شیعہ فرقے اور ان کے عقائد و افکار
امام ابنِ تیمیہؒشیعہ فرقے اور ان کے عقائد و افکارعلامہ اشعری اور دوسرے سابق الذکر علماء نے بیان[1][1] (ص:۴۲و ۱۲۵) پر زرقان کا ذکر موجود ہے۔ بیان بن سمعان اموی عہد خلافت میں ایک خبیث اور فریب کار شخص ہوا ہے۔ اس دور میں ’’ الوصفا نامی ایک جماعت پیدا ہوئی تھی، جس کا سرغنہ مغیرہ بن سعید تھا یہ ان سے ساز باز رکھتا تھا۔ یہ اعداء دین کی ایک جماعت تھی، جو اسلام کے استیصال کیلئے وجود میں آئی تھی ۔ مالک بن سعید اور چند ذہین شعوبیہ اس کے ممبر تھے، ان کی جانب چند عقاید و افکار منسوب ہیں ،جو انہوں نے جاہل مسلمانوں کو پھنسانے اور دین اسلام سے منحرف کرنے کے لیے گھڑ رکھے تھے، دراصل یہ ان عقائد پر ایمان نہیں رکھتے تھے، بیان کے مخصوص افکار و معتقدات جن کا وہ داعی تھا وہ یہ تھے: ۱۔حضرت علی الہٰ ہیں ۔ ۲۔الوہیت کا ایک جز اس میں حلول کر آیا اور اس کے جسم کے ساتھ متحد ہو گیا ہے۔ ۳۔وہ کہا کرتا تھا کہ: بعض اوقات میں ذات خداوندی کو دیکھا بھی کرتا ہوں ۔ بیان بن سمعان آیت :﴿ ہَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّا اَنْ یَّاْتِیَہُمُ اللّٰہُ فِیْ ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ ﴾ (البقرہ۲۱۰) ’’کیا یہ لوگ اس انتظار میں ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے بادلوں کے سائے میں ن کے پاس آجائے۔‘‘ کی تفسیر کرتے ہوئے کہا کرتا تھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ بادل کے سایہ میں آئیں گے۔ بجلی کی کڑک ان کی آواز ہوگی اور اس کی چمک ان کی مسکراہٹ۔ بیان کا قول ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اسرار پہلے ان کے فرزند محمد بن حنفیہ کی جانب منتقل ہوئے، اور پھر ان کے پوتے ابو ہاشم کی طرف۔ کچھ عرصہ کے بعد بیان نے یہ دعویٰ کر دیا کہ ابو ہاشم کی روح اس میں حلول کر آئی ہے۔ اور اس طرح بطریق تناسخ اس میں الوہیت سما گئی ہے۔ اسی اثنا میں بیان نے عمر بن ابی عفیف نامی قاصد کو محمد باقر کی طرف بھیج کر انہیں اپنی پیروی کی دعوت دی، محمد باقر نے قاصد کو حکم دیا کہ وہ دعوت نامہ نگل لے، چنانچہ اس نے حکم کی تعمیل کر دی، خالد بن عبداﷲ قسری ان دنوں خلیفہ ہشام بن عبدالملک کی جانب سے کوفہ کے گورنر تھے۔ جب ان کو بیان بن سمعان اور وصفاء کی جماعت کے حالات موصول ہوئے تو ۱۱۹ھ میں ان سب کو کوفہ کی جامع مسجد میں قتل کر دیا، وصفاء کی جماعت میں شامل ہونے والے نہ تو وہ کیسانیہ تھے جو محمد بن حنفیہ کے نام سے لوگوں کو دھوکہ دیا کرتے تھے اور نہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور ان کی آل کا نام لے کر فریب دینے والے امامیہ، بخلاف ازیں یہ لوگ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ و تابعین کے خلاف حقد و عداوت کا داعیہ لے کر اٹھے تھے اور یہی چیز ان کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کا موجب بنی۔ بن سمعان تمیمی.... ایک غالی شیعہ؛جس کی طرف شیعہ فرقہ بیانیہ کو منسوب کیا جاتا ہے .... سے نقل کیا ہے؛ وہ کہا کرتا تھا کہ اﷲ تعالیٰ کی صورت انسان جیسی ہے، اس کا صرف چہرہ محفوظ رہے گا باقی جسم فنا ہو جائے گا۔ اس کا دعوی تھا کہ وہ زہرۃ ستارے کو بلاتا ہے تو وہ اس کی بات مانتے ہوئے حاضر ہوجاتا ہے؛ اور ایسا وہ اسم اعظم کے زور پر کرتا ہے۔ خالد بن عبداﷲ قسری نے اسے قتل کر دیا تھا۔ان میں بہت سارے لوگوں سے نقل کیا گیا ہے وہ بیان بن سمعان کی نبوت کے قائل تھے۔ اور ان میں بہت سارے لوگوں کا ایمان تھا کہ ابو ہاشم عبداللہ بن محمد بن الحنفیہ نے بیان بن سمعان کو نبوت اور امامت کے لیے بذریعہ نصوص متعین کیا تھا۔[1][1] دیکھو: الأشعرِی فِی المقالاتِ 1؍66 ۔تارِیخ الطبرِیِ5؍456۔الملل والنحل 1؍136۔الفِصل لِابنِ حزم 5؍44۔الخِطط لِلمقرِیزِیِ 2؍349۔فِرق الشِیعِ لِلنوبختِیِ 50۔ أعیان الشِیعِ 14؍173۔البدء والتارِیخ لِمطہرِ بنِ طاہِر المقدِسِیِ 5؍130، ط. پیرس1916.۔ مغیرہ بن سعید کے اصحاب مغیریہ سے منقول ہے کہ :ان لوگوں کا عقیدہ تھا کہ مغیرہ کہا کرتا تھا وہ نبی ہے۔ اور اس کے پاس اللہ تعالیٰ کا اسم اعظم ہے۔ اور اس کا یہ بھی عقیدہ تھا کہ اس کا معبود نور سے بنا ہوا ایک شخص ہے جس کے سر پر نور کا تاج رکھا ہے۔ اس کے اعضاء اور تخلیق کی ایک آدمی کی طرح ہے۔وہ شکم اور دل بھی رکھتا ہے؛جس سے حکمت پیدا ہوتی ہے۔ اور ابجد کے حروف اس کے اعضاء کی تعدادکے مطابق ہیں ۔وہ کہا کرتا تھا کہ : الف ٹیڑھا ہونے کی وجہ سے اس کے پاؤں کی جگہ ہے۔ اور ہاء کے بارے میں کہا کرتا تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ میں آپ ہاء کی جگہ دیکھ لیتے تو بہت بڑا امر عظیم دیکھ لیتے۔