Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

ملائکہ کی حقیقت

  امام ابنِ تیمیہؒ

[ملائکہ کی حقیقت]اہل اسلام اور دیگر اہل ادیان و مذاہب؛جنہیں ملائکہ کی ان صفات کا علم ہے جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے؛وہ قطعی طور پر یقین کے ساتھ کہتے ہیں :ملائکہ وہ مجردات نہیں جو فلسفہ کے مارے کہتے ہیں ۔بلکہ وہ یقینی طور پر ملائکہ کا اثبات کرتے اور کہتے ہیں کہ وہ نور سے مخلوق ہیں ، جیسا کہ حدیث صحیح میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے وارد ہے۔[1] [1] صحیح مسلم۔ کتاب الزہد۔ باب فی احادیث متفرقۃ(حدیث:۲۹۹۶)۔اس میں اس حدیث کی طرف اشارہ ہے جس میں ہے: رسول اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے: اللہ تعالیٰ نے ملائکہ کو نور سے پیدا کیا ہے؛ اور جنات کو دہکتی ہوئی آگ سے۔ اور آدم کو مٹی سے پیدا کیا ہے۔ اور ملائکہ ویسے ہی ہیں جیسے فرمان الٰہی ہے:﴿ وَ قَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا سُبْحٰنَہٗ بَلْ عِبَادٌ مُّکْرَمُوْنَoلَا یَسْبِقُوْنَہٗ بِالْقَوْلِ وَ ھُمْ بِاَمْرِہٖ یَعْمَلُوْنَoیَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْھِمْ وَ مَا خَلْفَھُمْ وَ لَا یَشْفَعُوْنَ اِلَّا لِمَنِ ارْتَضٰی وَ ھُمْ مِّنْ خَشْیَتِہٖ مُشْفِقُوْنَ oوَ مَنْ یَّقُلْ مِنْھُمْ اِنِّیْٓ اِلٰہٌ مِّنْ دُوْنِہٖ فَذٰلِکَ نَجْزِیْہِ جَھَنَّمَ کَذٰلِکَ نَجْزِی الظّٰلِمِیْنَ﴾ (الانبیاء:۲۶۔۲۹)’’اور کہنے لگے: رحمان نے اولاد بنا رکھی ہے، وہ پاک ہے، بلکہ وہ عزت داربندے ہیں ۔وہ بات کرنے میں اس سے پہل نہیں کرتے اور وہ اس کے حکم کے ساتھ ہی عمل کرتے ہیں ۔ وہ جانتا ہے جو ان کے سامنے ہے اور جو ان کے پیچھے ہے اور وہ سفارش نہیں کرتے مگر اسی کے لیے جسے وہ پسند کرے اور وہ اسی کے خوف سے ڈرنے والے ہیں ۔اور ان میں سے جو یہ کہے کہ بے شک میں اس کے سوا معبود ہوں تو یہی ہے جسے ہم جہنم کی جزا دیں گے۔ ایسے ہی ہم ظالموں کو جزا دیتے ہیں ۔‘‘اللہ تعالیٰ نے ملائکہ کے بارے میں خبر دی ہے کہ وہ انسان کی صورت میں حضرت ابراہیم اور حضرت لوط علیہما السلام کے پاس آئے تھے۔ حتی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے انہیں بچھڑے کا گوشت بھون کر پیش کیا۔ اور جبریل علیہ السلام حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کی شکل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا کرتے تھے[1][1] فِی صحِیحِ البخاری 4؍112 ۔کِتاب بدِء الخلقِ، باب ذِکرِ الملائکۃِِ؛ وفِی الحدِیثِ: ’’یتمثل لِی الملک أحیاناً رجلا فیکلِمنِی فأعِی ما یقول۔‘‘۔ ایک بار ایک اعرابی کی شکل میں حاضر ہوئے؛حتی کہ صحابہ کرام نہیں بھی انہیں دیکھا[2] [2] یہ مشہور حدیث جبریل کی طرف اشارہ ہے۔ جس میں ہے یہ جبریل امین تھے ؛ آپ کو دین سکھانے کے لیے آئے تھے۔ یہ ان لوگوں کے عقائد و نظریات پر زبردست رد ہے جو کہتے ہیں کہ ملائکہ صرف خیالات ہیں ۔نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان گرامی ہے:﴿اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ جَاعِلِ الْمَلٰٓئِکَۃِ رُسُلًا اُولِیْٓ اَجْنِحَۃٍ مَّثْنٰی وَ ثُلٰثَ وَ رُبٰعَ یَزِیْدُ فِی الْخَلْقِ مَا یَشَآئُ﴾۔