اہل عرب کا اجزاء سے مرکب پر اسم جنس کے اطلاق کے دعوے پررد
امام ابنِ تیمیہؒ[اہل عرب کا اجزاء سے مرکب پر اسم جنس کے اطلاق کے دعوے پررد]ان سے کہا جائے گاکہ: اہل عرب کا کسی دوسرے سے بڑے کے لیے لفظ ’’ اجسم ‘‘ کا لفظ استعمال کرنا؛ یہ صحیح بات ہے۔ حالانکہ بعض اہل لغت اس کا انکار کرتے ہیں ۔رہ گیا آپ لوگوں کا دعوی کہ : عرب ایسے کہتے ہیں ؛ اس لیے کہ جسم اجزائے مفردہ سے مرکب ہوتا ہے؛ اور ہر وہ چیزجس کی جانب اشارہ کیا جاسکتا ہو؛ وہ مرکب ہوتی ہے ؛اور پھر اسے جسم کا نام دیتے ہیں ؛ ان کا یہ دعوی کئی وجوہات کی بنا پر باطل ہے:پہلی وجہ :.... یہ بات ثقات[اہل لغت میں سے قابل اعتماد لوگوں ] کی منقولات اور ان کے استعمال میں موجود کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہر ایک مشار الیہ چیز کو جسم نہیں کہتے۔ اور نہ ہی ہوائے لطیف کو جسم کہتے ہیں ۔بلاشک و شبہ وہ جسم کا لفظ بھی ویسے ہی استعمال کرتے ہیں جیسے ’’جسد ‘‘ کا لفظ استعمال کرتے ہیں ۔ ان کی زبان کے ماہرین اہل لغت جیسے اصمعی اور ابو زید الانصاری اور دیگر نے ان سے ایسے ہی نقل کیا ہے۔ جیسا کہ جوہری نے صحاح میں نقل کیاہے۔ اور جوہری کے علاوہ دیگر کے ہاں لفظ ’’ جسم ‘‘ کثیف اور غلیظ یعنی موٹے کے لیے استعمال ہوتا ہے ؛اس میں اس کے مشارالیہ کے لیے کوئی معنی نہیں پایا جاتا۔دوسری وجہ :.... بیشک[یہ لفظ بول کر ان کا] اس سے ان کا مقصود جواہر مفردہ ؛ یا مادہ اور صورت سے مرکب نہیں ہوتا؛ بلکہ یہ بات تو ان کے دل میں بھی نہیں آئی۔ بلکہ ان کا مقصد موٹا اور کثیف ہونا تھا۔ لیکن رہ گیا کہ: موٹائی اور کثافت کا سبب جواہرمفردہ کی کثرت کا ہونا؛ یا پھر کسی چیز کا خود اپنی ذات میں موٹا اور کثیف ہونا؛ جیسے کوئی چیز گرم یا ٹھنڈی ہوتی ہے؛ اگرچہ اس کی ٹھنڈک یا گرمی اس کے جواہر مفردہ سے مرکب ہونے کا سبب نہیں ہوتی۔ پس جسم کے لیے مقدار اور مواصفات ہوتی ہیں ۔ اور اس کی یہ صفات جواہر کی وجہ سے نہیں ہوتیں ۔ پس یہی حال اس کی قدرت کا بھی۔ یہ بحث اوراس جیسی دیگر مباحث انتہائی دقیق اورعقلی ہیں جو ان لوگوں کے ذہن پر بھی نہیں کھٹکتی جو لفظ جسم پر کلام کرتے ہیں ؛ خواہ وہ عرب ہوں یا غیر عرب۔تیسری وجہ :.... بیشک یہ بات معلوم شدہ ہے کہ:وہ مشہور لغوی لفظ جو عام و خاص اپنے کلام میں بولتے ہوں ؛ اور اس کا ایک معنی مراد لیتے ہوں ؛ تو یہ جائز نہیں کہ اس کا معنی یا تصور اکثر لوگوں پر مخفی رہے۔ اور اس کے معانی کے علم کی صحت دقیق عقلی دلائل پر موقوف ہو۔ اور اس میں عقلاء کا اختلاف بھی ہو۔ بیشک اس لفظ کو بولنے والے تمام لوگ اس معنی پر متفق ہوتے ہیں جولغت میں اس سے مراد لیا جاتا ہو۔ اور جو لفظ دقیق ہو ؛ جسے اکثر لوگ نہ سمجھتے ہوں ؛ تووہ اس لفظ کے بولنے والوں کی مراد نہیں ہوتی۔ یہی حکم اس لفظ کا ہے جس میں اختلاف پایا جاتا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ: اصولیوں میں سے بعض حضرات کہتے ہیں : مشہور لفظ کا ایسے معانی کے لیے موضوع ہونا جائز نہیں جو مخفی ہوں ؛ اور اسے خواص کے علاوہ لوگ نہ جانتے ہوں ۔جیسے لفظ ’’حرکت‘‘وغیرہ۔ یہ بات قطعی طور پر معلوم شدہ ہے۔ بیشک اس کا موضوع لغت میں وہ نہیں ہے جس میں اہل نظر؍یعنی نظار کا اختلاف ہے۔ اور اس کی معرفت دقیق اور مخفی دلائل کی معرفت پر موقوف ہے۔
