حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے عہد میں جمع قرآن کا تیسرا مرحلہ
مولانامفتی محمدتقی عثمانیجب سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے تو اسلام عرب سے نکل کر روم اور ایران کے دور دراز علاقوں تک پہنچ چکا تھا، ہر نئے علاقہ کے لوگ جب مسلمان ہوتے تو وہ ان مجاہدین اسلام یا ان تاجروں سے قرآن کریم سیکھتے جن کی بدولت انہیں اسلام کی نعمت حاصل ہوئی تھی، یہ بات ذہن میں رہے کہ قرآن کریم سات حروف پر نازل ہوا تھا، اور مختلف صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اسے آنحضرتﷺ سے مختلف قراءتوں کے مطابق سیکھا تھا، اس لیے ہر صحابیؓ نے اپنے شاگردوں کو اسی قراءت کے مطابق قرآن پڑھایا، جس کے مطابق خود اس نے حضورﷺ سے پڑھا تھا، اس طرح قراءتوں کا بھی اختلاف دور دراز ممالک تک پہنچ گیا۔ جب تک لوگ اس حقیقت سے واقف تھے کہ قرآن کریم سات حروف پر نازل ہوا ہے، اس وقت تک اس اختلاف سے کوئی خرابی پیدا نہیں ہوئی لیکن جب یہ اختلاف دور دراز ممالک میں پہنچا، اور یہ بات ان میں پوری طرح مشہور نہ ہو سکی کہ قرآن کریم سات حروف پر نازل ہوا ہے، تو اس وقت لوگوں میں جھگڑے پیش آنے لگے، بعض لوگ اپنی قراءت کو صحیح اور دوسرے کی قراءت کو غلط قرار دینے لگے، ان جھگڑوں سے ایک طرف تو یہ خطرہ تھا کہ لوگ قرآن کریم کی متواتر قراءتوں کو غلط قرار دینے کی سنگین غلطی میں مبتلا ہوں گے، دوسرے سوائے حضرت زیدؓ کے لکھے ہوئے ایک نسخہ کے جو مدینہ طیبہ میں موجود تھا، پورے عالم اسلام میں کوئی ایسا معیاری نسخہ موجود نہ تھا جو پوری امت کے لیے حجت بن سکے، کیونکہ دوسرے نسخے انفرادی طور پر لکھے ہوئے تھے، اور ان میں ساتوں حروف کو جمع کرنے کا کوئی اہتمام نہیں تھا، اس لئے ان جھگڑوں کے تصفیہ کی کوئی قابلِ اعتماد صورت یہی تھی کہ ایسے نسخے پورے عالم اسلام میں پھیلا دئیے جائیں جن میں ساتوں حروف جمع ہوں اور انہیں دیکھ کر یہ فیصلہ کیا جا سکے کہ کونسی قرآت صحیح اور کونسی غلط ہے؟
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں یہی عظیم الشان کارنامہ انجام دیا۔ اس کارنامہ کی تفصیل روایات حدیث کے ذریعہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ حضرت حذیفہ بن یمانؓ آرمینیا اور آذر بائیجان کے محاذ پر جہاد میں مشغول تھے، وہاں انہوں نے دیکھا کہ لوگوں میں قرآن کریم کی قراءتوں کے بارے میں اختلاف ہو رہا ہے، چنانچہ مدینہ طیبہ واپس آتے ہی وہ سیدھے سیدنا عثمان غنیؓ کے پاس پہنچے، اور جا کر عرض کیا کہ امیر المؤمنین قبل اس کے کہ یہ امت اللہ کی کتاب کے بارے میں یہود و نصاریٰ کی طرح اختلافات کا شکار ہو آپؓ اس کا علاج کیجئے، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے پوچھا بات کیا ہے؟ سیدنا حذیفہؓ نے جواب میں کہا کہ میں آرمینیہ کے محاذ پر جہاد میں مشغول تھا، وہاں میں نے دیکھا کہ شام کے لوگ سیدنا ابی بن کعبؓ کی قراءت پڑھتے ہیں جو اہلِ عراق نے نہیں سنی ہوتی، اور اہلِ عراق سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ کی قراءت پڑھتے ہیں جو اہلِ شام نے نہیں سُنی ہوتی، اس کے نتیجہ میں ایک دوسرے کو کافر قرار دے رہے ہیں، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ خود بھی اس خطرے کا احساس پہلے ہی کر چکے تھے، انہیں یہ اطلاع ملی تھی کہ خود مدینہ طیبہ میں ایسے واقعات پیش آئے ہیں، کہ قرآن کریم کے ایک معلم نے اپنے شاگردوں کو ایک قراءت کے مطابق قرآن پڑھایا اور دوسرے معلم نے دوسری قراءت کے مطابق، اس طرح مختلف اساتذہ کے شاگرد جب باہم ملتے تو ان میں اختلاف ہوتا، اور بعض مرتبہ یہی اختلاف اساتذہ تک پہنچ جاتا اور وہ بھی ایک دوسرے کی قراءت کو غلط قرار دیتے، جب حضرت حذیفہ بن یمانؓ نے بھی اس خطرے کی طرف توجہ دلائی تو سیدنا عثمانؓ نے جلیل القدر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو جمع کر کے ان سے مشورہ کیا اور فرمایا کہ مجھے یہ اطلاع ملی ہے کہ بعض لوگ ایک دوسرے سے اس قسم کی باتیں کہتے ہیں کہ میری قراءت تمہاری قراءت سے بہتر ہے، اور یہ بات کفر کی حد تک پہنچ سکتی ہے، لہٰذا آپؓ لوگوں کی اس بارے میں کیا رائے ہے،؟