Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

توحید عبادت کے سلسلے میں قرآن مجید میں وارد نصوص سے شیعہ علماء کیا مراد لیتے ہیں؟

  الشیخ عبدالرحمٰن الششری

توحید عبادت کے سلسلے میں قرآن مجید میں وارد نصوص سے شیعہ علماء کیا مراد لیتے ہیں؟ 

جواب: ان سے مراد سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور ائمہ کی ولایت کا اقرار ہے اس ضمن میں ان کا قاعدہ کلیہ یہ ہے کہ اخبار و روایات اس سلسلے میں ایک دوسرے کی مدد کرنے والی ہیں اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنے اور اس کی عبادت میں شرک کرنے کی تفسیریں اور ولایتِ امامت میں شرک کرنے میں یعنی وہ امام کے ساتھ ایسے شخص کو شریک ٹھہراتا ہے جو امامت کا اہل نہیں ہے اور آل محمدﷺ کی ولایت کے ساتھ دوسروں کی ولایت کو اختیار کرتا ہے

(مرآة الانوار: 327 مقدمه الثالثه)

مثلا اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

وَلَـقَدۡ اُوۡحِىَ اِلَيۡكَ وَاِلَى الَّذِيۡنَ مِنۡ قَبۡلِكَ‌ لَئِنۡ اَشۡرَكۡتَ لَيَحۡبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُوۡنَنَّ مِنَ الۡخٰسِرِيۡنَ‏ ۞ (سورۃ الزمر: آیت، 65)

ترجمہ: یقیناً تیری طرف بھی اور تجھ سے پہلے کے تمام نبیوں کی طرف بھی وحی کی گئی تھی کہ اگر تو نے شرک کیا تو بلا شبہ تیرا عمل ضائع ہو جائے گا اور بالیقین توں زیاں کاروں میں سے ہو جائے گا۔

ان کے نزدیک ان کی صحیح ترین کتاب میں اس آیت کا معنیٰ یہ ہے:

البتہ اگر آپ نے سيدنا علىؓ کی ولایت میں کسی اور کو شریک کیا تو آپ کے عمل ضائع ہو جائیں گے۔

(اصول الکافی: جلد، 1 صفحہ، 323 کتاب الحجه: حدیث نمبر، 76 باب فیه نکت بحار الانوار: جلد ، 32 صفحہ، 380 حديث نمبر، 69 باب التاویل المؤمنین والایمان الخ اور تفسیر نور الثقلین: جلد، 4 صفحہ، 498 حدیث نمبر، 103 سورۃ الزمر)

اور ان نصوص میں سے ایک یہ بھی اللہ تعالیٰ کے فرمان ہے:

ذٰ لِكُمۡ بِاَنَّهٗۤ اِذَا دُعِىَ اللّٰهُ وَحۡدَهٗ كَفَرۡتُمۡ وَاِنۡ يُّشۡرَكۡ بِهٖ تُؤۡمِنُوۡا فَالۡحُكۡمُ لِلّٰهِ الۡعَلِىِّ الۡكَبِيۡرِ ۞(سورۃ الزمر: آیت، 12) 

 ترجمہ: یہ اس لیے کہ بے شک حقیقت یہ ہے کہ جب اس اکیلے اللہ کو پکارا جاتا ہے تو تم انکار کرتے تھے اور اگر اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا جاتا تو تم مان لیتے تھے،اب فیصلہ اللہ کے اختیار میں ہے جو بہت بلند بہت بڑا ہے

درج ذیل آیت کے بارے میں سیدنا ابو عبداللہؒ سے منسوب کرتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ:

ذلكم بِانَّهُ اِذَا دُعِىَ اللهُ وَحْدَهُ كَفَرْتُمْ بِاَنَّ لِعَلِىَّ وِلاَيَةِ وَاِنْ يُشْرَكْ بِهٖ مَنْ لَيْسَتْ لَهُ وَلاَيَةٌ ُُتُؤْمِنُوْا بانه له الولایة 

یہ عذاب تمہیں اس لیے ہے کہ جب صرف اکیلے اللہ کا ذکر کیا جاتا تو تم انکار کر جاتے تھے یعنی سیدنا علیؓ کی ولایت کا ذکر کیا جاتا تھا اور اگر اس کے ساتھ کسی کو شریک کیا جاتا تھا یعنی جس کی ولایت نہیں تھی اگر تم مان لیتے (کہ ولایت صرف سیدنا علی رضی اللہ کی ہے۔)

(تفسیر القمی: 597 سورۃ المؤمن تاویل الآیات الظاھرہ جلد، 2 صفحہ، 530 حدیث، 9)

اور سیدنا ابوعبداللہؒ پر افتراء کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے فرمان

ءَاِلٰـهٌ مَّعَ اللهِ۔ (سورۃ النمل: آیت، 60)

کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اور کوئی معبود بھی ہے۔ کے متعلق فرمایا ہے:

 أَىْ إِمَامُ هُدًى مَعَ إِمَامٍ ضَلاَلٍ

یعنی کیا امام ہدایت،امام ضلالت کے ساتھ ہے؟

( اصول الکافی: جلد، 1 صفحہ، 318 کتاب الحجه: حدیث نمبر، 46 باب فیه نکت)

 تباہی و بربادی: جو کوئی بھی اس کی یہ تفسیر بیان کرتا ہے سیدنا ابوعبداللہؒ نے اس شخص کے متعلق فرمایا جس شخص نے یہ بات کہی وہ اللہ کے ساتھ شرک کرنے والا ہے آپ نے تین بار یہ جملہ ارشاد فرمایا میں ان سے اللہ تعالیٰ کی طرف اظہار براءت کرتا ہوں تین مرتبہ یہ فرمایا بلکہ اللہ تعالیٰ نے اس جملے سے اپنی ذات مراد لی ہے۔

( تاویل الآیات الظاھرہ فی فضائل العترة الظاھرۃ: جلد، 1 صفحہ، 401 بحار الانوار: جلد، 23 صفحہ، 361 حدیث نمبر، 18)