Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

صفات قائمہ بالموصوف اس کا جزء نہیں :

  امام ابنِ تیمیہؒ

صفات قائمہ بالموصوف اس کا جزء نہیں :[[مزید برآں صفات قائمہ بالموصوف کو جزء قرار دینا معروف لغت کے خلاف ہے۔یہ صرف فلاسفہ کی وضع کردہ اصطلاح ہے۔جیساکہ وہ موصوف کو مرکب بھی کہتے ہیں ۔بخلاف جزء کو صفت کا نام دینے کے۔بلا شبہ یہ اصطلاح بہت سے ائمہ اور نظار کے کلام میں پائی جاتی ہے؛ جیسے امام احمد اور ابن کلاب اور دیگر۔ ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ ذات صفات کو مستلزم ہوتی ہے؛ اورصفات سے متصف ہونے کے بغیر کوئی ذات نہیں پائی جاتی ۔ یہ بات تو حق ہے۔ اور اگر ان کی ایجاد کردہ اصطلاحات کی طرف تنزل اختیار کیا جائے؛ اور اس کو جزء کو نام دیا جائے؛ تو پھر بھی مجموع اس وقت تک نہیں پایا جاتا جب تک اس کے وہ اجزاء نہ پائے جائیں جو اس کا حصہ شمار ہوتے ہیں ۔اور اگریہ کہا جائے کہ وہ اپنے بعض اجزاء کا محتاج ہے؛ تو یہ بھی اسی قول کے قائل کی طرح ہوگاجوکہتا ہے:’’ وہ اپنی ذات کی طرف محتاج ہے؛ جو کہ اصل میں اس مجموعہ سے عبارت ہے۔ اگر ایسا کہنے میں کوئی ممنوع بات نہیں ؛ تو پھر یہ قول اس بات کا زیادہ حق دار ہے کہ اس پر اعتراض نہ کیا جائے۔اور اگر یہ کہا جائے کہ اس کا جزء اس کا غیر ہوتا ہے؛ جب کہ واجب اپنے غیر کا محتاج نہیں ہوتا۔تو اس کا جواب یہ ہے کہ: اگر اس سے تمہاری مراد یہ ہے کہ بیشک اس کے اجزاء اس سے مبائین ہوتے ہیں ؛ اور کسی بھی اعتبار سے ان میں سے کسی ایک کا دوسرے سے جدا ہونا جائز ہے۔ تو پھر یہ باطل ہے۔اس تفسیر کے اعتبار سے اس کے اجزاء اس کا غیر نہیں ہیں ۔ اور اگر آپ کی مراد یہ ہو کہ ایسا ممکن ہے کہ ان میں سے کسی ایک کے علم کے بغیر دوسرے کا علم حاصل ہو جائے؛ جیسا کہ بیشک ہم اس کے قادر ہونے کو اس کے عالم ہونے سے پہلے جانتے ہیں ۔اور ہم اس کی ذات کو اس کی صفات سے پہلے جانتے ہیں ۔ اگر غیر اس تفسیر کے اعتبار سے ؛ تو پھر صریح عقل کی روشنی میں معلوم ہے کہ ایسی معانی کو ثابت ماننا ضروری ہے جو اس تفسیر کی روشنی میں غیر ہوں ۔ وگرنہ اس کا بذات خود قائم ہونا وہ نہیں ہے؛ جو اس کا عالم ہونا ہے۔ اور اس کا عالم ہونا ؛ وہ نہیں ہے جو اس کا زندہ [حیی] ہونا ہے۔ اور اس کا زندہ ہونا وہ نہیں ہے جو اس کا قادر ہونا ہے۔اور جو کوئی ان صفات کو ایک ہی چیز قرار دیتا ہے؛ اور کہتا ہے کہ یہ تمام صفات موصوف ہی ہیں ؛ تو یقیناً وہ فلاسفہ کی دھوکہ بازی میں مکمل طورپھنس گیا۔یہ تو بالکل ویسے ہی ہے جو کہتا ہو: جو کالا ہے؛ وہی سفید ہے؛ او رجو سفید ہے وہی کالا ہے۔ اور سفیدی اورسیاہی وہی سفید اور کالا ہیں ۔پھر یہ منکرین [نفاۃ] جو ان معانی کا انکار کرتے ہیں جن سے وہ موصوف ہے؛ وہ تمام کے تمام متناقضین اپنے قول میں نفی اور اثبات کو جمع کرتے ہیں ۔ اورپھر اسی چیز کوان امور کی تعطیل و تکذیب کی اساس بناتے ہیں جو صریح معقول اور صحیح منقول کی روشنی میں معلوم شدہ ہیں ۔