صفات الہی اور واجب الاتباع قاعدہ
امام ابنِ تیمیہؒ[صفات الٰہی اور واجب الاتباع قاعدہ]جسم ، جوہر اور جہت کے الفاظ سے احتراز:بہر کیف اس باب میں یہ دیکھنا واجب ہے کہ جس کسی چیز کا اﷲ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اثبات کیا ہے ہم اس کا اثبات کرتے ہیں اور جس کی نفی کی ہے اس کی نفی کرتے ہیں ۔ہم اثبات و نفی میں لفظاً و معناً نصوص کے پیرو ہیں ۔جو الفاظ و معانی نصوص سے ثابت ہیں ؛ ہم بھی انہیں ثابت مانتے ہیں ؛ اور جن نصوص جن چیزوں کی نفی کرتی ہیں ؛ ہم بھی ان الفاظ و معانی کی نفی کرتے ہیں ۔ اور جہاں تک ان الفاظ کا تعلق ہے جو ان کے متأخرین ایجادکنندہ گان[مبتدعین ] کے یہاں مختلف فیہ ہیں ، مثلاً جسم ، جوہر،تحیز، جہت، ترکیب اور تعین وغیرہ؛ ہم نفیاً و اثباتاً اس وقت تک ان کا اطلاق نہیں کریں گے، جب تک یہ معلوم نہ کر لیں کہ ان کے قائل کا مقصود کیا ہے؟ اگر وہ نفی و اثبات میں صحیح اور موافق نصوص معنی مراد لیتا ہو تو ہم اس معنی کو صحیح قرار دیں گے اور اس من گھڑت اور مجمل لفظ کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ تاہم بوقت ضرورت فریق مقابل کی اصطلاح کے مطابق ہم اس کو استعمال کریں گے بشرطیکہ قرائن کی مدد سے مفہوم صاف سمجھ میں آتا ہو۔مثلاً مخاطب ایسا شخص ہو جو صرف اسی لفظ سے مفہوم کو سمجھ سکتا ہو۔ تاہم ان الفاظ کو غلط معانی پہنانا صریح قسم کی بے راہ روی ہے۔ اگر مخاطب ایسے الفاظ سے حق و باطل دونوں قسم کے معانی مراد لیتا ہو تو اس کے سامنے حق کو باطل سے نکھار دیا جائے،یعنی حق کو ثابت کیا جائے اور باطل کی نفی کی جائے۔اگر دو شخص ایک معنی میں متحد الخیال ہوں اور دلائل میں اختلاف ہو تو اقرب الی الصواب وہ ہے جس کی تائید لغت سے ہوتی ہو۔ جیسا کہ لفظ’’ مرکب‘‘ ان کااختلاف ہے؛کیا اس میں وہ موصوف داخل ہے جو اپنی صفا ت کے ساتھ قائم ہو؟ اور ایسے ہی لفظ ’’جسم ‘‘ کیا لغت میں اس کا مدلول مرکب ہے یا جسد؛ اور اس طرح کے الفاظ۔