(فاطر۱)۔’’سب تعریف اللہ تعالیٰ کے لیے ہے جو آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے، فرشتوں کو قاصد بنانے والا ہے جو دو دو اور تین تین اور چار چار پروں والے ہیں ، وہ (مخلوق کی) بناوٹ میں جو چاہتا ہے اضافہ کر دیتا ہے۔‘‘اس سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ملائکہ کو جسمانی طبائع پر پیدا کیا ہے؛اوران کے لیے وہ خواص ثابت ہیں جو اجسام کے لیے ہوتے ہیں جیسے پر وغیرہ ۔ ؛ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو اصلی صورت میں دو بار دیکھا؛ایک بار آسمان اور زمین کے درمیان اور دوسری بار آسمان پر سدرۃ المنتہیٰ کے پاس۔[3][3] فِی البخارِیِ4؍115۔ِکتاب بدئِ الخلقِ، باب ِإذا قال أحدکم آمِین؛ حدِیث عنِ ابنِ مسعود رضی اللّٰہ عنہ أن النبِی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ۔ رأی جِبرِیل لہ سِتمِائۃِ جناح. وفِی المسندِ (ط. المعارِفِ) عنِ ابنِ مسعود رضی اللّٰہ عنہ عنِ النبِیِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم رأیت جِبرِیل علی سِدرۃ ِ المنتہی ولہ سِتمِائۃِ جناح. . الحدِیث. وانظرِ البخاری ۔ملائکہ کا ذکر کتاب عزیز کے متعدد مقامات پر ملتا ہے۔وہ زمین پر اترتے ہیں اور پھر آسمانوں کی طرف چڑھ جاتے ہیں ۔ یہ بات نصوص متواترہ سے ثابت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ملائکہ کو بدر؛ حنین اور خندق کے موقع پر اپنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل ایمان کی نصرت کے لیے نازل فرمایا تھا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿اِذْ تَسْتَغِیْثُوْنَ رَبَّکُمْ فَاسْتَجَابَ لَکُمْ اَنِّیْ مُمَدُّکُمْ بِاَلْفٍ مِّنَ الْمَلٰٓئِکَۃِ مُرْدِفِیْنَ﴾[الانفال۹]’’جب تم اپنے رب سے مدد مانگ رہے تھے تو اس نے تمھاری دعا قبول کر لی کہ بے شک میں ایک ہزار فرشتوں کے ساتھ تمھاری مدد کرنے والا ہوں ، جو ایک دوسرے کے پیچھے آنے والے ہیں ۔‘‘اوراللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿ثُمَّ اَنْزَلَ اللّٰہُ سَکِیْنَتَہٗ عَلٰی رَسُوْلِہٖ وَعَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ وَ اَنْزَلَ جُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْھَا﴾ ۔[التوبۃ ۲۶]’’پھر اللہ تعالیٰ نے اپنی سکینت اپنے رسول پر اور ایمان والوں پر نازل فرمائی اور وہ لشکر اتارے جو تم نے نہیں دیکھے۔‘‘اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿فَاَرْسَلْنَا عَلَیْھِمْ رِیْحًا وَّ جُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْھَا ﴾۔[الاحزاب ۹]’’ تو ہم نے ان پر آندھی بھیج دی اور ایسے لشکر جنھیں تم نے نہیں دیکھا۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿اَمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّا لاَ نَسْمَعُ سِرَّہُمْ وَنَجْوَاہُمْ بَلٰی وَرُسُلُنَا لَدَیْہِمْ یَکْتُبُوْنَ﴾’’یا وہ گمان کرتے ہیں کہ بے شک ہم ان کا راز اور ان کی سرگوشی نہیں سنتے، کیوں نہیں اور ہمارے بھیجے ہوئے ان کے پاس لکھتے رہتے ہیں ۔