتَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا﴾[النحل ۱۰۱۔۱۰۲] ’’اور جب ہم کوئی آیت کسی دوسری آیت کی جگہ بدل کر لاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ زیادہ جاننے والا ہے جو وہ نازل کرتا ہے، تو وہ کہتے ہیں تو تو گھڑ کر لانے والا ہے، بلکہ ان کے اکثر نہیں جانتے۔کہہ دے اسے روح القدس نے تیرے رب کی طرف سے حق کے ساتھ تھوڑا تھوڑا کرکے نازل کیا ہے، تاکہ ان لوگوں کو ثابت قدم رکھے جو ایمان لائے۔‘‘پس احکام کی تبدیلی جس کی صراحت موجود ہے کہ وہ نفور کا سبب تھی؛ اوربہت سارے لوگ اس وجہ سے آپ سے دور ہوگئے تھے۔ یہ ایسی چیز نہیں تھی جس کی وجہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نفی کی جائے۔تو پھر رجوع حق کے بارے میں کیا کہا جاسکتا ہے؛ جس کے بارے میں یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ وہ اس کی وجہ سے متنفر ہوئے ہوں ۔ بلکہ یہ امر بہت کم نفور کا سبب بنتا ہے ۔کیونکہ نسخ میں ایک حق سے دوسرے حق کی طرف رجوع کیا جاتا ہے ۔جبکہ اس کے بیان کے مطابق وہ حق سے غیر حق کی طرف لوٹتے ہیں ۔ یہ سبھی جانتے ہیں کہ جب انسان باطل کو ترک کرکے حق کی طرف رجوع کرتا ہے تواس کی وہ تعریف و توصیف ہوتی ہے جو اس کے باطل پر باقی رہنے اور اسے حق ثابت کرنے کے لیے زور لگانے پرنہیں کی جاسکتی۔ پسجب توبہ کرنا جائز ہے تووہ اس کے زیادہ حق دار ہیں ۔اور جب یہ مصلحت ہے تو پھر اس میں بہت بڑے فوائد اورمصلحتیں ہیں ۔ اور اگرتوبہ اوراس کے علم میں بندوں کی بہت بڑی مصلحتیں نہ ہوتیں تو اللہ تعالیٰ سبحانہ و تعالیٰ کئی ایک مواقع پر اس کا ذکر اور تعریف نہ کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے انبیائے کرام علیہم السلام میں سے کسی بھی نبی کی کسی لغزش؍ کوتاہی کا ذکر نہیں کیا؛ مگر ساتھ ہی اس کی توبہ کا بھی ذکر کیا ہے؛ تاکہ نقص اور عیوب سے ان کی پاکیزگی اور نزاہت کو بیان کیا جاسکے۔ اوریہ بھی بیان ہو کہ اس توبہ کی وجہ سے ان کا مقام ومرتبہ ؛ درجات اوراحسانات اور اللہ تعالیٰ کی اس وجہ سے اور بڑھ گئے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں توبہ و استغفار اور نیک اعمال کی توفیق دی؛ اوروہ اس لغزش کے بعد نیک اعمال بجا لاتے رہے؛ تاکہ یہ چیز قیامت تک آنے والے انبیائے کرام علیہم السلام کے پیروکاروں کے لیے ایک اسوہ حسنہ ہو جائے۔یہی وجہ ہے کہ جب عزیز مصرکی بیوی کے قصہ میں حضرت یوسف علیہ السلام کی توبہ کا ذکر کیا؛ تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت سے اصل میں گناہ صادر ہوا ہی نہیں ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے کئی امور کاذکر کرکے آپ کی پاکیزگی اور طہارت بیان کی ہے؛ ارشاد ربانی ہے:﴿ کَذٰلِکَ لِنَصْرِفَ عَنْہُ السُّوْٓئَ وَ الْفَحْشَآئَ اِنَّہٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِیْنَ﴾(یوسف۲۴)’’تاکہ ہم اس سے برائی اور بے حیائی کو ہٹا دیں ۔ بیشک وہ ہماریمخلص بندوں سے تھا۔‘‘اور اللہ تعالیٰ نے[ اس سے پہلے]ارشاد فرمایا :﴿وَ لَقَدْ ھَمَّتْ بِہٖ وَ ھُمَّ بِھَا لَوْ لَآ اَنْ رَّاٰ بُرْھَانَ رَبِّہٖ﴾(یوسف۲۴)’’اور بلاشبہ یقیناً وہ اس کے ساتھ ارادہ کر چکی تھی اور وہ بھی اس عورت کے ساتھ ارادہ کر لیتا اگر یہ نہ ہوتا کہ اس نے اپنے رب کی دلیل دیکھ لی۔