رافضیوں کا غلو اور عبادات میں شرک
امام ابنِ تیمیہؒ[رافضیوں کا غلو اور عبادات میں شرک ]:ایسے ہی مسئلہ عصمت میں غالی لوگ احکام میں اس اطاعت گزاری او ران کے افعال کی اقتداء سے اعراض کرتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا گیا ہے۔ اوروہ کام کرتے ہیں جس سے انہیں منع کیا گیا ہے؛ جیسے غلواورشرک؛ پس وہ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر انہیں اپنا رب بناتے ہیں ؛ اور ان سے غائبانہ طور پر ؛ ان کے مرنے کے بعد یا ان کی قبروں پر جاکر مدد مانگتے ہیں ؛ اوران شرکیہ عبادت میں داخل ہو جاتے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے منع کیا ہے؛ اور عیسائیوں کی برابری کرنے لگتے ہیں۔صحیح حدیث میں ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وصال کے وقت فرمایا:(( لعن اللّٰہ الیہود والنصاری اتخذوا قبور أنبِیائِہِم مساجِد ۔))’’ یہود ونصاری پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو کہ انہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا۔‘‘آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ڈرتے تھے کہ کہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کے لوگ بھی ایسا نہ کرنے لگ جائیں ۔‘‘حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ:’’ اگر آپ کو اس بات کا خیال نہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی قبر مبارک کو ظاہر کر دیتے۔ سوائے اس کے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس بات کا ڈر تھا کہ کہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر کو سجدہ گاہ نہ بنا لیا جائے۔‘‘ [سبق تخریجہ]صحیحین میں یہ بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کے ایام میں آپ کے سامنے ایک گرجا کا ذکر کیا ؛ جو حبشہ میں دیکھا تھا۔اس کی خوبصورتی اور اس میں لگی تصویروں کا ذکر بھی ہوا؛ تو رسول اللہٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ ان لوگوں کا یہی حال تھا کہ جب ان میں کوئی نیک مر جاتا تھا تو وہ لوگ اس کی قبر پر مسجد بناتے اور وہیں تصویر بناتے یہ لوگ بروز قیامت اللہ تعالیٰ کے ہاں بدترین مخلوق ہوں گے۔‘‘ [سبق تخریجہ]صحیح مسلم میں ہے : حضرت جندب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں نے رسول اللہٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال سے پانچ دن پہلے سنا آپ فرما رہے تھے:((ألا إِن من کان قبلکم کانوا یتخِذون القبور مساجِد، ألا فلا تتخِذوا القبور مساجِد۔ فإِنِی أنہاکم عن ذلِک، وِإنِی أبرأ إِلی کلِ خلِیل مِن خلِیلِہِ، ولو کنت متخِذا مِن أہلِ الأرضِ خلِیلا لاتخذت أبا بکر خلِیلا، ولکِن صاحِبکم خلِیل اللہِ۔))[سبق تخریجہ]’’آگاہ ہوجا کہ تم سے پہلے لوگوں نے اپنے نبیوں اور نیک لوگوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا تھا تم قبروں کو سجدہ گاہ نہ بنانا میں تمہیں اس سے روکتا ہوں ۔‘‘ میں اللہ تعالیٰ کے سامنے اس چیز سے بری ہوں کہ تم میں سے کسی کو اپنا دوست بناؤں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنا خلیل بنایا ہے جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خلیل بنایا تھا اور اگر میں اپنی امت سے کسی کو اپنا خلیل بناتا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بناتا۔‘‘اور سنن میں ہے؛ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :(( لا تتخِذوا قبرِی عِیدا، وصلوا علی حیثما کنتم فإِن صلاتکم تبلغنِی۔))’’ میری قبرکو عیدگاہ نہ بنانا؛ اور مجھ پر درود پڑھوجہاں کہیں بھی ہو؛ بیشک تمہارا درود مجھ تک پہنچایا جاتا ہے۔‘‘[سبق تخریجہ]مؤطا امام مالک رحمہ اللہ میں اور دیگر کتب میں ہے؛ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :’’ اے اللہ تعالیٰ ! میری قبر کو مورتی نہ بناناجس کی پوجا کی جائے۔ ان لوگوں پر اللہ تعالیٰ کا بہت سخت غضب ہوا جو اپنے انبیاء کی قبروں کو مساجد بنا لیا۔