‘ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے خود حضرت عثمانؓ سے پوچھا کہ آپؓ نے کیا سوچا ہے؟ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میری رائے یہ ہے کہ ہم تمام لوگوں کو ایک مصحف پر جمع کر دیں، تا کہ کوئی اختلاف اور افتراق پیش نہ آئے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اس رائے کو پسند کر کے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی تائید فرمائی، چنانچہ سیدنا عثمانؓ نے لوگوں کو جمع کر کے ایک خطبہ دیا اور اس میں فرمایا کہ تم لوگ مدینہ طیبہ میں میرے قریب ہوتے ہوئے قرآن کریم کی قراءتوں کے بارے میں ایک دوسرے کی تکذیب اور ایک دوسرے سے اختلاف کرتے ہو، اس سے ظاہر ہے کہ جو لوگ مجھ سے دور ہیں وہ تو اور بھی زیادہ تکذیب اور اختلاف کرتے ہوں گے لہٰذا تمام لوگ مل کر قرآن کریم کا ایسا نسخہ تیار کریں جو سب کے لیے واجب الاقتداء ہو۔ اس غرض کے لئے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس پیغام بھیجا کہ آپ کے پاس (حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے زمانے کے) جو صحیفے موجود ہیں وہ ہمارے پاس بھیج دیجئے، ہم ان کو مصاحف میں نقل کر کے آپؓ کو واپس کر دیں گے، حضرت حفصہؓ لے وہ صحیفے حضرت عثمانؓ کے پاس بھیج دئے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے چار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ایک جماعت بنائی، جو سیدنا زید بن ثابتؓ، سیدنا عبداللہ بن زبیرؓ سیدنا سعید بن العاصؓ اور سیدنا عبد الرحمٰن بن حارث بن ہشامؓ پر مشتمل تھی، اس جماعت کو اس کام پر مامور کیا گیا کہ وہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے صحیفوں سے نقل کر کے کئی ایسے مصاحف تیار کرے جن میں سورتیں بھی مرتب ہوں، ان چار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے حضرت زیدؓ انصاری تھے، اور باقی تینوں حضرات قریشی تھے، اس لیے حضرت عثمانؓ نے ان سے فرمایا کہ جب تمہارا اور زید کا قرآن کے کسی حصہ میں اختلاف ہو (یعنی اس میں اختلاف ہو کہ کونسا لفظ کس طرح لکھا جائے؟) تو اسے قریش کی زبان کے مطابق لکھنا، اس لیے کہ قرآن کریم انہی کی زبان میں نازل ہوا ہے۔
بنیادی طور پر یہ کام مذکورہ چار حضرات ہی کے سپرد کیا گیا تھا لیکن پھر دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بھی ان کی مدد کے لیے ساتھ لگا دیا گیا، یہاں تک کہ ابن ابی داؤد کی روایت کے مطابق ان حضرات کی تعداد بارہ تک پہنچ گئی، جن میں حضرت ابی بن کعب، حضرت کثیر بن افلح حضرت مالک بن ابی عامر، حضرت انس بن مالک اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بھی شامل تھے، (یہ پوری تفصیل فتح الباری صفحہ، 13 تا 15 جلد، 9 سے ماخوذ ہے)
ان حضرات نے کتابت قرآن کے سلسلے میں مندرجہ ذیل کام انجام دیئے۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں جو نسخہ تیار ہوا تھا اس میں سورتیں مرتب نہیں تھیں، بلکہ ہر سورت الگ الگ لکھی ہوئی تھی، ان حضرات نے تمام سورتوں کو ترتیب کے ساتھ ایک ہی مصحف میں لکھا۔
(مستدرك حاكم: صفحہ، 229 جلد، 2)
قرآن کریم کی آیات اس طرح لکھیں کہ ان کے رسم الخط میں تمام متواتر قراءتیں سما جائیں، اس لیے ان پر نہ نقطے لگائے گئے اور نہ حرکات (زبر، زیر، پیش) تا کہ اسے تمام متواتر قراءتوں کے مطابق پڑھا جا سکے، مثلاً ننشرھا لکھا تا کہا سے نشر اور نشرها دونوں طرح پڑھا جا سکے، کیونکہ یہ دونوں قراءتیں درست ہیں۔
(مناهل العرفان: صفحہ، 1254253)
اب تک قرآن کریم کا مکمل معیاری نسخہ جو پوری امت کی اجتماعی تصدیق سے مرتب کیا گیا ہو صرف ایک تھا، ان حضرات نے اس نئے مرتب مصحف کی ایک سے زائد نقلیں تیار کیں، عام طور سے مشہور یہ ہے کہ حضرت عثمانؓ نے پانچ مصحف تیار کراۓ تھے، لیکن ابو حاتم سجستانی رحمۃ اللہ کا ارشاد ہے کہ کل سات نسخے تیار کئے گئے تھے جن میں سے ایک مکہ مکرمہ، ایک شام، ایک یمن، ایک بحرین، ایک بصرہ اور ایک کوفہ بھیج دیا گیا، اور ایک مدینہ طیبہ میں محفوظ رکھا گیا