‘‘’’ ھم ‘‘(یعنی ارادہ ) کی دو قسمیں ہیں ؛ جیسا کہ امام احمد رحمہ اللہ نے فرمایاہے؛ ایک ارادہ صرف ایک خیال سا آنا اور گزر جانا ہے۔ اور دوسرا اس پر اصرار کرنا ہے۔ جیسا کہ صحیحین میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا : ’’ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :جب میرا بندہ نیکی کا ارادہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : اس کے لیے پوری نیکی لکھ دو۔ اور جب وہ نیکی کا کام کر لیتا ہے تو اس کے لیے دس گنا سے سات سو گنا تک نیکیاں لکھی جاتی ہیں ۔اور جب کسی برائی کا ارادہ کرتا ہے؛ اور پھر اس پر عمل نہیں کرتا؛ تواس کے لیے کوئی برائی نہیں لکھی جاتی ۔ اور جب اس گناہ کو ترک کردیتا ہے تو اس کے لیے مکمل نیکی لکھ دی جاتی ہے کیونکہ اس نے قدرت کے باوجود گناہ ترک کیا ہے۔‘‘ [1] [1] البخاری ؛ کتاب الرِقاقِ، باب من ہم بِحسنۃ أو سیِئۃ؛ مسلِم 1؍118 ؛ ِکتاب الإِیمانِ، باب إِذا ہم العبد بِحسنۃ....المسندِ ؛ ط. المعارِفِ رقم 3402 ۔پس حضرت یوسف علیہ السلام کو جب یہ خیال آیا؛ تو آپ نے اللہ تعالیٰ کے رضا کے لیے اس خیال کو ترک کردیا ۔ تو اللہ تعالیٰ نے اس کے بدلہ میں کامل نیکی آپ کے لیے لکھ دی؛ اور آپ کے نام اعمال میں کوئی برائی نہیں لکھی گئی ۔ اس کے برعکس عزیز مصر کی بیوی نے جب ارادہ کیا؛ اور پھر اسے پورا کرنے کی کوشش بھی کی؛ اور زبان سے اس کا اظہار بھی کیا۔ اور اپنے عمل سے آپ کو ورغلانے کی کوشش بھی کی؛ اور پھراپنے شوہر کے سامنے حضرت پر جھوٹ بھی بولا؛ اور دوسری خواتین سے اس برائی پر مدد حاصل کرنے کی کوشش کی ۔ اورجب آپ پاکدامن ہی رہے؛ اور اور اس گناہ کے سلسلہ میں اس کی بات نہ مانی؛ تو پھر آپ کو قید کروا دیا۔اسی لیے[کہنے لگی] ارشاد فرمایا:﴿وَ مَآ اُبَرِّیُٔ نَفْسِیْ اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَۃٌ بِالسُّوْٓئِ اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّیْ اِنَّ رَبِّیْ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ﴾(یوسف۵۳) ’’اور میں اپنے نفس کو بری نہیں کرتی، بے شک نفس تو برائی کا بہت حکم دینے والا ہے مگر جس پر میرا رب رحم کرے۔ بے شک میرا رب بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔‘‘یہ عزیز مصرکی بیوی کا قول ہے ؛ حضرت یوسف علیہ السلام کا قول نہیں ؛ جیسا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے۔ بلکہ اس نے یہ بات اس وقت کہی جب حضرت یوسف علیہ السلام وہاں پرموجود نہیں تھے؛ جیل میں تھے۔ ابھی تک بادشاہ کے پاس نہیں آئے تھے۔ بلکہ جب بادشاہ کے جواب طلب کرنے پر اس عورت اوردیگر خواتین نے آپ کی برأت کا اقرار کیا تو اس وقت یہ کہا۔ یہ اس وقت ہوا جب بادشاہ نے آپ کو طلب کیا: [قرآن کریم میں ہے]:﴿وَ قَالَ الْمَلِکُ ائْتُوْنِیْ بِہٖٓ اَسْتَخْلِصْہُ لِنَفْسِیْ فَلَمَّا کَلَّمَہٗ قَالَ اِنَّکَ الْیَوْمَ لَدَیْنَا مَکِیْنٌ اَمِیْنٌ﴾(یوسف۵۴)’’ اور بادشاہ نے کہا اسے میرے پاس لاؤ کہ میں اسے اپنے لیے خاص کر لوں ، پھر جب اس نے اس سے بات کی تو کہا بلاشبہ تو آج ہمارے ہاں صاحب اقتدار، امانتدار ہے۔