Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

منکرین صفات کی اہم دلیل:ترکیب

  امام ابنِ تیمیہؒ

[منکرین صفات کی اہم دلیل:ترکیب]یہ لوگ تو ترکیب کے معانی سے بھاگے تھے۔ ان تمام معانی میں مسمیٰ ترکیب کی نفی کی کوئی دلیل اور حجت ان کے پاس موجود نہیں ہے۔وہ اس ضمن میں سب سے بڑی دلیل یہ پیش کرتے ہیں کہ مرکب اپنے اجزاء کا محتاج ہوتا ہے۔ اور اس کے اجزاء اس کے غیر ہوتے ہیں ۔ اور جو غیر کا محتاج ہو وہ واجب بنفسہ نہیں ہوسکتا ۔ اور بسا اوقات کہتے ہیں کہ: صفت محل کی محتاج ہونی ہے؛ اور جو محل کا محتاج ہو وہ واجب بنفسہ نہیں ہوسکتا۔بلکہ وہ معلول ہو گا ۔ اس دلیل کے سب الفاظ کمزور اور مجمل ہیں ۔ مثلاً واجب بنفسہ سے مراد وہ ہے جس کا کوئی فاعل نہ ہو۔ اور نہ ہی علت فاعلہ ہو۔ اور اس سے مراد یہ لی جاتی ہے کہ وہ کسی ایسی چیز کا محتاج نہ ہو جو اس سے مبائن ہو۔ اوروہ قائم بنفسہٖ ہو اور کسی مباین چیز کا محتاج نہ ہو۔

