Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

لفظ جسم سے متعلق دوبارہ گفتگو:

  امام ابنِ تیمیہؒ

لفظ جسم سے متعلق دوبارہ گفتگو:جہاں تک لفظ جسم کا تعلق ہے؛ تواہل لغت کے ہاں جیسا کہ مشہور لغوی اصمعی اور ابو زید نے بیان کیا ہے؛ ان کے قول کے مطابق جسم جسد یعنی بدن کو کہتے ہیں ، اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿ وَاِذَا رَاَیْتَہُمْ تُعْجِبُکَ اَجْسَامُہُمْ وَاِِنْ یَقُوْلُوْا تَسْمَعْ لِقَوْلِہِمْ﴾ (المنافقون:۴)’’جب آپ انہیں دیکھیں تو ان کے جسم آپ کو پسند آتے ہیں ؛ اور اگر وہ بات کریں تو آپ ان کی بات پر کان لگائیں گے ۔‘‘اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿ وَزَادَہٗ بَسْطَۃً فِی الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ﴾ (البقرہ:۲۴۷)’’اور اسے علم اور جسم میں فراخی عطا کی۔‘‘جسم کے لفظ سے بعض اوقات کثافت اور سختی [غلظت ]مراد لی جاتی ہے۔جیسے جسد کے لفظ میں ہوتا ہے۔ مثلاً کہا جاتا ہے:کبھی اس سے مراد نفس غلیظ ہوتا ہے؛اور کبھی اس کی غلظت (سختی)مراد ہوتی ہے۔مثلاً عربی میں کہتے ہیں : لہٰذا الثوب جسم۔‘‘یعنی موٹا کثیف کپڑا مراد ہوتا ہے۔ اور کہا جاتا ہے: ’’ھٰذَا اَجْسَمُ مِنْ ھٰذَا‘‘( یہ اس سے زیادہ کثیف ہے)۔ متکلمین کے ہاں لفظ جسم بعد ازاں عام ترمعنی میں استعمال ہونے لگا۔ چنانچہ انہوں نے ہوااور دوسرے امور لطیفہ کو بھی جسم قرار دیا۔ حالانکہ عرب اسے جسم نہیں کہتے۔ متکلمین اس امر میں مختلف الخیال ہیں کہ جسم کسے کہتے ہیں ؟ چنانچہ اس ضمن میں ان کے ہاں درج ذیل تین مذاہب ملتے ہیں :۱۔ جو ہر فرد کا عقیدہ رکھنے والوں کے نزدیک جسم جواہر منفردہ متناہیہ سے مرکب ہے، جیسا کہ نظام کا کہنا ہے؛ جو جسم کو جواہر متناہیہ سے مرکب قرار دیتا ہے، وہ ’’ طغرہ ‘‘ کا قائل ہے، جو اس کی معروف اصطلاح ہے۔۲۔ بعض فلاسفہ کی رائے میں جسم مادہ و صورت سے مرکب ہے۔جیسا کہ اس کے قائل متفلسفہ کا قول ہے۔۳۔ ہشامیہ، کلابیہ،نجاریہ، ضراریہ اور بہت سے کرامیہ کے نزدیک جسم کسی چیز سے بھی مرکب نہیں ۔اکثر کتب میں یہ تیسرا مذہب مذکور نہیں ۔صرف پہلے دوقول پائے جاتے ہیں ۔حق بات یہ ہے کہ : ان میں صحیح مسلک یہ ہے کہ جسم ان میں سے کسی چیز سے بھی مرکب نہیں ، اسی بنا پر جو ہر فرد کی نفی کرنے والے کہتے ہیں کہ:’’ حیوانات، نباتات اور معدنیات سب اعیان مخلوقہ ہیں ۔ ہم اس کی تفصیل دوسرے موقعہ پر بیان کرچکے ہیں ۔اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جوہر فرد کی نفی کرنے والوں کے نزدیک اللہ تعالیٰ جن حیوانات ؛نباتات؛اور معادن وجود میں لاتا ہے؛بیشک یہ اعیان ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ پیدا کرتا ہے۔جبکہ جوہر فرد کا اثبات کرنے والے کہتے ہیں کہ:’’ اﷲ تعالیٰ اعراض و صفات کو پیدا کرتے ہیں ، جواہر باقی رہتے ہیں اور ان کی ترکیب بدل جاتی ہے؛اس بنا پر وہ استحالہ کے نظریہ کی بنیاد رکھتے ہیں ۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ:’’ ایک حقیقت دوسری حقیقت میں تبدیل نہیں ہوتی، جنس بھی تبدیل نہیں ہوتی، بخلاف ازیں جواہر باقی رہتے ہیں اور اﷲ تعالیٰ ان کی ترکیب کو تبدیل کر دیتے ہیں ۔اکثر فلاسفہ کے نزدیک ایک جسم دوسرے جسم میں اور ایک جنس دوسری جنس میں تبدیل نہیں ہوتی، جس طرح نطفہ پہلے منجمد خون میں تبدیل ہوتا ہے، پھر گوشت کے ٹکڑے کی صورت اختیار کرتا ہے اور پھر اس میں ہڈیاں پیدا ہوتی ہے۔اور جیسے کہ وہ مٹی جس سے اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا تھا؛ وہ گوشت ؛خون اور ہڈیوں میں بدل گئی تھی۔اور جیسے وہ مادہ جس سے پھل پیدا ہوتے ہیں ؛ وہ ثمر میں بدل جاتاہے۔ یہ فقہاء اور اطباء اور اکثر عقلاء کا قول ہے۔ ایسے ہی اجسام کے اس تماثل پر بنیاد رکھی جاتی ہے۔ اوروہ کہتے ہیں : جو اجسام جواہر سے مرکب ہوتے ہیں وہ متماثل ہوتے ہیں ۔ جب کہ اکثر کا کہنا یہ ہے کہ: ایسا نہیں ؛ بلکہ اجسام کے حقائق مختلف ہوتے ہیں ۔مٹی کی حقیقت وہ نہیں ہے جو حقیقت آگ کی ہے۔ اور آگ کی حقیقت وہ نہیں ہے جو کہ ہوا کی ہے۔ یہ مسائل عقلی مسائل ہیں ؛ جن کی تفصیل بیان کرنے کا موقع یہ نہیں ۔ یہاں پر صرف اتنا بیان کرنا مقصود ہے کہ مسمیٰ جسم میں اختلاف و نزاع کی بنیاد کیا ہے؟میرے علم کی حد تک تمام اہل مناظرہ اس بات پر متفق ہیں کہ جسم کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے، اگرچہ یہ رائے ان کے یہاں متنازع فیہ ہے کہ آیا جسم اجزائے منفردہ سے مرکب ہے یا مادہ و صورت سے یا کسی سے بھی مرکب نہیں ۔