[[تاہم اگر ہم فلاسفہ کے اس مفروضہ کو تسلیم کر لیں تو بھی اس میں کوئی حرج نہیں ۔ فلاسفہ اور ان کے اتباع کی تخویف و تہویل اس ضمن میں ناقابل التفات ہے]]۔جو لوگ اﷲ تعالیٰ کے علم بالاشیاء کی نفی کرنے والے کہتے ہیں کہ:’’ اس سے ’’کثرت ‘‘ لازم آتی ہے۔‘‘ اس کے پہلو بہ پہلو جو لوگ اﷲ تعالیٰ کے عالم جزئیات ہونے کی نفی کرتے ہیں ، وہ کہتے ہیں کہ:’’ اس سے اﷲ کا تغیر پذیر ہونا لازم آتا ہے۔‘‘ گویا وہ تکثیر و تغیر کے بھاری بھر کم الفاظ سے دوسروں کو ڈرانا چاہتے ہیں ۔ حالانکہ یہ دونوں الفاظ حد درجہ مبہم ہیں اور ان کا مطلب واضح نہیں ۔ اس سے وہ دوسروں کو یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ صفات کا اثبات کرنے سے الٰہ کا متعدد اور کثیر تعداد ہونا لازم آتا ہے۔ نیز یہ کہ اﷲ تعالیٰ انسان کی طرح تغیر پذیر ہے اور وہ اس طرح بدلتا رہتا ہے، جیسے زرد ہو کر آفتاب کا رنگ بدل جاتا ہے۔ان اقوال کا متکلم اس حقیقت سے یکسر نا آشنا ہے کہ اﷲ تعالیٰ جب کسی حادث چیز کو پیدا کرتاہے، اپنے بندوں کی دعا سنتا ہے، یا اپنی مخلوقات کو دیکھتا ہے تو فلاسفہ اسے تغیر سے موسوم کرتے ہیں ۔ ان کی نگاہ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ہم کلام ہونا اور اطاعت شعار ی سے راضی ہونا بھی تغیر ہے۔ مزید برآں یہ نفی و انکار کسی دلیل پر مبنی نہیں ۔ اور لطف یہ ہے کہ وہ خود ہی اس کا اعتراف بھی کرتے ہیں ۔اس لیے کہ فلاسفہ اس کو جائز کہتے ہیں کہ : قدیم محل حوادث بھی ہو۔ لیکن ان میں سے جنہوں نے جس چیز کی نفی کی ہے؛ حقیقت میں وہ مطلق طور پر صفات کی نفی کرنا چاہتے ہیں ۔ یہی حال معتزلہ کا بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان دونوں فرقوں کے ماہرین ؍حذاق جیسے ابو الحسین البصری اور ابو البرکات[کتاب ’’المعتبر‘‘کا مصنف]اور دیگر نے اس مسئلہ میں ان کی مخالفت کی ہے۔ اورانہوں نے واضح کیا ہے کہ ان کے پاس کوئی عقلی دلیل ایسی نہیں ہے جس کی بنا پر وہ نفی کرسکیں ۔ اور بیشک عقلی اور شرعی دلائل و براہین سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔[ اس کے ثبوت کو واجب کرتے ہیں ]۔یہاں پر مقصود یہ ہے کہ : جو کوئی جسم کی نفی کرتا ہو؛ اور اس سے اس کی مراد جواہر مفردہ سے یا مادہ اور صورت سے ترکیب کی نفی ہو؛ تو یقیناً ان معانی کے حساب سے وہ درست رائے پر ہے۔ لیکن اس سے اختلاف رکھنے والے کہتے ہیں : ’’یہ جو بات تم کہتے ہو؛ وہ لغت میں جسم کا مسمیٰ نہیں ہے۔ اور نہ ہی وہ حقیقت میں اصطلاحی جسم ہے۔ پس بیشک جسم نہ اس سے مرکب ہوتا ہے اور نہ ہی اس سے ۔ اوروہ کہتا ہے: یہ اصطلاحی جسم کی حقیقت ہے۔ لیکن اس سے اختلاف رکھنے والے ایسے بھی ہیں جو ان میں سے کسی ایک سے بھی ترکیب کے ہونے کی نفی نہیں کرتے۔ پس یہ دونوں فریق رب سبحانہ و تعالیٰ کے اس سے منزہ ہونے پر متفق ہیں ۔ لیکن ان میں سے ایک کہتا ہے: ’’لفظ جسم کی نفی کرنے سے یہ تنزیہ مستفاد نہیں ہوتی۔ یہ استفادہ لفظ ترکیب یا اس طر ح کے الفاظ سے ہوسکتا ہے۔ اور دوسرا کہتا ہے: ’’ایسا نہیں ؛ بلکہ لفظ جسم کی نفی کرنے سے یہ تنزیہ مستفاد ہوتی ہے۔

