Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

فتنہ خلق قرآن اور حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا دور ابتلاء:

  امام ابنِ تیمیہؒ

فتنہ خلق قرآن اور حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا دور ابتلاء:حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کو امام اہل سنت اور امام الصابرین قرار دینے کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ آپ کسی مسئلہ میں باقی ائمہ سے منفرد تھے یا آپ نے بذات خود کوئی قول گھڑ لیا تھا ۔بخلاف ازیں اس کی وجہ یہ تھی کہ سنت آپ سے پہلے موجود تھی اور لوگ اس سے آشنا چلے آتے تھے۔ آپ نے صرف یہ کیا کہ سنت کی نشرو اشاعت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، ترک سنت پر مجبور کیا گیا تو اس ابتلاء میں صبر و استقامت کا دامن تھامے رکھا۔ باقی ائمہ دور ابتلاء سے قبل وفات پا چکے تھے۔ جب تیسری صدی ہجری کے اوائل میں خلیفہ مامون اوراسکے بھائی معتصم اور واثق باﷲ کے عہد خلافت میں صفات الٰہی کا انکار کرنے والے جہمیہ نے انکار صفات کا بیڑا اٹھایا.... جسے متاخرین شیعہ نے بھی تسلیم کر لیا تھا.... بہت سے امراء و حکام بھی اس ضمن میں جہمیہ کے ہم نوا بن گئے، تو اہل سنت نے اس نظریہ کو تسلیم کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ارباب اقتدار نے بعض علماء کو قتل کی دھمکی دی۔ بعض کو قید و بند کی صعوبتوں میں ڈالا اور ہرطرح سے ڈرایا دھمکایا اور لالچ دلا کر اس نظریہ سے باز رکھنا چاہا۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اپنے عقیدہ پر ڈٹے رہے جس کے نتیجہ میں انہیں عرصہ دراز تک محبوس رکھا گیا۔آخر مناظرہ کی ٹھانی اور اس مقصد کیلئے معتزلی علماء کو بلایا مگر سب نے منہ کی کھائی۔ امام اہل سنت کے سامنے لاجواب ہوگئے اور آپ کو دلائل کے ساتھ قائل نہ کر سکے۔ دوسری جانب امام موصوف نے ان کی ایک ایک غلطی کی قلعی کھول کر رکھ دی، اور ان کے دلائل کی دھجیاں فضائے آسمانی میں بکھیر دیں ۔ مخالفین نے مناظرہ کے لیے بصرہ اور دیگر اسلامی بلاد و امصار کے بڑے بڑے ماہرین علم الکلام کو بلایا تھا‘ جن میں حسین نجار کے تلمیذ ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ برغوث کا نام اور اس کے ہمنواء خاص طور سے قابل ذکر ہیں ۔[1][1] فالأشعرِی یذکر آراہ المقالاتِ 1؍316) ومِنہا نہ ان یزعم ن الأشیاء المتولِد فِعل اللہ تعالیٰ بِِإیجابِ الطبعِ، ونہ ان یقول فِی التوحِیدِ بِقولِ المعتزِلِ ِلا فِی بابِ الِرادِ والجودِ، ونہ ان یخالِفہم فِی القدرِ ویقول بِالِرجاِ، ونہ ان یقول ِن اللہ تعالیٰ لم یزل متلِما بِمعن نہ لم یزل غیر عاجِز عنِ اللامِ ولِن لام اللہِ محدث ومخلوق. وانظر عن آرائِہِ ومذہبِہِ یضا: المقالاتِ 2؍198، 207 ۔ 