پہلی اور دوسری تعریف کی بنا پر صفات واجب الوجود ہوتی ہیں ۔ تیسری تعریف کی بنا پر جو ذات ان صفات سے موصوف ہے، وہی واجب ٹھہرے گی۔ صرف صفات کو واجب الوجود نہیں کہہ سکتے۔ مگر وہ ذات سے جدا بھی نہیں ۔اورکبھی اس سے یہ بھی مراد لی جاتی ہے کہ وہ جس کا تعلق اس کے غیر سے نہ ہو ایسی کسی چیز کا خارج میں کوئی وجود نہیں ۔ برہان تو ان ممکنات پر قائم ہوتی ہے جن کا فاعل واجب الوجود ہو؛ وہ بنفسہ قائم ہو؛ اوراپنے سوا ہر ایک سے بے نیاز ہو ۔ جب کہ صفت فاعل نہیں ہوتی۔ باقی رہا فلاسفہ کا یہ قول کہ:’’ جب اﷲ تعالیٰ کی ذات و صفات ہیں تو وہ مرکب ہوگا، اور مرکب اجزاء کا محتاج ہوتا ہے،اور اجزاء اس کے غیر ہوتے ہیں ۔‘‘اس میں ’’ غیر ‘‘ کا لفظ مجمل ہے۔ غیر سے مراد مبائن ہوتا ہے۔پس دو غیر وہ دو چیزیں ہیں جو زمان و مکان یا وجود کے اعتبار سے جدا ہو سکیں ۔یہ اصطلاح اشعریہ اور مذاہب اربعہ میں سے ان کے متبعین کی ہے۔ اور ’’ غیر‘‘ سے مراد یہ بھی لیتے ہیں کہ:جو ایک دوسرے کا عین نہ ہوں ۔یا وہ دو چیزیں کہ ان دونوں میں سے ایک کو جانتے ہوئے دوسری سے لاعلم رہنا جائز ہو۔ یہ اکثر معتزلہ اور ان کے اعوان و انصار اور کرامیہ کی رائے ہے۔جبکہ ائمہ سلف مثلاً امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ وغیرہ کے نزدیک لفظ غیر کا اطلاق اس پر بھی ہوتا ہے، اور اس پر بھی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ علم الٰہی کو اس کا غیربھی نہیں کہتے۔ اور غیرہونے کی نفی بھی نہیں کرتے۔نظر بریں سلف صالحین یوں بھی نہیں کہتے کہ:’’ علم الٰہی عین ذات ہے اور یہ بھی نہیں کہتے کہ وہ غیر ذات ہے۔‘‘بلکہ وہ نفی و اثبات میں مجمل لفظ کا اطلاق کرنے سے منع کرتے ہیں ؛کیونکہ اس میں تلبیس پائی جاتی ہے۔ بیشک جہمیہ کا یہ قول ہے :’’ اﷲ کے سوا جو کچھ بھی ہے، اس کا پیدا کردہ ہے، ماسوی اﷲ میں کلام اللہ بھی داخل ہے، لہٰذا وہ بھی مخلوق ہے۔‘‘بخلاف ازیں اہل سنت کہتے ہیں :’’اگر غیر اور سوا سے مراد ایسی چیز لی جائے جو اس سے مبائین(جدا) ہو؛ تو پھر اللہ تعالیٰ کا کلام اور اس کا علم اس غیر اور سوا کے لفظ میں داخل نہیں ہوتا۔ جیسا کہ حدیث نبوی میں ہے:(( من حلف بِغیرِ اللّٰہِ فقد أشرک ۔))[1][1] البخاری، کتاب الأیمان والنذور۔ باب الحلف بعزۃ اللّٰہ تعالیٰ وصفاتہ، تعلیقاً و(ح: ۶۶۶۱)سنن ابی داؤد: کتاب الأیمان والنذور۔ باب فی کراھیۃ الحلف بالآباء (حدیث: ۳۲۵۱)، سنن ترمذی، کتاب النذور والأیمان باب ما جاء فی کراھیۃ الحلف بغیر اللّٰہ، (حدیث: ۱۵۳۵)۔’’جس نے غیراللہ کی قسم اٹھائی ؛ یقیناً اس نے شرک کیا۔‘‘احادیث نبویہ سے صفات الٰہی ؛ جیسے اللہ تعالیٰ کیعزت و عظمت کی قسم کھانے کا جواز ثابت ہوتا ہے۔
اس سے یہ حقیقت اجاگر ہوئی کہ صفات باری تعالیٰ کو عند الاطلاق غیر نہیں کہہ سکتے۔ جب غیر سے مراد یہ ہے کہ وہ بذات خود نہیں ۔ تو بلاشبہ علم دیگر چیز ہے اور عالم کچھ اور ہے۔ اسی طرح کلام و متکلم بھی ایک دوسرے سے جداگانہ حیثیت رکھتے ہیں ۔یہی حال لفظ افتقار کا ہے۔ اس سے مراد مفعول کی اپنے فاعل کے لیے حاجت ہوتی ہے۔ اور اس احتیاج سے تلازم بھی مراد لیا جاتا ہے؛ یعنی وہ ایک دوسرے کے بغیر پائے نہیں جا سکتے۔ یہ مطلب نہیں کہ وہ ایک دوسرے میں مؤثر بھی ہوں ، مثلاً باپ ہونا اور بیٹا ہونا کہ ایک کا معقول ہونا دوسرے کے بغیر ممکن نہیں ۔ اس لیے کہ جہاں ابوت (باپ ہونا) ہوگی وہاں بنوّت(بیٹا ہونا) بھی ہوگی۔ مرکب میں جو اشتراک پایا جاتا ہے، وہ معلوم ہو چکا ۔ جب یوں کہا جائے کہ اگر وہ عالم ہے تو ذات اور علم سے مل کر بنا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ذات اور علم پہلے الگ الگ تھے اور پھر جمع ہو کر مرکب ہوگئے۔اور یہ بھی مراد نہیں کہ یہ ایک دوسرے سے الگ ہو سکتے ہیں ۔ بخلاف ازیں مقصود یہ ہے کہ عالم ہونے کی صورت میں ایک ذات ہے اور ایک علم جو اس کے ساتھ قائم و وابستہ ہے۔