اور شرمگاہ سے اعراض کرتا تھا۔اس کا دعوی تھا کہ ا س نے رب تعالیٰ کو دیکھا ہے۔ اس جھوٹے پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو اور اللہ تعالیٰ اسے رسوا کرے۔وہ اسم اعظم کے ذریعہ مردوں کو زندہ کرنے کے دعوے دار تھا اور لوگوں کو شعبدہ بازی اورخرق عادت کے کچھ کرتب دکھایا کرتا تھا، چنانچہ لوگوں نے اس کی نبوت کا دعوی کر دیا۔اوروہ یہ بھی بتایا کرتا تھا کہ تخلیق کائنات کی ابتداء کیسے ہوئی؟ اس کا عقیدہ تھا کہ اللہ تعالیٰ اکیلا تھا ؛ اس کے ساتھ کوئی بھی نہیں تھا؛ جب اس نے چیزوں کو پیدا کرنے کا ارادہ کیا تو اسم اعظم کے ساتھ کلام کیا؛اور یہ اسم اعظم اڑ کرایک تاج کی صورت میں اس کے سر پر بیٹھ گیا۔ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے یہی مراد ہے : ﴿سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلٰی﴾۔’’اپنے رب کے نام کی تسبیح کر جو سب سے بلند ہے۔‘‘اس کے بارے میں اور بھی بہت ساری اس طرح کی چیزیں بیان کی جاتی ہیں جن کا بیان یہاں پر طوالت اختیار کر جائے گا۔ خالد بن عبداﷲ القسری نے (اپنے عہد امارت میں ) اسے قتل کر دیا۔[2][2] اشعری نے مقالات ۱؍۶۶ پر ذکر کیا ہے کہ بیان بن سمعان النہدی التمیمی کا ظہور عراق میں سن ایک سو ہجری میں ہوا۔ اور ۱۱۹ ہجری میں خالدبن عبداللہ القسری نے اسے آگ میں جلا کر قتل کردیا۔ لسان میزان ۲؍۵۵۔ تاریخ طبری ۵؍ ۴۵۶۔ مقالات اشعری ۱؍ ۹۵۔ ملل و نحل ۱؍ ۱۳۶۔ الفصل لابن جزم ۵؍ ۴۴۔ ابو منصور[3][3] ابو منصور عجلی کوفہ کا رہنے والا تھا ۔کہا جاتا ہے کہ یہ عبدالقیس کے موالی میں سے تھا۔ یہ امام باقر المتوفی (۵۹۔ ۱۱۶) کا معاصر تھا۔اور آپ سے ملا کرتا تھا۔ اس کے خلاف اسلام عقائد سے متنفر ہو کر امام باقر اس سے بیزار ہوگئے تھے۔ امام باقر کی وفات کے بعد ۱۱۶ میں اس نے امام باقر کے وصی ہونے کا دعویٰ کر دیا، اور کہنے لگا:حضرت علی، حسن و حسین، علی بن حسین اور محمد باقر سب انبیاء تھے اور وہ بھی نبی و رسول ہے۔ اس کی چھٹی پشت تک نبوت جاری رہے گی۔ ان میں سے آخری شخص ’’ القائم ‘‘ ہوگا، جیسا کہ شیعہ علماء میں سے الکشی نے اعتراف کیا ہے۔ سب سے پہلے ابن سبا نے الوصی کا لفظ اختراع کیا۔ اسی طرح شیعہ فضلاء میں سے نو بختی کے( کے متبعین جن کو منصوریہ کہا جاتا ہے،منصوریہ اس کے بارے میں کہتے ہیں کہ:وہ کہا کرتا تھا: ’’ آل محمد آسمان ہیں ، اور شیعہ زمین ہیں ،اور وہی آسمان کا وہ ٹکڑا ہے جو بنی ہاشم میں گرا تھا۔اس کا دعویٰ تھا کہ مجھے آسمان پر لے جایا گیا ۔ میرے معبود نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور کہا ’’اے میرے بیٹے! جاکر میرے دین کی تبلیغ کیجئے۔‘‘اور پھر وہ یہ پیغام رسالت لیکر زمین پر اترا۔ منصور یہ ان الفاظ کے ساتھ حلف اٹھایا کرتے تھے: ’’لَا وَالْکَلِمَۃَ۔‘‘ابو منصور کا عقیدہ تھا کہ اﷲ تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں سب سے پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو پیدا کیا، پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو۔ اس کاعقیدہ ہے کہ سلسلہ ء نبوت و رسالت ختم نہیں ہوا۔ یہ جنت اور جہنم کا منکر تھا؛ اس کی رائے میں جنت ایک آدمی کا نام ہے، اور جہنم بھی۔وہ عورتوں اور محرم رشتہ دار خواتین کواپنے ماننے والوں کے لیے حلال قرار دیتا تھا۔اور اس کا یہ بھی عقیدہ تھا کہ محرمات ،خون، مردار اور شراب کو حلال قرار دیتا تھا ۔اس کا عقیدہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ہم پر ان میں سے کسی بھی چیز کو حرام نہیں ٹھہرایا۔اور نہ ہی کوئی ایسی چیز حرام کی ہے جس سے ہماری جان میں طاقت آتی ہو۔ا ور کہا کرتا تھا کہ یہ قوموں کے نام ہیں ، اﷲ تعالیٰ نے ان کی دوستی کو حرام ٹھہرایا ہے،اور وہ اس آیت کی تأویل کیا کرتا تھا:﴿لَیْسَ عَلَی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جُنَاحٌ فِیْمَا طَعِمُوْٓا﴾[المائدۃ ۹۳]’’ان لوگوں پر جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے اس چیز میں کوئی گناہ نہیں جو وہ کھا چکے۔‘‘اس نے اپنے ماننے والوں سے فرائض کو بھی ساقط کردیا تھا اور کہتا تھا کہ یہ آدمیوں کے نام ہیں ، جن سے دوستی لگانا اللہ تعالیٰ نے واجب قرار دیاہے۔دورِبنو امیہ میں والی عراق یوسف بن عمر [1] [1] بیان کے مطابق ’’القائم ‘‘ کا لفظ اختراع کرنے والا ابو منصور تھا۔ گویا شیعہ حضرت علی کو وصی قرار دینے میں ابن سبا کے شاگرد ہیں اور تہ خانے میں چھپ رہنے والے مشکوک الولادت کو القائم کا لقب عطا کرنے میں ابو منصور کے تلمیذ رشید ہیں ۔ ابو منصور کہا کرتا تھا کہ مجھے آسمان پر لے جایا گیا: اﷲ تعالیٰ نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور سریانی زبان میں میرے ساتھ بات چیت کی پھر مجھے زمین پر اتارا گیا، آیت ذیل میں : ﴿ وَاِنْ یَّرَوْا کِسَفًا مِّنَ السَّمَائِ ﴾ (الطور: ۴۴)’’ اگر آسمان سے ایک ٹکڑا(ڈوہ کاڈوہ) گرتا ہوادیکھیں ۔‘‘جو کسف کا لفظ وارد ہے اس سے میری ذات مراد ہے۔بعد ازاں کہا کرتا تھاکہ: کسف سے ذات الٰہی (یعنی خود ابو منصور) مراد ہے۔ وہ اپنے اتباع کو کہا کرتا تھا کہ مخالفین کا گلا گھونٹ کر انہیں قتل کر دیا کرو۔ جب یوسف بن عمر ثقفی خلیفہ ہشام بن عبدالملک کی جانب سے کوفہ کا گورنر مقرر ہوا تو اس نے ابو منصور کو پکڑ کر سولی پر چڑھا دیا۔یہ واقعہ ۱۲۰ھ اور ۱۲۶ھ کے درمیان وقوع پذیر ہوا، ان دنوں یوسف بن عمر عراق پر حکمران تھا۔ یوسف بن عمر الثقفِی، أبو یعقوب،ہشام بن عبد الملک کے دور سے یزید بن ولید کے دور تک بنی امیہ کی طرف عراق کا حاکم رہا ہے۔یزید بن ولید نے اسے معزول کرکے جیل میں ڈال دیا تھا۔انظر: وفیاتِ العیانِ 6؍98 ۔الإعلام 9؍320.۔: المقالاتِ لِلأشعرِیِ1 ؍ 75۔المِلل والنِحل1؍158۔أصول الدِین331۔ الفرق بین الفِرقِ، ص 149۔التبصِیر فِی الدِینِ3 ۔الفِصل لِابنِ حزم 5؍45۔ الخِطط لِلمقرِیزِیِ 2؍253۔فِرق الشِیعۃِ، ص 60۔ البدء والتارِیخ 5؍131 ۔ نے اسے قتل کر دیا تھا۔آج کل کے دور میں موجود فرقہ نصیریہ [2] [2] نصیریہ محمد بن نصیر کے پیرو ہیں ، محمد بن نصیر بنی نمیر کے موالین میں سے تھا اور گیارہویں امام حسن عسکری المتوفی (۲۳۲ ۔ ۲۶۰) کی سکونت گاہ سامرا میں ان کے ہاں جایا کرتا تھا۔ جب ربیع الاول : ۲۶۰ھ میں امام عسکری لا ولد فوت ہو( والے کئی وجوہات کی بنا پر منصور یہ سے ملتے جلتے تھے۔................................................................................................................................................................................................................................................................................................ [1][1] (گئے۔ تو آپ کے عقیدت مند اور ملاقاتی اس حقیقت کا اعتراف کر کے اپنے اپنے کاموں میں لگ گئے اور خانہ نشین ہوگئے۔ امام حسن عسکری کے بھائی سید جعفران کی تدفین و تکفین میں مشغول ہوگئے اور اس اساس پر اس کا ترکہ تقسیم کیاگیا کہ ان کی کوئی اولاد نہیں ۔ آپ کا کنبہ اور سب علوی اس حقیقت سے آشنا تھے کہ امام عسکری بے اولاد ہیں ۔ اس وقت ایک افسر بھی وہاں موجود تھا جس کے پاس ایک رجسٹر تھا۔ اس میں علویہ کی تاریخ ولادت مذکور تھی۔ اس وقت یہ ایک طے شدہ حقیقت تھی کہ امام عسکری لاولد تھے۔تاہم نام نہاد ائمہ اہل بیت کے ارد گرد گھومنے والے غالی شیعہ کو اس سے بڑا دکھ ہوا اور انہوں نے سمجھا کہ جس امر کی بنا پر وہ اہل اسلام کے خلاف جھوٹی روایات گھڑاکرتے تھے اب وہ باقی نہیں رہا۔ بڑی سوچ بچار کے بعد انہوں نے اس کا ایک حل تلاش کیا، اور وہ تھا امام غائب کا نظریہ....! انہوں نے یہ نظریہ گھڑ لیا کہ امام حسن عسکری کے یہاں ان کی وفات سے پانچ سال پہلے ایک لڑکا تو لدہوا تھا اور وہ بمقام سامرا آپ کے گھر کے تہ خانہ میں پوشیدہ ہے ۔ اس نظریہ کا موجد یا مشیر محمد بن نصیر تھا، محمد بن نصیر چاہتا تھا کہ وہ بارھویں من گھڑت امام اور ان کے اتباع و انصار کے مابین ایک واسطہ قرار پائے۔ اس واسطہ کو شیعہ اپنی اصطلاح میں ’’الباب ‘‘ (دروازہ) کہتے تھے۔ امام حسن عسکری اور ان کے والد کا ایک خادم تھا جو اس کے گھر کے قریب ایک دکان میں گھی اورتیل فروخت کیا کرتا تھا، اس کا نام عثمان بن سعید تھا۔ اس کا ایک بیٹا بھی امام کی خدمت میں اپنے باپ کا ہاتھ بٹایا کرتا تھا اس کا نام محمدعثمان تھا۔ محمد بن نصیر کے رفقاء نے محسوس کیا کہ اگر محمد بن نصیر جیسے نووارد کو ’’ الباب ‘‘ کے منصب پر فائز کیا گیا تو ہو سکتا ہے کہ دوسرے رفقاء اس پر رشک کرنے لگیں ، خصوصاً جب کہ پروگرام میں یہ بات بھی شامل تھی کہ فرضی امام کے لیے ان کے اتباع سے صدقہ فراہم کیا جائے۔ بریں بنا یہ بہتر ہوگا کہ گھی فروش اور اس کے لڑکے کو یہ منصب تفویض کیا جائے۔ انہوں نے سوچا کہ یہ امانت محمد بن نصیر جیسے با اثر آدمی کی بجائے گھی فروش اور اس کے لڑکے کے پاس رہے۔ شیعہ اس حقیقت سے بخوبی آگاہ تھے کہ گھی فروش امام غائب کے والد اور دادا کی خدمت میں رہ چکا ہے اور اس طرح یہ راز محفوظ رہے گا اور لوگ اسے زائل کرنے کی کوشش نہیں کریں گے۔ اس کے عین بر خلاف محمد بن نصیر ’’ الباب ‘‘ کا منصب اختیار کرنے پر تلا ہوا تھا، مگر اس کے شرکاء مشورہ ہر قیمت پر اسے اس منصب سے محروم کرنا چاہتے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ محمد بن نصیر نے ناراض ہو کر امام غائب ہی سے انکار کر دیا، حالانکہ وہ خود اس عقیدہ کا تصنیف کنندہ تھا، چنانچہ اس نے شیعہ کا ایک جدید فرقہ تیار کرنے کی بنا ڈالی جن کے افکار و معتقدات بڑے عجیب و غریب ہیں ، محمد بن نصیر کی جانب منسوب کر کے اس فرقہ کو نصیریہ کہتے ہیں ۔