208 ; الملل والنحل 1؍81 ۔ 82 ; الفرق بین الفِرقِ، ص 126 ۔ 127 ; التبصِیر فِی الدِینِ ص 62 ; الفِصل لِابنِ حزم 3؍33 ; الِانتِصار لِلخیاطِ، ص 98 ; دائِرۃ المعارِفِ الإِسلامِیِ مادۃ البرغوثِیِ المنی والمل لِابنِ المرتض1948.۔یہ مناظرہ صرف فرقہ معتزلہ ہی کے خلاف نہ تھا، بلکہ جہمیہ کے سب فرقے مثلاً معتزلہ، نجاریہ، ضراریہ اور اسی طرح مرجیۂ کے سب فرقے امام کے خلاف امنڈ آئے تھے۔ جہمیہ و معتزلہ کے مابین نسبت یہ ہے کہ ہر جہمی کا معتزلی ہونا ضروری نہیں ، اور ہر معتزلی، جہمی ضرور ہوتا ہے۔ البتہ جہم کا قدم نفی صفات میں معتزلہ سے آگے ہے اس لیے کہ وہ اسماء و صفات الٰہی دونوں کی نفی کرتا ہے۔ بخلاف ازیں معتزلہ صرف صفات کے منکر ہیں ۔ بشر مریسی کبار جہمیہ میں سے تھا اور مرجیہ کا ہم نوا تھا، وہ معتزلی نہ تھا۔ [حامی سنت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے مبتلائے مصائب ہونے کی وجہ سے مذکورۃالصدرمسائل میں بڑے زور کے معرکے بپا ہونے لگے۔ انہی حوادث میں مبتلا ہونے کی بنا پر امام احمد رحمہ اللہ اور ان کے اتباع کرام بارگاہ ربانی میں بڑے اونچے مرتبہ پر فائز ہوئے]۔اور جب خلیفہ معتصم کے سامنے ان لوگوں کا معاملہ ظاہر ہوا اور اس نے ان لوگوں پر سے اس سزا کو ختم کر دینا چاہا، حتیٰ کہ ابن ابی داؤد[1] [1] یہ ابو عبداللہ احمد بن ابی داؤد بن جریر بن مالک الایادی قاضی ہے۔ ۱۶۰ھ میں پیدا ہوا۔ ان کا والد انہیں بچپن میں ہی قنسرین سے دمشق لے آیا۔ وہاں واصل بن عطاء کے ساتھی ہیاج بن علاسلمی کی صحبت میں رہے اور اعتزال کو اختیار کر لیا۔ مامون، معتصم اور واثق سے جڑا رہا۔ ان کا مقرب تھا۔ یہی وہ شخص تھا جس نے خلیفہ کو اس بات پت تیار کیا تھا کہ وہ لوگوں کو قرآن کے مخلوق ہونے کا عقیدہ اپنانے پر تیار کرے اور جو نہ مانے اسے سزا دے۔ ابو عبداللہ نے ۲۴۰ھ میں بغداد میں مفلوج ہو کر وفات پائی تھی۔ دیکھیں : وفیات الاعیان: ۱؍ ۶۳ ۔ ۷۵۔ نے اسے پرزور مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر تو نے انہیں سزا نہ دی توخلافت کی ناموس جاتی رہے گی ۔ چنانچہ خلیفہ نے امام احمد رحمہ اللہ کو سزا دی جس پر خاص اور عام سب میں بے حد رسوائی ہوئی۔ جس پر بالآخر خلیفہ نے ان لوگوں کو چھوڑ دیا۔ پھر یہ امور مسائلِ صفات میں اور اس بارے نصوص و دلائل اور مشبّہ و نفاۃ دونوں جانب کے فرقوں کے پیش کردہ شبہات کی بابت بحث و تمحیص کا سبب بن گئے، اور لوگوں نے اس بارے متعدد کتب بھی لکھیں ۔امام احمد وغیرہ علمائے سنت و حدیث نے ہمیشہ سے روافض، خوارج، قددیہ، جہمیہ، مرجئہ وغیرہ گمراہ فرقوں سے لوگوں کو آگاہ کیے رکھا ہے۔ البتہ آزمائش کی وجہ سے بے حد کلام ہوا اور اللہ تعالیٰ نے اس امام کے رتبے کو بلند کیا اور نصوص و آثار پر اپنی وسعت معلومات، دسترس اور گرفت کی وجہ سے اور ان کے مخفی اسرار کو آشکارا کرنے کی وجہ سے آئمہ سنت کے امام اور علم کی ایک نشانی ٹھہرے۔ نا اس لیے کہ انہوں نے کوئی نئی بات کی یا کسی بدعت کی نیو ڈالی تھی۔اس لیے مغرب کے بعض شیوخ کہتے ہیں : مذہب تو امام احمد اور امام شافعی ہے۔ لیکن غلبہ امام احمد کو ملا۔ یعنی اصول میں تو سب آئمہ کا مذہب ایک ہے۔ البتہ امام احمد اور ان کے اصحاب کی تخصیص یہ ہے کہ انہوں نے امامت اور اعتزال کے مسائل میں گفتگو کی تھی۔ اسی طرح انہوں نے حروریہ کے ساتھ بھی متعدد مسائل میں کلام کیا تھا۔ بلکہ موصوف نے ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت میں بھی بھرپور کلام کیا اور یہود و نصاریٰ پر زبردست ردّکیا۔ اور بتلایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دی خبروں کی تصدیق اور آپ کے اوامر کی تعمیل لازم ہے، اور یہ تعمیل سب بندوں کو شامل ہے۔ چنانچہ امام احمد رحمہ اللہ سب سے زیادہ سعادت مند، اللہ تعالیٰ کے سب سے زیادہ طاقت گزار اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے زیادہ تابع فرمان تھے۔اگر فرض کیا کہ حنبلیہ میں یا اہل سنت کی دوسری جماعتوں میں باطل اقوال والے بھی ہیں تو ان کے باطل اقوال کی وجہ سے اہل سنت والجماعت کا مذہب باطل نہ ہوگا۔ بلکہ وہ باطل قول اسی پر رد ہوگا، اور سنت کی دلائل کے ساتھ مدد کی جائے گی۔روافض نے اپنی ڈفلی الگ سے بجانا شروع کی، ہر زاویہ نگاہ کے مسلمانوں کو تنقید شدید کا نشانہ بنایا اور کہنے لگے کہ وہ اصول و فروع دونوں کو ترک کر چکے ہیں ۔اور صرف شیعہ ہی ایک ایسا فرقہ ہے جو جرح و قدح سے بالا ہے۔ حالانکہ کرۂ ارضی کے تمام سلیم العقل مسلمان اس امر میں اتفاق رائے رکھتے ہیں کہ اہل قبلہ کے تمام فرقوں میں شیعہ کا گروہ جہالت و ضلالت اور کذب و بدعت میں سب پر فوقیت رکھتا ہے۔ یہ گروہ ہر شر سے قریب تر اور ہر خیر سے بعید تر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امام ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ نے جب مختلف فرقوں کے عقائد و افکار پر : ’’ مقالات الاسلامیین‘‘ کے نام سے ایک کتاب تصنیف کی تو سب سے پہلے شیعہ کے عقائد کا ذکر کیا اور اسے اہل سنت والحدیث کے افکار و آراء پر ختم کیا ۔اور ساتھ ہی یہ بھی تحریر کیا کہ وہ خود بھی اہل سنت ومحدثین کے عقائد رکھتے ہیں اور اسی مسلک پر گامزن ہیں۔مذکورۃ الصدربیانات اس حقیقت کو اجاگر کرتے ہیں کہ شیعہ مصنف کا اہل الآثار [1][1] اہل الآثار وہ ہیں جو خاتم الرسل صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول احادیث و آثار کی پیروی کرتے ہیں ، اس لیے کہ آپ نیکی کی تعلیم دینے اوراﷲ کی طرف سے ہدایت اور دین حق دے کر مبعوث کیے گئے تھے۔ اہل الاثبات وہ ہیں جو اﷲ و رسول کے ثابت کردہ غیبی امور کا اثبات کرتے ہیں ، صفات الٰہی بھی غیبی امور میں سے ہیں ، اور وہ ان پر ﴿لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ﴾  کی شرط کے مطابق ایمان رکھتے ہیں ، جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ وہ صفات کی تاویل کرتے ہیں نہ ان میں تبدیلی کا ارتکاب کرتے ہیں ، اس لیے کہ مخلوقات میں غیبی امور کا علم رکھنے والا اﷲ و رسول سے زیادہ اور کوئی نہیں ۔ والاثبات کو مشبہہ کے نام سے موسوم کرنا بعینہ اسی طرح ہے جیسے شیعہ خلفاء ثلاثہ رضی اللہ عنہم کی خلافت کے قائل کو اس لیے ناصبی کہتے ہیں کہ ان کی رائے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کا عقیدہ اسی صورت میں درست تسلیم کیا جا سکتا ہے۔ جب خلفاء ثلاثہ رضی اللہ عنہم سے براء ت کے اظہار کیا جائے۔ حالانکہ ناصبی دراصل وہ ہے جو اہل بیت سے بغض و عناد رکھتا ہو۔ اور ان لوگوں سے براء ت اختیار کی جائے گی، اور جو بھی ان سے بری نہ ہوگا اسے ناصبی کہیں گے۔ چاسی طرح مشبہہ وہ ہیں جو صفات الٰہی کو بندوں کی صفات کی طرح خیال کرتے ہیں ۔ جیسا کہ جب ان لوگوں نے یہ عقیدہ اپنا لیا کہ دو قدم متماثل ہوتے ہیں اور دو جسم متماثل ہوتے ہیں ۔ وغیرہ تو وہ اللہ تعالیٰ کی صفات کو ثابت ماننے والوں کو مشبّہ کہنے لگے۔ سو اس قول کے قائل کو کہا جائے گا کہ: اگر تو ناصبیت اور تشبیہ سے تیری مراد حضرت علی اور اہلِ بیت کا بغض ہے اور رب تعالیٰ کی صفات کو بندے کی صفات جیسا قرار دینا ہے۔ تب بھی اہل سنت واجماعت نہ تو ناصبی ہیں اور نہ مشبّہ ہیں ، اور اگر اس سے تیری مراد یہ ہے کہ خلفاء سے محبت رکھتے ہیں اور رب تعالیٰ کی صفات کا اثبات کرتے ہیں تب پھر تو ان کا جو چاہے نام رکھ لے۔ یہ تو بس کچھ نام ہیں جو تم نے اور تمہارے آباء و اجداد نے رکھ لیے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو کوئی سند نہیں اتاری۔ مدح و ذم اسماء سے متعلق جب ہوتے ہی جب ان کی شرح میں کوئی اصل ہو۔ جیسے مومن اور کافر، فاجر اور فاسق اور جاہل اور عالم کے الفاظ۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ جو کسی کی مدح یا مذمت کرنا چاہتا ہے، اس پر لازم ہے کہ ممدوح و مذموم کا ان اسماء و القاب میں داخل ہونا ثابت کرے جن پر مدح و ذم کا انحصار ہے۔ جب وہ اسم و لقب ہی شرعاً ثابت نہ ہو اور ممدوح و مذموم کا اس میں داخل ہونا بھی متنازع ہو تو مدح و ذم دونوں باطل ٹھہرے۔ اور یہ ایسا کلام ہے جس پر صرف وہی انسان اعتماد کرسکتا ہے جس کو یہ پتہ نہ ہو وہ کیا کہہ رہا ہے۔ [ کیونکہ اس نام والوں میں کتاب و سنت کی رو سے متعدد مذموم باتیں داخل ہو جاتی ہیں ۔ جیسے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر جھوٹ بولنا، رسول اللہ تعالیٰ کے لائے ہوئے حق کو جھٹلانا، اولیاء اللہ تعالیٰ سے عداوت رکھنا، اور یہود و نصاریٰ اور مشرکین سے دوستی رکھنا وغیرہ]۔اور یہ ممکن ہی نہیں کہ اہل سنت والجماعت کو کتاب و سنت کی رو سے کوئی مذموم لفظ شامل ہو۔ جیسے ان رافضہ کو شامل ہے۔ البتہ بعض کی بابت مذموم لفظ آتا بھی ہے۔ لیکن اس سے سب اہل سنت کی مذمت لازم نہیں آتی۔ جیسے مسلمانوں میں سے کوئی اگر قابلِ مذمت کوئی کام کرے تو اس سے پورے اسلام کی اور واجباتِ اسلام پر قائم مسلمانوں کی مذمت لازم نہیں آتی۔ [1][1] اہل بیت کے ساتھ عظیم ترین بغض یہ ہے کہ ان پر جھوٹ کا طوفان باندھا جائے اور دین میں ایک ایسے فرقہ کی طرح ڈالی جائے جو ان کے جد امجد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت سے ٹکراتا ہو۔ اور پھر اس سے بڑھ کر ظلم و بہتان اور کیا ہوگا کہ امت محمدی کے ان چیدہ و برگزیدہ اصحاب کو مورد طعن بنایا جائے، جوحضرت علی رضی اللہ عنہ کے بھائی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک عزت و وقعت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ اہل بیت کے ساتھ یہی وہ بدترین بغض ہے شیعہ جس کا عرصہ دراز سے ارتکاب کرتے چلے آرہے ہیں ۔ اور جو نہی زمانہ گزرتا ہے، ان کا یہ بغض بڑھتا ہی جاتا ہے۔ جیساکہ آپ اس کتاب میں آگے چل کر ملاحظہ فرمائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ نہج البلاغۃ کے اوراق مذمت صحابہ رضی اللہ عنہم سے پر ہیں اور کوئی شیعہ عالم ایسا نہیں جس نے صحابہ کی مذمت نہ کی ہو اور ان سے براء ت کا اظہار نہ کیا ہو۔یہ امر پیش نظر رہے کہ کتاب و سنت میں ناصبہ، حشویہ، مشبہہ اور رافضہ کے الفاظ مذکور نہیں جب ہم رافضہ کا لفظ بولتے ہیں تو ہماری مراد اس سے شیعہ فرقہ کے لوگ ہوتے ہیں ۔ ان کے سب فرقے اس میں داخل ہیں گویا رافضہ کا لفظ جہلاء اور محروم صدق و یقین لوگوں کے لیے علم و لقب کی حیثیت رکھتا ہے۔چوتھی وجہ: یہ کہا جائیگا: یہ قول کہ اللہ تعالیٰ جسم ہے یا نہیں ، اس بات میں اہل کلام و نظر نے اختلاف کیا ہے اور یہ بات مسائلِ عقلیہ میں سے ہے، اور لوگوں کے اس بارے تین اقوال ہیں ، جیسا کہ گزرا: (۱) نفی اور اثبات کا (۲) توقف کا (۳) تفصیل کا، اور یہی وہ درست قول ہے جس پر اسلاف اور آئمہ قائم ہیں ۔اسی لیے جب ابو عیسیٰ برغوث نے امام احمدرحمہ اللہ کے ساتھ اپنے مناظرے میں انہیں یہ کہا اور اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ جب تم قرآن کو غیر مخلوق کہو گے تو اللہ تعالیٰ کا جسم ہونا لازم آئے گا۔ کیونکہ قرآن صفت اور عرض ہے اور وہ فعل کے ساتھ ہی قائم ہوگا، اور صفات، اعراض اور افعالی، اجسام کے ساتھ ہی قائم ہوتے ہیں ۔ امام احمد رحمہ اللہ نے اس بات کا یہ جواب دیا کہ ہم یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ احد وصمد ہے۔ نہ کسی کا باپ ہے اور نہ اولاد، اور نہ کوئی اس کا ہم سر ہے، اور اس کلام سے کلام والے کا مقصود معلوم نہیں ہوتا، اور ہم اسے مطلق نہیں کہتے۔ نہ نفی میں اور نہ اثبات میں ۔ رہا شریعت کی جہت سے تو اللہ، رسول اور ائمہ اسلاف نے یہ کلام نہیں کیا، نہ نفی میں اور نہ اثبات میں ۔ چنانچہ نہ تو انہوں نے یہ کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ جسم ہے اور نہ یہ کہا ہے کہ وہ جسم نہیں ہے۔لہٰذا جب کہنے والے نے حدوثِ اجسام سے حدوثِ عالم کا قول کیا اور اس کلام میں داخل ہو گیا تو اسلاف نے کلام اور اہلِ کلام کی مذمت بیان کی۔ حتیٰ کہ امام ابو یوسف رحمہ اللہ نے تو یہ تک کہہ دیا کہ جس نے دین کو کلام کے ذریعے حاصل کیا وہ زندیق ہو جائے گا۔ [1][1] یہ عبارت علامہ ہروی اصفاوی کی کتاب ذم الکلام میں وارد ہے۔ جسے سیوطی نے ان سے ’’صون المنطق والکلام عن فن المنطق والکلام، ص: ۶‘‘ میں نقل کیا ہے۔ امام شافعی کا قول ہے کہ اہلِ کلام کے بارے میں میرا حکم یہ ہے کہ انہیں کوڑے اور جوتے مارے جائیں ، اور انہوں نے گلی محلوں میں رسواء کیا جائے۔ایک قول یہ ہے کہ یہ کتاب و سنت کو چھوڑ کر کلام کی طرف متوجہ ہونے والوں کی سزا ہے۔ [2] [2] تلبیس ابلیس لابن الجوزی، ص: ۸۲ ۔ ۸۳۔امام شافعی فرماتے ہیں : مجھے اہلِ کلام کی ایسی ایسی باتوں کا علم ہوا ہے میرا نہیں گمان کہ کوئی مسلمان ان باتوں کا قائل ہو، اور بندے کا شرک کے سوا رب تعالیٰ کی جملہ نافرمانیوں میں مبتلا ہونا اس کے کلام میں مبتلا ہونے سے پھر بہتر ہے۔[3][3] جامع بیان العلم وفضلہ: ۲؍ ۹۵۔ لابن عبدالبر۔ان لوگوں کی مذمت میں متعدد کتابیں لکھی گئی ہیں ۔ جیسے ابو عبدالرحمن السلمی [4] [4] یہ ابو عبدالرحمن محمد بن حسین بن محمد السلمی النیشاپوری ہیں ۔ نے اور شیخ الاسلام انصاری[5][5] یہ ابو اسماعیل عبداللہ بن محمد بن علی الہروی انصاری ہیں ۔ وغیرہ نے کتابیں لکھی ہیں ۔ رہا عقل کی جہت سے تو یہ ایک مجمل لفظ ہے جس میں اس کی نفی کرنے والے ایسے معانی کو داخل ہیں جن کا اللہ تعالیٰ کے لیے ثابت کرنا واجب ہوتا ہے، اور اس کے اثبات کرنے میں اس میں ایسے معانی کو داخل کرتے ہیں جن سے رب تعالیٰ کی ذات بری ہے تو جب اس لفظ سے متکلم کی مراد ہی معلوم نہیں تو یہ اس کی نفی ہوگی اور نہ اثبات، اور جب اس کی مراد کی تفسیر کی جائے گی تو شرع کے موافق حق کو تو قبول کیا جائے گا، البتہ باطل تعبیر کو رد کر دیا جائے گا۔

