Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

حکایت رقاع (من گھڑت شیعی افسانہ) کی کیا حقیقت ہے اور مذہب شیعی میں ان کی کیا عظمت ہے؟

  الشیخ عبدالرحمٰن الششری

حکایتِ رقاع (من گھڑت شیعی افسانہ) کی کیا حقیقت ہے اور مذہبِ شیعی میں ان کی کیا عظمت ہے؟

جواب: جب ان کے سیدنا الحسن العسکریؒ فوت ہو گئے تو اس کا کوئی جانشین نظر نہ آیا اور نہ ہی اس کا کوئی ظاہری بیٹا تھا اور جس وقت اس امر کی آخری امید بھی ختم ہو گئی کہ آپ کی بیویاں اور لونڈیاں بھی استبراء رحم کر چکیں حتیٰ کہ ان کا بغیر حمل یقینی ہوا تب آپ کی میراث آپ کی ماں اور آپ کے بھائی سیدنا جعفرؒ کے درمیان بانٹ دی گئی اور آپ کی ماں نے اس کی وصیت کو بیان کر دیا اس وقت کے قاضی اور سلطان کے پاس اس کا ثبوت مل گیا۔
(المقالات والفرق: صفحہ، 102)
اس طرح اس واقعے نے شیعہ قوم پر مصیبت کے پہاڑ توڑ ڈالے (اور وہ بدحواس ہو کر اُول فول بکنے لگے) کوئی کہتا ختم ہو گئی۔
(بحار الأنوار للمجلسی: جلد، 51 صفحہ، 213 باب ذکر الادلة التی ذکرھا شیخ الطائفة علی اثبات الغیبة)
تو کوئی دوسرا کہتا ہے سیدنا حسن بن علیؓ فوت ہو گئے اور ان کی اولاد نہیں اس لیے ان کے بعد ان کا بھائی سیدنا جعفر بن علیؓ امام ہے۔
(المقالات والفرق لسعد القمی: صفحہ، 108، 110)
 شیعہ حضرات حیرت و اضطراب کے اس سمندر میں ڈبکیاں کھا رہے تھے کہ ایک آدمی ”عثمان بن سعید العمری“ کھڑا ہوا اور دعویٰ کیا بلاشبہ سیدنا الحسن العسکریؒ کا ایک پانچ سالہ بیٹا تھا جو لوگوں سے چھپ کر رہتا تھا وہ اس کے علاوہ کسی دوسرے کے سامنے ظاہر نہیں ہوتا تھا، وہی اپنے باپ سیدنا الحسنؒ کے بعد امام ہو گا اور اس امام بچے نے حصولِ اموال کے لیے اسے اپنا وکیل نامزد کیا ہے اور دینی مسائل میں اس کی طرف سے جوابات دینے کے لیے اسے اپنا نائب مقرر کیا ہے۔
(حصائل الفکر فی أحوال الإمام المنتظر لمحمد صالح البحرانی: صفحہ، 36، 37)
پھر جب عثمان بن سعید سنہ 280ھ میں مر گیا تو اس کے بیٹے محمد بن عثمان نے اپنے باپ والا دعویٰ شروع کر دیا۔
پھر جب یہ محمد بن عثمان بھی سنہ305ھ میں فوت ہو گیا تو الحسین بن روح النوبختی (حسین ابنِ روح کے بارہ میں بھی غلو کرتے ہوئے اسے معصوم قرار دیتے ہیں، دیکھیں فصل الخطاب: صفحہ، 28 المقدمة الثالثة) بالکل یہی دعویٰ لے کر اس کا جانشین بن گیا۔ اور جب یہ بھی 326ھ میں فوت ہو گیا تو ابو الحسن علی بن محمد السمری 329ھ نے اس کی مسند سنبھال لی۔ (کتاب الغیبة للطوسی: صفحہ، 237 الممدوحون فی زمان الغیبة) اور یہ امامیہ شیعہ علماء کے نزدیک نیابت کے دعویداروں میں سے سب سے آخری دعویدار تھا اور جب مال و متاع کے دل فریب انباروں کی وجہ سے نبایت کے دعویدار بہت زیادہ ہو گئے تو شیعہ علماء نے البابیہ کے منقطع ہونے اور غیبت کبریٰ (بہت بڑی پوشیدگی) کے واقع ہونے کا وفاتِ السمری پر ہی اعلان کر دیا امام کے یہ نائبین بے وقوفوں کے سوالات سنتے تھے اور بالکل اسی طرح ان کے اموال ہڑپ کرتے تھے۔
پھر ان کے امام منتظر کی جانب سے جوابات ارشاد فرماتے اور انہیں امام منتظر کی طرف منسوب کرتے اور انہیں توقیعات قرار دیتے ہوئے اپنے خیال کے مطابق امام منتظر کے خطوط و مراسلات کا نام دیتے۔
(بحار الأنوار للمجلسی: جلد، 51 صفحہ 359، 362 باب احوال لسفراء فی زمان الغیبة الصغریٰ، وسائط بین الشیعة وبین القائم)
ان کے ہاں اس بے سند افسانے اور بے سروپا عقیدہ کا مقام و مرتبہ ایسا ہی ہے جیسے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کے فرامین ہیں حتیٰ کہ شیعہ علماء نے ان خطوط و مراسلات کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے باسناد صحیح مروی حدیث پر بھی بوقتِ تعارض راجح قرار دیا ہے، اس عقیدہ پر عمل کرتے ہوئے شیعہ عالم نے اپنی ایک معتبر کتاب میں موجود حدیث کو صرف اس لیے رد کر دیا کہ وہ اس خرافت سے پر عقیدہ کے خلاف ہے؟
ابنِ بابو یہ کہتا ہے: میں اس حدیث کے مطابق فتویٰ نہیں دیتا بلکہ میں تو سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہ کے خط کے مطابق فتویٰ دیتا ہوں یہ خط میرے پاس ہے، (من لا يحضره الفقيه لابنِ بابويه القمی: جلد، 4 صفحہ، 717 حديث نمبر، 5474 باب الرجلين يوصى اليهما)
اس کے بعد دوسرا شیعہ عالم الحر العاملی کہتا ہے: معصوم کا خط ظاہری ذرائع سے نقل شدہ حدیث کی نسبت زیادہ قوی ہوتا ہے۔
(وسائل الشيعة: جلد، 20 صفحہ، 248 اور شیعہ علماء نے ان خطوط و مراسلات کو قدر کی نگاہوں سے بڑے اہتمام سے مدون بھی کیا ہے کیونکہ ان کے اعتقاد کے مطابق یہ اس وحی میں سے ہیں جن کے آگے سے اور پیچھے سے بالکل باطل داخل نہیں ہو سکتا۔ 
(مثلاً دیکھیں: اصول الکافی: جلد، 1 صفحہ، 393 إكمال الدين لابنِ بابويه: جلد، 2 صفحہ، 438 الغيبة للطوسى: صفحہ، 172 الأحتجاج على أهل الحجاج: جلد، 2 صفحہ، 466 لأبی منصور أحمد بن أبی طالب الطبرسی المتوفى 588ھ)
اور اس پر مستزاد یہ کہ دورِ حاضر کے شیعہ علماء ان خطوط و مراسلات کی نسبت یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ یہ ایسی سنت ہے جس میں باطل داخل نہیں ہو سکتا۔
(الدعوة الإسلامية إلى وحدة أہلِ السنة والإماميه: جلد، 2 صفحہ، 112 لآيتہم الخنيزی)