Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

ائمہ شیعہ معصومین اور حصول علم دین:

  امام ابنِ تیمیہؒ

ائمہ شیعہ معصومین اور حصول علم دین:[اشکال]:.... شیعہ کہتے ہیں کہ: ’’شیعہ نے فروعی احکام ائمہ معصومین نے اخذ کئے ہیں جنہوں نے اپنے جدا مجد جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے استفادہ کیا تھا....۔‘‘[جواب]:.... ۱۔اس کا پہلا جواب تو یہ ہے کہ: مذکورہ بالا ائمہ نے اپنے جد امجد کا علم علماء سے ایسے ہی حاصل کیا تھاجیسے باقی تمام مسلمان علماء سے علم حاصل کرتے چلے آئے ہیں ۔ ان سے براہ راست استفادہ نہیں کیا۔ یہ بات ایک خبر متواتر کی طرح معروف و مسلم ہے۔ مثلاً علی بن حسین ؛ابان بن عثمان سے اور وہ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:((لا یرِث المسلِم الکافِر ولا الکافِر المسلِم۔))[1][1] الحدِیث رواہ عن أسامۃ بنِ زید رضی اللّٰہ عنہ البخاری فِی ثلاثِ مواضِع:۲؍۱۴۷۔ِکتاب الحجِ، باب تورِیثِ دورِ مکۃ۔۵؍۱۴۷کتاب المغازِی، باب أین رکز النبِی صلی اللّٰہ علیہ وسلم الرایۃ یوم الفتح۔ ۸؍۱۵۶۔کتاب الفرائِضِ، باب لا یرِث الکافِر المسلِم . وہو مروِی أیضا فِی مسلِم۳؍۱۲۳۳؛ أول کِتابِ الفرائِض . وفِی سندِ الحدِیثِ فِی ہذِہِ المواضِعِ جمِیعا: عن علِیِ بنِ الحسینِ عن عمرِو بنِ عثمان عن أسامۃ بنِ زید. وعمرو بن عثمان ہو شقِیق أبان، وانظر طبقاتِ ابنِ سعد: ۱؍۱۵۱۔والحدِیث فِی سننِ أبِی داؤد ۳؍۲۸۶۔ِکتاب الفرائِضِ،سنن ابن ماجہ ۲؍۹۱۱۔ِکتاب الفرائِضِ: باب مِیراثِ أہلِ الإِسلامِ مِن أہلِ الکفرِ۔’’ کوئی مسلمان کسی کافر کا وارث نہیں بن سکتا اور نہ ہی کافر مسلمان کا وارث بن سکتا ہے۔‘‘اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان گرامی ہے:(( من أعتق رقبۃ مؤمِنۃ أعتق اللّٰہ تعالیٰ بِکلِ عضوٍ مِنہا عضوًا مِن النارِ حتی فرجہ بِفرجِہ۔)) [2]  [2] الحدِیث عن أبِی ہریرۃ رضی اللہ عنہ فِی: البخاری 3؍144 کتاب العِتقِ، باب ما جاء فِی العِتقِ وفضلِہِ؛ مسلِم 2؍1147 ؛ کتاب العِتقِ، باب فضلِ العِتق . والحدِیث فِی: سننِ التِرمِذِیِ 3؍49 ؛ کتاب النذورِ، باب فِی ثوابِ من عتق رقبۃ۔  أخرجاہ فِی الصحِیحینِ۔’’ جو کوئی کسی مؤمن کو آزادی دیتا ہے ؛ تو اللہ تعالیٰ اس کے ہر عضو کے بدلے اس کے ہر عضو کو جہنم کی آگ سے آزاد کرتے ہیں ؛ حتی کہ شرمگاہ کے بدلے شرمگاہ۔‘‘ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہماانصار کے ایک فرد سے روایت کرتے ہیں : ’’ایک ستارہ ٹوٹا جس سے روشنی ہوگئی۔‘‘ [3] [3] یہ پوری حدیث یوں ہے : کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ایک ستارہ ٹوٹا جس سے روشنی ہوگئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم لوگ زمانہ جاہلیت میں اگر ایسا ہوتا تھا تو کیا کہتے تھے؟ عرض کیا گیا ہم کہتے تھے کہ یا تو کوئی بڑا آدمی مرے گا یا کوئی بڑا آدمی پیدا ہوگا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی کی موت وحیات کی وجہ سے نہیں ٹوٹتا بلکہ ہمارا رب اگر کوئی حکم دیتا ہے تو حاملین عرش [فرشتے]تسبیح کرتے ہیں پھر اس آسمان والے فرشتے جو اس کے قریب ہے۔ پھر جو اس کے قریب ہیں ۔ یہاں تک کہ تسبیح کا شور اس آسمان تک پہنچتا ہے۔ پھر چھٹے آسمان والے فرشتے ساتویں آسمان والوں سے پوچھتے ہیں کہ تمہارے رب نے کیا فرمایا؟ وہ انہیں بتاتے ہیں اور پھر ہر نیچے والے اوپر والوں سے پوچھتے ہیں یہاں تک کہ وہ خبر آسمان دنیا والوں (اسی طرح ابو جعفر محمد بن علی حضرت جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ سے حج والی طویل حدیث روایت کرتے ہیں ۔