Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

ذات باری تعالیٰ کے مرکب ہونے میں اختلافِ آراء

  امام ابنِ تیمیہؒ

ذات باری تعالیٰ کے مرکب ہونے میں اختلافِ آراءجب جسم کی حقیقت کے بارے میں اہل مناظرہ کا اختلاف واضح ہوگیا تو اب اس میں مجال شبہ نہیں کہ اﷲ تعالیٰ نہ اجزائے منفردہ سے مرکب ہے، اور نہ مادہ و صورت سے، نہ وہ قابل انقسام ہے اور نہ تفریق و انفصال کو قبول کرتا ہے، ایسا بھی نہیں کہ پہلے وہ جدا جدا تھا پھر یک جا ہو گیا، بخلاف ازیں وہ احد و صمد ہے۔جس نے نہ کسی کو جنا ہے اور نہ ہی کسی نے اسے جنا ہے اور نہ ہی کوئی اس کا ہمسر ہوسکتا ہے۔ اور وہ تمام معانی اس سے منتفی ہیں جن کی ترکیب کا مفہوم سمجھ میں آتا ہے۔ مگر فلاسفہ اور ان کے ہم نوا اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر کہتے ہیں کہ:’’ جب وہ صفات سے موصوف ہے تو وہ مرکب ہوگا اور جب اس کی حقیقت ایسی ہے جو فقط وجود نہیں تو وہ مرکب ٹھہرے گا۔‘‘اس کے جواب میں صفات کے قائلینمسلمان کہتے ہیں :’’ نزاع لفظ ’’مرکب ‘‘ میں نہیں ۔ اس لفظ سے سمجھ آتاہے کہ غیر نے اسے ترکیب عطا کی ہے۔ بخلاف ازیں مرکب وہ ہے جس کے اجزاء الگ الگ ہوں ، اور پھر اسے اختلاط یا غیر اختلاط کے طریقہ سے یک جا کر دیا جائے، جس طرح ماکولات، مشروبات، ادویات، تعمیرات، لباس اور زیور کو ترکیب دے کر بنایا جاتا ہے۔ اور کوئی عاقل نہیں کہتا کہ:’’ اﷲ تعالیٰ اس لحاظ سے مرکب ہے۔ایسے ہی اس معنی میں ترکیب کہ وہ جواہر منفردہ سے مرکب ہے؛ یا پھر مادہ اور صورت سے مرکب ہے؛ جو اس کے قائلین کے ہاں ترکیب جسمی ہے؛ یہ بھی اللہ تعالیٰ سے منتفی ہے۔ اور جو لوگ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جسم ہے؛ ان میں سے بعض کہتے ہیں کہ : وہ اس ترکیب سے مرکب ہے۔ اور ان میں سے اکثر اس کی نفی کرتے ہیں ؛ اور وہ کہتے ہیں کہ :ہم جسم ہونے کا یہ مطلب لیتے ہیں کہ: بیشک موجود ہے؛ اوروہ اپنی ذات کے ساتھ قائم ہے؛ اور اس کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے۔ اور اس طرح کے دیگر اقوال پیش کرتے ہیں ۔

خلاصہ کلام! یہ کہ اس ترکیب اور اس تجسیم سے اللہ تعالیٰ کی تنزیہ بیان کرنا واجب ہے۔ذات اللہ تعالیٰ کے جامع صفات کمال ہونے؛ مثلاً علم، قدرت اور حیات سے موصوف ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ مرکب ہے۔ لغت سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی۔اور جب کسی مسمی کا یہ نام رکھا جائے تو اس مرکب میں لفظی نزاع نہیں ہوگا بلکہ معنی عقلی میں نزاع ہوگا۔اور یہ معلوم ہے کہ اس کی نفی پر کوئی دلیل نہیں ہے جیسا کہ دوسرے موقع پر یہ تفصیل سے بیان کیا جا چکا ہے۔ بلکہ عقلی دلائل اس کے اثبات کو واجب کرتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ تمام عقلاء ذات باری تعالیٰ کے لیے متعدد صفات کا اثبات کرنے میں اضطراری طور پر یک زبان ہیں ۔مثلاً معتزلہ تسلیم کرتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ حی، عالم اور قادر ہے، اس کا حی ہونا اور ہے اور قادر ہونا چیزے دیگر ہے ۔ فلاسفہ کہتے ہیں کہ:’’ اﷲ تعالیٰ عقل بھی ہے اور عاقل و معقول بھی، وہ لذت بھی ہے، لذیذ و متلذّذ بھی۔وہ عاشق بھی ہے عشق بھی اورمعشوق بھی[1]۔[1] انظر مثلاً ’’النجاۃ‘‘ لِابنِ سِینا3؍243 ؛حیث یعقِد فصلا عنوانہ: ’’ فصل فِی أن واجِب الوجودِ بِذاتِہِ عقل وعاقِل ومعقول۔ وفصل 3؍245 فِی نہ بِذاتِہِ معشوق وعاشِق ولذِیذ وملتذ وأن اللذۃ ہِی إِدراک الخیرِ الملائِمِ۔  یہ بات صریح عقل کی روشنی میں معلوم ہے کہ: اللہ تعالیٰ کے محبت کرنے کا معنی وہ نہیں جو اس کے علم رکھنے کا معنی ہے۔ اور اس کے محبوب ہونے کا معنی وہ نہیں جو محب اور عالم ہونے کا معنی ہے۔ جب کہ فلسفی کہتے ہیں : جو معنی اس کے عالم ہونے کا ہے؛وہی معنی اس کے قادر ؛ مؤثر اور فاعل ہونے کا ہے۔اوروہ ایک ہی ذات ہے۔پس یہ لوگ علم کو ہی قدرت قراردیتے ہیں ؛ اورقدرت کو ہی قادر اور علم کو عالم ؛ اور فعل کو فاعل قرار دیتے ہیں ۔بعض متأخرین جیسے محقق طوسی شرح اشارات میں رقم طراز ہے: ’’ علم عین معلوم ہے؛اور معلوم فساد ہے۔یہ اقوال صریح عقل اور مجرد تصور کی روشنی میں اپنے علم کے فساد کومستلزم ہیں ۔‘‘[2][2] شرح الاشارات از نصیر الدین طوسی ؛اصل کتاب ابن سینا کی ہے؛ ص ۷۱۵۔طوسی کا یہ قول صریح عقل کے منافی ہے۔ فلاسفہ صرف ترکیب کے مفہوم سے فرار اختیار کرنا چاہتے ہیں ۔ حالانکہ ترکیب کی نفی کے لیے ان کے یہاں کوئی دلیل موجود نہیں ۔ان اقوال کی خرابی صریح عقل سے معلوم ہوتی ہے۔ اور مجرد ان کا تصور ِتام ہی اس کی خرابی واضح کرنے کے لیے کافی ہے۔