Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

شیعہ مصنف کی غلط بیانی:

  امام ابنِ تیمیہؒ

شیعہ مصنف کی غلط بیانی:[اعتراض]:....آٹھویں وجہ : شیعہ مصنف کہتا ہے: ’’ اہل سنت اﷲ تعالیٰ کو عالم و قادر لذاتہٖ تسلیم نہیں کرتے؛ بلکہ قدیم معنوں میں قادر اور عالم قرار دیا ہے۔‘‘[جواب]:.... اگر شیعہ مصنف کا مطلب یہ ہے کہ اہل سنت اﷲ تعالیٰ کو منکرین صفات کی طرح علم و قدرت سے مجرد [خالی]نہیں مانتے تو یہ درست ہے؛اور یہی عین حق ہے۔ اس لیے کہ علم و قدرت سے مجرد[خالی] ذات کا خارج میں کوئی وجوداور حقیقت ہی نہیں ۔ اور نہ ہی فقط خالی یہ صفات اللہ تعالیٰ ہیں اور نہ ہی عبادت کی مستحق۔ اور اگر یہ مراد لیتا ہے کہ اہل سنت اﷲ کو عالم و قادر لذاتہٖ نہیں مانتے جو علم و قدرت کو مستلزم ہے تو یہ اہل سنت پر عظیم بہتان ہے۔ کیونکہ اس کی ذات جو موجب علم و قدرت ہے یہی اس کے عالم و قادر ہونے اور اس کے علم و قدرت کو واجب ٹھہراتی ہے، اور علم و قدرت واجب کرتے ہیں کہ وہ عالم اور قادر بھی ہو۔اس لیے کہ یہ امور باہم لازم و ملزوم ہیں ؛ بلکہ اس کی ذات ان کی موجب ہے۔ اور اس کی ذات ہی اس کے عالم ہونے کی موجب ہے؛ اور ساتھ ہی اس کی زندگی کی موجب بھی ہے۔وہ تب تک عالم نہیں ہوسکتا جب تک وہ زندہ نہ ہو؛ان لوگوں [مثبتہ ] کا یہی عقیدہ ہے کہ عالم اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک اسے علم نہ ہو ۔[اعتراض]:.... نوویں وجہ :شیعہ مصنف کہتا ہے: ’’ اہل سنت اﷲ تعالیٰ کو عالم و قادر لذاتہٖ تسلیم نہیں کرتے۔‘‘[جواب]:.... اگر شیعہ مصنف کا مطلب یہ ہے کہ اہل سنت اﷲ تعالیٰ کو منکرین صفات کی طرح علم و قدرت سے ایسی مجرد [خالی]ذات نہیں مانتے؛ جیسے منکرین صفات کہتے ہیں کہ وہ تو صرف مجرد ذات ہے۔ تو یہ درست ہے؛اور یہی عین حق ہے۔ اس لیے کہ علم اور قدرت سے خالی ذات کی خارج میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ نہ ہی ایسی ذات باری تعالیٰ کی ہوسکتی ہے جو عبادت کی مستحق ہو۔ اور اگراس کی مراد یہ ہو کہ اللہ تعالیٰ لذاتہٖ عالم اورقادر ہیں ؛ جو کہ اس کے علم و قدرت کو مستلزم ہے؛تو یہ ان کے متعلق غلط بیانی ہے۔ بلکہ بذات خود اس کی ذات اس کے علم و قدرت کی موجب ہے؛ اوراسی نے اس کے عالم اور قادر ہونے کو واجب کیا ہے۔ اورایسے ہی اس کے علم اورقدرت کو بھی واجب کیا ہے۔ اورعلم و قدرت کو ایسا کردیا ہے جس سے اس کا عالم اورقادر ہونا واجب ہوتاہے۔ بلا شک و شبہ یہ امور آپس میں متلازم ہیں ۔ اور اس کی ذات ان تمام صفات سے موصوف ہے۔ اور یہی ان تمام چیزوں کو واجب بھی کرتی ہے۔ پس وہ اپنے سے جدا کسی بھی چیز کی طرف محتاج نہیں ہے۔ [اعتراض]:.... دسویں وجہ :شیعہ مصنف کا کہنا ہے کہ : ’’قدیم معانی ان صفات کے اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت کے محتاج ہیں ۔‘‘[جواب]:.... مثبتہ کا یہ قول ہے ہی نہیں ۔ کیونکہ ان کے نزدیک صفات ہی قدیم معانی ہیں ۔ جہاں تک اس بارے میں خبر دینے کا تعلق ہے تو وہ کہتے ہیں : یہ وصف ہے۔ اور بلاشبہ کسی موصوف کا یہ وصف بیان کرنا کہ وہ عالم ہے اس وقت تک ممکن نہیں جب تک اس کیلیے علم کا اثبات نہ کیا جائے۔ لیکن اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہی اپنے ساتھ قائم ان قدیم معانی کا موجب ہے۔ جب اسے علم، قدرت اور حیات سے انہی معانی کے ساتھ ہی متصف کیا جاسکتا ہے اور وہ خود ہی ان کا موجب ہے تو وہ کسی غیر کا محتاج ثابت نہیں ہوتا۔ جیسا کہ اسے اسی وقت علم سے متصف قرار دیا جاسکتا ہے جب وہ حیات سے موصوف ہو۔ حیات کا موجب بھی وہ خود ہی ہے۔ اس میں کسی غیر کا محتاج نہیں ہے۔ اگر وہ کہتا کہ قدیم معانی سے ان صفات کا ثبوت مستلزم ہے اور اس کی ذات ان دونوں کو مستلزم ہے اور یہ معانی ان صفات کے ثبوت کو مستلزم ہیں ۔ تو اس کی بات درست ہوتی۔ تلازم تینوں طرف سے حاصل ہوتا ہے۔
[اعتراض]:....گیارھویں وجہ : رافضی کہتا ہے کہ:’’ اہل سنت اﷲ کو محتاج ، ناقص فی ذاتہٖ اور کامل بغیرہ مانتے ہیں ۔‘‘[جواب]:.... شیعہ مصنف کا یہ قول سراسر بے بنیاد ہے، اس لیے کہ ذات الٰہی صفات لازمہ سے موصوف ہے اور خارج میں کوئی ذات مجردعن الصفات موجود ہی نہیں ، علاوہ ازیں صفات ذات اﷲ کے سوا اور کچھ بھی نہیں ۔یعنی خالی صفات کا خارج میں کوئی وجود نہیں ۔اور نہ ہی خارج میں کوئی ایسی ذات ہے جو ان صفات سے خالی ہو؛ حتی کہ اسے ان صفات کا نیاز مند یا ان سے بے نیاز تعبیر کیا جاسکے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات ان تمام صفات کو مستلزم ہے۔ اور صفات اس ذات کو ملزوم ہیں جو ان سے موصوف ہے؛ یعنی اس ذات کا تصور ان صفات کے ساتھ ہوسکتا ہے؛ اور یہ صفات اس کے بغیر ثابت نہیں ہوسکتیں کہ یہ کہنا ممکن ہو کہ وہ ذات ان صفات کی محتاج ہونے کی وجہ سے ناقص ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ایسی ذات جو صفات کمال سے خالی ہو؛ ناقص ہے۔ان کے بغیر وہ صفات کمال کی محتاج ہوتی ہے ۔ یہ حق بات ہے۔ لیکن یہ خالی خولی ذات اللہ تعالیٰ کی ہستی نہیں ؛ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ایسی کسی ذات کا خارج میں کوئی وجود ہی نہیں ۔ مزید برآں اہل سنت صفات الٰہیہ کو اس کا غیر نہیں کہتے ۔ [کہ یہ لوگ صفات پر لفظ غیر کا اطلاق نہیں کرتے۔][اعتراض]:بارھویں وجہ : شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’نصاریٰ تین قدیم مان کر کافر ٹھہرے ، مگر اشاعرہ کے نزدیک قدماء کی تعداد (نو ) ہے۔‘‘[جواب ]:یہ باطل کلام ہے ۔ اﷲ تعالیٰ نے نصاری کو اس لیے کافر قرار نہیں دیا کہ وہ تین قدماء تسلیم کرتے ہیں ۔ بخلاف ازیں قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:﴿ لَقَدْ کَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللّٰہَ ثَالِثُ ثَلٰثَۃٍ وَ مَا مِنْ اِلٰہٍ اِلَّآ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ وَ اِنْ لَّمْ یَنْتَھُوْا عَمَّا یَقُوْلُوْنَ لَیَمَسَّنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ oاَفَلَا یَتُوْبُوْنَ اِلَی اللّٰہِ وَ یَسْتَغْفِرُوْنَہٗ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌo مَا الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ اِلَّارَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ وَ اُمُّہٗ صِدِّیْقَۃٌ کَانَا یَاْکُلٰنِ الطَّعَامَ ....