(صحیح بخاری فتح الباری: صفحہ، 17 جلد، 9)
مذکورہ بالا کام کرنے کے لیے ان حضرات نے بنیادی طور پر تو انہی صحیفوں کو سامنے رکھا جو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں لکھے گئے تھے، اس کے ساتھ ہی مزید احتیاط کے لیے وہی طریق کار اختیار فرمایا، جو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں اختیار کیا گیا تھا۔ چنانچہ آنحضرتﷺ کے زمانے کی جو متفرق تحریریں مختلف صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے پاس محفوظ تھیں، انہیں دوبارہ طلب کیا گیا اور ان کے ساتھ از سرِ نو مقابلہ کر کے یہ نئے نسخے تیار کئے گئے، اس مرتبہ سورہ احزاب کی ایک آیت
مِنَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ رِجَالٌ صَدَقُوۡا مَا عَاهَدُوا اللّٰهَ عَلَيۡهِ (سورۃ الاحزاب: آیت نمبر، 23)
علیحدہ لکھی ہوئی صرف حضرت خزیمہ بن ثابتؓ انصاری کے پاس ملی، پیچھے ہم لکھ چکے ہیں کہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ آیت کسی اور شخص کو یاد نہیں تھی، کیونکہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
فقدت اية من الاحزاب حين نسخنا المصحف قد كنت اسـمـع رسـول الـلـه صـلـى الـلـه عـليـه وسلم يقرأ بهـاء فالتمسناها فوجدنا هامع خزيمة بن ثابت الانصاري،
مجھے مصحف لکھتے وقت سورہ احزاب کی آیت نہ ملی جو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پڑھتے ہوئے سنا کرتا تھا، ہم نے اسے تلاش کیا تو وہ خزیمہ بن ثابت انصاری کے پاس ملی
(صحیح بخاری مع فتح الباری: صفحہ، 17 جلد، 9)
اس سے صاف واضح ہے کہ یہ آیت حضرت زیدؓ اور دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اچھی طرح یاد تھی، اسی طرح اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ یہ آیت کہیں اور لکھی ہوئی تھی، کیونکہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں جو صحیفے لکھے گئے ظاہر ہے کہ یہ آیت ان میں موجود تھی، نیز دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے پاس قرآن کریم کے جو انفرادی طور پر لکھے ہوئے نسخے موجود تھے ان میں یہ آیت بھی شامل تھی، لیکن چونکہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانے کی طرح اس مرتبہ بھی ان تمام متفرق تحریروں کو جمع کیا گیا تھا جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے پاس لکھی ہوئی تھیں، اس لیے سیدنا زیدؓ وغیرہ نے کوئی آیت أن مصاحف میں اس وقت تک نہیں لکھی جب تک ان تحریروں میں بھی وہ نہ مل گئی، اس طرح دوسری آیتیں تو متعدد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے پاس علیحدہ لکھی ہوئی بھی ملیں لیکن سورہ احزاب کی یہ آیت سوائے حضرت خزیمہ بن ثابت رضی اللہ عنہ کے کسی اور کے پاس الگ لکھی ہوئی دستیاب نہیں ہوئی۔ قرآن کریم کے یہ متعدد معیاری نسخے تیار فرمانے کے بعد سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے وہ تمام انفرادی نسخے نذر آتش کر دیے جو مختلف صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے پاس موجود تھے، تا کہ رسم الخط، مسلمہ قراءتوں کے اجتماع اور سورتوں کی ترتیب کے اعتبار سے تمام مصاحف یکساں ہو جائیں، اور ان میں کوئی اختلاف باقی نہ رہے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے اس کارنامہ کو پوری امت نے بہ نظر استحسان دیکھا، اور تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اس کام میں ان کی تائید اور حمایت فرمائی صرف حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کو اس معاملہ میں کچھ رنجش ہوئی تھی، جس کے اسباب سبعہ احرف کی بحث میں گزر چکے ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔
لا تـقـولـوا فـي عثمان الا خيراً فوالله مافعل الذي فعل في المصاحف الا عن ملامنا
(فتح الباری،صفحہ، 15 جلد، 9 بحواله ابن ابی داود بسند صحيح)
ترجمہ: سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں کوئی بات ان کی بھلائی کے سوا نہ کہو، کیونکہ اللہ کی قسم انہوں نے مصاحف کے معاملہ میں جو کام کیا وہ ہم سب کی موجودگی میں (اور مشورہ سے) کیا۔