لوازم نبوت اور اس کی شروط :عصمت نبوت کے مسئلہ میں یہ جاننا بھی بہت ضروری اور واضح ہے کہ نبوت کے لوازمات اورشروط کیا ہیں ؟ بیشک اس مسئلہ میں لوگوں نے اپنے اصولوں کے مطابق گفتگو کی ہے؛ جو انہوں نے اللہ تعالیٰ کے افعال کے متعلق مقرر کر رکھے ہیں ۔ جب کہ کسی کو نبی یارسول بنانا صرف اورصرف اللہ تعالیٰ کے افعال میں سے ہے۔ پس جو کوئی اللہ تعالیٰ کے افعال میں حکم و اسباب کے منکر ہیں ؛ وہ اسے اس کی محض مشئیت سے معلق قرار دیتے ہیں ۔ اوروہ ہر
اس ممکن فعل کو جائز کہتے ہیں جس سے اللہ تعالیٰ کی تنزیہ وارد نہ ہوئی ہو۔جیسا کہ جہم بن صفوان اور بہت سارے دوسرے لوگوں کا عقیدہ ہے؛ جیسا کا اشعری اور اس کے ہمنوا اہل کلام ؛ خواہ وہ امام شافعی کے اتباع کار ہوں یا امام مالک اور احمد اور کسی دیگر کے؛ جو کہ تقدیر کو مانتے ہیں ۔ ان کے نزدیک کسی بھی مکلف کو رسول بنانا جائزہے۔ان کے نزدیک نبوت فقط اس چیز کی اطلاع ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس کی طرف وحی کی ہوتی ہے۔ اور رسالت صرف اللہ تعالیٰ کے ان احکام کی تبلیغ کا نام ہے جو اس رسول کی طرف وحی کئے گئے ہوتے ہیں ۔ان کے نزدیک نبوت کوئی ایسی ثبوتی صفت نہیں ہے؛ اور نہ ہی کسی مخصوص صفت کو مستلزم ہے۔ بلکہ ایک اضافی صفت ہے ؛ جیسا کہ یہ لوگ یہی بات احکام شریعت کی بابت بھی کہتے ہیں ۔یہ اہل کلام کے چندگروہوں کا عقیدہ ہے ؛ جیسا کہ جہم بن صفوان؛ اشعری اور ان دونوں کے پیروکار۔ یہی وجہ ہے کہ جو لوگ یہ عقیدہ نہیں رکھتے؛ جیسے قاضی ابوبکر؛ اور ابو المعالی؛ اور دیگر حضرات رحمہم اللہ ؛ تو وہ کہتے ہیں : عقل سوائے اور تبلیغ کے کسی چیز میں عصمت نبوت کو واجب نہیں کرتی ۔ بیشک تبلیغ دین معجزات کا مدلول ہوتی ہے۔ اس کے سوا جتنے بھی امور میں اگر ان پر شریعت کی کوئی دلیل موجود ہو تو ٹھیک ؛ ورنہ ان میں عصمت واجب نہیں ہوتی۔ ان کے محققین جیسے ابو المعالی اور دیگر حضرات کہتے ہیں : شریعت میں کوئی ایسی قطعی دلیل موجود نہیں ہے جو عصمت کو واجب کرتی ہو۔ظواہر احوال دلالت کرتے ہیں کہ ان سے گناہ کا وقوع ہوسکتا ہے؛جیسا کہ قاضی ابوبکر اوردیگر نے تبلیغ دین کے علاوہ دیگرامورمیں ثابت کیا ہے؛ اور یہ امر موارد اجماع میں سے ہے۔ اور اس لیے کہ اجماع حجت ہوتا ہے۔ اور جو کچھ اس کے علاوہ کہا گیا ہے اس پر نہ ہی کوئی شرعی دلیل موجود ہے اور نہ ہی عقلی دلیل۔معتزلہ اور ان کے موافقین شیعہ اور دوسرے لوگوں نے احتجاج کیا ہے کہ ایسا ہونا تنفیر کا موجب ہے؛ وغیرہ ۔پس اللہ تعالیٰ کی حکمت کے تحت واجب ہے کہ وہ ان انبیائے کرام علیہم السلام کو گناہوں سے دور رکھے۔ ان کا کہنا ہے کہ: اس کی اصل بنیاد عقلی تحسین و تقبیح پر ہے۔ اور کہتے ہیں : ہم یہ نہیں کہتے کہ اللہ تعالیٰ پر کوئی چیز واجب ہوتی ہے؛ اس کی ہر چیز ہی اچھی ہوتی ہے۔