Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

قائلین صفات کے دلائل:

  امام ابنِ تیمیہؒ

قائلین صفات کے دلائل:بخلاف ازیں جمہور صفات کو ثابت ماننے والے کہتے ہیں :’’ علم سے مراد عالم ہونا ہے، عالم وہی ہوتا ہے، جو علم سے بہرہ ور ہو اور قادر وہی ہے جو قدرت رکھتا ہو ۔ مقصود یہ ہے کہ بلا علم کوئی عالم نہیں کہلا سکتا۔ جو قدرت سے بہرہ ورنہ ہو وہ قادر نہیں ہوسکتا۔ اور جو حیات سے محروم ہو وہ حی نہیں ہو سکتا۔ان کے نزدیک اس کا علم اس کا عالم ہونا ہی ہے؛ اور قدرت اس کا قادر ہونا؛اور حیات سے اس کا زندہ ہونا مراد ہے۔ یہ حقیقت میں ابو الحسن البصری اور دیگر چوٹی کے ماہرمعتزلی علماء کا عقیدہ ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ چیز ضرورت کے تحت معلوم شدہ ہے۔ اس لئے کہ اسم فاعل کا وجود مصدر کے بغیر ممتنع ہے، مثلاً صلوۃ[نماز] کے بغیر کوئی شخص مصلّی (نمازی) نہیں کہلا سکتا، روزہ کے بغیر صائم[روزہ دار] نہیں ہو سکتا اور نطق کے بغیر اسے ناطق نہیں کہہ سکتے۔ جب یہ کہا جائے کہ نماز کے بغیر کسی کو نمازی نہیں کہہ سکتے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہاں دو چیزیں ہیں :۱۔ ایک نماز اور ۲۔ دوسرا حال معلل بالصلوۃ۔ بخلاف ازیں نمازی وہی ہوگا، جو نماز سے موصوف ہو۔‘‘انہوں نے منکرین صفات کے عقیدہ کا انکار کیا ہے جو کہتے ہیں کہ: اﷲتعالیٰ زندہ ہے، مگر حیات سے بہرہ ور نہیں ، اسی طرح وہ بلا قدرت قادر اور بلا علم عالم ہے ۔ جو شخص باری تعالیٰ کو حی اور علیم و قدیر بالذات تسلیم کرتا ہے، اور اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی ذات حیات اور علم و قدرت کو مستلزم ہے تو وہ دیگر کسی چیز کا محتاج نہیں ۔یہ صفات کو ثابت ماننے والوں کاعقیدہ ہے۔اور اگر اس سے مراد یہ ہو کہ اللہ تعالیٰ کی ذات مجرد ہے ؛ اس کے لیے نہ ہی علم ہے نہ ہی زندگی۔تو یہ عقیدہ منکرین صفات کا ہے۔اور اس شیعہ مصنف نے جو بات کہی ہے؛ اس سے پہلے معتزلہ بھی یہی بات کہہ چکے ہیں ۔یہ الفاظ میں نے ابو الحسین البصری کے کلام میں بھی دیکھے ہیں ۔ مگر اس کے باوجود جو شخص ابو الحسین بصری اور منکرین صفات کے افکار و آراء پر زحمت غور و فکر گوارا کرتا ہے، اس پر یہ حقیقت آشکار ہوجاتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو اثبات صفات کے لیے مجبور پاتے ہیں ۔ اور اپنے اور قائلین صفات کے اقوال و معتقدات میں کوئی نمایاں فرق ثابت نہیں کر سکتے۔ اس لیے کہ منکرین صفات بھی اﷲ تعالیٰ کو حی، قادر اور عالم تسلیم کرتے ہیں ، اور یہ نہیں کہتے کہ صفات عین ذات ہیں ، اس کا مطلب یہ ہوا کہ انہوں نے ذات الٰہی پر ان زائد صفات کا اضافہ کر دیاہے]۔دوسرے مقامات پر ہم نے یہ مسئلہ تفصیل سے بیان کردیا ہے۔تیسری وجہ : ان سے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ : یہ عقیدہ اصل میں مثبتین صفات کا عقیدہ ہے؛ جو کہ اشاعرہ کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ بلکہ جہمیہ اور معتزلہ اور ان کے موافقین شیعہ کے علاوہ مسلمانوں کے تمام گروہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں ۔ ہم پہلے یہ بیان کرچکے ہیں کہ قدیم امامیہ علماء یہی عقیدہ رکھتے تھے۔ اگریہ عقیدہ غلط ہے تو امامیہ علماء غلطی پر تھے۔ اور اگریہ عقیدہ صحیح ہے؛ تو ان کے متأخرین علماء غلطی پر ہیں ۔[چوتھی وجہ ]ان سے کہا جائے گا کہ شیعہ مصنف کا یہ قول کہ: ’’ اہل سنت بہت سی چیزوں کو قدیم مانتے ہیں ۔‘‘ یہ ایک مبہم قول ہے جس کا مقصود واضح نہیں ، اس سے وہم پیدا ہوتا ہے کہ اہل سنت ازل ہی میں ذات باری کے علاوہ متعدد معبود مانتے ہیں ،یا پھر اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس سے بہت ساری موجودات کو اس سے منفصل اور قدیم ثابت مانتے ہیں ؛یا پھر اللہ تعالیٰ کی صفات کمال جیسے علم و حیات اور قدرت کو اس کے ساتھ قائم مانتے ہیں ؟ اگر یہ کہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسرے خداؤں کو بھی مانتے ہیں ؛ یا اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس سے منفصل دوسری قدیم موجودات کو بھی ثابت مانتے ہیں ۔بلکہ خود روافض پر یہ الزام ہے کہ انکے قدماء جیسے : ہشام بن الحکم اور دیگربھی اثبات کے قائل تھے۔ جب دیالمہ کے عہد میں ۔دیالمہ جو کہ معتزلہ کے مذہب پر تھے۔ روافض معتزلہ کی طرف مائل ہوئے ؛ تو انہو ں نے بھی ان کا یہ عقیدہ اختیار کرلیا۔ تو یہ اہل سنت پر عظیم بہتان ہے۔ یہ جھوٹ گھڑنے والے بہتان تراش کی مراد اگر یہ نہ بھی ہو تو تب بھی اس مبہم جملہ سے یہ وہم پیدا ہوتا ہے۔اور اگر یہ کہیں کہ اللہ تعالیٰ کے لیے ان صفات کو قدیمہ مانتے ہیں جو اس کی ذات کے ساتھ قائم ہیں ؛ یہ صفات کمال جیسے علم ؛ حیات اور قدرت ہیں ۔ تو یہ بات حق ہے۔ اہل سنت یہ کہتے ہیں کہ:’’ اﷲ تعالیٰ صفات قدیمہ سے موصوف ہے، جس طرح اس کی ذات قدیم ہے، اسی طرح اس کی صفات بھی قدیم ہیں ، اس کا انکار ایک غلط کار اور ذلیل آدمی ہی کر سکتا ہے۔جو ان صفات کا انکاری ہے اور کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ زندہ ہے، عالم ہے، قادر ہے لیکن حیات، علم اور قدرت کے بغیر تو اس کا قول اس قدر باطل ہے کہ کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ۔ اسی طرح اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ اس کی قدرت ہی اس کا علم اور اس کا علم ہی اس کی قدرت ہے اور اگر اس کے ساتھ یہ بھی کہے کہ: اللہ تعالیٰ بذاتِ خود علم اور قدرت ہے تو اس نے موصوف کو ہی صفت بنا دیا اور اس صفت کو دوسری صفت قرار دے دیا۔ نفا [ صفات کی نفی کرنے والے] فلسفیوں اور معتزلہ کے اقوال میں ایسی ہی باتیں موجود ہیں ۔ درحقیقت ان اقوال کو دیکھتے ہی ان کا غلط ہونا معلوم ہوجاتا ہے۔ ان فرقوں اور ان کے شبہات پر تفصیلی بحث دیگر مقامات پر موجود ہے۔لفظ ’’ اﷲ ‘‘ اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات ہر دو کو شامل ہے، صرف ذات مجرد کا نام نہیں ہے۔[اعتراض]:....پانچویں وجہ:تمہارا یہ کہنا کہ: اہل سنت اللہ عزوجل کے علاوہ دیگر ہستیوں کو بھی قدیم مانتے ہیں ۔‘‘[جواب]:....یہ بات غلط ہے۔بیشک مثبتین صفات کے نزدیک یہ معانی اسمِ اللہ تعالیٰ کے مسمی سے خارج نہیں ہیں ۔ بلکہ بعض اوقات تو وہ یہ کہتے ہیں : یہ صفات ذات کے علاوہ ہیں ۔ یعنی صفات سے خالی وہ ذات جس کا اثبات کرتے ہیں ۔نہ کہ اس سے ان کی مراد وہ ذات ہوتی ہے جو صفات سے متصف ہے۔ اللہ تعالیٰ کا نام ایسی ذات پر بولا جاتا ہے جو صفات سے متصف ہے۔ یہ اس ذات کا نام نہیں ہے جو صفات سے خالی ہے۔ اس لیے یہ ان کا قول نہیں ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے ساتھ دیگر قدیم ہستیوں کا بھی اثبات کرتے ہیں ۔ وہ ایسا کیسے کہہ سکتے ہیں جبکہ وہ تو یہ بھی کہنے کے روادار نہیں کہ صفت موصوف کا غیر ہے۔ پھر بھلا وہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ بھی قدیم ہستیاں ہیں ؟بلکہ اثبات صفات کے قائلین کا ایک گروہ جیسے ابن کلاب ؛صفات کے بارے میں یہ نہیں کہتا کہ یہ قدیم ہیں ۔ تاکہ انہیں متعدد قدما کا قائل نہ ہونا پڑے۔ کیونکہ منکرین صفات اس اطلاق کا انکار کرتے ہیں ۔ بلکہ وہ گروہ یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی صفات کے ساتھ قدیم ہے۔چھٹی وجہ:....تمہارا یہ کہنا کہ: مثبتہ نے اللہ تعالیٰ کو عالم ہونے کے لیے علم کا محتاج بنا دیا ہے۔جواب :.... اولاً: موجودہ مثبتہ کے قول پر تو یہ شبہ وارد ہوسکتا ہے لیکن جمہور کے نزدیک اللہ تعالیٰ کا عالم ہونا ہی علم ہے۔ اگر یہ تسلیم کربھی لیا جائے کہ اللہ تعالیٰ کا عالم ہونا اس علم کا محتاج ہے جو اس کی ذات کو لازم ہے تو یہ اس چیز کا اثبات نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ غیر کا محتاج ہے کیونکہ اس کی ذات علم کو مستلزم ہے اور علم اس کے عالم ہونے کو مستلزم ہے۔ تو اس کی اپنی ذات ہی عالم اور علم کی موجب ہے۔ جب یہ تسلیم کرلیا گیا کہ اس کی ذات ہی دونوں کا موجب ہے تو یہ اس سے بڑی بات ہے کہ اسے کسی ایک چیز کا موجب تسلیم کیا جائے جبکہ ان میں سے ایک چیز نقص نہ ہو۔ یہ معلوم ہے کہ علم کمال ہے اور اللہ تعالیٰ کا عالم ہونا بھی کمال ہے۔ تو جب اس کی ذات ہی دونوں کی موجب ہے تو معاملہ تب بھی ایسا ہی ہونا تھا جب اس کی ذات حیات اور قدرت کی موجب ہوتی۔ساتویں وجہ: ....اس کا یہ کہنا کہ: مثبتہ نے اللہ تعالیٰ کو عالم ہونے کے لیے علم کا محتاج بنا دیا ہے۔ تلبیسی؍مبہم قول ہے۔ کیونکہ لفظ محتاجی سے اس طرف ذہن جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسی ہستی کا محتاج ہے جو اسے عالم بنا دے اور علم عطا کرے۔ جبکہ ایسا ہونا باطل ہے۔ اس کا ثبوت تو اس کی ذات کے لزوم کے ذریعہ ہے۔ اس کی ذات ہی اس کے علم اور عالم ہونے کی موجب ہے۔ اس کے موجب ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اسے مستلزم ہے۔ یعنی اس کی ذات عالم ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس نے علم پیدا کیا یا اسے اپنے اندر شامل کیا۔ جو دونوں معانی کا اثبات کرتا ہے، وہ کہتا ہے: وہ اس وقت تک عالم ہو ہی نہیں سکتا جب تک اس کے پاس علم نہ ہو۔ جب وہ قطعی طور پر عالم ہے تو اس کے پاس علم بھی ہے۔ گویا وہ استدلال سے ثابت کررہا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کے عالم ہونے سے علم پر استدلال کررہا ہے۔ اور کہتا ہے: اس کی ذات نے اسے واجب کیا ہے۔ نہ کہ کسی اور چیز نے ایسا کیا ہے کہ اسے عالم بنایا ہو یا اس کے لیے علم تخلیق کیا ہو۔ اگر یہ تسلیم کرلیا جائے کہ اس کی ذات نے کسی واسطہ سے علم کو اپنے اوپر واجب کیا ہے تو موجب کا موجِب ہی موجِب ہوتا ہے۔جس طرح اس نے اپنے زندہ اور عالم ہونے کو واجب کیا ہے۔ اور علم زندگی سے مشروط ہے۔ لہٰذا یہ نہیں کہا جائے گا کہ وہ اپنے عالم ہونے کے لیے کسی دوسری چیز کا محتاج ہے۔ کیونکہ یہ مشروط امور سارے کے سارے اس کی ذات کے لوازم ہیں ۔ ان کا ثبوت غیر کا محتاج نہیں ہے۔