انبیائے کرام علیہم السلام افضل ترین مخلوق ہیں:
امام ابنِ تیمیہؒانبیائے کرام علیہم السلام افضل ترین مخلوق ہیں:چوتھا قول: ....جس پر جمہور سلف امت اور ائمہ اور بہت سارے نظار ہیں ؛ یہ کہ : بیشک اللہ تعالیٰ لوگوں میں سے اور ملائکہ میں رسولوں کو منتخب کرتے ہیں ۔ اور اللہ تعالیٰ جانتے ہیں کہ انہوں نے اپنی رسالت کو کہاں رکھنا ہے۔ پس نبی کی کچھ خاص صفات ہوتی ہیں ؛ جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے انہیں دین اور عقل میں دوسرے لوگوں پر امتیازی حیثیت دی ہوتی ہے۔ اور انہیں ان صفات کے لیے تیار کیا ہوتا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے خاص فضل و رحمت کے لیے چن لیا ہوتا ہے۔ جیسا کہ فرمان الٰہی ہے:﴿وَقَالُوْا لَوْلاَ نُزِّلَ ہٰذَا الْقُرْاٰنُ عَلٰی رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْیَتَیْنِ عَظِیْمٍ (31) اَہُمْ یَقْسِمُوْنَ رَحْمَۃَ رَبِّکَ نَحْنُ قَسَمْنَا بَیْنَہُمْ مَعِیْشَتَہُمْ فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَرَفَعْنَا بَعْضَہُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ ﴾[الزخرف ۳۰۔۳۱]’’ اور انھوں نے کہا یہ قرآن ان دوبستیوں میں سے کسی بڑے آدمی پر کیوں نازل نہ کیا گیا؟ کیا وہ تیرے رب کی رحمت تقسیم کرتے ہیں ؟ہم نے خود ان کے درمیان ان کی معیشت دنیا کی زندگی میں تقسیم کی اور ان میں سے بعض کو بعض پر درجوں میں بلند کیا۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿مَا یَوَدُّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ وَ لَا الْمُشْرِکِیْنَ اَنْ یُّنَزَّلَ عَلَیْکُمْ مِّنْ خَیْرٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَ اللّٰہُ یَخْتَصُّ بِرَحْمَتِہٖ مَنْ یَّشَآئُ وَ اللّٰہُ ذُوْ الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ﴾ (بقرہ ۱۰۵) ’’اہل کتاب میں سے جن لوگوں نے کفر کیا، نہ وہ پسند کرتے ہیں اور نہ مشرکین کہ تم پر تمھارے رب کی طرف سے کوئی بھلائی اتاری جائے اور اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کے ساتھ جسے چاہتا ہے خاص کر لیتا ہے اور اللہ تعالیٰ بہت بڑے فضل والا ہے۔‘‘اور اللہ تعالیٰ انبیائے کرام علیہم السلام کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :﴿ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِہٖ دَاوٗدَ وَ سُلَیْمٰنَ وَ اَیُّوْبَ وَ یُوْسُفَ وَ مُوْسٰی وَ ھٰرُوْنَ وَ کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَOوَ زَکَرِیَّا وَ یَحْیٰی وَ عِیْسٰی وَ اِلْیَاسَ کُلٌّ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَO وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ یُوْنُسَ وَ لُوْطًا وَ کُلًّا فَضَّلْنَا عَلَی الْعٰلَمِیْنَO وَ مِنْ اٰبَآئِھِمْ وَ ذُرِّیّٰتِھِمْ وَ اِخْوَانِھِمْ وَ اجْتَبَبْنٰھُمْ وَ ھَدَیْنٰھُمْ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ ﴾ [الانعام۸۷] ’’ اور اس کی اولاد میں سے داؤد اور سلیمان اور ایوب اور یوسف اور موسیٰ اور ہارون کو اور اسی طرح ہم نیکی کرنے والوں کو جزا دیتے ہیں ۔اور زکریا اور یحییٰ اور عیسیٰ اور الیاس کو، یہ سب نیک لوگوں میں سے تھے۔اور اسماعیل اور الیسع اور یونس اور لوط کو، اور ان سب کو جہانوں پر فضیلت دی۔ اور ان کے باپ دادا اور ان کی اولاد وں اور ان کے بھائیوں میں سے بعض کو بھی اور ہم نے انھیں چنا اور انھیں سیدھے راستے کی طرف ہدایت دی۔‘‘تو اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ اس نے انہیں چن لیا ہے اور ہدایت سے بہرہ ور کیا ہے۔انبیائے کرام علیہم السلام باتفاق مسلمین افضل ترین مخلوق ہوتے ہیں ۔ ان کے بعد صدیقین ان کے بعد شہداء اوران کے بعد صالحین کا درجہ آتا ہے۔ اور اگران کا مقربین میں سے ہونا واجب نہ ہوتا ؛ جن کا مقام اصحاب الیمین سے بھی اوپر ہوتا ہے؛ تو پھر صدیقین ان سے افضل ہوتے۔یا پھر ان میں سے بعض سے افضل ہوتے۔ اور بیشک اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو تین اصناف میں تقسیم کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ آخرت میں ان کی اس تقسیم کے بارے میں فرماتے ہیں :﴿ وَّکُنْتُمْ اَزْوَاجًا ثَلٰـثَۃً (7) فَاَصْحٰبُ الْمَیْمَنَۃِ مَا اَصْحٰبُ الْمَیْمَنَۃِ (8) وَاَصْحٰبُ الْمَشْئَمَۃِ مَا اَصْحٰبُ الْمَشْئَمَۃِ (9)وَالسَّابِقُوْنَ السَّابِقُوْنَ (10) اُوْلٰٓئِکَ الْمُقَرَّبُوْنَ (11) فِیْ جَنّٰتِ النَّعِیْمِ ﴾[الواقعہ]
’’ اور تم تین قسم (کے لوگ) ہو جاؤ گے۔پس دائیں ہاتھ والے، کیا(خوب) ہیں دائیں ہاتھ والے۔ اور بائیں ہاتھ والے ،کیا (برے) ہیں بائیں ہاتھ والے۔ اور جو پہل کرنے والے ہیں ، وہی آگے بڑھنے والے ہیں ۔ یہی لوگ قریب کیے ہوئے ہیں ۔نعمت کے باغوں میں ۔‘‘اورموت کے وقت تقسیم کی بابت اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿ فَاَمَّا اِِنْ کَانَ مِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ (88) فَرَوْحٌ وَرَیْحَانٌ وَّجَنَّۃُ نَعِیْمٍ (89) وَاَمَّا اِِنْ کَانَ مِنْ اَصْحٰبِ الْیَمِیْنِ (90) فَسَلٰمٌ لَّکَ مِنْ اَصْحٰبِ الْیَمِیْنِ (91) وَاَمَّا اِِنْ کَانَ مِنَ الْمُکَذِّبِیْنَ الضَّالِّینَ (92) فَنُزُلٌ مِّنْ حَمِیْمٍ (93) وَتَصْلِیَۃُ جَحِیْمٍ﴾[الواقعہ ]’’ پس لیکن اگر وہ ان لوگوں سے ہو ا جو قریب کیے ہوئے ہیں ۔ تو (اس کے لیے) راحت اور خوشبو دار پھول اور نعمت والی جنت ہے۔اور لیکن اگر وہ دائیں ہاتھ والوں سے ہوا۔ تو (کہا جائے گا) تجھ پر سلام (کہ تو) دائیں ہاتھ والوں سے ہے۔اور لیکن اگر وہ جھٹلانے والے گمراہ لوگوں سے ہوا۔تو اس کے لیے کھولتے ہوئے پانی کی مہمانی ہے۔اور جہنم میں داخل کیا جانا ہے۔‘‘ایسے ہی سورت دہر؛ اور سورت مطففین میں ان تین قسم کے لوگوں کا ذکر کیا گیا ہے۔پس انبیائے کرام علیہم السلام سب سے افضل ترین مخلوق ہیں ۔ان کے مقام و مرتبہ کا اثبات اس سیاق کا تقاضا ہے۔ آخرت میں بھی ان کے درجات بہت بلند ہوں گے۔ پس اب یہ ممتنع ہوتا ہے کہ کوئی نبی فجار میں سے ہو۔ بلکہ عمومی اصحاب یمین میں سے بھی نہیں ہوسکتا۔ بلکہ افضل ترین سابقین اولین میں سے بھی نہیں ہوتے۔ بیشک ان کا مقام و مرتبہ اس سے بلند و بالاہوتاہے؛ وہ عموم صدیقین اورشہداء اورصالحین سے بہت افضل و اعلی ہوتے ہیں ۔ بھلے انبیائے کرام علیہم السلام کو بھی صدیقین کی صفات سے موصوف کیا جاتا ہے۔ اور بہت سارے انبیائے کرام علیہم السلام شہادت کے مقام پر بھی فائز ہوتے ہیں ۔ لیکن مقام نبوت وہ مقام ہے جو انہی کے ساتھ خاص ہوتا ہے ؛ ان میں کوئی دوسرا غیر نبی ان کا شریک نہیں ہوسکتا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ حضرت ابراہیم خلیل علیہ السلام کے بارے میں فرماتے ہیں :﴿ وَ اٰتَیْنٰہُ اَجْرَہٗ فِی الدُّنْیَا وَ اِنَّہٗ فِی الْاٰخِرَۃِ لَمِنَ الصّٰلِحِیْنَ ﴾ (عنکبوت ۲۷) ’’ اور ہم نے اسے اس کا اجر دنیا میں دیا اور بے شک وہ آخرت میں یقیناً صالح لوگوں سے ہے۔‘‘اور اللہ تعالیٰ حضرت یوسف علیہ السلام کے بارے میں فرماتے ہیں [کہ انہوں نے دعا کی تھی O:﴿ تَوَفَّنِیْ مُسْلِمًا وَّ اَلْحِقْنِیْ بِالصّٰلِحِیْنَ ﴾ (یوسف۱۰۱) ’’ مجھے مسلم ہونے کی حالت میں فوت کر اور مجھے نیک لوگوں کے ساتھ ملادے۔‘‘ان آیات کی روشنی میں انبیاء کرام علیہم السلام کی اس امر سے تنزیہ اور پاکیزگی واجب ہوتی ہے کہ وہ فساق و فجار میں سے ہوں ۔ اس پر سلف امت اور جمہور مسلمین کااجماع ہے۔ اور یہ کہنا کہ کوئی غیر نبی کسی نبی سے افضل ہوسکتا ہے ؛ تویہ بعض متأخر ملحدین کا عقیدہ ہے جو کہ شیعہ ؛ فلاسفہ اور صوفیہ میں سے ہیں ۔اوردہریہ ؍خوارج کے فرقہ فضلیہ کے متعلق جو روایت کیا جاتا ہے کہ وہ نبی سے کفر کے صادر ہونے کو بھی جائز کہتے ہیں ؛ تو یہ بطریق لازم کے ہے۔ اس لیے کہ ان کے نزدیک ہر معصیت کا کام کفرہے۔ اوروہ نبیوں سے معصیت کے صدور کو جائز کہتے ہیں ۔ اس سے ان کے عقیدہ کی خرابی ظاہر ہوتی ہے؛ کہ وہ ہر نافرمانی اور معصیت کو کفر بھی کہتے ہیں ؛ اور انبیائے کرام سے اس کے صدور کو جائز بھی کہتے ہیں ۔ ورنہ وہ اس بات کا التزام نہیں کرتے کہ کوئی نبی کافر ہو۔ لازم مذہب کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ مذہب بھی ہو۔اہل کلام کے کچھ گروہ ہر مکلف کے نبی بننے کو جائز سمجھتے ہیں ۔ جہمیہ ؛ اشعریہ اور ان کے موافقین اتباع ائمہ اربعہ ؛ قاضی ابو یعلی اور ابن عقیل وغیرہ اس بات پر متفق ہیں کہ انبیاء تمام مخلوق سے افضل ہوتے ہیں ۔ اور یہ کہ بیشک کوئی نبی فاجر نہیں ہوسکتا۔ لیکن یہ یہ بھی کہتے ہیں کہ: یہ بات عقل سے معلوم نہیں ہوسکتی؛ ا س پر نقلی دلائل موجود ہیں ۔ پس سابقہ بحث کی روشنی میں ان کے اصول کا بیان گزر چکا کہ اللہ تعالیٰ کے لیے ہر ممکن فعل کا کرنا جائز ہے ۔جب کہ اسباب اور حکمت کو ماننے والے جمہور حضرات کا کہنا ہے کہ: ’’ ہمیں جو کچھ معلوم ہوا ہے ؛ اس سے ہم جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی حکمت یہ ہے کہ کسی فاجرکو نبی نہ بنایا جائے۔ اور یہ کہ جو کچھ سچے نبی پر نازل ہوتا ہے ؛ اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملائکہ لیکر آتے ہیں ؛ شیاطین نہیں ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿ وَاِِنَّہٗ لَتَنْزِیْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ (192) نَزَلَ بِہِ الرُّوْحُ الْاَمِیْنُ (193) عَلٰی قَلْبِکَ لِتَکُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِیْنَ (194) ﴾.... إلی قولہ تعالیٰ....:﴿ ہَلْ اُنَبِّیُٔکُمْ عَلٰی مَنْ تَنَزَّلُ الشَّیَاطِینُ (221) تَنَزَّلُ عَلٰی کُلِّ اَفَّاکٍ اَثِیْمٍ (222) یُلْقُوْنَ السَّمْعَ وَاَکْثَرُہُمْ کَاذِبُوْنَ (223) وَالشُّعَرَائُ یَتَّبِعُہُمُ الْغَاوُونَ (224) اَلَمْ تَرَی اَنَّہُمْ فِیْ کُلِّ وَادٍ یَہِیْمُوْنَ (225) وَاَنَّہُمْ یَقُوْلُوْنَ مَا لاَ یَفْعَلُوْنَ ﴾[شعراء] ’’اور بے شک یہ یقیناً رب العالمین کا نازل کیا ہوا ہے۔جسے امانت دار فرشتہ لے کر اترا ہے۔ تیرے دل پر، تاکہ تو ڈرانے والوں سے ہو جائے۔....آگے ان آیات تک .... : کیا میں تمھیں بتاؤں شیاطین کس پر اترتے ہیں ۔ وہ ہر زبردست جھوٹے، سخت گنہگار پر اترتے ہیں ۔وہ سنی ہوئی بات لا ڈالتے ہیں اور ان کے اکثر جھوٹے ہیں ۔اور شاعر لوگ، ان کے پیچھے گمراہ لوگ لگتے ہیں ۔کیا تو نے نہیں دیکھا کہ بے شک وہ ہر وادی میں سر مارتے پھرتے ہیں ۔اور یہ کہ بے شک وہ کہتے ہیں جو کرتے نہیں ۔‘‘
ان آیات کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے نبی اور کاہن ؛ اور نبی اور شاعر کے درمیان فرق کو واضح کیا ہے۔ اس لیے کہ جب افتراء پردازوں نے کہنا شروع کیا کہ: محمد صلی اللہ علیہ وسلم شاعر اور کاہن ہیں ؛[ تویہ آیات نازل ہوئیں ]۔ صحیحین میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے؛ فرماتی ہیں :’’بیشک جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر شروع میں وحی آئی تو آپ کو اپنے نفس پر خوف محسوس ہوا۔اس سے پہلے کہ آپ کو اس کے فرشتہ ہونے کا یقین ہو۔ آپ نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے کہا :’’ اے خدیجہ! کیا ہوگیا ہے کہ مجھے اپنی جان کا ڈر ہے۔‘‘تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا :’’ ہرگز نہیں ؛ اللہ تعالیٰ کی قسم! آپ کو اللہ تعالیٰ کبھی بھی رسوا نہیں کرے گا۔ آپ تو اللہ تعالیٰ کی قسم! صلہ رحمی کرتے ہیں ۔ سچ بات کرتے ہیں دردمندوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں مفلسوں کے لئے کسب کرتے ہیں اور مہمان کی ضیافت کرتے ہیں ۔ اور حق کی راہ میں پیش آنے والی مصیبتوں پر مدد کرتے ہیں ۔‘‘تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے اپنی حسنِ عقل سے استدلال کیا کہ جس کواللہ تعالیٰ ان اعلی ترین اخلاقیات کے لیے پیدا کیا ہو جو کہ ممدوحین نیکوکار لوگوں کی سب سے اعلی ترین صفات ہوسکتی ہیں ۔؛ تو اللہ تعالیٰ پاک آپ کو کبھی ایسا بدلہ نہیں دیں گے کہ شیطان ان کی عقل اور دین کو خراب کردے۔‘‘ اس سے پہلے آپ کے پاس کوئی وحی کا علم نہیں جس کی وجہ سے وہ اس بات کا انکار کر رہی ہوتیں ۔ بلکہ یہ سب کچھ انہیں ان کے راجح عقل کی وجہ سے معلوم ہوا تھا ۔اور ایسے ہی جب جھوٹے نبیوں نے نبوت کا دعوی کیا؛ جیسے مسیلمہ کذاب ؛ اسود عنسی وغیرہ ؛ اس کے باوجود کے ان کی معاملہ میں شبہات پائے جاتے تھے؛ کیونکہ ان پر شیاطین آتے؛ اور ان کی طرف اپنی باتیں وحی کرتے۔ حتی کہ جاہل لوگ گمان کرنے لگتے کہ یہ بھی بالکل وہی چیز ہے جو انبیاء پر نازل ہوتی ہے اور وحی آتیی ہے۔ مگر جو چیز عقلاء تک پہنچتی تھی؛ اور جو کچھ وہ ان کی سیرت و کردار ؛ کذب بیانی اور فحش گوئی اور ظلم و ستم اور اس طرح کے دیگر امور کو دیکھتے تھے؛ اس سے ان پر صاف واضح ہو جاتا تھا کہ یہ نبی نہیں ہیں ۔ اس لیے کہ انہیں علم تھا کہ کوئی بھی نبی کبھی جھوٹا اور فاجر نہیں ہوسکتا۔صحیحین میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے ؛کہ جب ذوالخویصرہ ۔جو قبیلہ بنی تمیم کا ایک شخص تھا ۔ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! انصاف کیجئے؛ آپ عدل نہیں کررہے۔‘‘تو آپ ٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:’’ تیری خرابی ہو اگر میں انصاف نہ کروں گا تو کون انصاف کرے گا؟ اگر میں انصاف نہ کروں تو بہت ناکام و نامراد ہوں ؛ کیا تم مجھے امین نہیں سمجھتے جبکہ میں آسمانوں کی وحی کا امین ہوں ۔