ابن مطہر کی ذکر کردہ پہلی وجہ پر جامع رد صفات باری اور اہل سنت پر شیعہ کا بہتان :
امام ابنِ تیمیہؒابن مطہر کی ذکر کردہ پہلی وجہ پر جامع رد صفات باری اور اہل سنت پر شیعہ کا بہتان :[اعتراض]: شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’شیعہ کے علاوہ دیگر اہل اسلام مختلف فرقوں میں بٹ گئے۔ان میں سے بعض ۔اشاعرہ کی ایک جماعت ۔ ذات اللہ تعالیٰ کے ساتھ کچھ اور چیزوں کو بھی قدیم قرار دیتے ہیں ، ان کا زاویہ نگاہ یہ ہے کہ صفات الٰہی موجود فی الخارج ہیں ،جیسے علم اورقدرت۔پس وہ کہتے ہیں : اﷲکریم عالم ہونے میں صفت علم کے ثبوت کا محتاج ہے اور قادر ہونے میں صفت قدرت کا ’’وَہَلُمَّ جرًّا ۔‘‘ اشاعرہ کی رائے میں اﷲ تعالیٰ نہ قادر لذاتہ ہے، نہ عالم لذاتہٖ اور نہ حی لذاتہ۔ٖ بخلاف ازیں ان صفات سے متصف ہونے میں وہ ان کا محتاج اور کامل بغیرہ ہے ۔تعالی اللہ عن ذلک علواً کبیراً۔ اس طرح وہ اللہ تعالیٰ کو اپنی ذات میں ناقص اور محتاج بتاتے ہیں ؛ اور کہتے ہیں :یہ ذاتی صفات ہیں ۔ان کے ایک شیخ امام فخر الدین رازی رحمہ اللہ ان پر ہی انکار کرتے ہوئے فرماتے ہیں :’’نصاری تین اشیاء کو قدیم مان کر کافر ہوگئے اور اشاعرہ نے قدماء کی تعداد نو تک بڑھا دی۔‘‘[آہ رافضی][جواب ]: مذکورہ بالا امور کی تردید کئی طریقہ سے کی جا سکتی ہے:* وجہ اوّل: یہ اشاعرہ پر بہتان طرازی ہے، اشاعرہ میں سے کوئی بھی یہ نہیں کہتا کہ اﷲ تعالیٰ[ناقص بذاتہ ہے؛ یعنی] بذات خود کامل نہیں اور وہ اپنے کمال میں دوسروں کا محتاج ہے۔اور امام رازی رحمہ اللہ نے بھی یہ بات کہیں نہیں لکھی جو اس نے اعتراض میں ذکر کی ہے۔ بلکہ امام رازی رحمہ اللہ نے کسی ایسے کا یہ قول نقل کر کے اس کی مذمت بیان کی ہے[1] [1] یہ مسئلہ امام رازی نے اپنی کتاب ’’ الاربعین فی اصول الدین ‘‘ ص ۱۵۹ پرذکر کیا ہے۔ جب انہوں نے پندرھویں مسئلہ میں مثبتین صفات پر معتزلہ کے شبہ کا رد کیا ہے۔ تووہ کہتے ہیں : چھٹا شبہ : ’’بیشک اللہ تعالیٰ نے نصاری کو اس لیے کافر قرار دیا ہے کہ وہ تین الہ مانتے تھے....۔‘‘ والاول : یہ باطل ہے؛ اس لیے کہ نصاری تین ایسی ذوات کو قدیم نہیں مانتے جو خود اپنی ذات کے ساتھ قائم ہوں ۔‘‘ جب ان کا یہ عقیدہ ہی نہیں تھا؛ تو پھر یہ محال ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس وجہ سے انہیں کافر قرار دیں ؛ ....۔‘‘ چھٹا شبہ : ’’ بیشک اللہ تعالیٰ نے نصاری کو ان کے اس عقیدہ کی وجہ سے کافر کہا ہے کہ : ﴿ لَقَدْ کَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللّٰہَ ثَالِثُ ثَلٰثَۃٍ ﴾[المائدۃ ۷۳] ’’بلاشبہ یقیناً ان لوگوں نے کفر کیا جنھوں نے کہا بے شک اللہ تعالیٰ تین میں سے تیسرا ہے۔‘‘ تو یہ معاملہ ان احوال سے خالی نہیں ہے؛ یا تو یہ کہا جائے کہ: بیشک اللہ تعالیٰ نے اس لیے انہیں کافر کہا ہے کہ وہ ایسی (جس نے ان پر اعتراض کیا ہے۔