چوتھی وجہ :.... اگر ان کا مقصود ترکیب ہو؛تو بیشک ان کا مقصود وہ موٹا کثیف و غلیظ ہوتا ہے۔ پس مدعی کا ان کے بارے میں یہ دعوی کرناکہ ہر مشار الیہ چیز کو جسم کہا جاتاہے اور یہ کہ جسم مرکب ہوتا ہے؛ یہ دونوں باتیں باطل ہیں ۔[خلاصہ کلام! مدعی کا یہ دعویٰ کہ جس چیز کی طرف اشارہ کیا جائے، وہ جسم مرکب ہے قطعی طور سے بے بنیاد ہے]۔جمہور اہل اسلام جو اﷲ تعالیٰ کو مجسم قرار نہیں دیتے،وہ کہتے ہیں کہ:’’ جو شخص اﷲ کو جسم کہتا ہے، اور اس سے یہ مراد لیتا ہے کہ وہ موجود ہے یا قائم بنفسہٖ ہے یا اسے جوہر کہہ کر یہ مراد لیتا ہے کہ وہ قائم بنفسہٖ ہے تو وہ الفاظ میں خطاء کار ہے معنی میں نہیں ۔ جب وہ یہ کہے کہ ذات اللہ تعالیٰ جواہر منفردہ سے مرکب ہے تو اس کے کفر میں ان کے مابین اختلاف پایا جاتا ہے ۔پھر جسم کو جواہر سے مرکب قرار دینے والوں کے یہاں اختلاف پایا جاتا ہے کہ جسم کا مسمّٰی کیا ہے؟۱۔ بعض کی رائے یہ ہے کہ جب جوہر واحد کے ساتھ کسی اور چیز کو ملایا جائے تو اسے جسم کہتے ہیں ، ابن الباقلانی، ابو یعلی اور دیگر علماء رحمہم اللہ کا نقطۂ نظر یہی ہے۔۲۔ دوسرا مذہب یہ ہے کہ دو یا زیادہ جوہر جب مل جاتے ہیں تو جسم تشکیل پاتا ہے۔۳۔ تیسرا مذہب یہ ہے کہ چار یا چار سے زیادہ جواہر کے ملنے سے جسم قرار پاتا ہے۔۴۔ چوتھے مذہب کے مطابق چھ یا چھ سے زیادہ جواہر کا ہونا ضروری ہے۔۵۔ پانچواں مذہب: جسم کی تشکیل کے لیے آٹھ جواہر کا وجود ناگزیر ہے۔۶۔ چھٹا مذہب یہ ہے کہ جسم کی ساخت کے لیے سولہ جواہر مطلوب ہیں ۔۷۔ ساتویں مذہب کے مطابق جسم کم از کم بتیس جواہر سے مرکب ہوتا ہے۔ان میں سے اکثر اقوال علامہ اشعری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’مقالات اسلامیین ‘‘ میں ذکر کئے ہیں ۔‘‘ [۲؍۴] اس سے یہ حقیقت واشگاف ہوتی ہے کہ لفظ جسم میں بے شمار لغوی ، اصطلاحی ، عقلی اور شرعی تنازعات پائے جاتے ہیں ۔ جن کا تقاضا ہے کہ اس ضمن میں باقی مباحث کو چھوڑ کر صرف کتاب و سنت کی پیروی کی جائے، قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:﴿ وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا﴾ (آل عمران:۱۰۳)’’سب کے سب مل کر اﷲ کی رسی کو تھام لو اور فرقے نہ بنو۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ الٓمّٓصٓO کِتٰبٌ اُنْزِلَ اِلَیْکَ فَلَا یَکُنْ فِیْ صَدْرِکَ حَرَجٌ مِّنْہُ لِتُنْذِرَ بِہٖ وَ ذِکْرٰی لِلْمُؤْمِنِیْنَ O اِتَّبِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَ لَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اَوْلِیَآئَ قَلِیْلًا مَّا تَذَکَّرُوْنَ﴾ (الأعراف :۳)’’الٓمٓصٓ۔ ایک کتاب ہے جو تیری طرف نازل کی گئی ہے، تو تیرے سینے میں اس سے کوئی تنگی نہ ہو، تاکہ تو اس کے ساتھ ڈرائے اور ایمان والوں کے لیے سراسر نصیحت ہے۔اس کے پیچھے چلو جو تمھاری طرف تمھارے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے اور اس کے سوا اور دوستوں کے پیچھے مت چلو۔ بہت کم تم نصیحت قبول کرتے ہو۔‘‘اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿وَ اَنَّ ھٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْہُ وَ لَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہٖ ﴾ [الانعام ۱۵۳]’’ اور یہ کہ بے شک یہی میرا راستہ ہے سیدھا، پس اس پر چلو اور دوسرے راستوں پر نہ چلو کہ وہ تمھیں اس کے راستے سے جدا کر دیں گے۔‘‘اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿کَانَ النَّاسُ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً فَبَعَثَ اللّٰہُ النَّبِیّٖنَ مُبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَ وَ اَنْزَلَ مَعَھُمُ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ لِیَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ فِیْمَا اخْتَلَفُوْا فِیْہِ وَ مَا اخْتَلَفَ فِیْہِ اِلَّا الَّذِیْنَ اُوْتُوْہُ مِنْ بَعْدِ مَا جَآئَ تْھُمُ الْبَیّٖنٰتُ بَغْیًا بَیْنَھُمْ فَھَدَی اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَا اخْتَلَفُوْا فِیْہِ مِنَ الْحَقِّ بِاِذْنِہِ وَ اللّٰہُ یَھْدِیْ مَنْ یَّشَآئُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ﴾ [البقرۃ ۲۱۳]’’لوگ ایک ہی امت تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے نبی بھیجے خوشخبری دینے والے اور ڈرانے والے، اور ان کے ہمراہ حق کے ساتھ کتاب اتاری، تاکہ وہ لوگوں کے درمیان ان باتوں کا فیصلہ کرے جن میں انھوں نے اختلاف کیا تھا اور اس میں اختلاف انھی لوگوں نے کیا جنھیں وہ دی گئی تھی، اس کے بعد کہ ان کے پاس واضح دلیلیں آ چکیں ، آپس کی ضد کی وجہ سے، پھر جو لوگ ایمان لائے اللہ تعالیٰ نے انھیں اپنے حکم سے حق میں سے اس بات کی ہدایت دی جس میں انھوں نے اختلاف کیا تھا اور اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے سیدھے راستے کی طرف ہدایت دیتا ہے۔‘‘دوسری جگہ ارشاد ہوا:﴿یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًا Oاَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ یَزْعُمُوْنَ اَنَّھُمْ اٰمَنُوْابِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَحَاکَمُوْٓا اِلَی الطَّاغُوْتِ وَ قَدْ اُمِرُوْٓا اَنْ یَّکْفُرُوْا بِہٖ وَ یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّضِلَّھُمْ ضَلٰلًا بَعِیْدًاO وَاِذَا قِیْلَ لَہُمْ تَعَالَوْا إِلٰی مَا اَنْزَلَ اللّٰہُ وَاِلَی الرَّسُوْلِ رَاَیْتَ الْمُنَافِقِیْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْکَ صُدُوْدًا﴾ (النساء:۵۹۔