Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

اہل بدعت کی بدعت اگر حد کفر تک پہنچ جائے تو ان کے پیچھے نماز پڑھنا


میں نہیں جانتا ہوں کہ اہلِ سنت میں بلکہ اہلِ اسلام میں کوئی صاحبِ علم اس بات کا قائل ہو کہ اہلِ بدعت و اہلِ ہوا اگرچہ اس کی بدعت حد کفر و شرک تک پہنچتی ہو اور ضروریاتِ دین سے منکر ہو، اس کے پیچھے اقتداء جائز اور نماز پڑھنی صحیح ہے، جس قدر اقوال سلف صالحین و کتب فقہیہ مذاہب اربعہ جو میری زیر نظر ہیں: کلھم یک زبان اس پر متفق ہیں کہ عقائد کفریہ والے کے پیچھے نماز پڑھنی صحیح نہیں۔ اس جگہ پر نمونہ ازخر وارد یکی از ہزار نقل کرتا ہوں۔ منصف مزاج و عدالت پسند کو اسی قدر کافی ہیں:

  1.  امام بخاریؒ فرماتے ہیں کہ میں ایک جہمی و رافضی کے پیچھے نماز پڑھنی اور یہودی و نصرانی کے پیچھے نماز پڑھنی برابر جانتا ہوں، نہ ان کو سلام کیا جائے، نہ بیمار پرسی کی جائے، اور نہ ان سے نکاح کیا جائے، نہ گواہ بنایا جائے، اور نہ ان کے ہاتھ کا ذبیحہ کھایا جائے۔
  2.   محقق ابن الہمام فتح القدیر میں لکھتے ہیں کہ اہلِ ہوا کے پیچھے نماز جائز ہے سوائے قدریہ و جہمیہ و روافض غالیہ اور خلقِ قرآن کے قائل اور خطابیہ اور مشبہ کے غرض کہ اہلِ قبلہ کی بدعت اگر حدِ کفر تک نہ پہنچی ہو تو ان کے پیچھے نماز مع الكراہہ جائز ہے اور شفاعت و دیدارِ الٰہی و کراماً کاتبین و عذاب قبر کے منکر کے پیچھے نماز نا جائز ہے، اس لئے کہ وہ کافر ہے۔
  3.  ممدوح حاشیہ شرح وقایہ میں ہے کہ فاسق مبتدعی کے پیچھے نماز پڑھنی مکروہ تحریمی ہے، اور اگر بدعتی کی بدعت کفر تک پہنچتی ہو تو اس کے پیچھے مطابق نماز جائز نہیں۔
  4.  منہاج میں ہے کہ اگر نماز پڑھانے کے بعد معلوم ہو جائے کہ امام عورت یا کافر معلن تھا تو نماز کا اعادہ واجب ہے، کیونکہ کافر نماز کا اہل نہیں قول صحیح و مذہب جمہوریہ ہی ہے کہ کافر معلن ہو یا مخفی اعادہ واجب ہے۔ 
  5.  تقی الدین محمد بن شیخ الاسلام احمد حنبلی منتہی اور اس کا شارح شرح میں لکھتے ہیں کہ گونگے اور کافر کے پیچھے نماز میچ نہیں۔ گونگے کے پیچھے اس لئے صحیح نہیں کہ وہ قرأت جو فرض ہے ادا نہیں کر سکتا، اور کافر کے پیچھے اس لئے صحیح نہیں کہ اس کے واسطے اپنی نماز صحیح نہیں تو غیر کے واسطے کیونکر صیح ہو سکتی ہے؟ اصلی کافر ہو یا بدعت وغیرہ کی وجہ سے کافر ہوگیا ہو۔

یہ روایات تو دریا سے قطرہ ہیں، اگر تمام نقل کی جائیں تو ایک بڑی کتاب بن جائے گی، غرض یہ کہ احقر کو آج تک معلوم نہیں کہ اہلِ سنت و الجماعت بلکہ اہلِ اسلام میں کوئی بھی اہلِ علم اس بات کا قائل ہو کہ اہلِ بدعت (اگرچہ اس کی بدعت حدِ کفر اور ارتداد تک پہنچی ہو) ان کے پیچھے نماز جائز ہے۔ 

تعجب ہے کہ اسلام جو صحتِ نماز وغیرہ اعمال کے واسطے شرط ہے اس کا تو کچھ اعتبار ہی نہ ہو اور پاکی بدن و جامہ پر نماز کا دارو مدار ہو۔ نماز کی فرضیت کا اقرار تو صحتِ نماز کے واسطے شرط ہو اور اللہ تعالیٰ کی توحید و تقدیس و صفات کا اقرار نہ ہو۔ امام کی نجاست بدن یا کپڑے سے تو مقتدی کی نماز فاسد اور باطل ہو، اور عقیدے کی نجاست و خباثت سے جو حکم آیتِ کریمہ أُوْلَـٰٓٮِٕكَ ٱلَّذِينَ حَبِطَتۡ أَعۡمَـٰلُهُمۡ فِى ٱلدُّنۡيَا وَٱلۡأٓخِرَةِ الخ۔

(سورة آلِ عمران: آیت، 22) موجب حبط اعمال ہے اس سے مقتدی کی نماز کو نقصان ہی نہ ہو۔ 

واللہ! خاکسار نے کتبِ اسلامی کی کسی کتاب میں یہ فرق نہیں دیکھا کہ امام کے اعتقادات اگرچہ کفریہ ہی ہوں مقتدی کی نماز کو ضرر نہیں دیتے اور اگر افعال شرائطِ نماز میں قصور کریں تو مقتدی کی نماز ہوتی بلکہ بالعکس روایات موجود ہیں۔

(فتاویٰ علمائے حديث: جلد، 1 صفحہ، 189)