بیشک ہم صرف اس چیز کا انکار کرتے ہیں جس کی نفی دلیل سمعی سے ثابت ہے۔ اوراس چیز کے وقوع کو واجب کہتے ہیں جس کا وقوع دلیل سمعی سے ثابت ہو۔جیسا کہ ہم اطاعت گزاروں کے ثواب اور کافروں کے عقاب کو صرف اس لیے واجب کہتے ہیں کہ دلائل اس کے شاہد ہیں کہ اللہ تعالیٰ ایسے کریں گے۔ اور ہم مشرک کی مغفرت کا انکار کرتے ہیں ؛ اس لیے کہ نصوص اس پر دلالت کرتی ہیں ۔باقی مسائل میں بھی اسی طرح ہے۔بہت سارے قدریہ ؛ معتزلہ ؛ شیعہ اور دیگر فرقے جو کہ اصل میں عدل اور عدم جور کے اصول کا عقیدہ رکھتے ہیں ؛ وہ کہتے ہیں : ’’بیشک اللہ تعالیٰ کسی ایک شخص کو دوسرے شخص پر فضیلت صرف اس کے اعمال کی وجہ سے دیتے ہیں ۔ اوروہ کہتے ہیں : بیشک نبوت اور رسالت سابقہ عمل کی جزاء اور بدلہ ہیں ۔ پس کسی نبی وہ نیک اعمال کئے ہوتے ہیں جس کی بنا پر وہ نبوت کا مستحق قرار پاتا ہے۔جب قدریہ فرقہ کے لوگ جہمیہ جبریہ کے بالکل مد مقابل ہیں ؛ یہ دونوں فرقے دو مختلف کناروں پر ہیں ۔جب قدم عالم اور علت موجبہ کے قائلین فلاسفہ اس انکار کے باوجود کہ اللہ تعالیٰ کوئی کام اپنی قدرت اور مشئیت سے کرتے ہیں ؛ وہ کہتے ہیں :اللہ تعالیٰ نبوت کے جزئیات کو جانتے ہیں ۔ پس ان کے نزدیک نبوت ایک فیض ہے؛ جس سے کسی انسان کو اس کی استعداد کے مطابق فیضیاب کیا جاتا ہے۔ ان کے نزدیک نبوت ایک کسبی امر ہے۔ جو کوئی اپنی علمی قوت میں امتیازی حیثیت کا حامل ہو؛ اس طرح کہ اسے کسی سے سیکھنے کی ضرورت نہ رہے؛تو اس کے نفس میں ایسا خطاب تشکیل دیا جاتا ہے جیسے وہ ایسے سنتا ہے جیسے کومحو نیند انسان سنتا ہے؛ جب کوئی اور انسان اس سے ایسے مخاطب ہو جیسے سوئے ہوئے کوخطاب کیا جاتا ہے۔اور وہ علمی اعتبار سے اتنا مؤثر ہو کہ عنصریات پر اپناایک غریب اثر چھوڑے؛وہ ان کے نزدیک نبی ہے۔ وہ کسی ایسے صاحب فضیلت ملائکہ کے قائل نہیں ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی لیکر آتاہو؛ اور نہ ہی وہ کسی دوسرے فرشتے کے قائل ہیں ۔ اور نہ ہی کسی جنات کے وجود کو مانتے ہیں ؛ جن کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ انبیاء کے لیے خارق عادات امور صادر کرتے ہیں ۔وہ ان تمام کو قوت ِ نفس قرار دیتے ہیں ۔ یہ ان لوگوں کا عقیدہ اگرچہ کفار یہود و نصاری کے عقیدہ سے بھی براہے؛ اور ان عقائد سے بہت دور ہے جو انبیائے کرام علیہم السلام لیکر آئے ہیں ۔ پس بہت سارے وہ متاخرین بھی ان کے جال میں پھنس گئے جو نور نبوت کی کرنوں سے محروم رہ گئے تھے؛ کیونکہ ان لوگوں کا دعوی نظر عقلی ؛ اور صوفیاء کی خیالی کشف کا تھا۔ ان لوگوں کی انتہائی غایت فاسد قیاسات اور شکوک و شبہات تھے۔ اوردوسرے طبقہ کی غایت صرف فاسد خیالات اور سوچ و فکر ہے۔