۶۱)’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ تعالیٰ کا حکم مانو اور رسول کا حکم مانو اور ان کا بھی جو تم میں سے حکم دینے والے ہیں ، پھر اگر تم کسی چیز میں جھگڑ پڑو تو اسے اللہ تعالیٰ اور رسول کی طرف لوٹاؤ، اگر تم اللہ تعالیٰ اور یوم آخر پر ایمان رکھتے ہو، یہ بہتر ہے اور انجام کے لحاظ سے زیادہ اچھا ہے۔کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو گمان کرتے ہیں کہ وہ اس پر ایمان لے آئے ہیں جو تیری طرف نازل کیا گیا اور جو تجھ سے پہلے نازل کیا گیا۔ چاہتے یہ ہیں کہ آپس کے فیصلے غیراللہ کی طرف لے جائیں ، حالانکہ انھیں حکم دیا گیا ہے کہ اس کا انکار کریں ۔ اور شیطان چاہتا ہے کہ انھیں گمراہ کر دے، بہت دور گمراہ کرنا۔جب انہیں کہا جاتا ہے کہ آؤ اس (کتاب) کی طرف جو اﷲ نے اتاری ہے اور رسول کی طرف ؛ تو آپ دیکھتے ہیں کہ منافقین آپ سے روگردانی اختیار کرتے ہیں ۔‘‘اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿فَاِمَّا یَاْتِیَنَّکُمْ مِّنِّیْ ھُدًی فَمَنِ اتَّبَعَ ھُدَایَ فَلَا یَضِلُّ وَ لَا یَشْقٰی(۱۲۳)وَ مَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِیْ فَاِنَّ لَہٗ مَعِیْشَۃً ضَنْکًا وَّ نَحْشُرُہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ اَعْمٰی(۱۲۴) قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِیْٓ اَعْمٰی وَ قَدْ کُنْتُ بَصِیْرًا(۱۲۵) قَالَ کَذٰلِکَ اَتَتْکَ اٰیٰتُنَا فَنَسِیْتَھَا وَ کَذٰلِکَ الْیَوْمَ تُنْسٰي﴾[طہ ۱۲۳۔۱۲۶]’’فرمایا تم دونوں اکٹھے اس سے اتر جاؤ، تم میں سے بعض بعض کا دشمن ہے، پھر اگر کبھی واقعی تمھارے پاس میری طرف سے کوئی ہدایت آئے تو جو میری ہدایت کے پیچھے چلا تو نہ وہ گمراہ ہوگا اور نہ مصیبت میں پڑے گا۔ اور جس نے میری نصیحت سے منہ پھیرا تو بے شک اس کے لیے تنگ گزران ہے اور ہم اسے قیامت کے دن اندھا کر کے اٹھائیں گے۔کہے گا اے میرے رب! تو نے مجھے اندھا کر کے کیوں اٹھایا؟ حالانکہ میں تو دیکھنے والا تھا۔وہ فرمائے گا اسی طرح تیرے پاس ہماری آیات آئیں تو تو انھیں بھول گیا اور اسی طرح آج تو بھلایا جائے گا۔‘‘حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں :’’جو شخص قرآن کریم پڑھتا اور اس پر عمل پیرا ہوتا ہے اﷲ تعالیٰ اس کا ضامن ہے کہ وہ دنیا میں گمراہ ہوگا نہ آخرت میں اجر و ثواب سے محروم رہے گا، پھر یہ آیت پڑھ کر سنائی:﴿ وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِیْ فَاِنَّ لَہٗ مَعِیْشَۃً ضَنْکًا﴾ (طہ:۱۲۴) ’’جو میرے ذکر سے منہ موڑتا ہے، اس کی معیشت تنگ ہوجاتی ہے۔‘‘ [1][1] تفسیر ابن ابی حاتم(۷؍۲۴۳۸)، تفسیر درمنثور(۵؍۶۰۷)، مستدرک حاکم (۲؍۳۸۱)۔کتاب و سنت میں اس کی مثالیں بہت زیادہ ہیں ۔ اور اس پر سلف امت اور ائمہ کا اتفاق رہا ہے۔