‘‘ [سبق تخریجہ]مسند اور صحیح حدیث میں ابو حاتم نے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’بیشک سب سے برے لوگ وہ ہونگے جن پر قیامت آئے گی اور وہ زندہ ہوں گے؛ اور وہ لوگ جو قبروں کو مساجد بنالیتے ہیں ۔‘‘ [مؤطا ۱؍۴۷۵’مسند ۵؍۳۲۴؛ برقم ۳۸۴۴]صحیح مسلم میں حضرت ابوہیاج اسدی رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ مجھ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:(( ألا أبعثک علی ما بعثنِی علیہِ رسول اللہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أمرنِی أن لا أدع قبرا مشرِفا إِلا سویتہ ولا تِمثالا إِلا طمستہ۔))[1] [1] ابو داؤد ۱؍۴۷۷ ؛ مسلم ۲؍۶۶۶’’ کیا میں تجھے اس کام کے لئے نہ بھیجوں جس کام کے لئے مجھے رسول اللہٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھیجا تھا کہ تو کسی صورت کو مٹائے بغیر نہ چھوڑ اور نہ کسی بلند قبر کو برابر کئے بغیرچھوڑنا۔‘‘پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مشن پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھیجا تھا؛ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں ابو ہیاج اسدی کو بھیجا کہ وہ وہی کام کرے جس کا حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیا تھا۔ یہ کہ قبروں کو زمین کے برابر کردیا جائے؛ اور بتوں کو توڑدیا جائے۔ کیونکہ یہ دونوں چیزیں شرک اور بتوں کی عبادت کے اسباب میں سے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿وَقَالُوْا لاَ تَذَرُنَّ آلِہَتَکُمْ وَلاَ تَذَرُنَّ وَدًّا وَّلاَ سُوَاعًا وَلاَ یَغُوثَ وَیَعُوقَ وَنَسْرًا (23) وَقَدْ اَضَلُّوْا کَثِیْرًا وَّلاَ تَزِدِ الظٰلِمِیْنَ اِِلَّا ضَلاَلًا ﴾( نوح 24)’’ اور انھوں نے کہا تم ہرگز اپنے معبودوں کو نہ چھوڑنا اور نہ کبھی ودّ کو چھوڑنا اور نہ سواع کو اور نہ یغوث اور یعوق اور نسر کو۔ اور بلاشبہ انھوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کر دیا اور تو ان ظالموں کو گمراہی کے سوا کسی چیز میں نہ بڑھا۔‘‘سلف صالحین میں سے کئی ایک نے کہا ہے یہ حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کے نیک بزرگ لوگ تھا۔ جب ان کی وفات ہوگئی تو لوگ ان کی قبروں پر جم کر بیٹھ گئے؛ اور پھر ان کی مورتیاں گھڑ کر بنا لیں ؛ اور اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر ان کی پوجا کرنے لگے۔پس وہ تمام درگاہیں جوعموماً انبیاء؛ عام صالحین اور اہل بیت کی قبروں پر بنائی گئی ہیں ؛ یہ تمام نو ایجاد بدعت ہیں ؛ جو کہ دین اسلام میں حرام ہیں ۔ اور بیشک اللہ تعالیٰ نے حکم یہ دیا ہے کہ عبادت میں صرف اس کا قصد وارادہ کیا جائے ؛ جس کا کوئی شریک نہیں ؛ اور اس کی عبادت کے لیے مساجد ہیں درگاہیں نہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿قُلْ اَمَرَ رَبِّیْ بِالْقِسْطِ وَ اَقِیْمُوْا وُجُوْھَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ وَّ ادْعُوْہُ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ ﴾[الأعراف ۲۹]’’ کہہ دے میرے رب نے انصاف کا حکم دیا ہے اور اپنے رخ ہر نماز کے وقت سیدھے رکھو اور اس کے لیے دین کو خالص کرتے ہوئے اس کو پکارو۔‘‘اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿مَا کَانَ لِلْمُشْرِکِیْنَ اَنْ یَّعْمُرُوْا مَسٰجِدَ اللّٰہِ شٰھِدِیْنَ عَلٰٓی اَنْفُسِِمْ بِالْکُفْرِ اُولٰٓئِکَ حَبِطَتْ اَعْمَالُھُمْ وَ فِی النَّارِھُمْ خٰلِدُوْنَ٭ اِنَّمَا یَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰہِ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ اَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَی الزَّکٰوۃَ وَ لَمْ یَخْشَ اِلَّا اللّٰہَ فَعَسٰٓی اُولٰٓئِکَ اَنْ یَّکُوْنُوْا مِنَ الْمُھْتَدِیْنَ ﴾ [التوبۃ ۱۷۔