Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

بدعتی امام کے پیچھے نماز پڑھنا اور اس کا وعظ سننا


سوال: بدعتی عالم امام کے پیچھے اقتدا کرنا خصوصاً صلواتِ خمسہ میں کوئی حرج ہے یا نہیں؟ علی ہذا القیاس وعظ و پند اگر بدعتی عالم کا استماع میں لادیں تو کیا مضائقہ کی بات ہے؟ ممکن ہے کہ سامعین جو باتیں کہ وعظ کے اندر خلاف کتاب اللہ و سنت رسولﷺ کے ہوں خیال میں نہ لادیں، بقیہ باتیں خیال میں لادیں۔

جواب: واضح ہو کہ بموجب حدیث شریف کے بدعتی کو قصداً امام بنانا نہیں چاہیئے بلکہ اپنے میں سے جو اچھا شخص ہو اُس کو امام بنانا چاہئے: عن ابن عباسؓ قال قال رسول اللهﷺ: اجعلوا انمتكم خياركم فانهم وفدكم فيما بينكم وبين ربكم۔ 

اور بوقت ضرورت اگر بدعتی کے پیچھے نماز پڑھ لے تو جائز ہے، مثلاً: وہ حاکم یا رئیس ہے اور اگر اس کے خلاف کرتے ہیں تو فتنہ اور فساد زیادہ ہو جاتا ہے۔ 

اور وعظ و نصیحت کے سننے اور سنانے کا فائدہ یہی ہے کہ ہدایت ہو، لوگ شرک و بدعت اور معاصی سے بچیں، توحید و اتباع سنت کو لازم پکڑیں، اور ظاہر ہے کہ بدعتی مولویوں کے وعظ سے بجائے ہدایت کے گمراہی پھیلتی ہے، ان کے بدعتی وعظ سے لوگ گمراہ ہوتے ہیں، بدعت میں مبتلاء ہوتے ہیں، سنت کو چھوڑ دیتے ہیں اور طرح طرح کی خرابیاں ہوتی ہیں: کما لا یخفی۔ 

رہا یہ خیال کہ بدعتی مولویوں کے وعظ کے اندر جو باتیں خلافِ قرآن و حدیث ہوں ان کو سامعین خیال میں نہ لادیں اور باقی باتوں کو خیال میں لادیں صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ ہر شخص کو اس کی تمیز نہیں کہ کون سی بات قرآن و حدیث کے خلاف ہے اور کون سی موافق۔ اور جس کو اس کی تمیز ہو اسے خلاف اور ناحق اور منکر باتوں کو سن کر انکار کرنا چاہیئے، ہاتھ سے یا زبان سے یا دل سے۔ ہاتھ اور زبان سے انکار کی یہی صورت ہے کہ اس بدعتی واعظ کو بدعتی وعظ سے روکے اور دل سے انکار کی صورت یہ ہے کہ اس کی مجلس وعظ میں شریک نہ ہو۔ الحاصل بدعتی مولویوں کا بدعتی وعظ سننا نہیں چاہیئے۔ 

(فتاویٰ علمائے حديث: جلد، 1 صفحہ، 199)