صفات باری تعالیٰ اور سلف کا طریقہء کار
امام ابنِ تیمیہؒصفات باری تعالیٰ اور سلف کا طریقہء کار:اہل سنت باری تعالیٰ کو انہی صفات سے متصف قرار دیتے ہیں جو خود اﷲ تعالیٰ یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کی ہیں وہ صفات الٰہی کو بلا تحریف و تعطیل اور بغیر کیفیت و مثال کے تسلیم کرتے ہیں ۔وہ صفات الٰہی کا اثبات کرتے ہیں مگر ان کی مثل کسی کو قرار نہیں دیتے۔ اسی طرح وہ ذات اللہ تعالیٰ کو عیوب و نقائص سے منزہ مانتے ہیں مگر صفات سے معطل قرار نہیں دیتے۔ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿ لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ ﴾ (الشوریٰ:۱۱)’’اس کی مثل کوئی چیز نہیں ۔‘‘اس میں ان لوگوں پر رد ہے جو اللہ تعالیٰ کے لیے مثالیں بیان کرتے ہیں ۔اور اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿ ہُوَالسَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ﴾ (الشوریٰ:۱۱)’’وہ سننے والا دیکھنے والا ہے ۔‘‘اس میں معطلہ پر رد ہے جو اللہ تعالیٰ کی صفات کے منکر ہیں ۔اہل سنت والجماعت کا صفات الٰہی کے بارے میں عقیدہ دو اصولوں پر مبنی ہے:اول: اہل سنت اللہ تعالیٰ کو صفات نقص مثلاً :نیند، اونگھ، نسیان اور عجز و جہل سے منزہ مانتے ہیں ۔دوم: یہ کہ بیشک اللہ تعالیٰ ان صفات کمال سے متصف ہے جن میں کسی بھی لحاظ سے کوئی نقص نہیں ۔ اور یہ صفات اس کے ساتھ ایسے خاص ہیں جیسے اس کی شان کے لائق ہیں ۔ مخلوقات میں سے کوئی بھی چیز صفات میں اس کے مماثل نہیں ہوسکتی۔ بخلاف ازیں منکرین صفات ذات الٰہی کے لیے صفات کا اثبات کرنے والے ہر شخص کو مشبہہ ٹھہراتے ہیں ۔ بلکہ معطلہ محضہ باطنیہ ؛ جو کہ اللہ تعالیٰ کے اسماء کے منکر ہیں ؛ وہ ہر اس انسان کو بھی مشبہہ کہتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کو اسماء حسنیٰ سے موسوم کرتا ہے۔ وہ یہاں تک کہتے ہیں کہ:’’جو شخص اﷲ تعالیٰ کو اسماء حسنیٰ سے موسوم کرتا ہے وہ مشبہہ میں سے ہے اور جو ذات باری کو حياور علیم قرار دیتا ہے؛ وہ اس کو زندہ اور صاحب علم لوگوں کی مثل ٹھہراتا ہے، اور ایسے ہی جو اﷲ تعالیٰ کو سمیع و بصیر کہتا ہے وہ اسے آدمی کی مانند تصور کرتا ہے جو کہ سنتا اور دیکھتا ہے۔ اور جو اﷲ کو رؤف و رحیم تسلیم کرتا ہے وہ اسے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا مماثل ٹھہراتا ہے کیونکہ آپ بھی رؤوف و رحیم تھے۔ بلکہ وہ یہاں تک کہتے ہیں کہ: ’’جب ہم اللہ تعالیٰ کی ذات کو موجود کہتے ہیں تو اس سے باقی موجودات مسمی وجود کی وجہ سے صفت وجود میں اس کی شریک ٹھہریں گی۔‘‘جب ان سے کہا جاتا ہے کہ : پھر یوں کہو کہ:’’ وہ نہ ہی موجود ہے اور نہ ہی زندہ ہے۔‘‘تو وہ ۔یاان کے کچھ لوگ۔کہتے ہیں : جب ہم یہ کہیں گے تو اس سے معدوم سے مشابہت لازم آئے گی۔ان میں سے بعض کہتے ہیں کہ :’’وہ نہ حیی ہے نہ میت اور نہ ہی معدوم ہے نہ ہی موجود؛ کچھ بھی نہیں ۔‘‘تو ان پر اعتراض وارد ہوا کہ : اب تو تم نے معدوم [ممتنع]سے تشبیہ دیدی؛ بلکہ تم نے بذات خود اس کو ممتنع قراردیدیا۔ کیونکہ اس سے ذات الٰہی کا ممتنع الوجود ہونا لازم آتا ہے۔ اس لیے کہ جس طرح نقیضین کا اجتماع ممکن نہیں اسی طرح ان کا ارتفاع بھی ممنوع ہے۔ نظر بریں جب تم کہتے ہو کہ:’’ وہ موجود بھی ہے اور معدوم بھی ہے؛ تو اس سے جمع بین النقیضین لازم آتا ہے۔اور جب کہتے ہوکہ موجود بھی نہیں اور معدوم بھی نہیں ؛ تو اس سے ارتفاع النقیضین لازم آتا ہے۔یہ دونوں باتیں ممتنع ہیں ۔اس لیے کہ واجب الوجود کی نفی کرنے کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ ممتنع الوجود ہے۔ ظاہر ہے کہ اس سے حقائق کی نفی نہیں ہوتی بلکہ یہ فریب دہی کی ایک بد ترین قسم ہے۔اور جن لوگوں نے یہ کہا ہے کہ : ہم نہ یہ بات کہتے ہیں اور نہ یہ بات کہتے ہیں ۔ان سے کہا جائے گاکہ :تمہارے عدم علم اور اس قول کی وجہ سے حقائق باطل نہیں ہوجاتے۔ بلکہ یہ دھوکہ دہی [مغالطہ بازی ]کی ہی ایک قسم ہے۔[1][1] فاریابی نے اپنی کتاب ’’ إحصاء العلوم ‘‘ص ۲۴ پر کہا ہے: سفسطہ ایک ریاضت ہے جس کے نتیجہ میں انسان کی زبان میں ایسی چستی اور چالاکی پیدا ہوجاتی ہے کہ وہ کسی کو بھی وہم میں ڈال کر دھوکہ دے سکتا ہے۔ مزید دیکھیں : مفتاح العلوم للخوارزمی ۹۔ منطق الشفاء لابن سیناء ۹۰۔ دستور العلماء عبد النبی أحمد نگری مادہ سفسطہ ۔