چنانچہ امام رازی کہتے ہیں : یہ منکرین صفات جہمیہ کا پرانا اعتراض ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اپنی کتاب’’ الرد علی الجہمیۃ ‘‘ میں اس کی تردید کرتے ہوئے اس مسئلہ پر روشنی ڈالی ہے۔امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’ جب ہم نے اللہ تعالیٰ کی یہ صفات بیان کیں تو جہمیہ کہنے لگے: تمہارا یہ خیال ہے کہ : اللہ تعالیٰ اور اس کا نور؛ اللہ تعالیٰ اور اس کی قدرت؛ اللہ تعالیٰ اور اس کی عظمت ....یہ ہمیشہ سے رہے ہیں ؛ تمہارا یہ عقیدہ تو نصاری والا عقیدہ ہے ۔ اس لیے کہ تمہارا یہ خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کا نور اوراللہ تعالیٰ اور اس کی قدرت ہمیشہ سے ہیں ۔تو جواباً عرض ہے کہ:’’ہم یوں نہیں کہتے کہ باری تعالیٰ ازلی ہے، اور اس کا نور و قدرت بھی ازلی ہے۔ بلکہ یوں کہتے ہیں کہ وہ اپنے نور و قدرت کے ساتھ ازلیٰ ہے۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ قدرت کی صفت اس میں کب آئی اور کیسے آئی؟[اعتراض ] جہمیہ کہتے ہیں :’’ تم اس وقت تک موحد نہیں ہو سکتے، جب تک یہ نہ کہو کہ اﷲ تعالیٰ ازل سے تھا اور دوسری کوئی چیز نہ تھی؟ہم جواباً کہتے ہیں کہ:’’ بلاشبہ اﷲ تعالیٰ ازل سے تھا اور دوسری کوئی چیز نہ تھی۔لیکن جب ہم یہ کہتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ ازل ہی سے اپنی تمام صفات کے ساتھ متصف تھا تو ہم تمام صفات کے ساتھ ایک ہی معبود کو موصوف قرار دیتے ہیں ۔ہم نے ایک مثال بیان کر کے جہمیہ پر اپنا مقصد واضح کیا ہے، دیکھئے یہ کھجور کا درخت ہے،یہ متعدد اشیاء سے مل کر بنا ہے، اس کے تنے ہیں ، ٹہنیوں کی موٹی چوڑیاں ہیں ، اس کی چھال ہے، شاخیں ہیں ، پتے اور گوند ہے۔‘‘[1][1] ( تین ذاتوں کو ثابت مانتے ہیں جو قدیم ہیں اور اپنے آپ قائم ہیں ۔ یا پھر اس لیے کہ وہ ایسی ذات کو ثابت مانتے ہیں جو مختلف اور متبائن صفات سے موصوف ہے۔پہلا نظریہ باطل ہے؛ اس لیے کہ نصاری ایسی تین ہستیوں کا اثبات نہیں کرتے جو قدیم اور بذات خود قائم ہوں ۔ جب ان کا یہ عقیدہ ہی نہیں تو یہ محال ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سبب کی وجہ سے انہیں کافر قرار دیں ۔ جب پہلا نظریہ باطل ہوگیا تو دوسرا خود بخود ثابت ہوگیا۔ وہ یہ کہ: نصاری کو اللہ تعالیٰ نے اس لیے کافر کہا ہے کہ وہ ایسی ذات کو ثابت مانتے ہیں جو مختلف اور متبائن صفات سے موصوف ہے۔اور جب نصاری کو ان تین صفات کے اثبات کی وجہ سے کافر کہا ہے تو جو کوئی ذات کے ساتھ ساتھ آٹھ صفات کو ثابت مانتا ہو؛ تو یقیناً وہ نو چیزوں کو ثابت مانتا ہے۔ اور اس کا کفر نصاری کے کفر سے تین گنا بڑاہے۔ مطلق صفات کی نفی کے بارے میں معتزلہ کا یہ مجموعی شبہ ہے۔ امام رازی رحمہ اللہ نے اس کے بعد معتزلہ کے اس شبہ کا رد کیا ہے۔ چنانچہ آپ کہتے ہیں : چھٹے شبہ کا جواب : یہ کہ اللہ تعالیٰ نے نصاری کو اس لیے کافر کہا ہے کہ وہ تین صفات کو ثابت مانتے ہیں جو کہ حقیقت میں تین ذاتیں ہیں ۔ کیا آپ دیکھتے نہیں کہ وہ اقنوم کلمہ کا انتقال اللہ تعالیٰ کی ذات سے حضرت عیسی علیہ السلام کے بدن کی طرف جائز سمجھتے ہیں ۔اور جو چیز ایک ذات سے دوسری ذات میں مستقل طور پر انتقال کرسکتی ہو؛تو وہ اپنی ذات میں بھی مستقل اور اپنی ذات کے ساتھ قائم ہوتی ہے۔ پس وہ اگرچہ انہیں صفات کہتے ہیں ؛ مگر حقیقت میں وہ ان کے ذوات ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں ۔اور جو کوئی ایک سے زیادہ ذوات کو بذاتہ مستقل مانتا ہو[جو کہ اپنے آپ قائم ہو ]؛تو اس کے کفر میں کوئی شک نہیں رہ جاتا۔ تو پھر تم یہ کیوں کہتے ہو کہ: بیشک جو کوئی کثرت کے ساتھ صفات کو ثابت مانتا ہے اس پر کفر لازم آتا ہے؟ ان سب کو بحیثیت مجموعی ’’ نخلہ ‘‘ (کھجور کا درخت) کہا جاتا ہے۔ بعینہٖ اسی طرح اﷲتعالیٰ اپنی جملہ صفات سے متصف معبود برحق ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ :’’باری تعالیٰ کسی وقت قدرت سے عاری تھا،حتی کہ اس نے قدرت کو پیدا کیا۔ جسے کوئی قدرت نہ ہو وہ تو عاجز ہوتا ہے۔اور نہ ہی یہ کہتے ہیں کہ:وہ علم سے عاری تھا؛بعد ازاں اس نے اپنے علم کو پیدا کیا، اور وہ ان سے متصف ہوا، حالانکہ جو علم و قدرت سے بہرہ ور نہ ہو وہ عاجز و جاہل ہوتا ہے۔ بخلاف ازیں ہم یہ کہتے ہیں کہ وہ ہمیشہ عالم و قادر اور مالک رہا ہے،اب یہاں کب اور کیوں کر کا سوال لغواور بیکار ہے۔‘‘یقیناً اللہ تعالیٰ نے ایک کافر ولید بن مغیرہ مخزومی کا ذکر قرآن میں کیا ہے؛ اور اسے ’’وحید ‘‘ کہا ہے؛ فرمایا:﴿ذَرْنِی وَمَنْ خَلَقْتُ وَحِیدًا﴾ (مدثر11) ’’چھوڑدیجیے مجھے اور اس شخص کو جسے میں نے اکیلا پیدا کیا۔‘‘یہ جس انسان کو وحید کہا گیاہے؛اس کی دوآنکھیں ؛ دو کام اورزبان اور دو ہونٹ تھے۔ دو ہاتھ اور دو پاؤں تھے۔ اور باقی تمام اعضاء بھی تھے؛ مگر اللہ تعالیٰ نے ان تمام صفات کے باوجود اسے وحید کہا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ کے لیے سب سے اعلیٰ مثالیں ہیں ۔ وہ اپنی تمام تر صفات کے باوجود الہ واحد ہے۔امام احمد رحمہ اللہ کی ذکر کردہ توضیح ان مسائل کے تمام اسرار کو شامل ہے۔ اور اس فرق کو بیان کرتا ہے جورسولوں کا لایاہوا عقل کے موافق پیغام ربانی ہے؛ اور جو کچھ جہمیہ نے عقائد گھڑ لیے ہیں ۔ اور یہ کہ اللہ تعالیٰ کی صفات اس کے اسماء کے مسمیٰ میں داخل ہوتی ہیں ۔*وجہ ثانی: مزید برآں مذکورہ قول امام اشعری یا اس کے جمہور موافقین اشاعرہ کا قول نہیں ۔بلکہ صرف وہ اشاعرہ اس کے قائل ہیں جو حال کا اثبات کرتے اور کہتے ہیں : ’’ عا لمیت ‘‘ ایک حال ہے، جو معلل بالعلم ہے، ان کے نزدیک علم ایسے حال کا موجب ہے جو علم نہیں ، بلکہ عالم ہوتا ہے؛قاضی ابوبکر بن طیب المعروف امام باقلانی اور قاضی ابو یعلیٰ رحمہم اللہ یہی نظریہ رکھتے ہیں ، امام ابو المعالی رحمہ اللہ کا پہلا قول یہی ہے۔