محرم الحرام کے بدعات کی شرعی حیثیت اور اس میں چندہ دینے، شرکت کرنے اور اس کا تماشا دیکھنے والوں کا حکم
محرم الحرام کے بدعات کی شرعی حیثیت اور اس میں چندہ دینے، شرکت کرنے اور اس کا تماشا دیکھنے والوں کا حکم
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ میں کہ اس ملک میں یعنی اکثر حصہ صوبہ متوسطہ و برار میں ماہِ محرم الحرام کی پہلی تاریخ سے بدعتیں شروع ہوتی ہیں۔ تاریخ پانچ محرم الحرام کی صبح کو ایک نیزہ تیار کیا جاتا ہے، وہ اس طور سے کہ لکڑی کا ایک مجسمہ بنایا جاتا ہے جس کی شکل درج ذیل ہے، اور اس پر ایک نعل جو کہ صندل سے چھپا رہتا ہے، اُوپر کی لکڑی میں لگایا جاتا ہے، اس مجسمہ کو وہ لوگ اپنی اصطلاح میں سواری کہتے ہیں بعض سواریوں میں ایک شکل بنا کر لگاتے ہیں، جس میں بہت سا صندل پیس کر لگا دیا جاتا ہے، ہم یہ نہیں بتلا سکتے کہ وہ کس طرح بنائی جاتی ہے، مگر اس میں دو آنکھیں سونے یا چاندی کی لگائی جاتی ہیں، اور اس بُت کے شانوں پر دو چاندی کے پنجے لگا دیئے جاتے ہیں اور بعض میں پنجے نہیں لگاتے ہیں۔ ان تینوں لکڑیوں میں کپڑا رنگین یا سفید لپٹا رہتا ہے۔
محرم الحرام کی ساتویں و نویں تاریخوں کو اور کبھی دسویں تاریخ کو وہ سواریاں اٹھائی جاتی ہیں، اس سواری کی خدمت کرنے والے کو مجاور کہتے ہیں، وہ مجاور نہا کر اور لنگوٹ کس کر گھٹنوں کے اوپر دھوتی پہنے ہوئے اس سواری کے سامنے آکر کھڑا ہوتا ہے، اور تماشائیوں میں سے کوئی ایک آدمی سواری کے سامنے فاتحہ پڑھتا ہے، فاتحہ ختم ہونے کے بعد کہا جاتا ہے کہ بجنے دو باجا۔ اور سب لوگ بولو بولو دولھا پکارتے ہیں تب سب تماشائی دولھا دولھا سیدنا حسینؓ سیدنا حسینؓ خوب زور سے چلاتے ہیں، اور ساتھ ہی ساتھ تماشائی پکارتے ہیں کہ جو دولھا نہ بولے وہ حسین رضی اللہ عنہ کا چور، خوب دولھا دولھا اور حسین رضی اللہ عنہ سیدنا حسینؓ کے نعرہ باجے کے ساتھ لگائے جاتے ہیں۔
اس کے بعد اس سواری کے مجاور کو حال آتا ہے، اور وہ زمین پر گِر پڑتا ہے اور تڑپنے لگتا ہے، لوگ سنبھالتے ہیں، اور سواری جس کا بیان اوپر ہو چکا ہے مجاور کے کمر میں دے دی جاتی ہے، اور وہ مجاور اس سواری کے لینے کیلئے پیشتر سے کمر میں ایک چمڑے کا تسمہ باندھ لیتا ہے، جس میں سامنے کی ایک طرف چمڑے کی تھیلی لگی ہوئی ہوتی ہے وہ سواری کو لگا دی جاتی ہے، دو آدمی اپنے ایک ایک ہاتھ سے اس مجاور کی جو کہ سواری اُٹھائے ہوئے ہے اس کی کمر میں تھامتے ہیں اور دوسرے ہاتھوں سے سواری کو پکڑے رہتے ہیں تا کہ وہ سواری اس مجاور سے چھوٹ نہ جاوے، اس سواری کے پیچھے دو مضبوط رسی رہتی ہے جس کو تناوا کہتے ہیں، اس کو ایک آدمی پیچھے کی طرف اس مجاور کے سر کے اوپر سے کھینچے رہتا ہے، جس جگہ وہ سواریاں بٹھائی جاتی ہیں، اس کو امام باڑہ کہتے ہیں۔