یہ اس باب میں روایت کردہ سب سے بہترین حدیث ہے۔اور انہی کی سند سے امام مسلم نے اپنی صحیح میں حضرت جعفر سے انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت جابر سے روایت کیا ہے۔٭ دوسرا جواب یہ ہے کہ معصومین میں سے سن رشد و تمیز میں صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ پایا تھا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرنے میں آپ ثقہ اور صادق ہیں ۔جیسا کہ آپ جیسے دوسرے صحابہ کرام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرنے میں ثقہ اور صادق ہیں ۔الحمد للہ کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام آپ سے حدیث روایت کرنے میں تمام لوگوں سے بڑھ کر سچے ہیں ۔ ان میں سے کسی ایک کے بارے میں بھی یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ اس نے جان بوجھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بولا ہو۔ حالانکہ ان میں سے کئی ایک سے غلطیاں ہوئی ہیں ؛ ان سے گناہ بھی ہوئے ہیں ۔ اس لیے کہ وہ معصوم نہیں تھے۔اس کے باوجود اہل فن اوراہل امتحان ناقدین نے یقیناً آزمایا؛ اوراصول حدیث کے مطابق ان کی جانچ پرکھ کی؛ ان میں سے کسی ایک کے بارے میں بھی یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ اس نے جان بوجھ کر جھوٹ بولا ہو۔ بخلاف دوسری صدی کے؛ بلاشک و شبہ اس دور میں کوفہ میں ایسے لوگوں کی ایک جماعت موجود تھی جو جان بوجھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بولا کرتے تھے۔اسی وجہ سے تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بالاتفاق اہل فقہ اور محدثین کے نزدیک ثقہ ہیں ۔ حتی کہ وہ لوگ جو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے متنفر بھی تھے؛ جب آپ ان کے سامنے مدینہ کے منبر پر کوئی حدیث بیان کرتے ؛ تو وہ کہا کرتے تھے: ’’حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ان پر کوئی تہمت نہیں لگائی جاسکتی ۔‘‘ابن حجر رحمہ اللہ نے الاصابہ ۳؍۴۱۳ پر آپ کے حالات زندگی میں تحریر کیا ہے؛اور آپ سے روایت کرنے والوں میں صحابہ میں سے : حضرت ابن عباس وجرِیر البجلِی ومعاوِیۃ بن خدِیج والسائِب بن زید وعبد اللہِ بن زبیر والنعمان بن بشِیر وغیرہم شامل ہیں ۔حتی کہ حضرت بسر بن ارطاۃ رضی اللہ عنہ [1][1] تک پہنچ جاتی ہے اور شیاطین کان لگا کر سنتے ہیں تو اس ستارے سے انہیں مارا جاتا ہے، پھر یہ اپنے دوستوں [یعنی غیب کی خبروں کے دعویداروں ] کو آکر بتاتے ہیں ۔ پھر وہ جو بات اسی طرح بتاتے ہیں تو وہ صحیح ہوتی ہے لیکن وہ تحریف بھی کرتے ہیں اور اس میں اضافہ بھی۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [صحیح مسلم ؛ ۴؍ ۱۷۵۰۔ کتاب السلام ؛ باب تحریم الکہانۃ؛سنن ترمذی ۵؍ ۴۰]۔  بسر بن ارطاۃ کا پورا نام عمیر بن عویمر بن عمران ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کی سماعت کے بارے میں اختلاف ہے۔ آپ حضرت امیر معاویہ کے سالاروں میں سے ایک تھے۔ آپ بصرہ کے گورنر تھے؛ اور یمن کا علاقہ بھی آپ کی عملداری میں شامل تھا۔ آپ کی وفات سن ۸۶ہجری میں ہوئی۔جہاں تک ان روایات کا تعلق ہے تو ان کی تخریج آمدہ سطور میں دیکھیں : روی أبو داود فِی السننِ 4؍200 ؛ کتاب الحدودِ، باب فِی الرجلِ یسرِق فِی الغزوِۃ أیقطع؟ : عن جنادۃ أبِی أمیۃ قال: کنا مع بسرِ بنِ أرطاۃ فِی البحرِ، فأُتِیَ بِسارِق یقال لہ مِصْدرٌ قد سرق بختِیۃً، فقال: سمِعت(؛ ان کے بارے جو باتیں معروف ہیں ؛ اس کے باوجود ان کی دو احادیث امام ابو داؤد رحمہ اللہ نے اوردیگرحضرات نے روایت کی ہیں ۔ اس لیے کہ یہ حضرات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرنے میں سچائی میں معروف تھے۔درحقیقت یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس دین کی حفاظت کے لیے بندو بست تھا۔ ان میں سے کوئی ایک بھی جان بوجھ کر رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ نہیں بولا کرتا ہے؛ اگر کسی نے ایسا کیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کا پردہ چاک کردیا؛ اور اس کا معاملہ طشت ازبام کرکے رکھ دیا۔ یہی وجہ تھی کہ اگر رات کے اندھیرے میں سحری کے وقت کو ئی انسان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بولنے کا ارادہ بھی کرلیتا تو صبح کو لوگ کہتے: فلاں انسان کذاب ہے۔ تابعین کرام رحمہم اللہ مدینہ طیبہ؛ مکرمہ ؛ شام ؛ بصرہ اور دیگر علاقوں میں ان میں سے بہت ہی کم کسی کا جھوٹا ہونا معلوم تھا۔ لیکن غلطی سے کوئی بشر معصوم نہیں ہے۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ: ان میں ایسے حضرات بھی ہیں جو کہ ضعیف ہیں ۔ اور کچھ ایسے ہیں جن پر ان جیسے دوسرے علماء نے کلام بھی کیا ہے۔ اہل علم میں ایسے لوگ ہیں جو اپنے حافظہ کی کمزوری کی وجہ سے غلطی کر جاتے ہیں اور بھول جاتے ہیں ۔ مگر کوئی بھی جان بوجھ کر جھوٹ نہیں بولتا ۔[1] [1] رسول اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول:’’ لا تقطع الأیدِی فِی السفرِ۔‘‘ولولا ذلِک لقطعتہ. والحدِیث فِی: سننِ التِرمِذِیِ 3؍5 ؛ کتاب الحدودِ، باب ما جاء أن لا تقطع الأیدِی فِی الغزوِ؛ وقال التِرمِذِی: ہذا حدِیث غرِیب، وقد رواہ غیر ابنِ لہِیعۃ بِہذا الِإسنادِ نحو ہذا. والحدِیث عن بسر فِی: سننِ النسائِیِ 8؍84 ؛ ِکتاب قطعِ السارِقِ، باب القطعِ فِی السفرِ؛ ولفظہ: ’’ لا تقطع الأیدِی فِی السفرِ‘‘. وصحح اللبانِی الحدِیث فِی صحِیحِ الجامِعِ الصغِیرِ" 6؍168. ورو ہذا الحدِیث أحمد فِی مسندِہِ ؛ ط. الحلبِیِ 4؍181. ۔  حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :’’اﷲ کی قسم!آسمان سے زمین پر گر پڑنا میرے لیے اس سے زیادہ پسندیدہ ہے کہ میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھوں اور جب میں باہمی امور پر گفتگو کروں گا تو لڑائی میں فریب دہی کی اجازت ہے۔‘‘یہی وجہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ایک بات کہہ کر اس سے رجوع کر لیا کرتے تھے، چنانچہ کتب شیعہ ائمہ سے نقل کردہ مختلف روایات سے لبریز ہیں ۔ ]] مسند احمد(۱؍۱۳۱) صحیح بخاری کتاب المناقب۔ باب علامات النبوۃ فی الاسلام (ح:۳۶۱۱)، صحیح مسلم کتاب الزکاۃ۔ باب التحریض علی قتل الخوارج (ح :۱۰۶۶)۔جہاں تک آپ کے دو صاحبزادوں حضرات حسن و حسین رضی اللہ عنہما کا تعلق ہے؛ تو انہوں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ پایا تھا؛ اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو وہ دونوں ابھی بچے تھے؛ سمجھ کی عمر کو نہیں پہنچے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی روایت بہت کم ہے۔ اور باقی تمام اثناعشریہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ نہیں پایا۔