۱۸]’’ مشرکوں کا کبھی حق نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی مسجدیں آباد کریں ، اس حال میں کہ وہ اپنے آپ پر کفر کی شہادت دینے والے ہیں ۔ یہ وہ ہیں جن کے اعمال ضائع ہوگئے اور وہ آگ ہی میں ہمیشہ رہنے والے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی مسجدیں تو وہی آباد کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان لایا اور اس نے نماز قائم کی اور زکوٰۃ ادا کی اور اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے نہ ڈرا۔ تو یہ لوگ امید ہے کہ ہدایت پانے والوں سے ہوں گے۔‘‘اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿وَاَنَّ الْمَسٰجِدَ لِلَّہِ فَلاَ تَدْعُوْا مَعَ اللّٰہِ اَحَدًا﴾ (الجن 18)’’ اور یہ کہ بلاشبہ مساجد اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں ، پس اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو مت پکارو۔‘‘قرآن کریم میں اس قسم کی مثالیں بہت زیادہ ہیں ۔قبروں کی زیارت دو طرح سے ہوتی ہے۔اہل توحید کی زیارت جو کہ متبعین رسل علیہم السلام ہیں ۔ اور اہل بدعت و شرک کی زیارت۔ پہلی قسم سے مطلوب و مقصود میت کو سلام کرنا اور اس کے لیے دعا کرنا ہوتا ہے؛ اورجب وہ مرگیا ہو تو اس کی قبر کی زیارت کا وہی مقام ہے جو اس کے لیے نماز جنازہ ؍ دعائے مغفرت کا مقام ہے۔ اس سے مقصود اس کے لیے دعا کرنا ہوتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ قبر کے پاس دعا کرنے والے کو ایسے ہی ثواب دیتے ہیں جیسے مردہ جب چارپائی پر ہو تو اس کی نماز جنازہ پڑھنے والے کو ثواب ملتا ہے۔دوسری قسم سے مقصود : قبر والوں سے حاجات طلب کرنا ہے۔ یا پھر ان کے نام کی قسم دی جائے۔ یا یہ گمان کریں کہ اس ولی کی قبر کے پاس دعا قبولیت کے زیادہ قریب ہوتی ہے۔ یہ تمام باتیں انتہائی بری بدعت ہیں ۔ اس پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ؛ صحابہ کرام اور تابعین کے دور میں کوئی بات نہیں تھی۔ بلکہ جب مسلمانوں نے شام ؛ عراق؛اور دوسرے علاقے فتح کئے تو وہاں پرجب وہ ایسی قبر دیکھتے جس پر دعا کے قصد سے جاتے ہوں ؛ تو اسے غائب کردیتے۔ جیسا کہ جب شہر تستر میں حضرت دانیال کی قبر ملی ؛تو انہوں نے دن میں تیرہ قبریں کھودیں ؛ اور رات کو ان میں سے ایک میں دفن کردیا۔ آپ کی لاش کھلی تھی۔ کفار آپ کے وسیلہ سے بارش طلب کرتے تھے۔تو مسلمانوں نے آپ کو غائب کردیا؛ اس لیے کہ ایسا کرنا شرک ہے۔‘‘صحیح مسلم میں ہے؛ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ قبروں پر نہ بیٹھو؛ اور نہ ہی ان کی طرف رخ کرکے نماز پڑھو۔‘‘ [مسلم ؛ کتاب الجنائز ۲؍۶۶۸]پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے؛ کیونکہ اس میں مشرکین کی مشابہت پائی جاتی ہے جو قبروں کو سجدہ کرتے ہیں ۔ سنن اور مسند میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’ تمام کی زمین سجدہ گاہ ہے؛ سوائے مقبرہ اور حمام کے۔‘‘ [1] [1] سننِ أبِی داود 1؍192 ؛ ِکتاب الصلاِۃ، باب المواضِعِ التِی لا تجوز فِیہا الصلاۃ؛ سننِ التِرمِذِیِ 1؍199 ؛ أبواب الصلاِۃ، باب ما جاء أن الأرض کلہا مسجِد ِإلا المقبرۃ والحمام ؛ سنن ابن ماجہ 1؍246 ؛ِ کتاب المساجِدِ والجماعاتِ، باب المواضِعِ التِی تکرہ فِیہا الصلاۃ۔اور وہ سبب جس کی وجہ سے مقبرہ میں نماز پڑھنے سے منع کیا گیا ہے؛ تو علمائے کرام رحمہم اللہ کے صحیح قول کے مطابق شرک کے ذرائع بندکرنے کے لیے ہے۔ جیسا کہ طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے وقت نماز پڑہنے سے منع کیا گیا ہے؛ کیونکہ وہ شیطان کے سینگوں کے درمیان میں سے طلوع ہوتا ہے۔ اور اس وقت میں مشرکین اس کو سجدہ کرتے ہیں ۔ پس اس وقت نماز کی ادائیگی سے منع کیا گیا؛کیونکہ اس وقت شکل و صورت میں ان لوگوں کی مشابہت پائی جاتی ہے بھلے قصد و ارادہ میں فرق ہو۔ایسے ہی مقبرہ میں اللہ تعالیٰ کے لیے نماز پڑھنے کی بھی ممانعت ہے؛ کیونکہ اس میں قبروں کو مساجد بنانے والوں کی مشابہت ہے۔