‘‘ [1] [1] البخاری ؛کتاب المناقب ؛ باب مناقب النبوۃ۔۴؍۲۰۰۔ مسلم ۲؍۷۴۳۔کتاب الزکاۃ ؛ باب ذِکرِ الخوارِجِ وصِفاتِہِم ; سننِ أبِی داود 4؍335 ۔ 337 ؛ِ کتاب السنۃِ، باب فِی قِتالِ الخوارِجِ . وأول الحدِیثِ فِی البخارِیِ: ویلک ومن یعدِل ِإذا لم أعدِل قد خِبت وخسِرت ِإن لم أکن أعدِل ". وانظر: در تعارضِ العقلِ والنقلِ 7؍180 ۔ 181.۔اور صحیح روایت میں ضمیر خطاب کے ساتھ ہے؛یعنی تم ناکام و نامراد ہوئے ‘اگر میں عدل نہ کروں ۔‘‘ اگرتم یہ گمان رکھو کہ میں ظالم ہوں ؛ اور ساتھ ہی تمہارا اعتقاد میری نبوت پر بھی ہو۔ تو بیشک اس صورت میں تم اس رسول کے لیے ظلم کو جائز سمجھتے ہوجس پر تم ایمان بھی لائے ہو۔ یہ حقیقت میں ناکامی و نامرادی ہے۔ اس لیے کہ ایسا کام مقام نبوت کے منافی ہے؛ اور اس سے منصب نبوت پر قدح وارد ہوتی ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَ مَا کَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَّغُلَّ وَ مَنْ یَّغْلُلْ یَاْتِ بِمَا غَلَّ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ ﴾[آل عمران۱۶۱]‘‘اور کسی نبی کے لیے کبھی ممکن نہیں کہ وہ خیانت کرے، اور جو خیانت کرے گا وہ چیز قیامت کے دن لے کر آئے گا۔‘‘اس میں دو قرأتیں ہیں : ( یَغُلَّ)اور ( یُغَلَّ)جس میں خیانت کی طرف منسوب کیاجاتا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ سبحانہ و تعالیٰ نے یہ واضح کردیا ہے کہ کسی کے لیے خیانت کو نبی طرف منسوب کرنا بھی جائز نہیں ۔ پس یہ اس بات کی دلیل ہے کہ نبی کبھی خائن نہیں ہوسکتا۔اس عظیم الشان اصول کے دلائل بہت زیادہ ہیں ۔لیکن اس گناہ کا وقوع ؛ جو نبی کی نسبت سے گناہ ہے؛ وہ اس کے فوراً بعد توبہ و استغفار کی کثرت کی وجہ سے گناہ رہتا ہی نہیں ۔اور نہ ہی یہ کسی کے سابقین اولین اور نیک و کار مقربین میں سے ہونے پر جرح کا سبب ہوسکتا ہے۔ اور نہ ہی اس کی وجہ سے آخرت میں وعید لازم آتی ہے؛ چہ جائے کہ اس کی وجہ سے انہیں فجار میں شمار کیا جائے [معاذ اللہ تعالیٰ ]۔اللہ تعالیٰ اہل ایمان کے عمومی اوصاف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :﴿وَلِلَّہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ لِیَجْزِیَ الَّذِیْنَ اَسَآئُ وْا بِمَا عَمِلُوْا وَیَجْزِیَ الَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا بِالْحُسْنَی (31) الَّذِیْنَ یَجْتَنِبُوْنَ کَبَائِرَ الْاِِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ اِِلَّا اللَّمَمَ اِِنَّ رَبَّکَ وَاسِعُ الْمَغْفِرَۃِ ﴾[النجم ۳۱۔۳۲]’’ اور جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے اللہ تعالیٰ ہی کا ہے، تاکہ وہ ان لوگوں کو جنھوں نے برائی کی، اس کا بدلہ دے جو انھوں نے کیا اور ان لوگوں کو جنھوں نے بھلائی کی، بھلائی کے ساتھ بدلہ دے۔وہ لوگ جو بڑے گناہوں او ر بے حیائیوں سے بچتے ہیں مگر صغیرہ گناہ، یقیناً تیرا رب وسیع بخشش والا ہے۔‘‘اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿وَ سَارِعُوْٓا اِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَ جَنَّۃٍ عَرْضُھَا السَّمٰوٰتُ وَ الْاَرْضُ اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیْنَ O الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّآئِ وَ الضَّرَّآئِ وَ الْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَ الْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ Oوَ الَّذِیْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَۃً اَوْ ظَلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْذَکَرُوا اللّٰہَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذَنُوْبِھِمْ وَ مَنْ یَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللّٰہُ وَ لَمْ یُصِرُّوْا عَلٰی مَا فَعَلُوْا وَ ھُمْ یَعْلَمُوْنَO اُولٰٓئِکَ جَزَآؤُھُمْ مَّغْفِرَۃٌ مِّنْ رَّبِّھِمْ وَ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا وَ نِعْمَ اَجْرُ الْعٰمِلِیْنَ﴾[آل عمران ۱۳۳۔ ۱۳۶]
’’ اور ایک دوسرے سے بڑھ کر دوڑو اپنے رب کی جانب سے بخشش کی طرف اور اس جنت کی طرف جس کی چوڑائی آسمانوں اور زمین (کے برابر)ہے، ڈرنے والوں کے لیے تیار کی گئی ہے۔جو خوشی اور تکلیف میں خرچ کرتے ہیں اور غصے کو پی جانے والے اور لوگوں سے در گزر کرنے والے ہیں اور اللہ تعالیٰ نیکی کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔اور وہ لوگ کہ جب کوئی بے حیائی کرتے ہیں ، یا اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے ہیں ، پس اپنے گناہوں کی بخشش مانگتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے سوا اور کون گناہ بخشتا ہے؟ اور انھوں نے جو کیا اس پر اصرار نہیں کرتے، جب کہ وہ جانتے ہوں ۔یہ لوگ ہیں جن کی جزا ان کے رب کی طرف سے بڑی بخشش اور ایسے باغات ہیں جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں ، ہمیشہ ان میں رہیں گے اور یہ عمل کرنے والوں کا اچھا اجر ہے۔‘‘اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿وَالَّذِیْ جَائَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِہٖ اُوْلٰٓئِکَ ہُمُ الْمُتَّقُوْنَ (33) لَہُمْ مَا یَشَائُ وْنَ عِنْدَ رَبِّہِمْ ذٰلِکَ جَزَآئُ الْمُحْسِنِیْنَ (34) لِیُکَفِّرَ اللّٰہُ عَنْہُمْ اَسْوَاَ الَّذِیْ عَمِلُوْا وَیَجْزِیَہُمْ اَجْرَہُمْ بِاَحْسَنِ الَّذِیْ کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ﴾ (الزمر33۔ 35) اور وہ شخص جو سچ لے کر آیا اور جس نے اس کی تصدیق کی یہی لوگ بچنے والے ہیں ۔ان کے لیے ان کے رب کے پاس وہ کچھ ہے جو وہ چاہیں گے، یہی نیکی کرنے والوں کی جزا ہے۔تاکہ اللہ تعالیٰ ان سے وہ بد ترین عمل دور کر دے جو انھوں نے کیے اور انھیں ان کا اجر ان بہترین اعمال کے مطابق دے جو وہ کیا کرتے تھے۔‘‘اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿ حَتّٰی اِِذَا بَلَغَ اَشُدَّہٗ وَبَلَغَ اَرْبَعِیْنَ سَنَۃً قَالَ رَبِّ اَوْزِعْنِیْ اَنْ اَشْکُرَ نِعْمَتَکَ الَّتِیْٓ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَعَلٰی وَالِدَیَّ وَاَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰہُ وَاَصْلِحْ لِی فِیْ ذُرِّیَّتِی اِِنِّی تُبْتُ اِِلَیْکَ وَاِِنِّیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ (15) اُوْلٰٓئِکَ الَّذِیْنَ نَتَقَبَّلُ عَنْہُمْ اَحْسَنَ مَا عَمِلُوْا وَنَتَجاوَزُ عَنْ سَیِّاٰتِہِمْ فِیْ اَصْحٰبِ الْجَنَّۃِ وَعْدَ الصِّدْقِ الَّذِیْ کَانُوْا یُوْعَدُوْنَ ﴾ (الاحقاف 15۔16) ’’حتی کہ جب وہ اپنی پوری قوت کو پہنچا اور چالیس برس کو پہنچ گیا تو اس نے کہا اے میرے رب!