مشہور شیعہ عالم نو بختی اور دیگر متقدمین شیعہ بہت سی رسوا کن باتوں کو محمد بن نصیر کی جانب منسوب کرتے ہیں ۔ محمد بن نصیر بذات خود اپنے رفقاء و معاصرین سے متعلق ایسی باتوں کی تشہیر کیا کرتا تھا۔اس کی تفصیلات ان کتب میں موجود ہیں جو اسلامی فرقہ جات اور ان کے عقائد و افکار کے بارے میں تحریر کی گئی ہیں ۔ شیعہ کا فرقہ نصیریہ مختلف مراحل و ادوارسے گزرا ہے، یہاں تک کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ المتوفی (۶۶۱۔ ۷۲۸) کا زمانہ آیا، شیخ الاسلام کا تلمیذ رشید شیخ شہاب الدین احمد بن محمود بن لہری شافعی نصیریہ کے متعلق لکھتا ہے: نصیریہ کہتے ہیں : حضرت علی رب ہیں ۔ محمد حجاب اور سلمان فارسی’’ الباب ‘‘ (دروازہ)۔ جس الہٰ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا تھا وہ حضرت علی ہیں ۔ آپ ارض و سماء کے امام ہیں ۔ اﷲ (علی) کے اس زمین پر ظاہر ہونے کا مقصد یہ تھا کہ مخلوقات اس سے مانوس ہوں ۔ وہ بندوں کو اپنی معرفت و عبادت کا طریقہ بتائے، فرقہ نصیریہ کے ہر فرد پر یہ فریضہ عائد ہوتا ہے کہ وہ مختلف انوار و ادوار میں ایسے امام اور رب کو پہچانے اور ہر زمانہ میں اس کے اسم و معنی میں جو تبدیلی ہوتی ہے اسے پہچانتا رہے، سب سے پہلے فرد کا نام آدم اور مفہوم شیث تھا، بعد ازاں اسم یعقوب اور معنی یوسف۔پھر اسم موسیٰ اور معنی یوشع پھر نام سلیمان اور مفہوم آصف پھر نام عیسیٰ مسیح اور ( ابو الخطاب بن ابو زینب [1][1] مفہوم شمعون تھا پھر نام محمد اور مقصود علی تھے، ایک شیعہ شاعر کہتا ہے: ہابیل، شیث، یوسف و یوشع آصف شمعون الصفا حیدر نصیریہ قدامت عالم اور تناسخ کا عقیدہ رکھتے ہیں ، یہ لوگ جی اٹھنے کے منکر ہیں ۔ اور جنت و جہنم کو ایک دنیوی رمز قرار دیتے ہیں ۔ نصیریہ کے نزدیک پانچ نمازوں سے پنجتن یعنی حضرت علی، حسن و حسین محسن اور فاطمہ رضی اللہ عنہم مراد ہیں ۔ ان کا خیال ہے کہ پنجتن کا نام ذکر کرنے کے بعد غسل جنابت وضو اور نماز کے باقی شروط و واجبات کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ ان کے نزدیک روزہ سے تیس مرد اور تیس عورتوں کے اسماء مراد ہیں ۔ان کے نزدیک شراب حلال ہے، بقول ان کے (نعوذ باﷲ من ذلک )حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ (خاکم بدہن) سب سے بڑے ابلیس تھے،:پھرحضرت ابو بکر، پھر حضرت عثمان، نصیریہ کی اصطلاح ہے، پانچ یتیم اور بارہ نقیب۔ آٹھویں اور نویں صدی ہجری میں مصری حکومت کے یہاں نصیریہ سے متعلق سرکاری معلومات موجود تھیں ۔ جن کو ابو العباس احمد علی قلقشندی المتوفی ۸۲۱ھ نے اپنی کتاب صبح الاعشیٰ (۱۳؍ ۲۴۹۔۲۵۱) پر جمع کیا تھا۔ نصیریہ کے عقاید سے اخذ کر کے قانون بنایا گیا تھاکہ عدالتوں میں جب حلف دینے کی ضرورت لاحق ہو تو انہیں کس طرح حلف دیا جائے۔ نصیریہ کے متعلق سرکاری معلومات کا خلاصہ یہ ہے کہ: ۱۔ سیدنا علی کی سکونت گاہ بادل ہے۔ ۲۔ بادل دیکھ کر نصیریہ کہا کرتے تھے: ’’ السلام علیک یا ابا الحسن ‘‘ ۳۔ بادل کی گرج حضرت علی رضی اللہ عنہ کی آواز اور بجلی کی چمک آپ کی ہنسی ہے، اسی بنا پر وہ بادل کی تعظیم بجا لاتے تھے۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کو بھی رسول مانتے تھے۔ ۴۔ نصیریہ حضرت علی کے قاتل ابن ملجم کو بنظر استحسان دیکھتے ہیں ، بقول ان کے ابن ملجم نے لاہوت (سیدنا علی) کو ناسوت( عالم ارضی) سے چھڑایا،ابن ملجم پر لعنت کرنے والوں کو وہ خطا کار قرار دیتے ہیں ۔ ۵۔ ابن فضل اﷲ العمری المتوفی ( ۷۰۰۔ ۷۴۹) اپنی تصنیف’’ التعریف بالمصطلح الشریف‘‘ میں لکھتے ہیں کہ نصیریہ شراب کی تعظیم بجا لاتے اور اسے نور تصور کرتے ہیں ۔ ۶۔ نصیریہ کی رائے میں انگور کی بیل قابل تعظیم ہے اور اس کا اکھاڑنا گناہ ہے، کیونکہ اس سے شراب تیار کی جاتی ہے۔ میں نے نصیریہ کے افکار و معتقدات اور سیر و سوانح میں خاصی طوالت سے کام لیا ہے کیوں کر اس فرقہ کے افراد ہنوز دیار شام کے علاقہ لا ذقیہ میں پائے جاتے ہیں ۔ تازہ ترین مردم شماری کے مطابق ان کی تعداد ۲۸۹۰۰۰ (دو لاکھ نواسی ہزار) ہے۔ فرانسیسی استعمار کے زمانہ میں اہل فرانس نے اس فرقہ کے لیے مغرب میں رہنے والے بربر کے سے حالات پیدا کر دئیے تھے۔ جن کی تفصیل یہاں خارج از بحث ہے، نصیریہ نے سر زمین شام میں بود و باش رکھتے ہوئے، تاریخ میں پہلی مرتبہ اپنا نام تبدیل کر کے ’’ علویہ ‘‘ رکھ لیا۔ نصیریہ میں سے صالح العلی نے انقلاب فرانس کے زمانہ میں بڑا کام کیا تھا، ان میں سے ایک شخص سلمان المرشد نامی نے تقیہ کے عقیدہ کے عین برعکس اعلانیہ رب ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔ زمانہ نے نصیریہ میں ایسے ذہین آدمی پیدا کر کے یہ ثابت کر دیا ہے کہ مرور زمانہ کے باوصف نصیریہ کے قدیم افسانے تاحال پوری طرح صفحہ ارضی سے محو نہیں ہوئے۔ أبو الخطابِ محمد بن بِی زینب مِقلاص الأسدِی الکوفِی الأجدع سبق الکلام عنہ وعن فِرقتِہِ1؍64 مقالاتِ الأشعرِیِ 1؍77۔وانظر أیضا: أصول الدِینِ331۔التبصِیر فِی الدِینِ74۔الفِصل لِابنِ حزم 5؍48۔الخِطط لِلمقرِیزِیِ 2؍352۔التنبہ لِلملطِیِ54۔فِرق الشِیعۃِ، ص 3؍64۔البدء والتارِیخ 5؍131 ۔ الرِجال لِلکشِیِ260. ۔ بیانہ منصوریہ اور خطابیہ یہ انتہائی غالی قسم کے رافضی تھے۔ جو کہ محارم کو حلال سمجھتے تھے۔اور ان کا عقیدہ تھا کہ نبوت کا سلسلہ ختم نہیں ہوا۔ دروز اور نصیریہ بھی ان شیعہ کی ہی اقسام ہیں ۔ یہ آج کل شام کے علاقے میں اپنے آپ کو علوی کہلاتے ہیں ۔ کے اتباع خطابیہ سے متعلق مذکور ہے کہ ان کی رائے میں ائمہ، انبیاء و رسل کا درجہ رکھتے ہیں ،اوروہ مخلوق پر اللہ تعالیٰ کی حجت ہوا کرتے ہیں ۔ ان میں دو رسول ہر وقت موجود رہتے ہیں ،ان میں سے ایک ناطق ہوتا ہے اور دوسرا ساکت۔ رسول ناطق محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ، اور رسول صامت حضرت علی رضی اللہ عنہ ۔ یہ آج بھی زمین پر موجود ہیں اور ان کی اطاعت تمام مخلوق پر فرض ہے ۔ ان کو ما کان و ما یکون کا علم ہونا ہے۔ ان لوگوں کا عقیدہ ہے کہ ابو الخطاب نبی تھا۔اور سابقہ رسولوں نے اپنے فرمودات میں ابو الخطاب کی اطاعت فرض کی ہے۔ان لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ائمہ معبود ہوتے ہیں ؛اوروہ اپنے متعلق بھی اس طرح کی باتیں کہتے ہیں ۔اور ان کا کہنا ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی اولاد اللہ تعالیٰ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں ۔پھر اپنے متعلق بھی اسی طرح کا عقیدہ ظاہر کرنے لگے۔اوریہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان گرامی کی تأویل کرتے ہیں :﴿فَاِذَا سَوَّیْتُہٗ وَ نَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَہٗ سٰجِدِیْنَ﴾[الحجر۲۹]’’تو جب میں اسے پورا بنا چکوں اور اس میں اپنی روح سے پھونک دوں تو تم اس کے سامنے سجدہ کرتے ہوئے گر جاؤ۔‘‘کہتے ہیں : وہ حضرت آدم تھے؛ ہم بھی انہی کی اولاد ہیں ؛ [یعنی اس بنا پر ہم بھی سجدہ کے مستحق ہیں ۔]اس فرقہ کے لوگ ابوالخطاب کی عبادت کیا کرتے تھے،ان کا عقیدہ تھا کہ ابو الخطاب معبود ہے۔ ابو الخطاب نے جب خلیفہ منصور کے خلاف خروج کیا تو عیسیٰ بن موسیٰ نے اسے کوفہ میں قتل کر دیا، خطابیہ کے نزدیک اپنے اعوان و انصار کے لیے جھوٹی شہادت دینا جائز ہے ۔شیعہ کے فرقہ بزیعیہ[1] [1] المقالاتِ 1؍78: تشبہ لِلناسِ. وفِی الخِططِ لِلمقرِیزِیِ2؍352: تشبہ علی الناسِ. یہ بزیع بن یونس بافندہ کے پیرو تھے، جو امام جعفر صادق المتوفی (۸۳۔۱۴۸) کا معاصر تھا، یہ شخص اکثرامام موصوف کے گھر کے اردگرد گھوما کرتا تھا، جس سے اس کا مقصد اپنے غالی شیعہ کے لیے ان کا تعاون حاصل کرنا تھا، چونکہ یہ واشگاف الفاظ میں اپنا مقصد بیان کر دیا کرتا تھا، اس لیے امام جعفر نے اسے اپنی خصوصی لعنت کی آماج گاہ قرار دیا، اس کے رفقاء دین اسلام کی تخریب و تغییر کے لیے کوشاں رہتے تھے، مزید برآں وہ امام جعفر کی صحبت و رفاقت اور الفت و مودت کے مدعی تھے، وہ امام جعفر اور ان کے آباء کے پرستار بھی تھے۔ بزیع امام جعفر کی الوہیت کے عقیدہ کے ساتھ ساتھ اپنے اور دوسروں کے لیے نزول وحی کا بھی دعوے دار تھا، وہ کہا کرتا تھا، جب شہد کی مکھی پر وحی نازل ہو سکتی ہے، تو ہم پر بالاولیٰ جائز ہوگی، جب بزیع کو قتل کیا گیا تو امام جعفر صادق نے فرمایا:’’ الحمدﷲ ! ان مغیریہ کے حق میں سب سے بہتر چیز قتل ہے، اس لئے کہ یہ صرف حب اہل بیت پر ہی اکتفاء نہیں کرتے بلکہ ان کی دلی آرزو یہ ہوتی ہے کہ لوگ دین اسلام سے منحرف ہوجائیں ۔‘‘ مغیریہ مغیرہ بن سعید کے پیرو تھے، ان کا ذکر قبل ازیں کیا جا چکا ہے۔بزیغیہ جو کہ بزیغ بن موسی الحائک کے پیروکارہیں ؛ ان کا شمار امام جعفر الصادق کے متبعین میں ہوتاہے۔ رجال الشیعہ کی کتابوں میں ’’کشی ‘‘ سے نقل کیا گیا ہے: کہ دوسروں کے ساتھ ساتھ اس پر بھی لعنت کی جاتی تھی۔‘‘ [رجال الکشی ۹؍۲۵۷۔ ]ابن سنان نے کہا ہے: حضرت امام جعفر فرماتے ہیں : ’’ ہم اہل بیت سچے لوگ ہیں ؛ مگر ایسے لوگوں سے خالی نہیں رہتے جو ہم پر جھوٹ بولتے رہتے ہیں ۔ اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب لوگوں سے بڑھ کر سچے تھے۔ مگر مسیلمہ کذاب آپ پر جھوٹ بولتا تھا۔ ....مزید تفصیل کے لیے دیکھیں : أعین شیعہ ۱۳؍ ۲۳۱۔ الملل و النحل ۱؍ ۱۶۰۔ أصول الدین ۹۵۔ فرق الشیعہ ۴؍ ۹۔ الخِطط لِلمقرِیزِیِ 2؍352 ۔ .سے متعلق منقول ہے کہ ان کی رائے میں جعفر بن محمد اﷲ تھے۔ اور حقیقت میں یہ وہ نہیں ہے جو دیکھا جارہا ہے ؛لیکن یہ شکل و صورت میں لوگوں سے مشابہت رکھتا ہے۔ نیز یہ کہ ہر محدّث کے دل میں وحی ہوتی ہے اور ہر مومن پر وحی اتاری جا سکتی ہے۔ امام ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :بعض لوگ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی الوہیت کا عقیدہ رکھتے ہیں ۔[ المقالاتِ 80؍1۔] آپ یہ بھی لکھتے ہیں : حلول کا عقیدہ رکھنے والے صوفیہ میں سے بعض زہاد کا خیال ہے کہ اﷲ تعالیٰ لوگوں میں حلول کر آتا ہے۔اور اللہ تعالیٰ کے لیے جائز ہے کہ وہ کسی بھی انسان یا درندے یا کسی دوسری چیز میں حلول کر جائے۔ اس عقیدہ کے لوگ جب کوئی اچھی چیز دیکھتے ہیں توکہتے ہیں :’’اس میں ذات الٰہی حلول کر آئی ہے۔‘‘ان لوگوں نے احکام شریعت کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ بندہ جب اپنے معبود تک رسائی حاصل کر لیتا ہے، تو اس سے واجبات ساقط ہوجاتے ہیں ؛اور اس پر عبادت لازم نہیں رہتی۔[المقالاتِ 80؍1۔]بعض غالی روح القدس کو اﷲ تصور کرتے ہیں [اور کہتے ہیں کہ:] یہ روح پہلے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم میں تھی، پھر حضرت علی اور پھر حضرت حسن میں منتقل ہوگئی؛ پھر حضرت حسین میں منتقل ہوگئی؛ پھر حضرت علی بن حسین میں ؛ پھر حضرت محمد بن علی میں ؛ پھر حضرت جعفر بن محمد میں ؛ پھر حضرت موسی بن جعفر میں ؛ پھر حضرت علی بن موسی بن جعفر میں ؛ پھر حضرت محمد بن علی بن موسی میں ؛ پھر علی بن محمد بن علی بن موسی میں ؛ پھر حسن بن علی بن محمد میں ؛ پھر محمد بن علی میں ؛ پھر علی بن محمد میں ۔یہ سب ائمہ شیعہ کی نگاہ میں عقیدہ تناسخ کی بنا پر الوہیت کے مقام پر فائز ہیں ۔ان کے نزدیک الہ ہیکل میں داخل ہوسکتا ہے۔یہ امامیہ اثنا عشریہ کا عقیدہ ہے۔ بعض غالی شیعہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کو برا بھلا کہتے اور آپ کو جھٹلاتے ہیں اور حضرت علی کو الہٰ قرار دیتے ہیں ۔ ان کا عقیدہ یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی الوہیت کی توضیح و اشاعت کے لیے بھیجا تھا مگر آپ رسول بن بیٹھے۔شیعہ کی ایک قسم کا عقیدہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ پنج تن میں حلول کرآیا ہے؛ پنجتن یہ ہیں : نبی صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت علی، حسن و حسین اور فاطمہ رضی اللہ عنہم ۔‘‘ (مقالات اسلامیین: ۱؍ ۸۲)مندرجہ ذیل پانچ حضرات ان کی ضد ہیں : حضرت ابوبکر،عمر،عثمان، معاویہ، اور عمرو بن عاص[ رضی اللہ عنہم ]۔ان میں بعض ایسے بھی ہیں جو ان پانچ اضداد کی تعریف و مدح سرائی کرتے ہیں اور کہتے ہیں : کسی بھی انسان کی فضیلت اس کی ضد معلوم ہوئے بغیر معلوم نہیں کی جاسکتی۔ اس لحاظ سے یہ پانچ لوگ قابل تعریف ہیں ۔ اور ان میں سے بعض یہ کہتے ہیں کہ یہ پانچ ہر حال میں مذموم ہیں ؛ کسی طرح بھی ان کی تعریف نہیں کی جاسکتی۔شیعہ کا ایک فرقہ السبیئۃ کہلاتا ہے۔ یہ عبد اﷲ بن سبا کے پیرو ہیں ۔[1][1] المقالاتِ 1؍85: والصِنف الرابِع عشر مِن أصنافِ الغالِیۃِ وہم السبئِیۃ. . . وسبق الکلام عن عبدِ اللّٰہِ بنِ سبأ والسبئِیۃِ 1؍25 ؛ . وفِی السبائِیۃ.ان کا عقیدہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ فوت نہیں ہوئے وہ دنیا میں لوٹ کر آئیں گے اور کرۂ ارضی کو عدل وانصاف سے ایسے بھردیں گے جیسے وہ ظلم و ستم سے بھری ہوگی۔ابن سباء کے بارے میں ہے کہ : اس نے حضرت علی سے کہا تھا: تم تم ہو۔ یعنی تم ہی خدا ہو۔ سبائی شیعہ کا عقیدہ ہے کہ مردے اس دنیا میں لوٹ کر آئیں گے۔ السید الحمیری کا نقطہ نگاہ یہ تھا ۔[1][1] وہوإ ِسماعِیل بن محمدِ بنِ یزِید بنِ ربِیع بنِ مفرِغ الحِمیرِی مِن شعرائِ الرافِضۃِ المتقدِمِین، ولِد سن 105 وتوفِی سن 173. انظر ترجمتہ فِی: لِسانِ المِیزانِ 1؍436 ؛ فواتِ الوفیاتِ 1؍32 ۔؛ أعیانِ الشِیعۃِ 12؍85 ؛ روضاتِ الجناتِ، ص 31.۔ تارِیخِ الأدبِ العربِیِ لِبروِکلمان 2؍68 ؛ الأعلامِ 1؍320 ۔کہ مردے لوٹ کر دنیا میں آئیں گے۔ اس کا شعرہے:اِلٰی یَوْمٍ یَؤُبُ النَّاسُ فِیْہِ اِلٰی دُنْیَاہُمْ قَبْلَ الْحِسَابِ’’اس دن تک جب کہ لوگ حساب سے پہلے دنیا کی طرف لوٹ آئیں گے۔‘‘[2] [2] والکلام التالِی فِی المقالاتِ1؍86 ۔بعض شیعہ یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے جملہ امور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تفویض کر دیے تھے۔اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو تخلیق پر قادر کردیا تھا؛ چنانچہ آپ نے دنیا کو پیدا کیا اور اس کا نظام قائم کیا۔اللہ تعالیٰ نے کوئی بھی چیز پیدا نہیں کی۔ اور بہت سارے شیعہ یہی بات حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں کہتے ہیں ۔شیعہ اس زعم میں مبتلا ہیں کہ: ائمہ شرعی احکام کو منسوخ کر سکتے ہیں ۔اور فرشتے وحی لے کر ان پر نازل ہوتے ہیں ۔ ائمہ سے معجزات کا ظہور ہوتا ہے؛اور ان کی طرف وحی کی جاتی ہے۔[ المقالات 1؍86]بعض شیعہ بادلوں کو سلام کرتے ہیں اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ان میں حضرت علی رضی اللہ عنہ قیام پذیر ہیں ۔اور ان میں سے کچھ ایسے ہی جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کا تذکرہ ہوتاہے تو وہ بادلوں پر سلام بھیجنے لگتے ہیں ۔[3][3] مِن العزالِ مِنہم وابنِ دابِ، والصواب مِن: المقالاتِ 1؍87 ; الفرقِ بین الفِرقِ، ص [0 ۔ 9] 1، 144. والغزال ہو واصِل بن عطا، وابن باب ہو عمرو بن عبیدِ بنِ باب.امام اشعری نے اس کے علاوہ کچھ اور باتیں بھی ذکر کی ہیں اس وقت تک نصیریہ اور اسماعیلیہ عالم وجود میں نہیں آئے تھے۔ یہ اس باب کی بعض چیزیں ہیں جن کا بیان ہوا ہے ۔ اس لیے کہ اس وقت میں ابھی نصیریہ اور اسماعیلیہ کا ظہور نہیں ہوا تھا۔ اسماعیلیہ اورنصیریہ دونوں انتہائی غالی شیعہ ہیں ۔اسماعیلیہ نصیریہ سے بڑے ملحد اور کافر ہیں ۔شیعہ کے عجیب و غریب عقائد:شیعہ نصیریہ کے اشعار ہیں :اَشْہَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا حَیْدَرَۃَ الْاَنْزَعُ الْبَطِیْنُوَلَا حِجَابَ عَلَیْہِ اِلَّا مُحَمَّدُ الصَّادِقُ الْاَمِیْنُوَلَا طَرِیْقَ اِلَیْہِ اِلَّا سَلْمَانُ ذُوالْقُوَّۃِ الْمَتِیْن
’’میں گواہی دیتا ہوں کہ (حضرت علی) حیدر گنجے اور بڑے پیٹ والے کے سوا کوئی معبود نہیں ۔ نیز یہ کہ صادق و امین محمد کے سوا حضرت علی پر اور کوئی حجاب حائل نہیں ہے۔ حضرت علی کی طرف جانے کا راستہ صرف حضرت سلمان (فارسی) ہیں جو بڑے طاقت ور اور مضبوط تھے۔‘‘بعض شیعہ کے نزدیک رمضان کا مقدس مہینہ تیس آدمیوں کے ناموں سے عبارت ہے؛اور یہ تیس نام تیس عورتیں ہیں ۔ اور یہ کہ پانچ نمازیں اصل میں پانچ نام ہیں : وہ نام یہ ہیں :علی ؛ حسن؛ حسین؛ محسن اور فاطمہ۔اس کے علاوہ بھی ان کے کئی کفریہ عقائد ہیں جن کا بیان یہاں پر طوالت اختیار کر جائے گا۔[1][1] صوفیہ کا نظریہ حلول ایک خطرناک مرض ہے اعداء اسلام نے اس کے جراثیم کو دین اسلام کے جسم میں پھیلا دیا تھا۔ اگر اسلام کے اصول و مبادی دیگر مذاہب وادیان کے مقابلہ میں اقوی و اکمل نہ ہوتے تو وہ ان عظیم مصائب کے سامنے ٹھہر نہ سکتا۔ اور تشیع و فلسفیانہ تصوف کا سیلاب اسے خس و خاشاک کی طرح بہالے جاتا۔ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ جو شخص علی الصبح تصوف کا مسلک اختیار کرے اور چاشت کے وقت تک صوفی رہے اس کے احمق ہونے میں شبہ نہیں ۔‘‘(دیکھئے حلیۃ الاولیاء ابو نعیم نیز مقدمۃ صفۃ الصفوۃ لا بن الجوزی)۔ صوفیہ فلسفۂ غیب کے مسئلہ میں اس قدر منہمک ہوئے کہ اس ضمن میں وارد شدہ نصوص صریحہ و صحیحہ کو بھی نظر انداز کر دیا، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ اپنے اوہام و ظنون میں ڈوب کر اس دھوئیں کی طرح ضائع ہوگئے جو فضا میں منتشر ہو جاتا ہے، ان کی حالت اس تنکا جیسی ہے جس سے آدمی لٹک جاتا ہے، مگر اس کا انجام کچھ نہیں ہوتا۔اور یہ معلوم امر ہے کیونکہ اہل علم اس بات پر متفق ہیں کہ یہ غالیوں کے عقائد ہیں ؛ جو رب تعالیٰ کو عیوب اور نقائص سے متصف کرنے والی غلو آمیز باتیں جو نقص والی صفات میں خالق کی مخلوق سے تشبیہ اور الوہی صفات میں مخلوق کی خالق سے تشبیہ کو متضمن ہیں ، زیادہ تر شیعوں میں پائی جاتی ہیں ۔ امت کے فرقوں میں سے جس قدر حلول، تمثیل اور تعطیل ان میں پائی جاتی ہے، کسی اور گروہ میں نہیں پائی جاتی۔اسی وجہ سے ان کی طرف منسوب بعض لوگوں کو ملاحدہ اور غالیہ کا نام دیا گیا ہے۔ اسماعیلیوں کا مخصوص نام ملاحدہ ہے اور غالیہ ان لوگوں کا مخصوص نام ہے جو انسانوں میں الوہی صفات کے قائل ہیں ، مثلا: نصیرِیہ[2] [2] یہ شیعہ کا فرضی امام ہے جو ان کے زعم کے مطابق امام حسن عسکری کا بیٹا ہے، بقول شیعہ وہ تاہنوز بقید حیات ہے اس کی موت سے قبل حضرت ابوبکر و عمر اور صحابہ رضی اللہ عنہم دوبارہ زندہ کیے جائیں گے وہ ان سے انتقام لے گا، ان کے انصار و اعوان کو سخت سزائیں دے کر صفحہ ہستی سے مٹا ڈالے گا، پھر شیعہ کی دولت عظمی قائم کرے گا اور مر جائے گا۔۔ انسانوں کے الہ ہونے والا غلو آمیز دعوی عیسائیوں کا ہے ؛ یا پھر شیعوں میں سے غالیوں کا۔ بعض صوفیوں وغیرہ میں بھی اس طرح کا الحاد اور غلو موجود ہے لیکن شیعوں میں زیادہ ہے اور قبیح ترین ہے۔جب حقیقت یہی ہے تو اہل سنت والجماعت کو تجسیم اور حلول کا الزام دینے والا اور شیعوں کی تعریف کرنے والا یا تو شیعوں کی باتوں سے بالکل ناواقف ہے یا پھر عدل وانصاف سے کوسوں دور اور لوگوں پر ظلم وستم ڈھانے والا ہے۔پھر اہل سنت متاخرین شیعوں سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ عقلی اور شرعی دلائل سے اپنے متقدمین کا دفاع کریں تو وہ اس سے عاجز آجاتے ہیں جیسا کہ پہلے بھی اس پر تنبیہ گزر چکی ہے۔ شیعوں میں سے مجسمہ فرقہ کے لوگ ہر طرح سے متکلمین کے اکابر میں سے تھے۔ انہوں نے کتابیں بھی لکھی ہیں ۔ ابو الحسن اشعری کہتے ہیں : رافضیوں کے مرد ِ میدان اور ان کی کتابوں کے مؤلفین ہشام بن حکم، جو قطعی تھا، علی بن منصور، یونس بن عبد الرحمن قمی، سکاک، ابو اخوص، داد بن اسد بصری ہیں ۔ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ مزید لکھتے ہیں : ابو عیسی وراق اور ابن راوندی بھی انہی کی طرف منسوب ہے اور انہوں نے شیعوں کے لیے امامت کے مسئلہ پر کتابیں لکھی ہیں ۔[ مندرجہ بالا معائب (غلط عقائد) کے اولیں بانی و موسس شیعہ ہیں ۔[شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ شیعہ مصنف کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں ]:]دوسری وجہ : ’’ جو بات تم نے نقل کی ہے، وہ معروف ائمہ اہل سنت والجماعت جیسے ،اصحاب ِامام ابو حنیفہ ؛امام مالک؛ امام شافعی؛ امام احمد حنبل رحمہم اللہ ؛ کے ساتھیوں میں سے کسی ایک سے بھی منقول نہیں ۔اہل حدیث اور اہل رائے[ فقہاء وحفاظ حدیث اور مشائخ طریقت] میں سے کسی نے بھی نہیں کہی۔ ہم کسی ایسے شخص کو نہیں جانتے جو اﷲ کے جسم اور اس کے طول وعمق کا عقیدہ رکھتا ہو،اوروہ مصافحہ بھی کرتا ہو؛ اور اہل اسلام میں سے صالحین دنیا میں اپنی آنکھوں سے اس کو دیکھ سکتے ہیں ۔اور اگر رافضی مصنف کے ’’جماعت حشویہ اور مشبہہ ‘‘ سے مراد ان میں سے کچھ لوگ ہیں تویہ ان پر کھلا ہوا بہتان اور جھوٹ ہے۔ ان تمام مذاہب کے عقائد کی کتابیں موجود ہیں ۔ مذاہب کے کچھ علماء مرچکے ہیں اور کچھ زندہ ہیں ؛ ان میں سے کسی ایک بھی معروف عالم کے متعلق بھی یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ وہ اس قسم کا عقیدہ رکھتا ہو۔بلکہ ان تمام طوائف ومذاہب کے سب علماء اس ضمن میں یک زبان ہیں کہ اﷲ تعالیٰ کو ان آنکھوں سے آخرت میں دیکھا جا سکے گا، دنیا میں نہیں ۔جیسا کہ احادیث صحیحہ میں وارد ہے کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’خوب جان لو کہ تم میں سے کوئی شخص موت سے قبل اپنے رب کو نہیں دیکھ سکتا۔‘‘ [1][1] صحیح مسلم ۔ کتاب الفتن۔ باب ذکر ابن صیاد(ح:۷۳۵۶)۔ وجاء الحدِیث فِی سننِ التِرمِذِیِ 3؍345 کتاب الفتن باب ما جاء فِی الدجال. وروی الدارِمِی الحدِیث فِی ِکتابِہِ الردِ علی الجہمِیۃِ ص 190۔وفِیہِ: قال:’’ تعلمون أنہ لن یری أحدکم ربہ حتی یموت۔‘‘وسنن ابن ماجہ2؍36 ۔کِتاب الفِتنِ، باب فِتنِ الدجالِ؛ فیہ: أنا نبِی ولا نبِی بعدِی؛ ثم یثنِی فیقول: أنا ربکم، ولا ترون ربکم حتی تموتوا. . . الحدِیث۔ان میں ظاہر اور شائع ہونے والا مذہب اہل سنت والجماعت کا مذہب ہے کہ: اللہ تعالیٰ کو روزِ قیامت آنکھوں سے دیکھا جائے گا۔ جو اس چیز کا انکار کرتا ہے، ان کے نزدیک وہ بدعتی ہے اگرچہ وہ ان کی طرف اپنی نسبت کرتا ہو۔ جو شخص یہ کہتا ہے تو یہ ان کے ائمہ کا قول ہے اور نہ ان کا مفتی بہ قول ہے۔جو شخص کسی گروہ کا قول نقل کرنا چاہتا ہے تو اس پر لازم ہے کہ قائل اور ناقل کا نام بتائے، وگرنہ ہر کوئی جھوٹ بولنا جانتا ہے۔اہل سنت کا جو قول بنا کر اس نے پیش کیاہے، اس سے اس کا جھوٹ ثابت اور واضح ہوچکا ہے۔ اور یہ بھی واضح ہوچکا ہے کہ یہ قول اور اس سے گھٹیا ترین اقوال شیعوں کے متقدمین کے ہی ہیں ۔تیسری وجہ:یہ کہا جائے کہ گروہ اپنے قائدین کے ناموں یا اپنے احوال کے بیان سے دیگر گروہوں سے ممتاز ہوتے ہیں ۔ پہلے کی مثال میں کہا جائے گا: نجدات، ازارقہ، جہمیہ، نجاریہ اور ضِراریہ وغیرہ۔ دوسرے کی مثال میں کہا جاتا ہے: رافضہ، شیعہ، قدریہ، مرجئہ اور خوارج وغیرہ۔[1][1] [[شیعہ مصنف کو چاہیے تھا کہ وہ اس قول کے قائل کا نام ذکر کرتا، ورنہ دروغ گوئی ہر کسی کے لیے ممکن ہے۔ تم نے حشویہ کا ذکر کیا ہے مگر کسی متعین شخص کا نام نہیں لیا، نہ جانے وہ کون ہیں ؟ اور اگر حشویہ سے تم اہل حدیث مراد لیتے ہو تو وہ خالص سنت کے پیرو ہیں ، اور ان میں ایک شخص بھی تمہاری ذکر کردہ بات کا معتقد نہیں ]]۔ خلاصہ کلام! ’’اس بات میں بھی تمہاری کذب بیانی الم نشرح ہوئی اور دوسرے اقوال میں بھی۔‘‘