پس کسی کہنے والے کا یہ کہنا کہ :انہوں نے اپنے نانا سے روایت کی؛اگر اس سے مراد یہ ہو کہ جو کچھ ان کے نانا نے کہا ہے؛ وہ ان کی طرف وحی کیا گیا؛ تو یہ نبوت کا دعوی ہے۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے انبیاء کی طرف وحی آتی تھی۔ یہ بات تو انبیاء کرام علیہم السلام کے علاوہ کسی کے لیے نہیں ہوسکتی۔اگر اس کی مراد یہ ہے کہ : انہوں نے دوسروں سے سنا؛ تو پھر یہ ممکن ہے کہ کسی ایسے غیر سے بات سنی گئی ہو جس نے ان حضرات سے احادیث سنی ہوں ؛ خواہ ان کا تعلق بنو ہاشم سے ہو یا کسی دوسرے سے ۔ تو پھر ان کے نانان سے روایت کرنے میں کون سی امتیازی بات ہے؛ سوائے اس کے کہ اس کی حفاظت کا پورا اہتمام اور رعایت کی جائے۔ بلا شک و شبہ جو کوئی احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کابہت زیادہ اہتمام اور خیال کرنے والا ہو؛ اور اس کے حصول میں مشغول رہتا ہو؛ وہ دوسروں کی نسبت زیادہ بڑا عالم ہوتا ہے۔

یہ ان حضرات کی کوئی خصوصیت نہیں ہے۔ بلکہ دوسرے لوگوں میں ایسے حضرات بھی ہیں جوبنی ہاشم کے اکثر لوگوں سے بڑھ کر سنت کے عالم ہیں ۔امام زہری رحمہ اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ ؛ آپ کے احوال و اقوال اور افعال کے حضرت ابو جعفر محمد بن علی رحمہ اللہ سے بڑے عالم تھے؛ اس پر تمام اہل علم کا اتفاق ہے۔ اوریہ دونوں حضرات معاصر تھے۔جب کہ موسی بن جعفر اور علی بن موسی اور محمدبن علی رحمہم اللہ ؛ توعلم کی معمولی سی شد بد رکھنے والا بھی جانتا ہے کہ حضرت مالک بن انس ؛ حماد بن زید اور حماد بن سلمہ؛ لیث بن سعد ؛ اوزاعی؛ یحی بن سعید ؛ وکیع بن جراح اور عبداللہ بن مبارک؛ امام شافعی ؛ احمد بن حنبل؛ اسحق بن راہویہ ؛ رحمہم اللہ اور ان کے امثال و ہنمواء ان حضرات سے بڑے عالم تھے۔اس کی گواہی ان احادیث و آثار سے ملتی ہے جو دیکھے اور سنے جاسکتے ہیں ۔جیسا کہ آثار اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دور میں اہل ایمان نے بہت بڑا جہاد کیا؛ اور انہیں فتوحات حاصل ہوئیں ۔اور آپ کفارو منافقین کی بیخ کنی اور سرکوبی پر حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہماکی نسبت زیادہ قادر تھے۔اور اس کی مزید وضاحت اس چیز سے ہوتی ہے کہ ان حضرات نے سند کے ساتھ جو احکام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کئے ہیں ؛ وہ اس سے کئی گنا بڑھ کر ہیں جو ان دوسرے لوگوں نے روایت کئے ہیں ۔پس کسی مدعی کا یہ دعوی کرلینا کہ ان حضرات میں سے کسی ایک نے جو بھی فتوی دیا ہے؛ وہ ان کے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی روایت سے موجود ہے؛ تو یہ ان حضرات پر بہت بڑا جھوٹ ہے۔ رضی اللہ عنہم ۔۔ اس لیے کہ یہ حضرات اپنے اقوال اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول مرویات کے مابین فرق کیا کرتے تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے: ’’ جب میں تم سے کوئی حدیث بیان کرتا ہوں ؛ تو اللہ تعالیٰ کی قسم ! مجھے آپ پر جھوٹ بولنے سے یہ بات زیادہ بہتر لگتی ہے کہ میں آسمان سے زمین پر گرجاؤں ۔اور جب میں تم سے اپنے اور تمہارے درمیان کوئی بات کروں ؛تو بیشک جنگ دھوکہ ہوتی ہے۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ آپ آج ایک بات کہتے؛ اور کل اس سے رجوع کر لیتے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے مابین بھی مسائل میں ایسے ہی اختلاف تھا جیسے دوسروں کے ہاں ہوتا ہے۔ اور آپ سے مختلف اقوال نقل کئے گئے ہیں ؛ جیسے دوسرے لوگوں سے نقل کئے جاتے ہیں ۔ شیعہ اور اہل سنت کی کتابیں ان مختلف روایات سے بھر پور ہیں ۔