Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

شیعہ کا جنازہ پڑھنا اور ان کے لیے بخشش کی دعا مانگنا


سوال: شیعہ کا جنازہ پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟

جواب: شیعہ کی کئی فرقے ہیں، ایک زیدی کہلاتے ہیں، وہ سیدنا صدیقِ اکبرؓ و دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو گالی نہیں دیتے، نہ ان کو منافق کہتے ہیں بلکہ سیدنا علی المرتضیٰؓ کو سیدنا صدیقِ اکبرؓ و دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر فضیلت دیتے ہیں تو ایسے شیعہ کافر نہیں، ان کا جنازہ کوئی پڑھ لے تو کوئی حرج نہیں، لیکن اچھا نہیں، کیونکہ پھر لوگوں کے دلوں میں ان کی نفرت نہیں رہتی بلکہ ان کو اچھا سمجھنے لگتے ہیں۔ حضور اکرمﷺ تنبیہ کے لیے مقروض کا جنازہ نہیں پڑھتے تھے، زیدی شیعہ تو اس سے کئی درجہ بُرے ہیں، ان کا جنازہ بطریقِ اولیٰ نہ پڑھنا چاہیئے۔اور جو شیعہ سیدنا صدیقِ اکبرؓ اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو گالی دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کا ایمان منافقانہ تھا (معاذ اللہ) تو ایسے شیعہ کافر ہیں اور کافروں کے بارے میں قرآنِ مجید میں ارشاد ہے: اِنَّ اللّٰہَ حَرَّمَہُمَا عَلَی الۡکٰفِرِیۡنَ

(سورۃ الاعراف: آیت، 50)

ترجمہ: یعنی کافروں پر اللہ تعالیٰ نے جنت حرام کر دی ہے۔اسی طرح مشرک کے بارے میں فرمایا ہے: 

اِنَّہٗ مَنۡ یُّشۡرِکۡ بِاللّٰہِ فَقَدۡ حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیۡہِ الۡجَنَّۃَ الخ۔

(سورۃ المائدہ: آیت، 72) 

ترجمہ: یعنی جو شرک کرے اللہ تعالیٰ نے اس پر جنت حرام کر دی۔ جب جنت حرام ہے تو نماز جنازہ کس چیز کے لیے ہوگی؟

دوسری آیت میں ہے:مَا كَانَ لِلنَّبِىِّ وَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡاۤ اَنۡ يَّسۡتَغۡفِرُوۡا لِلۡمُشۡرِكِيۡنَ وَلَوۡ ڪَانُوٓاْ أُوْلِى قُرۡبَىٰ مِنۢ بَعۡدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمۡ أَنَّہُمۡ أَصۡحَـٰبُ ٱلۡجَحِيمِ۝۔

 (سورۃ التوبة: آیت، 113)

ترجمہ: یعنی نبی کے لیے اور ایمان والوں کے لیے لائق نہیں کہ مشرکوں کے لیے بخشش مانگیں، خواہ ان کے رشتہ دار ہوں، جب ان کو معلوم ہو گیا کہ وہ دوزخی ہیں۔ 

یہ اس آیت میں مشرکوں کے لیے بخشش نہ مانگنے کی وجہ بتاتی ہے، یعنی ان کو دوزخ سے کسی وقت نجات نہیں۔ بس جس شخص کی کسی وقت نجات کی اُمید نہ ہو، اس کے لیے بخشش کی دعا کرنا منع ہے۔اور شیعہ مذکور چونکہ کافر ہیں، اس کی نجات کی بھی اُمید نہیں۔ پس اس کی بابت بھی بخشش کی دعا منع ہے۔

حدیث شریف میں ہے کہ تقدیر سے انکار کرنے والے اُمّت کے مجوسی ہیں، اگر بیمار ہو جائیں تو اس کی بیمار پرسی نہ کرو، اگر مر جائیں تو ان کے کفن دفن اور جنازے میں حاضر نہ ہو۔

جیسے تقدیر کے منکروں کو اس حدیث شریف میں اُمّت کے مجوسی قرار دیے ہیں۔ مشکوٰۃ شریف بابِ مناقب حضرت علیؓ میں حدیث ہے۔ 

حضور اکرمﷺ نے سیدنا علیؓ کو فرمایا: تیری مثال حضرت یحیی علیہ السلام کی طرح ہے یہود نے اس سے بغض رکھا یہاں تک کہ اس کی ماں پر بہتان باندھا اور نصاریٰ نے ان سے محبت کی، یہاں تک کہ ان کو اس مرتبے تک پہنچا دیا جو کہ اس کے لائق نہ تھا، یعنی ایک بغض میں ہلاک ہو گئے اور ایک محبت میں، سیدنا علیؓ نے فرمایا مجھ سے محبت میں افراط کرنے والا بھی ہلاک ہو جائے گا ،جس کو میرا بغض بہتان پر آماد کرتا ہے سو یہ پیشن گوئی ہو کر ہی رہی۔ خارجی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بغض رکھتے ہیں، گویا کہ وہ اس امت کے یہود ہے اور شیعہ محبت میں افراط کرتے ہیں یہاں تک کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی محبت کی وجہ سے سیدنا صدیقِ اکبرؓ سے بغض رکھتے ہیں، تو گویا کہ شیعہ اس امت کے نصاریٰ ہوئے۔

پس جیسے قدریہ کا جنازہ جائز نہیں، کیونکہ وہ اُس اُمت کے مجوسی ہیں، اسی طرح شیعہ اور خارجی کا بھی جنازہ جائز نہیں، کیونکہ وہ اس اُمت کے یہود و نصاریٰ ہیں۔ جس امام نے جنازہ پڑھا ہے، اُس کو امامت سے معزول کر دینا چاہئے، اس لئے کہ اس نے ایک کافر کا جنازہ پڑھا دیا۔ 

(فتاویٰ الحديث: جلد، 2 صفحہ، 446)