Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

لفظ جہت پر بحث:

  امام ابنِ تیمیہؒ

لفظ جہت پر بحث:اسی طرح لفظ جہت کے بارے میں گفتگو ہے۔ کیونکہ لفظ جہت کے مسمی سے مراد وجودی امر بھی ہوتا ہے مثلا: بلند سیارے اور اسی طرح اس سے معدوم چیز بھی مراد ہوتی ہے مثلا: عالم سے باہر ۔جب دوسرا معنی مراد ہوتو یہ کہنا ممکن ہے کہ ہر جسم ایک جہت میں ہوتا ہے۔ اور جب پہلا معنی مراد ہو تو ہر جسم کا دوسرے جسم میں ہونا ناممکن ہوتا ہے۔تو جو شخص یہ کہتا ہے کہ باری تعالی ایک جہت میں ہے اور جہت سے اس کی مراد ایک وجودی چیز ہوتی ہے ۔ جبکہ اس کے سوا ہر چیز اس کی مخلوق ہے ۔ تو جو شخص اس معنی کے اعتبار سے کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک جہت میں ہے تو وہ غلطی کا مرتکب ہے۔اگر وہ جہت سے معدوم چیز مراد لے یعنی عالم سے اوپر جو کچھ ہے اور کہے کہ اللہ تعالیٰ عالم سے اوپر ہے ۔ تو اس نے بالکل ٹھیک کہا۔ عالم سے اوپر اس کے علاوہ کوئی موجود نہیں ہے۔ تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ موجودات میں سے کسی چیز میں نہیں ہے۔

البتہ جب آپ جہت کی وضاحت معدوم چیز سے کرتے ہیں تو معدوم بذاتِ خود کچھ نہیں ۔ یہ اور اس طرح کے دیگر سوال اور الفاظ کے صحیح اور باطل معنی مراد لیے جانے کی وضاحت سے زیادہ تر شبہات دور ہوجاتے ہیں ۔جب کوئی دیدارِ باری تعالی کا منکر کہتا ہے: اگر دیدار ہوا تو ایک جہت میں ہوگا۔ جبکہ ایسا ہونا ناممکن ہے ، لہٰذا دیدار بھی ناممکن ہے۔تو اس سے کہا جائے گا: اگر جہت سے تمہاری مراد کوئی وجودی چیز ہے تو پہلا مقدمہ غلط ہے۔ اگر جہت سے معدوم چیز مراد ہے تو دوسرا مقدمہ غلط ہے۔ دونوں میں سے جو بھی مراد ہو، ایک مقدمہ ضرور باطل ہوگا۔ اور اس وجہ سے یہ دلیل بھی باطل ہوگی۔وضاحت کچھ یوں ہے کہ اگر جہت سے کوئی وجودی مراد ہے تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ہر مرئی [دیکھی جانے والی چیز] کسی وجودی جہت میں ہو۔ کیونکہ عالم کی سطح جو دراصل اس کی بلندی ہے، کسی وجودی جہت میں نہیں ہے، لیکن اس کے باوجود اس کا دیدار ممکن ہے کیونکہ وہ ایک جسم ہے۔ لہٰذا ان کا یہ قول باطل ثابت ہوگیا کہ ہر مرئی کیلیے کسی وجودی جہت میں ہونا لازمی ہے، اگر جہت سے وجودی چیز مراد ہو۔اگر جہت سے معدوم چیز مراد ہو تو دوسرا مقدمہ غلط ہوجاتا ہے۔کیونکہ جب اس نے یہ کہا: باری تعالی کسی معدوم جہت میں نہیں ہے۔ اور یہ بات معلوم ہے کہ عدم کچھ نہیں ہے تو درحقیقت اس کا قول تھا کہ باری تعالی نہ موجود ہے، نہ بذاتِ خود قائم ہے، کیونکہ موجود صرف وہی ہے۔ اور یہ باطل ہے۔اگر وہ کہے: یہ مستلزم ہے کہ وہ جسم یا متحیز ہو۔ تو بات پلٹ کر پھر جسم اور متحیز کے مسمی تک جائے گی۔ اگر وہ کہے: یہ مستلزم ہے کہ وہ مفرد جواہر یا مادہ اور صورت سے مرکب ہو ۔ یا اس طرح کی دیگر باتیں جو رب تعالی کے لیے ناممکن ہیں ۔ تو اس کا یہ تلازم تسلیم نہیں کیا جائے گا۔اگر وہ کہے: یہ مستلزم ہے کہ رب تعالی مشار الیہ ہے ۔ دعا میں اس کی طرف ہاتھ اٹھائے جاتے ہیں ۔ فرشتے اور روح اس کی طرح چڑھتی ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی طرف چڑھایا گیا۔ اس کے پاس سے فرشتے نازل ہوتے ہیں ۔ اسی سے قرآن نازل ہوتا ہے۔ اسی طرح کے دیگر لوازم جن کے بارے میں کتاب وسنت نے بتایا ہے اور جو ان کے ہم معنی ہیں ۔اسے کہا جائے گا: ہم ان لوازم کی نفی کو تسلیم نہیں کرتے۔ اگر وہ کہے: یہ لوازم جس چیز کو مستلزم ہیں ، وہ جسم ہے۔ تو اسے کہا جائے گا: اگر تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ لغوی اور شرعی اعتبار سے اسے جسم کہا جاتا ہے تو یہ باطل ہے۔ اگر تمہاری یہ مراد ہے کہ وہ ایسا جسم ہے جو مادہ اور صورت یا مفرد جواہر سے مرکب ہے تو عقلی اعتبار سے یہ بھی ناممکن ہے۔کیونکہ جو چیزیں عقلا کے ہاں اتفاقی طور پر جسم کہلاتی ہیں ، مثلا: پتھر، ہم یہ تسلیم نہیں کرتے کہ وہ اس اعتبار سے مرکب ہیں ، جیسا کہ اپنی جگہ تفصیل سے بحث آچکی ہے، تو دیگر چیزوں کے بارے میں کیا خیال ہے؟ اصطلاحی جسم کے اس اور اس سے بننے کے بارے میں عقلی بحث کی معرفت سے یہ بات مکمل طور پر سمجھ آجاتی ہے۔ کسی اور جگہ پر مکمل تفصیل سے یہ بات بیان کی جاچکی ہے اور یہ واضح کیا چکا ہے کہ اِن اور ان کا قول باطل اور قطعی عقلی دلائل کے خلاف ہے۔ لیکن اس امامی شخص نے یہاں کوئی دلیل ذکر نہیں کی جس سے بحث اختتام تک پہنچتی۔ اس نے اتنی ہی بات کی ہے جو اس مقام کے لائق تھی۔ اس نے جو باطل مقدمات ذکر کیے تھے، جو بھی انہیں ثابت کرے گا، اس کا توڑ اور ابطال انہیں مقدمات سے شروع ہوجائے گا۔ ہر مقام کیلیے مخصوص باتیں ہوتی ہیں ۔ان امور پر باتیں اپنی جگہ پر تفصیل سے ذکر ہوچکی ہیں اور یہ واضح کردیا گیا ہے کہ منکرین جن صفات کی نفی کرتے ہیں ، وہ کتاب وسنت سے ثابت شدہ ہیں ، مثلا: اللہ تعالیٰ کا اپنی مخلوق سے بلند ہونا وغیرہ، اور جن باتوں کو وہ ذکر کرتے ہیں ، کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا تذکرہ نہیں کیا اور نہ ان جیسی بات کسی رسول نے کی ، نہ صحابہ اور تابعین نے، اور نہ ہی اس پر کوئی عقلی دلیل موجود ہے۔ بلکہ صریح عقلی دلائل صحیح نقلی دلائل کے موافق ہیں ۔ لیکن یہ لوگ اپنے گھڑے ہوئے متشابہ الفاظ اور عقلی مفاہیم، جن میں سے حق اور باطل کے درمیان یہ تمیز نہ کرسکے، کی بنا پر گمراہ ہوگئے ۔تمام اہل بدعت؛جیسے خوارج، شیعہ، مرجئہ اور قدریہ کو انبیا کی نصوص میں شبہ پڑ گیا، جبکہ جہمیہ جیسے بدعتیوں کے پاس تو کوئی بھی نقلی دلیل موجود نہیں ہے۔ اسی وجہ سے یہ اسلام میں پیدائش کے اعتبار سے آخری بدعت ہے۔ جب یہ پیدا ہوئی تو سلف اور ائمہ نے اس کے قائلین کی تکفیر کے لیے آواز اٹھائی کیونکہ وہ ان کی بات سمجھ چکے تھے کہ یہ خالق کو معطل قرار دینا چاہتے ہیں ۔ اسی وجہ سے ان کے محققین معطلہ کے پیشرو فرعون جیسی بات کرنے لگے۔ بلکہ وہ اس کا دفاع کرتے ہیں اور اس کی تعظیم کرتے ہیں ۔ اور یہ معطلہ نفی مفصل کرتے ہیں ۔ اور اثبات مجمل اشیا کا کرتے ہیں جس میں دو متضاد باتوں کو جمع کرتے ہیں ۔ جبکہ رسول اثبات مفصل کرتے تھے اور نفی مجمل کرتے تھے۔ وہ اللہ تعالیٰ کی صفات کا اثبات تفصیلی انداز سے کرتے تھے اور تمثیل کی نفی کرتے تھے۔یہ بات معلوم ہے کہ تورات ان صفات کے اثبات سے بھری ہوئی ہیں جسے نفاۃ تجسیم کہتے ہیں ۔ حالانکہ ان چیزوں کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ نے کبھی بھی یہود پر طعنہ زنی نہیں کی اور نہ انہیں کہا کہ تم مجسِمہ ہو۔ بلکہ یہودی علما جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کوئی صفت بیان کرتے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر اعتراض نہیں کرتے تھے بلکہ ایسی بات کرتے تھے جو ان کی تصدیق کرتی تھی۔ مثال کے طور پر وہ حدیث یاد کیجیے جس میں ایک یہودی عالم نے اللہ سبحانہ وتعالیٰٰ کے زمین وآسمان کو تھامنے کی بات کی۔ فرمان الٰہی میں ہے:﴿وَمَا قَدَرُوا اللّٰہَ حَقَّ قَدْرِہٖ ....﴾(الزمر67) ’’اور انھوں نے اللہ تعالیٰ کی قدر نہیں کی جو اس کی قدر کا حق ہے....‘‘یہ حدیث صحاح میں موجود ہے اور ابن عمر اور ابو ہریرہ وغیرہ دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم سے بھی مروی ہے۔ [1][1] امام بخاری روایت کرتے ہیں : 6؍126 ِکتاب التفسِیرِ، الزمرِ] اور امام مسلم بھی: 4؍2147 ؛ أول کِتابِ صِفۃِ القِیامۃِ والجنۃِ والنارِ۔ عنِ ابنِ مسعود رضی اللّٰہ عنہ قال: جاء حبر الأحبارِ إِلی رسولِ اللہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقال: یا محمد، ِإنا نجِد أن اللہ تعالیٰ یجعل السماواتِ علی ِإصبع۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : علما یہود میں سے ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا : اے محمد! ہم تورات میں پاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں کو ایک انگلی پر رکھ لے گا اس طرح زمین کو ایک انگلی پر ، درختوں کو ایک انگلی پر ، پانی اور مٹی کو ایک انگلی پر اور تمام مخلوقات کو ایک انگلی پر ، پھر فرمائے گا: میں ہی بادشاہ ہوں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس پر ہنس دیئے اور آپ کے سامنے کے دانت دکھائی دینے لگے ۔ آپ کا یہ ہنسنا اس یہودی عالم کی تصدیق میں تھا ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت کی: ﴿ وَمَا قَدَرُوا اللّٰہَ حَقَّ قَدْرِہٖ وَالْاَرْضُ جَمِیْعًا قَبْضَتُہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَالسَّمٰوٰتُ مَطْوِیَّاتٌ بِیَمِیْنِہٖ سُبْحٰنَہٗ وَتَعٰلٰی عَمَّا یُشْرِکُوْنَ﴾ (الزمر67) ’’اور انھوں نے اللہ تعالیٰ کی قدر نہیں کی جو اس کی قدر کا حق ہے، حالانکہ زمین ساری قیامت کے دن اس کی مٹھی میں ہو گی اور آسمان اس کے دائیں ہاتھ میں لپیٹے ہو ئے ہوں گے۔ وہ پاک ہے اور بہت بلند ہے اس سے جو وہ شریک بنا رہے ہیں ۔‘‘اگر نفی کرنا ہی حق تھا تو رسولوں نے نہ اس کی خبر دی اور نہ اسے لوگوں کیلیے بطور عقیدہ واجب قرار دیا۔ تو جو اس کا عقیدہ رکھتا ہے اور اسے واجب قرار دیتا ہے، تو دین اسلام کی رو سے سبھی جانتے ہیں کہ اس کا دین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کے مخالف ہے۔