مجھے توفیق دے کہ میں تیری اس نعمت کا شکر کروں جو تو نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر انعام کی ہے اور یہ کہ میں وہ نیک عمل کروں جسے تو پسند کرتا ہے اور میرے لیے میری اولاد میں اصلاح فرما دے، بے شک میں نے تیری طرف توبہ کی اور بے شک میں حکم ماننے والوں سے ہوں ۔یہی وہ لوگ ہیں کہ ہم ان سے وہ سب سے اچھے عمل قبول کرتے ہیں جو انھوں نے کیے اور ان کی برائیوں سے در گزر کرتے ہیں ، جنت والوں میں ،سچے وعدے کے مطابق جو ان سے وعدہ کیا جاتا تھا۔‘‘اورحضرت ابراہیم علیہ السلام کے قصہ میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿فَاٰمَنَ لَہٗ لُوْطٌ وَ قَالَ اِنِّیْ مُھَاجِرٌ اِلٰی رَبِّیْ اِنَّہٗ ھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ﴾(عنکبوت۲۶)’’ تو لوط اس پر ایمان لے آیا اور اس نے کہا بے شک میں اپنے رب کی طرف ہجرت کرنے والا ہوں ، یقیناً وہی سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔‘‘اورحضرتشعیب علیہ السلام کے قصہ میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿قَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ اسْتَکْبَرُوْا مِنْ قَوْمِہٖ لَنُخْرِجَنَّکَ یٰشُعَیْبُ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَکَ مِنْ قَرْیَتِنَآ اَوْ لَتَعُوْدُنَّ فِیْ مِلَّتِنَا قَالَ اَوَ لَوْ کُنَّا کٰرِھِیْنَ٭ قَدِ افْتَرَیْنَا عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اِنْ عُدْنَا فِیْ مِلَّتِکُمْ بَعْدَ اِذْ نَجّٰنَا اللّٰہُ مِنْھَا وَ مَا یَکُوْنُ لَنَآ اَنْ نَّعُوْدَ فِیْھَآ اِلَّآ اَنْ یَّشَآئَ اللّٰہُ رَبُّنَا وَسِعَ رَبُّنَا کُلَّ شَیْئٍ عَلْمًا عَلَی اللّٰہِ تَوَکَّلْنَا رَبَّنَا افْتَحْ بَیْنَنَا وَ بَیْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَ اَنْتَ خَیْرُ الْفٰتِحِیْنَ ﴾[الاعراف۸۸۔۸۹]’’ اس کی قوم میں سے ان سرداروں نے کہا جو بڑے بنے ہوئے تھے، اے شعیب! ہم تجھے اور ان لوگوں کو جو تیرے ہمراہ ایمان لائے ہیں ، اپنی بستی سے ضرور ہی نکال دیں گے، یا ہر صورت تم ہمارے دین میں واپس آؤ گے۔ اس نے کہا اور کیا اگرچہ ہم ناپسند کرنے والے ہوں ؟یقیناً ہم نے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھا اگر ہم تمھاری ملت میں پھر آجائیں ، اس کے بعد کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس سے نجات دی اور ہمارے لیے ممکن نہیں کہ اس میں پھر آجائیں مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ چاہے، جو ہمارا رب ہے، ہمارے رب نے ہر چیز کا علم سے احاطہ کر رکھا ہے، ہم نے اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسا کیا، اے ہمارے رب! ہمارے درمیان اور ہماری قوم کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کر دے اور تو سب فیصلہ کرنے والوں سے بہتر ہے۔‘‘اورسورت ابراہیم میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿وَ قَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِرُسُلِھِمْ لَنُخْرِجَنَّکُمْ مِّنْ اَرْضِنَآ اَوْ لَتَعُوْدُنَّ فِیْ مِلَّتِنَا فَاَوْحٰٓی اِلَیْھِمْ رَبُّھُمْ لَنُھْلِکُنَّ الظّٰلِمِیْنَ﴾(ابراہیم۱۳) ’’اور ان لوگوں نے جنھوں نے کفر کیا، اپنے رسولوں سے کہا ہم ہر صورت تمھیں اپنی زمین سے نکال دیں گے، یا لازماً تم ہماری ملت میں واپس آؤ گے، تو ان کے رب نے ان کی طرف وحی کی کہ یقیناً ہم ان ظالموں کو ضرور ہلاک کریں گے۔‘‘
اور یقیناً اللہ تعالیٰ تبارک و تعالیٰ نے فرعون کی مذمت کی ہے؛ کیونکہ اس نے حضرت موسی علیہ السلام کے ایک انسان کو ناحق قتل کرنے کی وجہ سے آپ کی نبوت کا انکار کیا تھا۔ جیسا کہ قرآن میں ہے؛[کہ اس نے کہا:]﴿قَالَ اَلَمْ نُرَبِّکَ فِینَا وَلِیدًا وَّلَبِثْتَ فِینَا مِنْ عُمُرِکَ سِنِیْنَ o وَفَعَلْتَ فَعْلَتَکَ الَّتِیْ فَعَلْتَ وَاَنْتَ مِنَ الْکٰفِرِیْنَ o قَالَ فَعَلْتُہَا اِِذًا وَاَنَا مِنْ الضَّالِّینَ o فَفَرَرْتُ مِنْکُمْ لَمَّا خِفْتُکُمْ فَوَہَبَ لِی رَبِّی حُکْمًا وَّجَعَلَنِی مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ﴾ (شعراء18۔21) ’’ اس نے کہا کیا ہم نے تجھے اپنے اندر اس حال میں نہیں پالا کہ تو بچہ تھا اور تو ہم میں اپنی عمر کے کئی سال رہا۔ اور تونے اپنا وہ کام کیا، جو تو نے کیا اور تو ناشکروں میں سے ہے۔کہا میں نے اس وقت وہ کام اس حال میں کیا کہ میں خطاکاروں سے تھا۔پھر میں تم سے بھاگ گیا جب میں تم سے ڈرا تو میرے رب نے مجھے حکم عطا کیا اور مجھے رسولوں میں سے بنا دیا۔‘‘حضرت موسی علیہ السلام نے اپنے اس فعل سے توبہ کرلی تھی؛ اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو معاف کردیا تھا۔ اس کی خبر دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿فَوَکَزَہٗ مُوْسٰی فَقَضٰی عَلَیْہِ قَالَ ھٰذَا مِنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ اِنَّہٗ عَدُوٌّ مُّضِلٌّ مُّبِیْنٌ o قَالَ رَبِّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ فَاغْفِرْلِیْ فَغَفَرَلَہٗ اِنَّہٗ ھُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ﴾(قصص ۱۵۔ ۱۶)’’ تو موسیٰ نے اسے گھونسا مارا تو اس کا کام تمام کر دیا۔ کہا یہ شیطان کے کام سے ہے، یقیناً وہ کھلم کھلا گمراہ کرنے والا دشمن ہے۔ کہااے میرے رب! یقیناً میں نے اپنے آپ پر ظلم کیا، سو مجھے بخش دے۔ تو اس نے اسے بخش دیا، بے شک وہی تو بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔‘‘پس اگر یہ کہا جائے کہ : جب اللہ تعالیٰ نے آپ کی مغفرت کردی تھی؛ تو پھر اس غلطی کی بنا پر بروزقیامت وہ شفاعت کیوں نہیں کریں گے۔ جب حضرت آدم علیہ السلام سے شفاعت کا کہا جائے گا؛ تو وہ فرمائیں گے :’’ مجھے پہلے ہی درخت [جنت] کے کھانے سے منع کر چکا تھا؛ لیکن میں نے اس میں سے کھا لیا ۔ آج تو مجھے اپنی ہی پڑی ہے [نفسی نفسی]۔تم لوگ کسی اور کے پاس جاؤ ۔ ہاں ، نوح علیہ السلام کے پاس جاؤ ۔ چنانچہ سب لوگ حضرت نوح علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے؛ تو حضرت نوح علیہ السلام فرمائیں گے: میں نے اہل زمین پر وہ بد دعا کردی جس کا مجھے حکم نہیں دیا گیا تھا۔ ....ایسے ہی حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی ان تین تعریضات کا ذکر کریں گے جنہیں جھوٹ کہا گیا ہے؛ جبکہ وہ تعریضات تھیں ۔اورحضرت موسی علیہ السلام اس آدمی کے قتل کردینے کا ذکر کریں گے۔[1] [1] صحیح البخاری ۶؍ ۸۴۔ کتاب التفسیر ؛ باب سورۃ بنی اسرائیل۔ مسلم ۱؍ ۱۸۰۔ بخاری میں یوں ہے: حضرت آدم علیہ السلام جواب دیں گے کہ آج میرا رب بہت غصہ میں ہے اس نے مجھے ایک درخت کے قریب جانے سے روکا تھا؛ مگر نے نہ مانی۔ اور وہ نفسی نفسی کہیں گے اور فرمائیں گے کہ تم سب حضرت نوح کے پاس جاؤ۔ وہ سب حضرت نوح کے پاس جائیں گے اور عرض کریں گے: اے حضرت نوح ! آپ اہل زمین کی طرف اللہ تعالیٰ کے پہلے رسول ہیں ۔ اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے شکر گزار بندے کے نام سے یاد فرمایا ہے لہٰذا آپ ہماری سفارش کیجئے کیونکہ ہماری حالت بہت خراب ہو رہی ہے حضرت نوح فرمائیں گے کہ آج اللہ تعالیٰ بہت غصہ میں ہے میں نے ایسا غصہ کبھی نہیں دیکھا اور اس نے تو مجھے ایک دعا دی تھی وہ میں اپنی امت کے لئے مانگ چکا ہوں پھر وہ بھی نفسی نفسی فرمائیں گے اور لوگوں سے کہیں گے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس جاؤ....