سواری اُٹھا لینے کے بعد لوگ اپنی اپنی مرادیں مانگتے ہیں، یہ سب مرادیں اُس مجاور سے مانگتے ہیں جو کہ سواری اُٹھائے رہتا ہے، لوگ یہ کہتے ہیں۔ یا سیدنا حسینؓ میرا فلاں کام ابھی تک نہیں ہوا، اور کب تک ہو گا، وہ مجاور کہتا ہے کہ جاؤ تمہارا کام ہو جائے گا، اور پردہ نشین عورتیں اس مجاور کے قدموں پر گرتی ہیں اور منتیں مانگتی ہیں کہ ہم کو اولاد دیجئے، ہم بیمار ہیں اچھے ہو جائیں، اگر ہماری مرادیں پوری ہو جائے گی تو نعل چڑھائیں گے اور سونے کی آنکھیں چڑھائیں گے بعض عورتیں اس مجاور کی پاؤں دو دفعہ سے دھو کر پیتی ہیں۔
اس کے بعد وہ سواری تمام شہر میں گشت کرتی ہے اور اس سواری کے پیچھے اکثر عورتیں جس میں بعض پردہ نشین ہوتی ہیں چادر اوڑھے ہوئے چلتی ہیں، عام طور پر رات کے وقت امام باڑوں میں پانچ محرم الحرام سے دس محرم الحرام تک صدہا عورتیں و مرد منتیں مانگتے ہیں، اور سواری کا مجاور اپنی مورچھل اُن کے اُوپر پھیرتا ہے اور سواری اُٹھنے کے پیشتر ایک گڈھا تیار کیا جاتا ہے جس میں 9 محرم الحرام کو آگ جلائی جاتی ہے جسے الاؤ کہتے ہیں۔ اس الاؤ میں مجاور کودتا ہے اور اپنے ننگے پیروں سے بجھاتا ہے۔
اکثر ہندؤ اور کمتر مسلمان اس میں چندہ دیتے ہیں، اور اس قدر روشنی کی جاتی ہے کہ رات دن کے برابر معلوم ہوتا ہے۔ پردہ نشیں عورتیں یہ تمام واہیات باتیں دیکھتی ہیں اور ان کے مرد شوق سے انہیں اجازت دیتے ہیں۔ اس کے علاؤہ بہت سے ہندؤ اور کمتر مسلمان شیر وغیرہ بن کر ناچتے ہیں اور شیر کا فوٹو چہرہ پر لگاتے ہیں۔ آیا شریعتِ مطہرہ میں ایسی رسم جائز ہیں کہ نہیں؟ ان لوگوں کیلئے جو سواری اٹھائے ہیں، یا اس میں شرکت کرتے ہیں یا کہ منت مانگتے ہیں یا کہ چندہ دیتے ہیں، کیا حکم ہے؟ کیا سید مظلومؓ کی روح ان لوگوں پر آتی ہے؟
واضح رہے کہ سواری اُٹھانے والے صوم و صلوٰۃ کے پابند نہیں ہوتے ہیں۔ کہیں ہندؤ اور کافر بھی سواریاں اٹھاتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ امام آئے۔ چنانچہ زیادہ تر ایسے ہی بد اطوار لوگ اس رسم قبیح کے پابند ہیں، شرابیوں اور اوباشوں پر زیادہ حال آتا ہے۔ اور جو مسلمان سواری اٹھاتے ہیں وہ ایک دوسری سواری سے ملتے ہوئے ہندؤ کی سواری سے ملتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ہمارے بھائی ہیں۔ نیز سواری جب بیٹھائی جاتی ہے تو روپیہ ناریل، لیموں، شیرینی، دونے کی پتیاں چڑھائی جاتی ہیں۔
جواب: یہ سواری اٹھانا اور اس کو گشت کرانا اور اس سے یا اس کے مجاور سے منت ماننی یہ سب اُمور بدعت و نا جائز ہیں عورتوں کا ایسی جگہ جانا گناہ، ان کے شوہروں پر واجب ہے کہ انہیں روکیں، سواری اٹھانے والے یا اس میں چندہ دینے والے یا شرکت کرنے والے یا اس کا تماشا دیکھنے والے سب مجرم ہیں۔ حدیث شریف میں فرمایا من کثر سواد قوم فهو منهم
اسی طرح شیر وغیرہ بننا اور ناچنا بھی حرام ہے، اور سواری اٹھانے والے ہندوؤں کو اپنا بھائی کہنا بھی نا جائز ہے اور اس پر چڑھاوا چڑھانا بھی بدعت قبیحہ۔ مسلمانوں پر لازم ہے کہ ان حرکات سے باز آئیں۔
(فتاویٰ امجدیہ: جلد، 4 صفحہ، 78)