کیونکہ نمازی کا مقصد اللہ تعالیٰ کے لیے نماز پڑہنا ہے؛ شرک کے ذرائع کو بند کرنا نہیں ۔مگر جب وہ اس ارادہ سے نماز پڑھے کہ وہاں پر قبر کے پاس دعا کرے؛ اور یہ عقیدہ رکھتا ہوکہ اس قبر کے پاس دعا قبولیت کے زیادہ قریب ہوتی ہے۔ تو ایسا کرنا باجماع مسلمین گمراہی ہے۔ اور ایسا کرنا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے حرام ٹھہرایا ہے۔اور اس سے بھی زیادہ سخت یہ ہے کہ انسان میت کو پکارے؛ یا اللہ تعالیٰ کو میت کی قسم دے: اور اس سے بھی شنیع اور برا اللہ تعالیٰ سے اس کے نام پر مانگناہے۔اور اس سے بھی برا دور دراز سے اس مقصد کے لیے سفر کرنا ہے۔ یا اس قبر کے نام کی نذر و نیاز مانناہے؛ یا وہاں پر تیل ڈالنا؛ شمع جلانا؛ اور سونا چاندی ڈالنا؛ اورقندیلیں جلانا؛ چادریں چڑھانا ہے۔ یہ تمام باتیں اہل شرک کی نذریں ہیں ؛ اور اس قسم کی نذور کے ناجائز ہونے پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے۔ جیسے صحیح حدیث میں ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :((من نذر أن یطِیع اللّٰہ تعالیٰ فلیطِعہ، ومن نذر أن یعصِیہ فلا یعصِہِ ۔))’’جس نے اس کی نذر مانی ہو کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرے گا تو اسے اطاعت کرنی چاہئے لیکن جس نے اللہ تعالیٰ کی معصیت کی نذر مانی ہو اسے نہ کرنی چاہئے۔‘‘[1] [1] البخاری 8؍142 ِ ؛ کتاب الإیمانِ والنذورِ، باب النذرِ فِی الطاعۃِ، سننِ أبِی داؤود 3؍315 ؛ کِتاب الإیمانِ والنذورِ، باب ما جاء فِی النذرِ فِی المعصِیۃِ؛ سننِ النسائِیِ 7؍16 ؛ کِتاب الإیمانِ والنذورِ، باب النذرِ فِی الطاعۃِ، سنن ابن ماجہ 1؍687 ؛ ِکتاب الکفاراتِ، باب النذرِ فِی المعصِیۃِ ؛ الموطأِ 2؍476 ؛ ِکتاب النذورِ، باب ما لا یجوز مِن النذورِ فِی معصِیِۃ اللّٰہِ۔اور یہ جائز نہیں ہے کہ اطاعت کے علاوہ کوئی نذر مانی جائے۔اور نذر بھی صرف اللہ تعالیٰ کے نام کی جائز ہے۔ پس جو کوئی غیر اللہ تعالیٰ کی نذر مانے وہ مشرک ہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے کوئی غیر اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے لیے روزہ رکھے؛ یا غیراللہ کو سجدہ کرے۔ یا کسی قبر کا حج کرے تو وہ مشرک ہے۔ بلکہ اگرکوئی تین مساجد کے علاوہ کسی اور مسجد کا سفر اللہ تعالیٰ کے لیے بھی کرے؛ تاکہ وہ وہاں پر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے؛ تو وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کا نافرمان ہے۔ تو پھر اس وقت کیا عالم ہوگا جب انسان ان تین مساجد کے علاوہ کسی جگہ کا سفر وہاں پر شرک کا ارتکاب کرنے کے لیے کرے۔ صحیحین میں حضرت ابو سعید اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہماسے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:(( لا تشدوا الرِحال ِإلا ِإلی ثلاثِۃ مساجِد المسجِدِ الحرامِ والمسجِدِ الأقصی ومسجِدِی ہذا۔ )) [1][1] البخاری 2؍60 ؛ ِکتاب فضلِ الصلاِۃ فِی مسجِدِ مکۃ والمدِینۃِ ؛ مسلِم 2؍975 ؛ ِکتاب الحجِ، باب سفرِ المرأۃِ مع محرم، 2؍1014 ؛ ِکتاب الحجِ، باب لا تشد الرِحال ِإلا إِلی ثلاثۃِ مساجِد۔ سننِ أبِی داود 2؍291 ؛ ِکتاب المناسکِِ باب فِی أِتیانِ المدِینۃ ؛ سننِ التِرمِذِیِ 1؍205 ؛کتاب الصلاِۃ، باب ما جاء فِی أیِ المساجِدِ أفضل ؛ سننِ النسائِیِ 2؍31 ؛ کتاب المساجِدِ، باب ما تشد الرِحال ِإلیہِ مِن المساجِد۔’’ پالان نہ باندھیں جائیں [مراد یہ ہے کہ سفر کا ارادہ کیا جائے] لیکن تین مساجد کی جانب ایک تو مسجد حرام یعنی بیت اللہ تعالیٰ کے لئے دوسری میری مسجد یعنی مسجد نبوی [صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم] کے واسطے تیسرے مسجد اقصی یعنی بیت المقدس کی جانب۔‘‘یہی وجہ ہے کہ متعدد علمائے کرام رحمہم اللہ نے فرمایا ہے: ’’مزاروں کی زیارت کا سفر کرنا ؛ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا کام ہے۔اور جو بعض حضرات نے سفر معصیت میں نماز قصر کو جائز نہیں کہا۔ بالخصوص جب اس سفر کو حج کا نام دیا ہے؛ اور اس کی ترغیب میں کتابیں لکھی جائیں ؛ اور انہیں درگاہوں کے حج کا نام دیا جائے۔ اور پھر ان شیعہ میں ایسے لوگ بھی ہیں جو ان درگاہوں اور مزارات کی طرف سفر اور ان کے حج کو اس بیت اللہ تعالیٰ کے حج سے افضل سمجھتے ہیں ؛ جو اللہ تعالیٰ نے لوگوں پر فرض کیا ہے۔اس معاملہ میں بہت سارے وہ لوگ مبتلاہوگئے ہیں جو اپنے مشائخ کی شان میں غلو کرتے ہیں ؛ جوکہ شیعہ اور اہل سنت دونوں میں سے ہیں ۔ حتی کہ ان میں سے کوئی ایک غافل دل اور لاپرواہی کے ساتھ فرض نماز اپنے گھر میں پڑھتا ہے؛ اور بغیر تدبر اورخشوع کے قرآن پڑھتا ہے؛مگر جب وہ قبر کی زیارت کرتا ہے؛ تو وہاں پر روتا ہے اور خشوع و خضوع اختیار کرتا ہے۔ اس پر گھبراہٹ اور کپکپی طاری ہوتی ہے۔ اورروتے روتے اس کے آنسوبہہ پڑتے ہیں ۔جیسے مشرکین بیت اللہ تعالیٰ کے پاس روتے اور گریہ و زاری کرتے تھے۔اور پھر ان میں سے بہت سارے لوگ ایسے بھی ہیں جو بیت اللہ تعالیٰ کا حج اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت میں نہیں کرتے؛ بلکہ وہ صرف قبر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کے لیے حج کرتے ہیں ۔جیسا کہ ان کے ائمہ اور مشائخ اور اس طرح کے دیگر لوگوں کا طریقہ کار رہا ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبراطہر کی زیارت کے بارے میں کافی احادیث پائی جاتی ہیں ؛ مگریہ سب ضعیف ہیں ؛ بلکہ ان میں سے اکثر موضوع ہیں ۔اہل صحیحین یا اصحاب سنن مشہورہ نے کوئی ایسی روایت ذکر نہیں کی۔ اور نہ ہی ائمہ مسلمین میں سے کسی ایک نے ان روایات سے استدلال کیا ہے۔ بلکہ ان کا اعتماد اس روایت پر رہا ہے؛ جو سنن ابی داؤد میں روایت کی گئی ہے؛ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :((ما مِن رجل یسلِم علیّ ِإلا رد اللّٰہ علیَّ روحِی حتی أرد علیہِ السلام )) [1][1] سنن ابی داؤد ۲؍ ۲۹۳ ؛ کتاب المناسک ؛ باب زیارۃ القبور’’ مجھ پر جب بھی کوئی سلام بھیجتا ہے تو اللہ تعالیٰ میری روح مجھے لوٹا دیتا ہے یہاں تک کہ میں اس کے سلام کا جواب دیتا ہوں ۔‘‘اورابن عبد البر رحمہ اللہ نے فرمایا ہے: ’’یہ حکم عام ہے؛ اور جو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوعاً ثابت ہے؛ اور اس کی وضاحت اس دوسری روایت سے ہوتی ہے جس میں آپ نے فرمایا:’’جب کوئی انسان کسی دوسرے انسان کی قبر سے گزرتا ہے؛ جسے وہ دنیا میں جانتا ہو؛ اوروہ اس پر سلام کرتا ہے؛ تو اللہ تعالیٰ اس کی روح کو اس پر لوٹا دیتے ہیں تاکہ وہ سلام کا جواب دے۔‘‘ [2] [2] فِی ’’ المعجمِ الکبِیرِ ‘‘ لِلسیوطِیِ 1؍718 حدِیثینِ بِہذا المعنی: الأول: ما مِن رجل یزور قبر حمید فیسلِم علیہِ ویقعد عِندہ ِإلا رد علیہِ السلام وأنِس بِہِ حتی یقوم مِن عِندِہِ۔وقال السیوطِی: أبو الشیخِ والدیلمِی عن أبِی ہریرۃ . والثانِی: ما مِن رجل کان یمر بِقبر کان یعرِفہ فِی الدنیا فسلم علیہِ ِإلا عرفہ ورد علیہِ۔قال السیوطِی: ابن عساکِر فِی تارِیخِہِ، عن أبِی ہریرۃ . وأورد ابن قیِمِ الجوزِیۃِ فِی ِکتابِ ’’الروحِ‘‘ص 4، ط. حیدر آباد 1383؍1963 ۔الحدِیث الذِی ذکرہ ابن تیمِیۃ وقال: إِن عبد البرِ رفعہ إِلی النبِیِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، ثم نقل عن ِکتابِ القبورِ لِابنِ أبِی الدنیا:’’ باب معرِفۃِ الموت بِزِیارۃِ الأحیائِ‘‘ عِدۃ أحادِیث وآثار بِنفسِ المعنی، ولِکنہ لم یتکلم عن درجۃِ ہذِہِ الأحادِیثِ والآثارِ ہل تصِح أم لا، انظر’’ ِکتاب الروحِ‘‘ ص 12۔اور سنن نسائی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے؛ فرمایا:’’ بیشک اللہ تعالیٰ نے میری قبر پر فرشتوں کو مقرر کر رکھاہے جو مجھ تک میری امت کا سلام پہنچاتے ہیں ۔‘‘ [3] [3] سنن النسائِی بِشرحِ السیوطِی؛ 3؍43 کتاب السہوِ، باب السلامِ علی النبِیِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ؛ المسندِ ط. المعارِفِ 5؍244 ؛ رقم 3666،؛ سننِ الدارِمِیِ 2؍317 ؛ ِکتاب الرِقاقِ، باب فِی فضلِ الصلاۃِ علی النبِیِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ۔ سنن ابی داؤد میں حضرت اوس بن اوس ثقفی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :(( أکثِروا علی مِن الصلاِۃ یوم الجمعِۃ ولیلۃ الجمعۃِ فإِن صلاتکم معروضۃ علیَّ ۔)) قالوا:کیف تعرض صلاتنا علیک وقد رِمت؟ ۔أ ی قد صِرت رمِیما۔ فقال: (( إِن اللّٰہ تعالیٰ حرم علی الأرضِ أن تأکل لحوم الأنبِیائِ۔))[4] [4] سنن ابی داؤد برقم 1531۔قال الالبانی: صحیح’’ جمعہ کے دن اور اس رات میرے اوپر کثرت سے درود بھیجا کرو ، اس لیے کہ تمہارے درود مجھ پر پیش کئے جاتے ہیں ۔‘‘ لوگوں نے عرض کیا : اللہ تعالیٰ کے رسول! آپ قبر میں بوسیدہ ہو چکے ہوں گے تو ہمارے درود آپ پر کیسے پیش کئے جائیں گے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ اللہ تعالیٰ نے زمین پر انبیائے کرام علیہم السلام کے جسم حرام کر دئیے ہیں ۔‘‘پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنن میں یہ معروف ہے کہ آپ پر صلاۃ و سلام پڑھا جائے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ اپنی کتاب مقدس میں فرماتے ہیں :﴿یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْاعَلَیْہِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا ﴾[الاحزاب ۵۶]’’ اے ایمان والو! اس پر صلوٰۃ بھیجو اور سلام بھیجو، خوب سلام بھیجنا۔‘‘صحیح حدیث میں ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:(( من صلی علیّ مرۃ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہِ عشرا ۔))’’ جو شخص ایک بار مجھ پر درود بھیجے اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل کرے گا۔‘‘لیکن جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر دور سے درود و سلام پڑھا جاتا ہے؛ تو وہ آپ تک پہنچادیا جاتا ہے۔ اور جب قریب سے آپ پر سلام پڑھا جاتا ہے تو آپ سلام کرنے والے کے سلام کو سنتے ہیں ۔ [1] [1] رواہ مسلِم 1؍306 ؛ ِکتاب الصلاِۃ، باب الصلاِۃ علی النبِیِ؛ ولفظہ : من صلی علی واحِد؛ ورواہ أحمد عنہ فِی مسندِہِ ط. المعارِفِ 3؍2852 رقما: 7551،ولکِن لفظہ:’’من صلی علی مرۃ واحِدۃ کتب اللہ عز وجل لہ بِہا عشر حسنات ؛ قال الشیخ أحمد شاِکر رحِمہ اللہ تعالیٰ فِی تعلِیقِہِ أن الحدِیث روِی بِلفظِ’’ صلی اللہ علیہِ عشرا ‘‘ سننِ بِی داود 2؍117 کتاب الوِترِ، باب فِی الِاستِغفارِ۔یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے جب کوئی ایک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر اطہر پر تشریف لاتا تو آپ پر اور آپ کے دونوں ساتھیوں پر سلام کرتا۔جیساکہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے؛ آپ یوں کہا کرتے تھے:السلام علیک یارسول اللّٰہ ؛ السلام علیک یا ابابکر السلام علیک یا ابہان میں سے کوئی ایک بھی وہاں پر رک کر اور قبر اطہر کی طرف منہ کرکے دعا نہیں کرتا تھا۔اسی لیے ائمہ اربعہ اور دیگر کا اتفاق ہے کہ جب کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام کرلے؛ اور دعا کرنا چائے ؛ تو وہ قبلہ رخ ہوکر دعا کرے گا؛ قبر کی طرف رخ کرکے نہیں ۔ پھر ایک گروہ جیسا کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے کہاہے: ’’ جب کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام کر لے؛ تو اسے چاہیے کہ قبر اطہر کی اس طرح پشت کرے کہ وہ قبر کی دائیں جانب ہو؛ اوراس کا رخ قبلہ کی طرف ہو۔ جب کہ اکثر علماء جیسے ۔ امام مالک ؛ امام شافعی ؛ اور امام احمد اوردیگر رحمہم اللہ ۔ کا کہنا ہے کہ:سلام کے وقت قبلہ کی طرف پیٹھ اور قبر کی طرف منہ کرے؛ اور جب دعا کرنا ہوتو صرف ایک اللہ تعالیٰ سے ہی دعا مانگے؛ اور اسی کے لیے نماز پڑھے؛ اور قبلہ رخ کرے۔ جیسا کہ عرفات میں یا صفا و مروہ پر یا جمرات کے پاس دعا کرتے ہوئے قبلہ کی طرف رخ کیا جاتا ہے۔