اہل ہنود کے میلوں یا مسلمانوں کے عرس میں بغرض تجارت اپنا سامان لے جانا
اہل ہنود کے میلوں یا مسلمانوں کے عرس میں بغرض تجارت اپنا سامان لے جانا
سوال: اہلِ ہنود کے میلوں یا مسلمانوں کے عرس میں بغرضِ تجارت اپنا سامان لے جانا، کوئی چیز خریدنے کے لئے جانا جائز ہے یا نہیں؟
جواب: اہلِ ہنود کے میلوں یا مسلمانوں کے عرس میں تجارت یا کسی غرض سے شریک ہونا درست نہیں، بلکہ عقلاً اور نقلاً ہر طرح قبیح ہے۔ ہندوؤں کے تمام میلے شرکیہ اور فسقیہ ہوتے ہیں پھر وہ غیر مسلموں کے تہوار میں اور خود عرس ایک بدعت ہے، پھر اس میں شریک ہونے والے عموماً فساق و فجار اور مبتدعین ہوتے ہیں، اور اس اجتماع میں شرک اور فسق و فجور کا بازار گرم ہو جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسے خلافِ شرع اور نا پاک بیہودہ مجمع میں خرید و فروخت وغیرہ کی غرض سے بھی شریک ہونا کیونکر مباح ہو سکتا ہے؟ مومن کی شان قرآنِ کریم میں یہ بیان کی گئی ہے:
وَ الَّذِیْنَ لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ الخ۔(سورة الفرقان: آیت، 72)
اور ارشاد ہے:
فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرَىٰ مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ۔(سورۃ الانعام: آیت، 68)
اور ارشاد ہے:
وَتَعَاوَنُواْ عَلَى ٱلۡبِرِّ وَٱلتَّقۡوَىٰۖ وَلَا تَعَاوَنُواْ عَلَى ٱلۡإِثۡمِ وَٱلۡعُدۡوَٲنِ الخ۔(سورۃ المائدہ: آیت، 2)
اور آنحضرتﷺ فرماتے ہیں من كثر سواد قوم فهو منهم
خرید و فروخت کی نیت سے شریک ہونے والوں کا مقصد اگرچہ مراسم شرکیہ فسقیہ میں شریک ہونا نہیں ہوتا اور نہ تکثیر مجمع مد نظر ہوتا ہے لیکن بلا ارادہ اس خلاف شرع مجمع کی رونق بڑھانے کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ میلے اور عرس کو بازار پر قیاس کرنا کھلی ہوئی غلطی ہے۔
(فتاویٰ علمائے حديث: جلد، 14 صفحہ، 191)