Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

اشاعرہ پر اعتراض اور اس کا جواب:

  امام ابنِ تیمیہؒ

اشاعرہ پر اعتراض اور اس کا جواب:تیرھویں وجہ ....: مان لیجیے کہ نصاری کو تین قدماء کے ماننے کی وجہ سے کافر کہا گیا ۔لیکن صفات الٰہی کا اثبات کرنے والے یہ نہیں کہتے کہ اﷲ تعالیٰ نو (۹) قدماء میں سے ایک ہے۔ بخلاف ازیں ان کے نزدیک لفظ ’’اﷲ ‘‘ ذات و صفات دونوں کا جامع ہے۔ان کے نزدیک اللہ تعالیٰ کی صفات اس کی ذات سے خارج کوئی چیز نہیں ۔بلکہ جب کوئی یہ کہتا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ پر ایمان لایا؛ یا میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی ؛تو اس کی صفات بھی اس کے اسم کے مسمیٰ میں داخل ہوتی ہیں ۔وہ ہر گز یہ بات نہیں کہتے کہ اس کی صفات اللہ تعالیٰ کا غیر ہیں ۔تو پھر یہ کہنا کیسے ممکن ہے کہ وہ نوں میں سے نوواں ہے یا تین میں سے تیسرا ہے۔سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ’’ جس نے غیر اﷲ کی قسم کھائی اس نے شرک کا ارتکاب کیا۔‘‘[1] [1] سنن ابی داؤد۔ کتاب الایمان والنذور۔ باب فی کراہیۃ الحلف بالآباء (حدیث: ۳۲۵۱) ، سنن ترمذی۔ کتاب النذور والأیمان۔ باب ما جاء فی کراھیۃ الحلف بغیر اللّٰہ ( حدیث:۱۵۳۵) حدیث صحیح میں ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں قسم أٹھائی ہے: اللہ تعالیٰ کی عزت کی قسم ![2]  [2] صحیح بخاری۔ کتاب الأیمان والنذور۔ باب الحلف بعزۃ اللّٰہ تعالیٰ و صفاتہ و کلامہ، و(ح:۶۶۶۱، ۷۳۸۳) اللہ تعالیٰ کی حیات کی قسم ! [3]  [3] سنن ابی داوٗد ، کتاب الایمان والنذور، باب ما جاء فی یمین النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ما کانت ح:۳۲۶۶۔اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی عزت و حیات کی قسم حلف بغیر اﷲ میں شامل نہیں ۔چودھویں وجہ : حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات آٹھ میں معدود و محصور نہیں ؛اگرچہ بعض صفات کو ماننے والے اشاعرہ اور دیگر لوگوں کا یہ قول ہے۔حق بات یہ ہے صفات ثابت ماننے والے جمہور علماء اور ائمہ اشعریہ کے نزدیک صفات الٰہیہ آٹھ کے عدد میں محصور نہیں ؛ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ صفات کسی بھی عدد میں محدود نہیں ہے۔پھر ناقل کا یہ کہنا کہ وہ نووں میں سے نوواں ہے ؛ سراسر باطل ہے۔پندرھویں وجہ : نصاری تین اقانیم کے قائل ہیں اور کہتے ہیں کہ: یہ تین جواہر ایک جوہر میں جمع ہیں ۔ اقانیم ثلاثہ میں سے ہر اقنوم الٰہ ہے جو پیدا کرتا اور رزق عطا کرتا ہے۔ کلمہ اور علم کے اقانیم مسیح کے ساتھ متحد ہیں ۔ نصاری کے اس قول میں تضاد پایا جاتاہے۔ اس لیے کہ متحد اگر صفت ہو تو صفت نہ پیدا کرتی نہ رزق عطا کرتی ہے۔ ورنہ اپنے موصوف سے الگ ہوتی ہے۔جب کہ صفت اپنے موصوف سے الگ نہیں ہوتی۔ اور اگر صفت کا نام ہی موصوف ہے تو وہ جوہر واحد ہے اور وہی باپ ہے، اس سے مسیح کا باپ ہونا لازم آئے گا ۔حالانکہ نصاری اس کے قائل نہیں ، اب نصاریٰ کے عقیدہ کو ذہن میں رکھیے اور اہل سنت کے نقطئہ نظر پر غور کیجئے جو کہتے ہیں کہ:’’ اﷲ تعالیٰ ایک ہی ہے، اس کے اسماء حسنیٰ ہیں جوکہ اس کی صفات عالیہ پر دلالت کرتے ہیں اس کے سوا کوئی خالق ہے نہ کوئی معبود۔