حضرت مالک بن انس رحمہ اللہ اور دیگر حضرات مکروہ سمجھتے تھے کہ کوئی یوں کہے: ’’میں نے قبر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی‘‘ کیونکہ کبھی اس لفظ سے مراد وہ بدعت زیارت بھی لی جاسکتی ہے جو کہ شریعت مطہرہ میں ممنوع ہے؛ جیسے حاجات طلب کرنے کے لیے زیارت کرے۔ پس یہ حضرات ایسا لفظ بھی زبان پر لانا مکروہ سمجھتے تھے جس میں شرک کی ملاوٹ ہو؛ یا پھر لوگوں نے کوئی ایسا لفظ ایجاد کرلیا ہو؛ اوروہ فاسد معانی پر مشتمل ہو۔اور اگر لفظ زیارت سے مراد شرعی زیارت ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں : انہوں نے سلف صالحین میں سے کسی ایک کو بھی نہیں دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر اطہر کے پاس رک کر اپنے لیے یا کسی کے لیے دعا کرتا ہے۔ یہ کام بدعت ہے۔ اور آپ فرمایا کرتے تھے:’’ اس امت کے آخری لوگوں کی اصلاح اسی چیز سے ہوگی جس سے پہلے لوگوں کی اصلاح ہوئی تھی۔ امام مالک رحمہ اللہ وہ ہستی ہیں جنہوں نے مدینہ طیبہ میں تابعین رحمہم اللہ کا دور پایا تھا۔ اوروہ تمام لوگوں کے بڑھ کراللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے واجب حقوق کے جاننے والے تھے۔پس جب خیر الخلائق صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں بھی ایسے تھا جو کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ عزت والے ؛ اوربنی آدم کے سردار؛ اور لوائے حمد کے علمبردار ہیں ؛بروز قیامت اس علم کے نیچے حضرت آدم علیہ السلام اور ان کے بعد کے تمام لوگ جمع ہوں گے۔ اور آپ ہی اس وقت انبیائے کرام علیہم السلام کے خطیب ہوں گے؛ جب وہ وفد کی صورت میں رب تعالیٰ کے حضور حاضرہوں گے۔اور تمام انبیاء کی جماعت کے وقت ان کے امام ہوں گے۔ اور آپ کو وہ مقام محمود عطا کیا گیا ہے؛ جس پر اگلے اور پچھلے لوگ رشک کریں گے۔آپ خاتم الانبیاء اور سید المرسلین ہیں ؛ اللہ تعالیٰ نے آپ کو سب سے افضل دیکر سب سے بہترین اور لوگوں کی خیر خواہ امت کی طرف مبعوث کیا تھا ۔اور آپ پر سب سے افضل کتاب نازل کی ؛ اوراسے اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرنے والی اور ان پر نگہبان بنادیا۔ اس کے ذریعہ سے مخلوق کو ہدایت دی اور انہیں اندھیروں سے روشنی کی طرف نکالا؛ اوراللہ غالب و حکمت والے کی راہ کی طرف ہدایت دی؛ اوروہ کتاب جس کے ذریعہ اللہ نے حق و باطل؛ ہدایت اور گمراہی؛ کامیابی اور ناکامی؛ اور راہ جنت اور راہ جہنم کے درمیان فرق کیا ہے۔ وہ جس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے بندوں کو نیک بخت او ﴿وَ رَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْئٍ فَسَاَکْتُبُھَا لِلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَ الَّذِیْنَ ھُمْ بِاٰیٰتِنَا یُؤْمِنُوْنَ O اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَہٗ مَکْتُوْبًا عِنْدَھُمْ فِی التَّوْرٰیۃِ وَ الْاِنْجِیْلِ یَاْمُرُھُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھٰھُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ یُحِلُّ لَھُمُ الطَّیِّبٰتِ وَ یُحَرِّمُ عَلَیْھِمُ الْخَبٰٓئِثَ وَ یَضَعُ عَنْھُمْ اِصْرَھُمْ وَ الْاَغْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْھِمْ فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْ بِہٖ وَ عَزَّرُوْہُ وَ نَصَرُوْہُ وَ اتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ مَعَہٗٓ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ﴾[الأعراف ۱۵۶۔ ۱۵۷]