جو کوئی کہتا ہے : وہ جسم ہے؛جیسے کرامیہ کے مناظرین علماء اور دیگر سے یہی منقول ہے؛وہ اللہ تعالیٰ کو جسم کہتے ہیں ؛ اوراس کی تفسیریہ کی جاتی ہے کہ: بیشک وہ موجود ہے؛ اور اپنی ذات کے ساتھ قائم ہے؛ مرکب نہیں ۔اس بات پر لوگوں کا اتفاق ہے کہ : جو کوئی یہ عقیدہ رکھتا ہو کہ اللہ تعالیٰ جسم ہے؛ اوراس کی مراد یہی معنی ہو؛ تو وہ اس معنی میں درستگی پر ہے۔ لیکن اس کووہ لوگ خطا پر کہتے ہیں ؛ جو ان الفاظ کو خطا کہتے ہیں ۔ مگر رہے وہ لوگ جو کہتے ہیں : جسم تو مرکب ہوتا ہے؛ وہ کہتے ہیں : تم نے اپنی ذات کے ساتھ قائم یا موجودکے لیے لفظ ’’جسم ‘‘کے استعمال میں غلطی کی ہے۔جو یہ نہیں کہتے کہ : ’’بیشک ہر جسم مرکب ہوتا ہے‘‘وہ کہتے ہیں : آپ کا ہر موجود یا اپنی ذات کے ساتھ قائم کو جسم کہنا ؛ نہ ہی معروف عربی لغت کے موافق ہے؛ اور نہ ہی سلف صالحین اور ائمہ دین میں سے کسی نے یہ الفاظ زبان پر لائے۔ اورکسی نے یہ نہیں کہا: ’’بیشک اللہ تعالیٰ جسم ہے۔‘‘پس آپ لغت اور شریعت ہر دو اعتبار سے غلطی پر ہیں ۔ بھلے آپ کی مرادمعنی ٹھیک ہی کیوں نہ ہو۔پس وہ کہتا ہے: ’’ میں نے متکلمین کی؍فلسفیانہ اصطلاح میں بات کی ہے۔ بیشک متکلمین اور فلاسفہ کے مناظرین کے ہاں ؛ جسم وہ چیز ہے جس کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہو۔ پھر ان میں سے ایک گروہ نے دعوی کیا ہے کہ: ’’ہر وہ چیزجو اس اسلوب پرہو؛ وہ جواہر منفردہ یا مادہ اورصورت سے مرکب ہوتا ہے۔ جب کہ ایک دوسرے فریق نے اس معنی میں ان کے ساتھ اختلاف کیا ہے۔ ہر وہ چیز جس کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہو؛ وہ ان ہی چیزوں سے مرکب نہیں ہوتی ۔ پس جب اس قول کے قائل نے مشار الیہ کے مرکب ہونے کی نفی پر عقلی دلیل پیش کی تو اس نے اپنے منازعین پر دلیل قائم کردی۔ سوائے ان لوگوں کے جو کہتے ہیں : بیشک اللہ تعالیٰ کے اسماء توقیفی ہیں ۔وہ کہہ سکتا ہے کہ تمہیں اس بات کا کوئی اختیار نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی ایسا نام رکھو۔جب کہ سلف صالحین کے پیروکار ؛اہل سنت و الجماعت کہتے ہیں : تم سبھی لغت اور شریعت ہر دو اعتبار سے غلطی پرہو؛ کہ تم نے ہر مشار إلیہ چیز کو جسم کا نام دیدیا۔ یہ اصطلاح نہ ہی لغت کے مطابقت رکھتی ہے اور نہ ہی سلف میں سے کسی ایک نے ایسا کچھ کہا۔جسم کو مرکب کہنے والوں کا کہنا ہے کہ: ہماری بات لغت کے موافق ہے۔ جسم لغت میں : مؤلف مرکب کو کہا جاتا ہے۔ اور اس کی دلیل یہ ہے کہ : عرب کہتے ہیں : ’’ھذا أجسم من ھذا۔‘‘ یہ اس وقت بولتے ہیں جب اس کے اجزاء زیادہ ہوں ۔ اور یہ تفضیل اصل میں اشتراک کے بعد واقع ہوتی ہے۔ پس اس سے معلوم ہوا کہ
بیشک عرب کے نزدیک بھی جسم مرکب کو کہتے ہیں ۔ اور جیسے ہی یہ اجزائے ترکیبی بڑھ جاتے ہیں ؛ تو وہ زیادہ جسیم [بڑے جسم والا] ہو جاتا ہے۔