‘‘ان دونوں عقائد میں اتنا بڑا فرق ہے کہ زمین و آسمان کے فرق کو پیچھے چھوڑتا ہے۔ جہمیہ نے صفات کو ثابت ماننے والوں پر بہت بڑا بہتان لگایا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ابن کلاب کا شمار صفات الٰہیہ کو ثابت ماننے والوں میں ہوتا ہے۔اس نے جب جہمیہ کی تردید میں کتاب تحریر کی؛ تو انہوں نے ان کی بہن کے بارے میں ایک کہانی گھڑ ڈالی، کہانی کا خلاصہ یہ ہے کہنے لگے کہ: ابن کلاب کی بہن نصرانی تھی، جب ابن کلاب مشرف باسلام ہوا تو بہن نے اس سے قطع تعلق کرلیا، ابن کلاب نے کہا کہ میں تو مسلمانوں کے دین میں فساد پیدا کرنے کے لیے مسلمان ہوا ہوں ، یہ سن کر وہ راضی ہوگئی۔یہ کہانی گھڑنے والے کا مقصد یہ ثابت کرنا تھا کہ صفات باری تعالیٰ کا اثبات نصاری کا عقیدہ ہے، حالانکہ اہل سنت اور نصاری کے نظریات کے مابین اتنا ہی فرق ہے جتنا بنیاد اور چوٹی میں ۔ان سے یہ قصہ بعض سالمیہ اور بعض محدثین اور اہل سنت نے بھی لے لیا؛ اور مسئلہ قرآن میں اس کے کلام کی وجہ سے اس کی مذمت اور عیب جوئی کرنے لگے۔ اور انہیں یہ پتہ نہ چلا کہ جنہوں نے اس پر یہ الزام لگایا ہے وہ مسئلہ قرآن اور دوسرے مسائل میں اس کی نسبت حق بات سے بہت زیادہ دور ہیں ۔ اور یہ عیب بھی اس انداز میں تھا کہ حقیقت میں اس کی تعریف تھی۔ اس لیے کہ آپ کے ہاں ابن کلاب کا عیب یہ ہے کہ وہ صفات کو ثابت مانتا تھا؛ اور اب اس کا کلام اتنی اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ اس کے ذکر کے بغیر تمہاری بات مکمل نہیں ہوتی۔بلکہ اس پر ان کے کلام کا کچھ حصہ باقی رہ گیا ہے۔یہ بالکل اسی طرح ہے جیسا کہ ابن عقیل نے قرآن کے مسئلہ میں کیا تھا؛ اس نے معتزلہ کا وہ کلام لے لیا جس کی بنا پر وہ اشاعرہ پر رد کرتے تھے۔ کہ ان کا عقیدہ تھا کہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام نہیں ہے؛ بلکہ اسی سے عبارت ہے۔ اس عقیدہ کو لیکر وہ اشعریہ پر اعتراض کرنے لگے۔ معتزلہ کا مقصود یہ تھا کہ وہ اس سے قرآن کا مخلوق ہونا ثابت کریں ۔ جبکہ خلق قرآن کے عقیدہ میں اشعریہ معتزلہ سے بہت بہتر ہیں ۔ لیکن عیب کی بات ان کی اس کوتاہی میں ہے کہ انہوں نے سنت کو مکمل نہیں کیا۔ایسے ہی بعض منصف مزاج اہل حدیث سالمیہ ؛ نے جب ابن کلاب ؛ اشعری اور ابن کرام کے متعلق حکایات ذکر کیں ؛ توان میں سے بعض قطعی طور پر جھوٹ تھیں ؛ جو ان کے اعداء معتزلہ نے ان کے خلاف گھڑ لی تھیں ۔ اس لیے کہ وہ صفات اور قدر کے اثبات کے قائل تھے۔ پس ان لوگوں نے آکر یہ حکایات بیان کرنا شروع کردیں ۔ اوراس سے مقصود ان کے بعض خطأ پر مبنی اقوال و عقائد کی وجہ سے متنفر کرنا تھا۔ اوریہ حکایات ان لوگوں نے گھڑ لی تھیں ؛ جو ان کی نسبت سنت سے بہت زیادہ دور تھے۔ اور ایسے ہی سالمیہ جوشیخ ابوالحسن بن سالم کے پیروکار ہیں ؛ وہ اپنے اکثر اصولوں میں اہل سنت والجماعت کے منہج پر ہیں ۔ لیکن جب ان کے بعض مسائل میں غلطی واقع ہوئی تو ان پر رد کرنے والوں اور ان کے خلاف لکھنے والوں نے بھی اپنی طرف سے اس میں کچھ زیادہ کردیا؛ حتی کہ وہ ان کی حق باتوں کابھی رد کرنے لگے۔