پھر آخر میں ....: لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے کہ اے اللہ تعالیٰ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیا ہیں اللہ تعالیٰ نے آپ کے تمام اگلے اور پچھلے گناہوں کو معاف فرما دیا ہے۔ آپ ہماری شفاعت فرمایئے دیکھئے! ہم کیسی تکلیف میں ہیں ۔اس وقت میں جاکر عرش کے نیچے سجدہ میں گر جاؤں گا۔ اللہ تعالیٰ اپنی حمد و تعریف کا ایسا طریقہ مجھ پر منکشف فرمائے گا جو اس سے قبل کسی کو نہیں بتایا گیا لہٰذا میں اس طرح اس کی حمد بجا لاؤں گا پھر حکم باری ہوگا: اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! اپنے سر کو اٹھایئے اور مانگئے جو آپ مانگنا چاہتے ہیں جو شفاعت آپ کریں گے قبول کی جائے گی میں سجدے سے سر کو اٹھا کر امتی امتی کہوں گا۔ حکم ہوگا ....‘‘یہ بھی کہا گیا ہے کہ: یہ ان کے کمال فضل؛خوف اور عبودیت اور ان کی تواضع میں سے ہے۔ اس لیے کہ توبہ کرنے کے فوائد میں سے یہ بھی ہے کہ ان کی عبودیت کامل ہوجائے ؛اوران کا خوف و خضوع بڑھ جائے ؛ پس اللہ تعالیٰ اس وجہ سے ان کے درجات کو مزید بلند کردیں ۔ پس اس چیز کو ممتنع کہنا جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرتے ہیں ؛ اور اس میں اللہ تعالیٰ کی یہ حکمت کہ اس ہستی کے لیے شفاعت کا سبب بن جائے جن کے اگلے اور پچھلے گناہ اللہ تعالیٰ نے معاف کردیے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ جو لوگ اس کے امتناع کے قائل ہیں ؛ ان کے نزدیک حضرت ابراہیم اور حضرت عیسی علیہما السلام ان سے افضل ہیں ۔ مگرہم نے ان کی غلطی بیان کی ہے۔ لیکن حضرت مسیح علیہ السلام نے فرمادیں گے: ’’ میں اس مقام کا اہل نہیں ہوں ؛ پس تم اس ہستی کے پاس جاؤ؛ جن کے اگلے اور پچھلے گناہ اللہ تعالیٰ نے معاف کردیے ہیں ۔اور مسیح علیہ السلام اس مقام محمود سے پیچھے ہوجائیں گے جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہے۔ یہ حضرت مسیح علیہ السلام کے ان فضائل میں سے جو انہیں اللہ تعالیٰ کے قریب کرتے ہیں ۔ ان سب پر اللہ تعالیٰ کی کروڑوں رحمتیں ہوں ۔تو اس سے معلوم ہوا کہ شفاعت سے پیچھے رہ جانا ان کے موجودہ مقام میں نقص کا موجب نہیں تھا۔ بلکہ جب انہیں اس مقام محمود کا علم ہوا؛ جو کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے بندے کے لیے کمال مغفرت ؛ اور بندے میں کمال عبودیت کا مطالبہ کرتا ہے؛ جو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی خاص ہے؛ جن کے اگلے اور پچھلے گناہ اللہ تعالیٰ نے معاف کردیے تھے۔ اسی لیے مسیح علیہ السلام کہیں گے: آپ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلے جائیں ؛ وہ ایسی ہستی ہیں جن کے اگلے اور پچھلے گناہ اللہ تعالیٰ نے معاف کردیے ہیں ۔ جب اللہ تعالیٰ نے آپ کے پچھلے گناہ بھی معاف کردیے تھے تو پھر آپ کو اس بات کا کوئی اندیشہ نہیں تھا کہ جب وہ اپنے رب کے پاس شفاعت کے لیے جائیں گے تو انہیں کسی بات پر کوئی ملامت ہوگی۔ اگرچہ آپ بھی سفارش اجازت ملنے کے بعد ہی کریں گے۔ بلکہ جب آپ سجدہ کریں گے؛ اللہ تعالیٰ کی ایسی حمد و ثناء بیان کریں جو اسی دن آپ پر کھولی جائے گی؛ اور اس سے پہلے کبھی ان الفاظ میں تعریف نہیں کی ہوگی۔ تو آپ سے کہا جائے گا:’’ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! اپنا سر اٹھائیے؛ اور فرمائیے؛ آپ کی بات سنی جائے گی۔ اور مانگئے؛ آپ کو دیا جائے گا۔اور آپ سفارش کریں ؛ آپ کی سفارش قبول کی جائے گی۔‘‘ یہ تمام باتیں صحیحین میں ہیں ۔جس سے یہ کہا جائے: سابقہ کی بات تو ہوگئی؛ اوریہ پتہ نہیں تھا کہ آپ کے پچھلے گناہ بھی معاف کردیے گئے ہیں ؛ تو آپ کو خوف محسوس ہوا کہ اجازت ملنے سے پہلے شفاعت کے لیے جانا کہیں گناہ کا موجب نہ ہو؛ تو آپ اللہ تعالیٰ کے کمال خوف کی وجہ سے رک گئے ۔ اور آپ یہ کہیں کہ: میں نے ایک غلطی کی ؛ اور اس کی مغفرت نہیں ہوئی ؛ تو مجھے ڈر محسوس ہوا کہ میں کوئی دوسرا گناہ کربیٹھوں ۔ بیشک رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :(( لا یلدغ المؤمِن مِن جحر واحِد مرتینِ۔))[1] [1] أحمد والبخاری ومسلِم وأبو داؤود وابن ماجہ عن أبِی ہریرۃ رضِی اللہ عنہ؛ فِی: البخاری 8؍31 ِکتاب الأدبِ، باب لا یلدغ المؤمِن.... ؛ مسلِم 4؍2295 ؛ ِکتاب الزہدِ والرِقاقِ، باب لا یلدغ المؤمِن.... ؛ سننِ أبِی داود ؛ ِکتاب الأدبِ، باب الحذرِ مِن الناسِ؛ سنن ابن ماجہ 2؍2318 ؛ کتاب الفتن ؛ باب العزلۃ۔’’مومن ایک سوراخ سے دو بار ڈنگ نہیں کھاتا۔‘‘اس کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ: وہ ایک ہی کام دو مرتبہ نہیں کرتا۔ جب چکھنے والا گناہ کی تلخی کا ذائقہ چکھ لیتا ہے؛ تو وہ اسے خوف محسوس ہوتا ہے کہ کہیں اس سے کوئی دوسرا گناہ نہ ہو جائے۔تو اسے پھر دوبارہ اسی طرح کی تلخی اور دکھ و تکلیف محسوس ہوتے ہیں ۔ یہ بالکل اس طرح ہے جیسے کسی انسان کو کوئی چیز کھانے سے بیماری لگ جائے؛ پھر اسے شفا مل جائے۔ اب اگراسے دوبارہ وہ چیز کھانے کا کہا جائے تو وہ ڈرتا ہے کہ اسے پھر پہلے کی طرح بیماری لگ جائے؛ اس لیے وہ اسے نہیں کھاتا۔ اوروہ کہتا ہے: مجھے اس کھانے سے اس سے قبل بہت سخت تکلیف ہوئی ہے۔ اور اب مجھے ڈرلگتا ہے کہ دوبارہ ویسے ہی نہ ہو جائے۔ اس موضوع کی تفصیل کا یہ مقام نہیں ۔اوریہاں پر مقصود یہ ہے کہ: جن لوگوں نے ان امور میں معصوم ہونے کا دعوی کیا ہے؛جن سے توبہ کی جاسکتی ہے؛ تو ان کی اصل بنیاد یہ ہے کہ:اگر ان سے گناہ کا صدور ہو جائے تو ان کا مقام و مرتبہ امت کے کسی بھی گنہگار سے کم ہوگا۔ اس لیے کہ جس قدر ان کا مقام اعلی و برتر ہے؛ اسی قدر ان سے گناہ کا صدور قبیح تر ہوتا ہے۔ اوربیشک یہ واجب ہوتا ہے کہ جب وہ فاسق ہیں تو ان کی گواہی قبول نہ کی جائے۔ اس صورت میں وہ سزا کے مستحق قرار پاتے ہیں ۔ اور ان کو ایذاء دینا حرام نہیں رہتا۔ جب نص قرآنی کی روشنی میں انبیائے کرام علیہم السلام کو ایذاء دینا حرام ہے۔ اور یہ کہ ان کی اقتداء واجب ہوتی ہے؛ جب کہ گناہ میں کسی کی بھی اقتداء نہیں کی جاسکتی۔یہ تو معلوم ہے کہ سزا کا استحقاق اور درجات میں کمی عدم توبہ کے ساتھ ہوتی ہے۔ جبکہ بلا ریب انبیائے کرام علیہم السلام کے معصوم ہونے کا مطلب ان کا کسی غلطی پر اصرار نہ کرنا ہے۔مزید برآں یہ مسئلہ بعض کبیرہ گناہوں کا ہے؛ صغیرہ کا نہیں ۔ جمہورمسلمین انبیائے کرام علیہم السلام کو کبیرہ گناہوں خصوصاً فواحش سے منزہ قرار دیتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے کسی بھی نبی کا کوئی کبیرہ گناہ ذکر نہیں کیا؛ چہ جائے کہ کوئی فحاشی ذکر کی جائے۔ بلکہ سورت یوسف میں یہ واضح کیا ہے کہ: اللہ تعالیٰ پاک اپنے مخلصین بندوں کو فحاشی اور برائی سے بچا کر رکھتے ہیں ۔ اور بلاشک ان کی اقتداء ان امور میں ہوتی ہے جن پر وہ برقراررہیں ؛ اور ان سے ان کو منع نہ کیا جائے۔مزید یہ کہ بلاشک گناہوں کی کئی اقسام ہیں ۔یہ بات تو معلوم ہے کہ ان کے حق میں ہر جنس کا گناہ ناجائز ہے۔ خصوصاً جھوٹ کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہوتا۔ کیونکہ جھوٹ مطلق صدق کے منافی ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک مرتبہ جھوٹ بولنے والے کی گواہی رد کر دی جاتی ہے۔ اگرچہ یہ علماء کے ایک قول کے مطابق کبیرہ گناہ نہ بھی ہے؛ جیسا کہ امام احمد سے بھی ایک روایت ہے۔ اور اگر جھوٹی گواہی دینے والا جھوٹ سے توبہ کرلے ؛ تو کیا اس کی گواہی قبول کی جائے گی یا نہیں ؟ اس میں علماء کے دو قول ہیں ۔ امام مالک رحمہ اللہ سے مشہور یہی ہے کہ اس کی گواہی قبول نہ کی جائے گی۔ ایسے ہی جو انسان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرکسی ایک حدیث میں بھی جھوٹ بول دے؛ پھر اس سے وہ توبہ بھی کر لے؛ تو علماء کے ایک قول کے مطابق اس کی روایت قبول نہیں ہوگی۔ یہ امام أحمد اور امام مالک رحمہ اللہ کا مذہب ہے۔ اس لیے کہ اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ اس نے توبہ کا اظہار صرف اس لیے کیا ہو کہ اس کی روایت قبول کی جائے۔ پس یہ ہر گز نہیں ہوسکتا کہ کوئی نبی جان بوجھ کر جھوٹ بولے۔ بھلے وہ صغیرہ گناہ کے درجہ میں ہو یا کبیرہ گنا ہ کے درجہ میں ۔ بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں تک ارشاد فرمایا ہے کہ:’’ کسی نبی کے لیے یہ کہنا مناسب نہیں کہ اس کی آنکھ خیانت کرنے والی ہو۔‘‘ [1][1] سنن ابی داؤد ۳؍ ۷۹۔ کتاب الجہاد ؛ باب قتل الاسیر ولا یعرض علیہ الاسلام؛حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: جب مکہ فتح ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار مردوں اور دو عورتوں کے سوا سب کو امان دے دی ، انہوں نے ان کا اور ابن ابی السرح کا نام لیا ، رہا ابن ابی سرح تو وہ عثمان بن عفان کے پاس چھپ گیا ، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب لوگوں کو بیعت کے لیے بلایا تو عثمان نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لا کھڑا کیا ، اور کہا : اللہ تعالیٰ کے نبی! عبداللہ سے بیعت لیجئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر اٹھایا اور اس کی جانب دیکھا ، تین بار ایسا ہی کیا ، ہر بار آپ انکار کرتے رہے ، تین بار کے بعد پھر اس سے بیعت لے لی ، پھر صحابہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا : کیا تم میں کوئی بھی عقلمند آدمی نہیں تھا کہ جس وقت میں نے اپنا ہاتھ اس کی بیعت سے روک رکھا تھا ، اٹھتا اور اسے قتل کر دیتا ؟ لوگوں نے عرض کیا : اللہ تعالیٰ کے رسول! ہمیں آپ کے دل کا حال نہیں معلوم تھا ، آپ نے ہمیں آنکھ سے اشارہ کیوں نہیں کر دیا ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کسی نبی کے لیے یہ مناسب نہیں کہ وہ کنکھیوں سے اشارے کرے۔‘‘ سننِ أبِی داود 4؍183 ؛ کتاب الحدودِ، باب الحکمِ فِیمنِ ارتد، سننِ النسائِیِ 7؍97 ؛ ِکتاب تحرِیمِ الدمِ، باب الحکمِ فِی المرتدِ. وانظرِ الخبر فِی سِیرۃِ ابنِ ہِشام 4؍52۔ رہ گئی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث کہ :’’ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تین مرتبہ جھوٹ بولا تھا یہ سب خالص اللہ عزوجل کی رضا کے لیے تھے ۔‘‘[1] [1] یہ حدیث صحیح بخاری ۴؍۱۴۰؛ کتاب الانبیاء؛ باب قول اللہ تعالیٰ :﴿واتخذ اللّٰہ تعالیٰ ابراہیم خلیلاً﴾میں ہے ۔ اس روایت میں ہے:حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تین مرتبہ جھوٹ بولا تھا ، دو ان میں سے خالص اللہ تعالیٰ عزوجل کی رضا کے لیے تھے ۔ ایک تو ان کا فرمانا [بطور توریہ کے]کہ میں بیمار ہوں ۔ اور دوسرا ان کا یہ فرمانا کہ :’’بلکہ یہ کام تو ان کے بڑے [بت] نے کیا ہے۔‘‘ اور بیان کیا کہ ایک مرتبہ ابراہیم علیہ السلام اور سارہ علیہا السلام ایک ظالم بادشاہ کی حدود سلطنت سے گزر رہے تھے ۔ بادشاہ کو خبر ملی کہ یہاں ایک شخص آیا ہوا ہے اور اس کے ساتھ دنیا کی ایک خوبصورت ترین عورت ہے ۔ بادشاہ نے ابراہیم علیہ السلام کے پاس اپنا آدمی بھیج کر انہیں بلوایا اور سارہ علیہا السلام کے متعلق پوچھا کہ یہ کون ہیں ؟ ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ میری بہن ہیں ۔ ....۔‘‘مزید دیکھیں : مسلم ۴؍ ۱۸۴۰۔ سنن الترمذی ۵؍ ۴۔ کتاب التفسیر؛ سورۃ الانبیاء۔ یہ تمام معاریض [توریہ] تھے۔ جن کے اختیار کرنے کے لیے آپ ماموربہ تھے۔ اور آپ کاایسا کرنا بھی اللہ تعالیٰ کی اطاعت گزاری کا کام تھا۔ معاریض کو بسا اوقات جھوٹ کہا جاتا ہے؛ کیونکہ اس سے نفسِ حقیقت کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔صحیحین میں حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا سے روایتہے ؛ فرماتی ہیں :’’میں نے رسول اللہٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کبھی نہیں سنا کہ آپ کبھی جھوٹ بولنے کی ذرا بھی اجازت دیتے ہو مگر تین معاملات میں ۔شوہر جو بیوی سے بات کرے [محبت کی تاکہ دونوں میں ازدواجی تعلق برقرار رہے]۔اور جو لوگوں کے درمیان صلح کرانے میں بات کہے۔[ اور اس کا سوائے اصلاح کے کوئی ارادہ نہ ہو]۔تیسرا :آدمی جنگ میں کوئی بات خلاف واقعہ کہے۔‘‘[2] [2] مسلِم 4؍2011 ؛ ِکتاب البِرِ والصِلۃِ والآدابِ، باب تحرِیمِ الکذِبِ وبیانِ ما یباح مِنہ ؛ سننِ أبِی داود 4؍385 ؛ ِکتاب الأدبِ، باب فِی ِإصلاحِ ذاتِ البینِ؛ سننِ التِرمِذِیِ 3؍222 ؛ أبواب البِرِ والصِلۃِ ؛ باب فِی ما جاء فِی إِصلاحِ ذاتِ البینِ؛ المسندِ ط. الحلبِیِ6؍403 ؛وذکر البخاری قِطعۃ مِن الحدِیثِ 3؍183 ؛ کِتاب الصلحِ، باب لیس الکاذِب الذِی یصلِح بین الناسِ....۔‘‘فرمانے لگیں : ’’ان باتوں کو لوگ جھوٹ کہتے ہیں ؛ جب کہ یہ معاریض ہیں ۔‘‘لیکن اس کے برعکس جو کچھ روافض کہتے ہیں : کہ بیشک انبیائے کرام علیہم السلام سے کوئی خطا یاصغیرہ گناہ واقع نہیں ہو سکتا؛ نہ ہی نبوت سے پہلے اورنہ ہی نبوت کے بعد ۔ ایسے ہی ائمہ سے بھی ۔ پس اس عقیدہ میں امامیہ رافضہ تمام امت سے انفرادیت رکھتے ہیں ۔ جو کہ کتاب و سنت اور اجماع سلف کے مخالف عقیدہ ہے۔ اس سے ان کا مقصود حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہماکی خلافت و امامت پر قدح کرنا ہے۔ اس لیے کہ یہ حضرات کفر سے دائرہ اسلام میں داخل ہوئے تھے۔ جب کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں ان کا دعوی ہے کہ وہ ہمیشہ سے مؤمن ہی تھے؛نہ ہی ان سے کبھی کوئی غلطی ہوئی اور نہ ہی کبھی کوئی گناہ سرزد ہوا۔ اوریہی حال باقی تمام بارہ ائمہ کا بھی ہے۔ اس سے ان کی گمراہی اور جھوٹ ہر اس عقل مند انسان پر کھل کر واضح ہو جاتا ہے جو ان کے عقائد سے واقف ہے۔ یہی وجہ ہے وہ یہ اس مسئلہ میں تمام طوائف سے بڑھ کر غالی ثابت ہوئے جو کہ عقلی اور نقلی دلائل سے سب سے زیادہ دور تھے۔ ان کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ وہ انبیاء اور ائمہ سے کسی ایسے کام کا صدور ان کی شان میں نقص خیال کرتے ہیں ؛ اور اس سے ان کی تنزیہ کو واجب کہتے ہیں ۔ جب کہ وہ اس میں خطاکار ہیں ۔ یا تو پہلے مقدمہ میں غلطی پر ہیں ؛ یا پھر دوسرے مقدمہ میں ۔جہاں تک پہلے مقدمہ کا تعلق ہے؛ تو جو کوئی گناہ کے بعد اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ کرکے رجوع کر لے ؛ تو اس کا مقام و مرتبہ پہلے مرتبہ سے زیادہ بلند و بالا ہو جاتا ہے؛ اس سے کوئی کمی نہیں آتی۔بلکہ توبہ کرنے والا عظیم فضیلت اور عزت کے مقام کا حامل ہوتا ہے۔ اس سے ان کے وارد کردہ تمام شبہات ختم ہو جاتے ہیں ۔