Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

لفظ ’’حیز‘‘پر گفتگو :

  امام ابنِ تیمیہؒ

لفظ ’’حیز‘‘پر گفتگو :لفظ حیز سے کبھی معدوم مراد لیا جاتا ہے اور کبھی موجود۔ اورجب یہ کہتے ہیں :ہر جسم ایک ’’حیز ‘‘ میں ہوتا ہے؛ تو کبھی اس سے عدمی امر مراد ہوتا ہے اور کبھی وجودی ۔جہاں تک لفظ المتحیِز کا تعلق ہے تو لغت میں یہ اس ایسی چیز کا نام ہے جو غیر سے جڑی ہو[ جسے کسی چیز نے گھیر رکھا ہو]۔ جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے:

﴿وَ مَنْ یُّوَلِّھِمْ یَوْمَئِذٍ دُبُرَہٗٓ اِلَّا مُتَحَرِّفًا لِّقِتَالٍ اَوْ مُتَحَیِّزًا اِلٰی فِئَۃٍ ﴾ (الانفال :۱۶) ’’اور جو کوئی اس دن ان سے اپنی پیٹھ پھیرے، ماسوائے اس کے جو لڑائی کے لیے پینترا بدلنے والا ہو، یا کسی جماعت کی طرف جگہ لینے والا ہو....۔‘‘متحیز لازماً وہ چیز ہے جس پر کسی وجودی چیزنے احاطہ کر رکھا ہو۔ چونکہ مخلوقات میں سے کوئی چیز ذات باری کا احاطہ نہیں کر سکتی، لہٰذا لغوی اعتبار سے اللہ تعالیٰ کو متحیز نہیں کہہ سکتے۔متکلمین کی اصطلاح میں متحیزعام ہے۔ وہ ہر جسم کو متحیزکہتے ہیں : اور جسم ان کی اصطلاح میں وہ ہے جس کی طرف اشارہ کیا جا سکے۔ بنا بریں ان کے نزدیک زمین و آسمان اور ان کے درمیان جو کچھ ہے وہ متحیز ہے۔ مگر لغت سے اس کی تائید نہیں ہوتی۔ اور کبھی وہ حیّز سے معنی موجود مراد ہیں اورکبھی امر معدوم مراد لیتے ہیں ۔اور وہ حیز کے مسمی اور مکان کے مسمی میں فرق کرتے ہیں ۔وہ کہتے ہیں :مکان سے امر وجودی مرادہے۔اور حیزسے مراد مکان کی تقدیم ہے۔ لہٰذا جملہ اجسام جو کسی موجود چیز میں واقع نہیں ، وہ کسی مکان میں نہیں ،یہ ان کے نزدیک حیزہ ہے۔اور ان میں سے کچھ اس کے متناقض بھی ہیں ۔ وہ کبھی حیز کو معدوم قرار دیتے ہیں اور کبھی موجود۔ امام فخر الدین رازی رحمہ اللہ حیّز کو کبھی موجود قرار دیتے تھے اور کبھی معدوم۔ دوسری جگہ ہم تفصیل سے کلام کر چکے ہیں ۔چنانچہ جو شخص بھی فلسفیوں کی اصطلاح کے مطابق گفتگوکرے اور کہے کہ اللہ تعالیٰ متحیز ہے یعنی موجودات میں سے کسی چیز نے اس کا احاطہ کیا ہوا ہے تو وہ خطا کار ہے۔ کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ اپنی مخلوق سے جدا ہے ۔ اور خالق ومخلوق کے سوا کوئی چیز موجود نہیں ہے۔ تو جب خالق مخلوق سے جدا ہے تو ناممکن ہے کہ خالق مخلوق میں ہو اور یہ بھی ناممکن ہے کہ وہ اس اعتبار سے متحیز ہو۔اگر حیِز[جگہ] سے مراد کوئی معدوم چیز ہے تو معدوم چیز تو کچھ نہیں ہے۔ جبکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ اپنی مخلوق سے جدا ہے۔ جب کسی نے عالم سے اوپر عدم کو حیز کا نام دیا اور کہا: یہ ناممکن ہے کہ وہ عالم کے اوپر ہو تاکہ وہ متحیز نہ ہو، تو یہ باطل معنی ہے کیونکہ وہاں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی موجود نہیں ہے کہ جو اس میں شامل ہو۔ اور یہ بات عقلی اور شرعی طور پر معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق سے جدا ہے۔ جیسا کہ کسی اور جگہ یہ بات تفصیل سے بیان ہوچکی ہے۔انہی باتوں کو سلف صالحین اور ائمہ کرام نے جہمیہ کے خلاف دلیل بنایا تھا۔ جیسا کہ امام احمد، عبد العزیز کنانی[1][1] ۔ان کا مکمل نام عبد العزیز بن یحییٰ بن عبد العزیز بن مسلم کنانی مکی ہے۔ انہیں بدصورت ہونے کی وجہ سے بھوت کا لقب دیا گیا۔ سفیان بن عیینہ سے ان کا سماع ہے۔ آپ امام شافعی کے تلامذہ میں سے ہیں ۔ آپ نے بشر مریسی سے مامون کے سامنے مناظرہ کیا تھا۔ آپ کی ایک کتاب ہے جس کا نام الحیدہ ہے۔ آپ 240ھ میں فوت ہوئے۔ تفصیلی حالات جاننے کے لیے دیکھیے: تہذِیبِ التہذِیب: 6؍363العِبرِ لِلذہبِیِ: 1؍334الأعلامِ 4؍154 ۔، عبد اللہ بن سعید بن کلاب اور حارث محاسبی وغیرہ نے جہمیہ کے خلاف اسے دلیل بنایا تھا۔ انہوں نے یہ واضح کیا کہ اللہ تعالیٰ زمین وآسمان کی پیدائش سے پہلے موجود تھا۔ پھر جب اس نے ان دونوں کو بنایا تو یاوہ خود ان میں داخل ہوگیا ہوگا یا یہ دونوں اس میں داخل ہوگئے ہوں گے۔ دونوں باتیں ہی ناممکن ہیں ۔ لہٰذا متعین ہوگیا کہ وہ ان دونوں سے جدا ہے۔ انہوں نے یہ بات اس لیے تسلیم کی کیونکہ لازم ہے کہ وہ اپنی مخلوق کو چھوڑ دے یا اس کے معاملات میں مداخلت کرے۔نفاۃ ایسے وجود کے موجود ہونے کے مدعی ہیں جو غیر سے جدا ہے اور نہ اس میں شامل ہے۔ عقلی اعتبار سے یہ بالکل ناممکن ہے۔ لیکن ان کا دعوی ہے کہ اس کے ناممکن ہونے کا قول وہمی حکم ہے، عقلی حکم نہیں ۔ پھر ان کا آپس میں تضاد ہے۔ کہتے ہیں : اگر اللہ تعالیٰ عرش سے اوپر ہوتا تو جسم ہوتا۔ کیونکہ لازم ہے کہ جو چیز اس جانب سے ملی ہے، وہ اس جانب سے ملی ہوئی چیز سے ممتاز ہو۔جوابا اہل اثبات ان سے کہتے ہیں کہ یہ بات تو عقلی طورپر لازماً معلوم شدہ ہے کہ کسی عالم سے اوپر کسی موجود کا اثبات ، جوکہ جسم نہیں ہے، عقل کے زیادہ قریب ہے ایسے بذاتِ خود قائم موجود کے جو عالم سے جدا ہے اور نہ اس میں شامل ہے۔ اگر دوسری چیز کا اثبات جائز ہے تو پہلی کا اثبات تو اولی ہے۔اگر تم کہتے ہو کہ دوسری چیز کی نفی باطل وہمی حکم ہے ۔تو تم سے کہا جائے گا کہ پہلی چیز کی نفی زیادہ لائق ہے کہ باطل وہمی حکم ہو۔اگر تم کہتے ہو کہ پہلی چیز کی نفی مقبول عقلی حکم ہے تو دوسری کی نفی زیادہ لائق ہے کہ مقبول عقلی حکم ہو۔ ان امور کی وضاحت دیگر مقامات پر تفصیل سے موجود ہے۔ یہاں صرف تنبیہ مقصود تھی۔