﴾ (المائدہ:۷۳۔۷۵)’’بلاشبہ یقیناً ان لوگوں نے کفر کیا جنھوں نے کہا بے شک اللہ تعالیٰ تین میں سے تیسرا ہے، حالانکہ کوئی بھی معبود نہیں مگر ایک معبود، اور اگر وہ اس سے باز نہ آئے جو وہ کہتے ہیں تو یقیناً ان میں سے جن لوگوں نے کفر کیا انھیں ضرور درد ناک عذاب پہنچے گا۔تو کیا وہ اللہ تعالیٰ کی طرف توبہ نہیں کرتے اور اس سے بخشش نہیں مانگتے، اور اللہ تعالیٰ بے حد بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔نہیں ہے مسیح ابن مریم مگر ایک رسول، یقیناً اس سے پہلے بہت سے رسول گزر چکے اور اس کی ماں صدیقہ ہے، دونوں کھانا کھایا کرتے تھے۔....۔‘‘تو پتہ چلا کہ﴿ اِنَّ اللّٰہَ ثَالِثُ ثَلَاثَۃٍ ﴾ ’’بیشک اﷲ تعالیٰ تین میں سے تیسرا ہے۔‘‘ کہنے کی بنا پر انہیں کافر ٹھہرایا ،کیونکہ اس کے بعد فرمایا ہے:﴿وَ مَا مِنْ اِلٰہٍ اِلَّآ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ﴾’’حالانکہ کوئی بھی معبود نہیں مگر ایک معبود۔‘‘اس آیت سے مستفاد ہوتا ہے کہ نصاری کا جرم اللہ تعالیٰ لایزال کو ’’ ثالث ثلاثہ‘‘ قرار دینا تھا، اور اسی جرم کی پاداش میں انہیں کافر کہا گیاب اﷲ تعالیٰ نے یوں نہیں فرمایا:’’وَمَا مِنْ قَدِیْمٍ اِلَّا قَدِیْمٌ وَّاحِدٌ۔‘‘’’صرف ایک ہی قدیم ہے اور کوئی قدیم نہیں ۔‘‘پھراس کے حضرت مسیح اور ان کی والدہ کے احوال پر مزید روشنی ڈالی؛ کیونکہ انہیں ہی اللہ تعالیٰ کے ساتھ الہ بنالیا گیا تھا۔جیساکہ اس دوسری آیت سے واضح ہوتا ہے؛ فرمایا:﴿وَ اِذْ قَالَ اللّٰہُ یاٰعِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ ئَ اَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُوْنِیْ وَ اُمِّیَ اِلٰہَیْنِ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ .... َ﴾ (المائدہ: ۱۱۶)’’اور جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اے عیسیٰ ابن مریم! کیا تونے لوگوں سے کہا تھا، کہ مجھے اور میری والدہ دونوں کو اﷲ کے سوا معبود بنا لو....۔‘‘یہ آیت پہلی آیت کے سیاق کے موافق ہے۔ اور اس میں اس چیز کا بھی بیان ہے کہ جن لوگوں نے یہ کہا تھا کہ ﴿ اِنَّ اللّٰہَ ثَالِثُ ثَلَاثَۃٍ ﴾ ’’بیشک اﷲ تعالیٰ تین میں سے تیسرا ہے۔‘‘ ان کا مطلب یہ تھا کہ وہ تین خداؤں میں سے تیسرا خدا ہے۔اوروہ تین خدا یہ ہے تھے: اللہ تعالیٰ؛ حضرت عیسی بن مریم؛ اور ان کی والدہ محترمہ ؛ مریم بنت عمران۔ قرآن میں تو نہ ہی تین قدماء کا ذکر ہے اور نہ ہی تین صفات کا۔ بلکہ کتاب و سنت میں اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنیٰ میں کہیں بھی قدیم کا ذکر نہیں ہي۔اگرچہ معنوی اعتبار سے یہ لفظ درست ہے۔ لیکن یہاں پر یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ انہوں نے جو وجہ بیان کی ہے اس کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے نصاری کو کافر نہیں کہا۔[1] [1] [مزید برآں نصاریٰ خود اس بات کے معترف ہیں کہ حضرت مریم و عیسیٰ دونوں اس کائنات ارضی پر پیدا ہوئے تھے، لہٰذا حادث تھے، پھر وہ ان کو قدیم کیوں کر قرار دے سکتے تھے....؟]