اورجب یہ پتہ چل جائے کہ بیشک اولیاء اللہ تعالیٰ میں کوئی ایسا انسان بھی ہوسکتا ہے جس نے کفر کے بعد اسلام قبول کیا ہو؛ یا پھر نفاق کے بعد ایمان والا ہوا ہو؛ اور نافرمانی کے بعد اطاعت گزاری اختیار کی ہو۔ جیسا کہ اس امت کے افضل ترین اولیاء اللہ تعالیٰ میں سے سابقین اولین ہیں ؛ تو پھر اس اصولی مسئلہ کی صحت واضح ہو جاتی ہے۔انسان نقص سے کمال کی طرف منتقل ہوتاہے؛ پس شروع میں اس کے نقص اور کوتاہی کی طرف نہیں دیکھا جاتا؛ لیکن اس کے انجام کے کمال کو دیکھا جاتا ہے۔ پس کسی انسان کو اس وجہ سے عیب نہیں لگایا جاسکتا کہ وہ شروع میں نطفہ تھا؛ پھر لوتھڑا بنا؛ پھر ایک گوشت کو ٹکڑا بن گیا۔ اس لیے کہ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اسے بہترین شکل و صورت میں پیدا کیا ہے۔ پس جو کوئی کسی چیز کی ابتداء کو دیکھتا ہے ؛ تو وہ اس ابلیس کی جنس میں سے ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿ قَالَ اَنَا خَیْرٌ مِّنْہُ خَلَقْتَنِی مِنْ نَّارٍ وَّخَلَقْتَہُ مِنْ طِینٍ ﴾(ص 76)’’ کہا میں اس سے بہتر ہوں ، تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور تو نے اسے مٹی سے پیدا کیا۔‘‘اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿ اِِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلٰٓئِکَۃِ اِِنِّی خَالِقٌ بَشَرًا مِّنْ طِینٍ (71) فَاِِذَا سَوَّیْتُہُ وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُوحِی فَقَعُوْا لَہٗ سَاجِدِیْنَ ﴾(ص 72) ’’جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ بے شک میں تھوڑی سی مٹی سے ایک بشر بنانے والا ہوں ۔ تو جب میں اسے پورا بنا چکوں اور اس میں اپنی روح سے پھونک دوں تو تم اس کے سامنے سجدہ کرتے ہوئے گر جاؤ۔‘‘پس اللہ تعالیٰ نے انہیں سجدہ کرنے کا حکم دیا؛اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو ان میں نفخ روح کے شرف سے سرفراز فرمایا تھا۔ اگرچہ انہیں مٹی سے پیدا کیا گیا تھا۔ اور ملائکہ کو نور سے پیدا کیا گیا تھا۔ جیسا کہ صحیح مسلم میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:(( خلق اللہ تعالیٰ الملائکۃ مِن نور، وخلق ِإبلِیس مِن مارِج مِن نار، وخلق آدم مِما وصف لکم ۔))[1] [1] مسلِم 4؍2294 ؛ ِکتاب الزہدِ والرقائِقِ ’’ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو نور سے پیدا کیا گیا ہے اور جنوں کو آگ کی لپٹ سے پیدا کیا گیا ہے اور حضرت آدم کو اس چیز سے جس کا ذکر قرآن مجید میں کیا گیا ہے۔‘‘یہی حال گناہ ؍اور غلطی کے بعد توبہ سے ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَ یُحِبُّ الْمُتَطَھِّرِیْنَ﴾(البقرۃ ۲۲۲)’’بیشک اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں سے محبت کرتے ہیں ؛ اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتے ہیں ۔‘‘اور صحیحین میں کئی اسناد سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مروی ہے؛ آپ نے فرمایا:’’ اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندے کی توبہ پر اس آدمی سے زیادہ خوش ہوتا ہے جو ایک سنسان اور ہلاکت خیز میدان میں ہو؛ اور اس کے ساتھ اس کی سواری ہو؛ جس پر اس کا کھانا پینا ہو۔ اور پھر وہ سو جائے ؛ جب بیدار ہو تو دیکھے کہ اس کی سواری جا چکی ہے۔ وہ اس کی تلاش میں نکلے یہاں تک کہ اسے سخت پیاس لگے؛ پھر وہ کہے :’’میں اپنی جگہ پر سو جاؤں گا یہاں تک کہ مر جاؤں ۔ پس اس نے اپنے سر کو اپنی کلائی پر مرنے کے لئے رکھا ۔پھر بیدار ہوا تو اس کی سواری اس کے پاس ہی کھڑی ہو اور اس پر اس کا زاد راہ اور کھانا پینا ہو۔ تو اللہ تعالیٰ مومن بندے کی توبہ پر اس آدمی کی سواری اور زاد راہ ملنے کی خوشی سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے۔‘‘ [2] [2] البخارِیِ؍ 67 ِ3 ؛ کتاب الدعواتِ، باب التوبۃِ؛ مسلِم 4؍2102 ؛ ِکتاب التوبۃِ، باب فِی الحضِ علی التوبۃِ والفرحِ بِہا ؛ سننِ التِرمِذِیِ 4 ؍70؛ کتاب صِفۃِ القِیامۃِ،؛ المسندِ ط. المعارِفِ 5؍225۔اسی لیے سلف صالحین رحمہم اللہ فرماتے ہیں : ’’ بیشک کوئی انسان کوئی ایسا گناہ کرتا ہے جس کی وجہ سے وہ جنت میں چلاجاتاہے۔‘‘اور جب مؤمن کسی گناہ میں مبتلا ہو جاتاہے؛ تو اسے علم ہوتا ہے بیشک وہ اس سے توبہ بھی کرے گااور آئندہ بچ کررہے گا۔اس میں بندے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور حکمت پوشیدہ ہے؛ کیونکہ اس سے بندہ کی عبودیت اور تواضع اور خشوع و خضوع ؛ پستی و انکساری ؛ کثرت سے نیک اعمال کی رغبت میں اضافہ ہوتا ہے۔ اورگناہوں سے بہت سخت نفرت پیدا ہو جاتی ہے۔ بیشک رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاہے :(( لا یلدغ المؤمِن مِن جحر واحِد مرتینِ۔))[سبق تخریجہ] ’’مومن ایک سوراخ سے دو بار ڈنگ نہیں کھاتا۔‘‘
مزید برآں ایسا کرنے سے خود پسندی اورتکبر اور دیگر ان امراض کا خاتمہ ہو جاتاہے جو انسان کے ساتھ پیش آتے ہیں ؛ اور اس سے مخلوق پر اللہ تعالیٰ کی رحمت واجب ہو جاتی ہے؛ اور اگر کوئی گناہ ہو جائے تو توبہ اور رحمت کی امید بڑھ جاتی ہے۔ اور انہیں توبہ کی ترغیب دی جاتی ہے۔ مزید برآں یہ کہ اس سے اللہ تعالیٰ کاوہ فضل و کرم اور احسان واضح ہوتے ہیں جو توبہ کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتے۔ جیسا کہ صحیح حدیث میں ثابت ہے؛ رسول اللہٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:(( والذي نفسي بیدہ ! لو لم تذنِبوا لذہب اللہ تعالیٰ بِکم ولجاء بِقوم یذنِبون ثم یستغفِرون فیغفِر لہم ۔))[1] [1] مسلِم 4؍2105 ؛ کتاب التوبِۃ، باب سقوط الذنبِ بِالِاستِغفارِ توبۃ؛ والتِرمِذِیِ فِی سننِہِ 4؍79 ؛ کتاب صِفۃِ الجنۃِ، باب ما جاء فِی صِفۃِ الجنۃِ ونعِیمِہا۔’’اس ذات کی قسم جسکے قبضہ میں میری جان ہے! اگر تم گناہ نہ کرتے تو اللہ تعالیٰ تمہیں لے جاتا اور ایسی قوم لے آتا جو گناہ کرتے پھر اللہ سے مغفرت طلب کرتے تو اللہ تعالیٰ انہیں معاف فرما دیتا۔‘‘مزید برآں اس سے بندے کی اللہ تعالیٰ کی مدد اور اس پر توکل کی سخت ضرورت اور اس کی بارگاہ میں التجاء و زاری واضح ہوتی ہے۔ یہ کہ انسان اللہ تعالیٰ کی اطاعت گزاری میں لگا رہے؛ اور اس کی نافرمانی سے اجتناب کرے۔ اور وہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور اس کی مدد کے بغیر کسی چیز کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتے۔ بیشک جو کوئی اس آزمائش کی تلخی؛ اور اللہ تعالیٰ کے فضل و رحمت کے بغیر اس سے اپنے دفاع سے عاجزی کا مزہ چکھ لیتا ہے؛ تو اس کے دل کا مشاہدہ اور اپنے رب کی بارگاہ میں اس کے فقر و نیاز مندی اور سخت حاجت کا ہوتا ہے جو کہ اس کے لیے اپنے رب کی اطاعت او راس کی نافرمانی سے اجتناب پر اس انسان کی نسبت بڑا مدد گار ہوتا ہے جس کی کیفیت یہ نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام کی حالت توبہ کے بعد اس سے بہتر تھی جو خطا کے وقوع سے پہلے تھی۔ اور بعض حضرات نے یہ بھی کہا ہے کہ : اگر اللہ تعالیٰ کے نزدیک توبہ محبوب ترین چیزوں میں سے نہ ہوتی تو وہ کبھی بھی اپنے نیک او رمخلوق میں سب سے زیادہ عزت والے بندوں کو گناہ میں مبتلانہ کرتا۔یہی وجہ ہے آپ دیکھیں کہ جو لوگ گناہ میں مبتلا نہیں ہوئے ؛ ان کی نسبت گناہ سے سچی توبہ کرنے والا انسان اطاعت گزاری پر زیادہ ثابت قدم؛ اور نیکی میں زیادہ راغب اور نافرمانی سے بہت زیادہ ڈرنے اور اجتناب کرنے والا ہوتا ہے۔ صحیحین میں حضرت اسامہ والی حدیث سے ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(( أ قتلتہ بعد أن قال لا ِإلہ ِإلا اللّٰہ۔))[2] [2] البخاری 5؍144 ِکتاب المغازِی، باب بعثِ النبِیِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أسامۃ بن زید ِإلی الحرقاتِ؛ مسلِم 1؍96 ؛ ِکتاب الإِیمانِ، باب تحرِیمِ قتلِ الکافِرِ بعد أن قال: لا إِلہ ِإلا اللّٰہ . ’’کیا تم نے اسے لا إلہ إلا اللہ تعالیٰ کا اقرار کرنے کے بعد قتل کردیا۔‘‘تو اس کا آپ کی زندگی پر بہت بڑا اثر ہوا؛ آپ کسی بھی ایسے انسان کو قتل کرنے سے احتیاط کرتے تھے جو اس کلمہ کا اقرار کرتا ہو۔ یہی وجہ تھی کہ جب فتنہ کی جنگیں شروع ہوئیں تو آپ ان میں شریک نہیں ہوئے۔اور بیشتر اوقات توبہ ایسی نیکیوں کے حصول کا موجب ہوتی ہے جو اس دوسرے آدمی کو حاصل نہیں ہوسکتیں جس نے گناہ سے توبہ نہ کی ہو۔ جیسا کہ صحیحین میں حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کا واقعہ ہے۔ آپ ان تین لوگوں میں سے ایک تھے؛ جن کے میں یہ آیات نازل ہوئیں :﴿لَقَدْ تَّابَ اللّٰہُ عَلَی النَّبِیِّ وَ الْمُھٰجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُ فِیْ سَاعَۃِ الْعُسْرَۃِ مِنْ بَعْدِ مَا کَادَ یَزِیْغُ قُلُوْبُ فَرِیْقٍ مِّنْھُمْ ثُمَّ تَابَ عَلَیْھِمْ اِنَّہٗ بِھِمْ رَؤُو فٌ رَّحِیْمٌ (۱۱۷) وَّ عَلَی الثَّلٰثَۃِ الَّذِیْنَ خُلِّفُوْا حَتّٰٓی اِذَا ضَاقَتْ عَلَیْھِمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَ ضَاقَتْ عَلَیْھِمْ اَنْفُسُھُمْ وَ ظَنُّوْٓا اَنْ لَّا مَلْجَاَ مِنَ اللّٰہِ اِلَّآ اِلَیْہِ ثُمَّ تَابَ عَلَیْھِمْ لِیَتُوْبُوْا اِنَّ اللّٰہَ ھُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ﴾ (التوبۃ ۱۱۷۔ ۱۱۸)’’بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے نبی پر مہربانی کے ساتھ توجہ فرمائی اور مہاجرین و انصار پر بھی، جو تنگ دستی کی گھڑی میں اس کے ساتھ رہے، اس کے بعد کہ قریب تھا کہ ان میں سے ایک گروہ کے دل ٹیڑھے ہو جائیں ، پھر وہ ان پر دوبارہ مہربان ہوگیا۔ یقیناً وہ ان پر بہت شفقت کرنے والا، نہایت رحم والا ہے۔اور ان تینوں پر بھی جو موقوف رکھے گئے، یہاں تک کہ جب زمین ان پر تنگ ہوگئی، باوجود اس کے کہ فراخ تھی اور ان پر ان کی جانیں تنگ ہوگئیں اور انھوں نے یقین کر لیا کہ بے شک اللہ تعالیٰ سے پناہ کی کوئی جگہ اس کی جناب کے سوا نہیں ، پھر اس نے ان پر مہربانی کے ساتھ توجہ فرمائی، تاکہ وہ توبہ کریں ۔ یقیناً اللہ تعالیٰ ہی ہے جو بہت توبہ قبول کرنے والا، نہایت رحم والا ہے۔‘‘اور جب اس معاملہ میں حضرت کعب والی حدیث کا تذکرہ ہوتا ہے؛ تو پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے توبہ کی وجہ سے آپ کے درجات بلند کردیے تھے۔ اسی لیے آپ فرمایا کرتے تھے:’’اللہ کی قسم ! میں نہیں جانتا کہ کسی کو اللہ تعالیٰ نے سچی بات کہنے کی وجہ سے ایسے آزمایا ہو جیسے مجھے آزمایا گیا ہے۔‘‘ [1] [1] البخاری 6؍3 ؛ کتاب المغازِی، باب حدِیث کعبِ بنِ مالکِ؛ مسلِم 4؍2120 ؛ ِکتاب التوبۃِ، باب حدِیثِ توبۃِ کعبِ بنِ مالکِ وصاحِبیہِ؛ سننِ التِرمِذِیِ 4؍345 ؛ ِکتاب التفسِیرِ، ومِن سورِۃ التوبۃِ المسندِ۔ ط. الحلبِیِ3؍456۔ایسی ہی کچھ باتیں بعض ان حضرات نے کہی ہیں جو پہلے پہل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت سخت دشمن تھے۔ جیسے سہیل بن عمرو؛ حارث بن ہشام ؛ ابو سفیان بن الحارث بن عبدالمطلب جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چچا زاد بھائی تھا؛ اوروہ تمام کافروں سے بڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کرتا او رآپ کو تکلیف دینا۔ مگر جب اس نے توبہ کی؛ اور اسلام قبول کرلیا ؛ تو لوگوں میں سے بہترین مسلمان ؛ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت سخت تعظیم اور آپ سے حیاء کرنے والے ثابت ہوئے۔ ایسے ہی حارث بن ہشام کا حال بھی ہے۔ حارث تو یہ کہا کرتے تھے: ’’ جب سے میں نے اسلام قبول کیا ہے ؛ کوئی غلط بات زبان پر نہیں لائی ۔ [الترغیب و الترہیب ۴؍۳۰۶]توبہ کرنے والوں کے اس طرح کے واقعات بہت زیادہ ہیں ۔پس جو کوئی گناہ سے توبہ کرنے والے کو ؛ جسے اللہ تعالیٰ نے چن لیا ہے اور ہدایت دی ہے؛ اس گناہ میں کوتاہی پر بتاتا ہے جس سے اس نے توبہ کرلی ہے؛ اور وہ توبہ کے بعد اس سے بہتر حالت میں ہے جس پر وہ پہلے تھا؛ تو یقیناً ایسا انسان اللہ تعالیٰ کے دین اور رسولوں کے لائے ہوئے پیغام سے جاہل ہے۔ سابقہ ذکر کردہ دلائل کی بنیاد پر جو کچھ بھی وہ لوگ کہتے کہ یہ نقص اور کمی ہے؛ اس کی حقیقت یہ ہے کہ واقعی یہ نقص اور کمی ہے مگر اس وقت جب اس سے توبہ نہ کی جائے۔ لیکن جب وہ توبہ کرلے؛تو اس کے اثرات بالکل ہی ختم کردیے جاتے ہیں ۔ بلکہ بسا اوقات انہیں نیکیوں سے بدل دیا جاتا ہے۔ تو ان کے حال کی نسبت سے ان میں کوئی کمی نہیں آتی۔ اور جب توبہ کے بعد وہ اپنے جیسوں ؍ اپنے ہم پلہ لوگوں سے افضل ہوجاتا ہے؛ ان سے کم نہیں رہتا ۔ہم ہرگز یہ نہیں کہتے کہ: ہر وہ انسان جس نے گناہ کیا ؛ او رتوبہ کی وہ ان سے افضل ہے جنہوں نے یہ گناہ نہ کیا ہو؛ بلکہ یہ معاملہ لوگوں کے احوال میں اختلاف کے حساب سے مختلف ہوتا ہے۔ پس لوگوں میں سے کچھ ایسے ہوتے ہیں ؛ جو توبہ کے بعد پہلے سے زیادہ بہتر ہو جاتے ہیں ؛ اور بعض ایسے ہوتے ہیں ؛ جو پھر سے ان گناہوں میں لت پت ہو جاتے ہیں ۔ اور بعضوں کی حالت وہ پہلی سی نہیں رہتی ۔ پس یہ تین قسم کے لوگ ہوئے۔ ان میں سے افضل وہ لوگ ہیں جو گناہ کے بعد توبہ کرکے [پہلے سے ]بہتر ہوجاتے ہیں او ربعض ویسے کے ویسے ہی رہتے ہیں ۔ اور بعض کی حالت پہلے سے زیادہ گر جاتی ہے۔ اس باب میں ایسے مسائل بہت زیادہ ہیں جن کی تفصیل کا یہ موقع نہیں ؛ یہ تفصیل کسی دوسرے مقام پر ہوگی؛ یہاں پر صرف تنبیہ مقصود ہے۔یہی وجہ ہے کہ سلف صالحین صحابہ ؛ تابعین اور دیگر ائمہ مسلمین کتاب و سنت میں وارد انبیائے کرام علیہم السلام کے احوال پر متفق ہیں ۔ان میں سے کسی ایک سے بھی وہ عقیدہ ثابت نہیں جو رافضہ ؛ معتزلہ اور ان کے متبعین نے اس باب میں ایجاد کرلیاہے۔ بلکہ تفسیر و احادیث ؛ آحادیث اور آثار؛زہد اور احوال سلف کی کتابیں صحابہ اور تابعین کے ان احوال سے بھری پڑی ہیں جن پر قرآنی دلائل موجود ہیں ۔ان میں ایک بھی ایسا نہیں تھا جس نے قرآن میں تحریف کی ہو جیسے یہ لوگ کرتے ہیں ۔ اور نہ ہی کوئی احادیث میں وارد امور کو جھٹلانے والا تھا جیسا کہ یہ لوگ جھٹلاتے ہیں ۔ اور نہ ہی کسی نے اعتماد ختم ہونے یا نفرت کے واجب ہونے کا کہا ؛یا اس طرح کی کوئی دیگر بات کی؛ جیسے یہ لوگ کہتے ہیں ۔بلکہ ان لوگوں کے عقائد جنہوں نے جہالت کی وجہ سے غلو کیا؛ وہ دین میں بدعات ایجاد کرنے والوں کے اقوال ہیں ۔ان کا مقصدجہالت پر مبنی انبیائے کرام علیہم السلام کی تعظیم تھا؛ جیسے نصاری نے حضرت مسیح علیہ السلام اور اپنے علماء اور درویشوں کی تعظیم کا جاہلانہ قصد کیاتھا؛ تو وہ انہیں اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہرانے لگے؛ اور اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر انہیں اپنا رب بنا لیا۔ اوران کی اتباع میں ان امور کو چھوڑ دیا جس کا انہوں نے حکم دیا تھا؛ یا جس سے منع کیا تھا۔