ر بدبخت میں تقسیم کیا ہے؛ پس وہ انسان نیک بخت ہے جو اس پر ایمان لایا؛ اور اس کی اطاعت کی؛ اور بد بخت وہ انسان ہے جس نے اسے جھٹلایا اور نافرمانی کی۔ نجات اور سعادت مندی اسی سے بندھے ہوئے ہیں ۔ کوئی اور سبب ایسا نہیں ہے جس کی بنا پر انسان اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نجات پاسکے؛ اور دنیا اور آخرت کی کامیابی سمیٹ سکے۔ جن تک اس کتاب کی دعوت پہنچ گئی ان پر حجت رسالت قائم ہوگئی۔ سعادت تو اس پر ایمان لانے میں اور اس نور کی اتباع کرنے میں ہے جو اس کے ساتھ نازل ہو۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :کوئی مجھ سے مانگنے والا ہے کہ میں اسے دوں کوئی مجھ سے بخشش طلب کرنے والا ہے کہ میں اس کو بخش دوں ۔‘‘[اس کی تخریج گزر چکی ہے]پس انبیائے کرام علیہم السلام لوگوں کو صرف ایک اللہ تعالیٰ وحدہ لاشریک کی عبادت بجا لانے ؛ اور اسی سے سوال کرنے اور اسی کو پکارنے کا حکم دیا کرتے تھے؛ اور لوگوں کو منع کیا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کو نہ پکارا جائے۔ صحیح حدیث میں ہے؛ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’ بیشک اللہ تعالیٰ کی نزدیک محبوب ترین جگہیں مساجد ہیں ؛ اور سب سے نا پسندیدہ بازار ہیں ۔‘‘ [1] [1] مسلِم 1؍464 ؛ ِکتاب المساجِدِ ؛ ومواضِعِ الصلاِۃ، باب فضلِ الجلوسِ فِی مصلاہ بعد الصبحِ، وفضلِ المساجِدِ . وفِی المسندِ ط. الحلبِی4؍81۔یعنی وہ ٹھکانے جو آپ کے شہر میں تھے۔اس وقت مدینہ میں کوئی کنیسا یا گرجا گھر نہیں تھا؛ اور نہ ہی کوئی شرک کرنے کی جگہ تھی۔ وگرنہ یہ مواقع بازاروں سے زیادہ برے ہیں ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان گرامی بھی ہے :’’ بیشک سب سے برے وہ لوگ ہیں جن پر قیامت آئے گی؛ اوروہ زندہ ہوں گے؛ اور وہ قبروں کو مساجد بنائے ہوئے ہونگے۔‘‘یہ تو اس وقت ہے جب کسی صحیح اور ثابت شدہ قبر پر درگاہ کے نام پر مسجد بنالی جائے؛ تو پھر اس وقت کیا عالم ہوگا جب بہت ساری درگاہیں جو کہ انبیائے کرام علیہم السلام صالحین رحمہم اللہ اورصحابہ اور اہل بیت رضی اللہ عنہم کی قبروں پر بنائی گئی ہیں ؛ ان میں سے اکثر جھوٹ ہیں ۔ اور ان میں سے بہت ساری قبروں کے بارے میں اختلاف ہے؛ کسی بھی ثقہ کی روایت سے ان کی توثیق نہیں ہوسکی۔ جیسا کہ شام ؛ عراق اور خراسان وغیرہ کے علاقوں میں اکثر پایا جاتا ہے۔ ان کو پوشیدہ رکھنے کا سبب اور ان میں کثرت کے ساتھ اختلاف ؛ بیشک یہ اس دین کی حفاظت کا ایک ذریعہ تھاجس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اپنی رسول کو مبعوث فرمایا تھا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:﴿اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ﴾(الحجر۹) ’’بیشک ہم نے ہی یہ نصیحت نازل کی اور بے شک ہم ہی اس کے محافظ ہیں ۔‘‘ان ٹھکانوں [درگاہوں ]کو عبادت گاہیں بنانادین میں سے نہیں ہے۔ اسی لیے ان مقامات اور درگاہوں کی حفاظت نہیں کی گئی ۔ بلکہ یہ سارا معاملہ جہالت اورگمراہی پر مبنی ہے۔ بیشک یہ لوگ ان خوابوں پر بھروسہ کرتے ہیں جو شیاطین کی طرف سے بھی ہوسکتی ہیں ؛ یا پھر ایسی روایات کو بنیاد بناتے ہیں جو کہ جھوٹ ہیں ۔ یا پھر ایسے لوگوں سے مروی ہیں جن کی روایات پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔شیاطین اپنے چیلوں کو اسی طرح گمراہ کرتے ہیں جیسے بتوں کے پجاریوں کو گمراہ کرتے ہیں ۔ اور کبھی کبھار ان سے ہم کلام بھی ہوتے ہیں ۔ اور کبھی ان کے سامنے بھی آتے ہیں ۔ او ربعض اوقات ان کی کچھ ضرورتیں بھی پوری کرتے ہیں ۔ اور کبھی ایسے مقامات پر چیختے ہیں ؛اور ان زنجیروں کو ہلاتے ہیں جن میں قندیلیں بندھی ہوئی ہوتی ہیں ۔ اور کبھی بعض قندیلوں کو بجھا بھی دیتے ہیں ۔ اور کبھی اس طرح کے دوسرے ایسے کام بھی کرتے ہیں جیسے کام عرب میں بتوں کے پجاری کیا کرتے تھے۔ اور آج کل ایسی حرکتیں ترکستان ؛ چین اورسوڈان کے بتوں کے ساتھ کر رہے ہیں ۔ تو [جاہل لوگ] یہ گمان کرتے ہیں کہ یہ تو قبروالا میت ہی ہے؛ یا پھر فرشتے کو اس کی صورت میں بنادیا گیا ہے۔ حقیقت میں وہ شیطان ہوتا ہے جو ان شرک دھندوں پر لگا کر انہیں گمراہ کرتا ہے۔ جیسا کہ ان بت پرستوں کے ساتھ پیش آتا ہے جنہوں نے آدمیوں کی صورت میں بت تراش رکھے ہوتے ہیں ۔ یہ باب اپنی جگہ بہت وسیع ہے؛ اس کے احاطہ کا یہ موقع نہیں ہے۔