‘‘[الزخرف۸۰]اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿حَتّٰٓی اِذَا جَآئَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْہُ رُسُلُنَا وَ ھُمْ لَا یُفَرِّطُوْنَ ﴾۔[الانعام ۷۱]’’یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی ایک کو موت آتی ہے اسے ہمارے بھیجے ہوئے قبض کر لیتے ہیں اور وہ کوتاہی نہیں کرتے۔‘‘اوراللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿وَ لَوْ تَرٰٓی اِذْ یَتَوَفَّی الَّذِیْنَ کَفَرُوا الْمَلٰٓئِکَۃُ یَضْرِبُوْنَ وُجُوْھَھُمْ وَ اَدْبَارَھُمْ ﴾ [الانفال۵۰]’’اور کاش! تو دیکھے جب فرشتے ان لوگوں کی جان قبض کرتے ہیں جنھوں نے کفر کیا، ان کے چہروں اور پشتوں پر مارتے ہیں ۔‘‘اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿وَ لَوْ تَرٰٓی اِذِ الظّٰلِمُوْنَ فِیْ غَمَرٰتِ الْمَوْتِ وَ الْمَلٰٓئِکَۃُ بَاسِطُوْٓا اَیْدِیْھِمْ اَخْرِجُوْٓا اَنْفُسَکُم﴾ ۔ [الانعام ۹۳]’’ اور کاش! تو دیکھے جب ظالم لوگ موت کی سختیوں میں ہوتے ہیں اور فرشتے اپنے ہاتھ پھیلائے ہوئے ہوتے ہیں ، نکالو اپنی جانیں ۔‘‘اس طرح کی مثالیں قرآن کریم میں بہت زیادہ ہیں ۔ان میں سے بعض سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ملائکہ کے جو اوصاف بیان کئے ہیں ؛ وہ اس علم ضروری کو واجب کرتے ہیں کہ ملائکہ ویسے نہیں ہیں جس طرح یہ لوگ گمان کرتے ہیں کہ یہ صرف عقول نفوس میں ہوتے ہیں ۔ خواہ یہ کہتے ہوں کہ عقول دس قسم پر ہے اور نفوس نو قسم پر ہے۔ یہ تقسیم ان کے ہاں مشہور و معروف ہے[1]۔[1] مسلمان فلاسفہ نے اپنی اکثر کتابوں اور رسائل میں کہا ہے کہ: بیشک آسمانی عقول کو ملائکہ کہا جاتا ہے۔ دیکھیں : سیاست مدینہ از فاریابی ص ۹۔ اقسام العلوم العقلیۃ از ابن سینا ۱۳۔ یا اس کے علاوہ کوئی عقیدہ رکھتے ہوں ۔ ایسے ہی ملائکہ وہ قوت عالمہ بھی نہیں ہے جو نفوس میں کام کرتی ہے؛ جیسا کہ یہ لوگ عقیدہ رکھتے ہیں ۔ بلکہ حضرت جبریل علیہ السلام وہ فرشتہ ہیں جو رسولوں سے جدا ہیں ۔ وہ اللہ تعالیٰ کا کلام سنتے اور پھر اسے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا کرتے تھے۔ اس پر کتاب اللہ ؛ سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کا اجماع دلالت کرتے ہیں ۔ اس کے عین برخلاف فلاسفہ جبریل امین کو عقل فعال یا ان خیالی صورتوں اور کلام الٰہی سے تعبیر کرتے ہیں ، جن کا گزر سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب و دماغ پر ہوا کرتا تھا؛ جیسے سویا ہوا آدمی خواب میں طرح طرح کی چیزیں دیکھتا ہے۔جو شخص رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات عالیہ سے کلیۃً آگاہ ہے، وہ فلاسفہ کی ضلالت و جہالت سے آشنا ہے، اور بخوبی جانتا ہے کہ وہ کفار یہود و نصاری کی نسبت ایمان[اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع ] سے بعید تر ہیں ۔یہ مسئلہ کئی جگہ پر تفصیل سے بیان ہوچکا ہے۔ یہاں پر مقصود وہ جامع کلام پیش کرنا ہے جس سے ان امور کی معرفت حاصل ہوسکے جن مسلمانوں کے عقائد اور اختلاف کی طرف اس رافضی نے اشارہ کیا ہے۔