‘‘رہ گیا یہ کہ جو اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کی کوتاہی اور توبہ کا ذکر کیا ہے؛ جیسا کہ ارشاد فرمایا :﴿ وَ عَصٰٓی اٰدَمُ رَبَّہٗ فَغَوٰی(۱۲۱) ثُمَّ اجْتَبٰہُ رَبُّہٗ فَتَابَ عَلَیْہِ وَ ھَدٰی﴾(طہ ۱۲۲) ’’ اور آدم نے اپنے رب کی نافرمانی کی اوروہ راہ سے ہٹ گئے۔پھر اس کے رب نے اسے چن لیا، پس اس کی توبہ قبول فرمائی اور ہدایت دی۔‘‘اور ارشاد فرمایا :﴿فَتَلَقَّیٰٓ اٰدَمُ مِنْ رَّبِّہٖ کَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَیْہِ اِنَّہٗ ھُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ﴾ (البقرۃ ۳۷)’’ پھر آدم نے اپنے رب سے چند کلمات سیکھ لیے، تو اس نے اس کی توبہ قبول کر لی، یقیناً وہی ہے جو بہت توبہ قبول کرنے والا، نہایت رحم والا ہے۔‘‘ایسے ہی حضرت داؤد علیہ السلام کے بارے میں ارشاد فرمایا:﴿وَظَنَّ دَاوُودُ اَنَّمَا فَتَنَّاہُ فَاسْتَغْفَرَ رَبَّہٗ وَخَرَّ رَاکِعًا وَاَنَابَ (24) فَغَفَرْنَا لَہٗ ذٰلِکَ وَاِِنَّ لَہٗ عِنْدَنَا لَزُلْفَی وَحُسْنَ مَآبٍ﴾ (ص 25) ’’ اور داؤد نے یقین کر لیا کہ بے شک ہم نے اس کی آزمائش ہی کی ہے تو اس نے اپنے ر ب سے بخشش مانگی اور رکوع کرتا ہو ا نیچے گر گیا اور اس نے رجوع کیا۔تو ہم نے اسے یہ بخش دیا اور بلاشبہ اس کے لیے ہمارے پاس یقیناً بڑا قرب اور اچھا ٹھکانا ہے۔‘‘ایسے ہی حضرت موسی علیہ السلام سے ارشاد فرمایا:﴿ اِِنِّی لاَ یَخَافُ لَدَیَّ الْمُرْسَلُوْنَ (10) اِِلَّا مَنْ ظَلَمَ ثُمَّ بَدَّلَ حُسْنًا بَعْدَ سُوْٓئٍ فَاِِنِّیْ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ﴾ (النمل 11) ’’بے شک میں ، میرے پاس رسول نہیں ڈرتے۔مگر جس نے ظلم کیا، پھر برائی کے بعد بدل کر نیکی کی تو بے شک میں بے حد بخشنے والا، نہایت مہربان ہوں ۔‘‘اور جو کوئی انبیائے کرام علیہم السلام سے گناہ ؍غلطی کے صدور کے امتناع پراحتجاج کرتا ہے؛ اس لیے کہ ان کی اقتداء مشروع ہے۔ جب کہ گناہ کی اقتداء جائز نہیں ہے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ: ’’بیشک انبیائے کرام علیہم السلام کی اقتداء ان امور میں ہوتی ہیں جن پر انہیں برقرار رکھا جائے؛ نہ کہ ان امور میں جن سے انہیں منع کردیا جائے۔ جیساکہ ان کی اقتداء ان امور میں ہوتی ہے جن پر وہ برقرار رہے ہوں ؛ اور وہ منسوخ نہ ہوئے ہوں ؛ یا انہیں بھلا نہ دیا گیا ہو۔اس وقت ان کی اقتداء مشروع اورماموربہ ہوتی ہے؛ان کا وقوع ان سے نہیں ہوتا؛ اور نہ ہی اس پر انہیں برقرار رہنے دیا جاتاہے۔جیسا کہ منسوخ شدہ امور میں با لاتفاق ان کی اطاعت جائز نہیں ہے۔ اس سے واضح ہوا کہ منسوخ ہونا؛بہت زیادہ نفور کاسبب بنتا ہے؛ جب انسان ایک چیز کو چھوڑ کو دوسری کو اختیار کرتا ہے۔ اور کہتا ہے:جو کام میں پہلے کر رہا تھا؛ وہ بھی حق ہے؛ میرے رب نے مجھے اس کا حکم دیا تھا۔ اور اب اس سے رجوع کرنے کا حکم بھی مجھے میرے رب نے دیا ہے۔ یہ اس کی نسبت نفور کے زیادہ قریب ہے کہ کوئی کہے : جس چیز کا میرے رب نے مجھے حکم نہیں دیا؛ میں اس سے رجوع کرتا ہوں ۔ بیشک سارے لوگ ایسے انسان کی تعریف کریں گے۔ اور جو کوئی کہے کہ: میرا اس چیز پر عمل کرنا بھی حق تھا؛ اور اب اس کو چھوڑنا بھی حق ہے۔ یہ بات نفرت کا زیادہ بڑا سبب بنتی ہے۔ کیونکہ اکثر لوگوں میں اتنی عقلی اہلیت نہیں ہوتی۔ اور بہت سارے یہودیوں اور دوسرے لوگوں نے اس [یعنی کسی شرعی حکم کی منسوخی ] کا انکار بھی کیا ہے۔