Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام کی دعا شیعہ علماء کے اعتقاد کے مطابق کس طرح قبول کی؟

  الشیخ عبدالرحمٰن الششری

 اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام کی دعا شیعہ علماء کے اعتقاد کے مطابق کس طرح قبول کی؟ 

جواب: جس وقت انہوں نے ائمہ کا وسیلہ پکڑا اور ائمہ سے شفاعت طلب کی۔ شیخ الدولة الصفوية نے اپنی کتاب بحار الظلمات میں ان کے ائمہ کے متعلق باب قائم کیا ہے:

 بَابُ أَنَّ دُعَاءَ الْأَنْبِيَاءِ اسْتُجِيْبَ بِالتَّوَسُّلِ وَالاسْتِشْفَاءِ بِهِمْ

 (بحار الأنوار: جلد، 26 صفحہ، 319 ابواب سائر فضائلهم و مناقبهم و غرائب شؤونهم) 

”باب ہے کہ انبیاء کی دعائیں ان (صلوات اللہ علیہم) کے توسل اور سفارش طلبی سے قبول ہوئی ہیں۔“

اور انہوں نے سیدنا رضاؒ سے روایت کی ہے آپ نے فرمایا ہے:

جب سیدنا نوح علیہ السلام نے غرقابی کو دیکھا تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے ہمارے وسیلہ سے دعا مانگی تب اللہ تعالیٰ نے اس سے طوفان کو ہٹایا اور جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں پھینکا گیا تو اس نے اللہ تعالیٰ سے ہمارے حق سے دعا مانگی تب اللہ تعالیٰ نے آگ کو اس پر ٹھنڈی اور سلامتی والا بنایا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب سمندر میں ایک راستہ بنایا اور ہمارے حق سے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی تب اللہ تعالیٰ نے اسے خشک بنا دیا اور بیشک حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو جب یہودیوں نے قتل کرنے کا ارادہ کیا تو اس نے ہمارے حق سے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی تب اسے قتل سے نجات ملی تو اللہ تعالیٰ نے اسے اوپر اٹھا لیا۔ (وسائل الشيعة: جلد، 4 صفحہ، 659 حديث 13 (باب استحباب التوسل فی الدعاء بمحمد و آل محمد و بحار الانوار: جلد، 26 صفحہ، 325 حدیث، 7 باب ان دعاء الانبياء استجيب بالتوسل والاستشفاع بهم)

یہ لوگ اپنے مہدی کو یوں پکارتے ہیں:

 يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ

 (جمال الأسبوع بكمال العمل المشروع: صفحہ، 280 علی بن موسىٰ بن جعفر بن طاؤس لمتوفىٰ 664 مصباح: صفحہ، 176 لإبراهيم بن على الكفعمی المتوفى 905 ہجرى) 

اے سب سے بڑھ کر رحم کرنے والے۔

(یہ صرف اللہ تعالیٰ کی صفت ہے، مخلوق کی نہیں۔ مترجم)

 تَعٰلَى اللّٰهُ عَمَّا يُشۡرِكُوۡنَ(سورۃ النمل: آیت، 63)

ترجمہ: اللہ اس شرک سے بہت بالا و برتر ہے جس کا ارتکاب یہ لوگ کر رہے ہیں۔ 

خمینی نے اپنے بارہویں اور خیالاتی امام مہدی کے متعلق یوں نگارشات قلم رقم کی ہیں: 

آج کل زمانے کے تمام امور کی زمام کار آپ ہی کے ہاتھ میں ہے ہیں۔ 

(كشف الاسرار: صفحہ، 137 الحديث الرابع) 

بلکہ اس سے آگے بڑھتے ہوئے ان کے شیوخ نے یوں کہا ہے کہ ان کے ائمہ دعائیں قبول کرتے ہیں اور بلاشبہ وہ خالق کی نسبت مخلوق کے زیادہ قریب ہیں۔

 فَتَعٰلَى اللّٰهُ عَمَّا يُشۡرِكُوۡنَ (سورة الأعراف: آیت، 190)

ترجمہ: حالانکہ اللہ ان کی مشرکانہ باتوں سے کہیں بلند اور برتر ہے۔

انہوں نے ایک روایت اس طرح بیان کی ہے کہ ان کے ایک شیخ نے اپنے سیدنا ابو الحسن الثالثؒ کی خدمت میں یہ شکایت عرض کرتے ہوئے خط ارسال کیا: بے شک آدمی پسند کرتا ہے کہ اپنے امام کی طرف بھی وہی بات پیش کرے جو وہ پسند کرتا ہے کہ اپنے رب کی طرف پیش کرے تو اس کا جواب ان لفظوں میں موصول ہوا: 

جب تجھے کوئی حاجت در پیش ہو تو تُو اپنے ہونٹوں کو حرکت دے تو جواب تیرے پاس پہنچ جائے گا- (بحار الأنوار: جلد، 94 صفحہ، 22 حديث، 18 باب الاستشفاع بمحمد و آل محمد فی الدعاء و ادعية التوجه اليهم)

 تبصره: اللہ تعالیٰ مشرکوں کی حالت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

وَيَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ مَا لَا يَضُرُّهُمۡ وَلَا يَنۡفَعُهُمۡ وَيَقُوۡلُوۡنَ هٰٓؤُلَاۤءِ شُفَعَآؤُنَا عِنۡدَ اللّٰهِ‌ قُلۡ اَتُـنَـبِّــئُوۡنَ اللّٰهَ بِمَا لَا يَعۡلَمُ فِى السَّمٰوٰتِ وَلَا فِى الۡاَرۡضِ‌ سُبۡحٰنَهٗ وَتَعٰلٰى عَمَّا يُشۡرِكُوۡنَ۔

(سورۃ یونس: آیت، 18)

ترجمہ: اور یہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر ان (من گھڑت خداؤں) کی عبادت کرتے ہیں جو نہ ان کو کوئی نقصان پہنچا سکتے ہیں، نہ ان کو کوئی فائدہ دے سکتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے پاس ہماری سفارش کرنے والے ہیں۔ (اے پیغمبرﷺ! ان سے) کہو کہ: کیا تم اللہ کو اس چیز کی خبر دے رہے ہو جس کا کوئی وجود اللہ کے علم میں نہیں ہے، نہ آسمانوں میں نہ زمین میں؟ (حقیقت یہ ہے کہ) اللہ ان کی مشرکانہ باتوں سے بالکل پاک اور بالا و برتر ہے۔