اور ایسے لفظ کا جو شرع میں نہیں آیا۔ مخاطب کو اس کی لغت میں سمجھانے کے لیے تکلم کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔ جبکہ اس کا معنی ظاہر اور صحیح ہو۔ کیونکہ تفہیم کی غرض سے قرآن و حدیث کا دوسری زبانوں میں ترجمہ کرنا جائز ہے۔ اور بہت سے لوگ ایسی متعین عبارات کے عادی ہوتے ہیں کہ اگر انہیں ان عبارات سے مخاطب نہ کیا جائے تو نہ تو وہ سمجھتے ہیں اور نہ ان کے سامنے ان عبارات کا صحت و فساد ظاہر ہوتا ہے، اور بسا اوقات مخاطب بات کو سمجھتا بھی نہیں ۔فلسفہ و کلام میں لگنے والے اکثر لوگوں کا یہی حال ہوتا ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ جب ان کے سامنے نصوص شرعیہ صحیحہ کے معانی کو ذکر کیا جاتا ہے تو وہ ان کو قبول نہیں کرتے۔ کیونکہ ان کے گمان میں وہ معانی ان کی عبارات میں نہیں ہوتے۔ لیکن جب انہی معانی کو ان کی لغت میں ترجمہ کر کے ذکر کیا جائے تو وہ مان لیتے ہیں ۔ جیسے ترکی، بربری، رومی، فارسی کہ جب ان سے قرآن کے ذریعے خطاب کیا جاتا ہے اور اس کی تفسیر بیان کی جاتی ہے تو اس کو نہیں سمجھتے۔ لیکن ان کی زبان میں ترجمہ کیے جانے پر خوب سمجھ لتے ہیں ، اور خوب مردود اور فرحاں ہوتے ہیں اور اپنے باطل اقوال سے رجوع کر لیتے ہیں ۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے سب سے اکمل، سب سے عمدہ اور سب سے صحیح ہوتے ہیں ۔ البتہ اس کے لیے دونوں طرف کی کامل معرفت ضروری ہے۔ جیسے ایک ذہین ترجمان وہ دونوں لغتوں کا ماہر ہوتا ہے۔اور یہ امامی اس باب میں اپنے آئمہ جیسے ہشام بن حکم وغیرہ سے مناظرہ کرتا ہے اور وہ کسی بھی طرح انہیں لا جواب نہیں کر پاتا۔ جیسا کہ وہ کسی بھی طرح خوارج کو لا جواب نہیں کر پاتا۔ اگرچہ ان خوارج اور مجسمہ کے اقوال باطل ہی ہوں کہ جن کو صرف اہلِ سنت ہی باطل قرار دے سکتے ہیں ۔ہم اس کی ایک مثال ذکر کرتے ہیں : اہل سنت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اس دنیا میں رب تعالیٰ کی رؤیت ممکن نہیں ۔ البتہ آخرت میں ممکن ہے۔ البتہ اختلاف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رویت بادی تعالیٰ میں ہے۔ البتہ اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ اس دنیا میں کوئی مطلق رب تعالیٰ کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتا۔ایک جماعت کا یہ قول ہے کہ رب تعالیٰ کی دنیا میں رؤیت ممکن ہے۔ اہلِ سنت کتاب و سنت سے اس کا رد کرتے ہیں ۔ جیسے موسیٰ علیہ السلام اس دنیا میں رب تعالیٰ کو نہ دیکھ سکے۔ تو جو موسیٰ علیہ السلام سے کم درجہ کا ہے وہ بدرجہ اولیٰ نہ دیکھ سکے گا۔ اسی طرح اہلِ سنت کی ایک دلیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بھی ہے:’’جان لو کہ تم میں سے کوئی اپنے رب کو نہ دیکھ سکے گا، یہاں تک کہ اس کی موت آ جائے گی۔‘‘(صحیح مسلم) یہ حدیث متعدد طرق سے مروی ہے۔ [ اور اس پر مفصل کلام بھی گزر چکا ہے]۔
اسی طرح اہلِ سنت نے دلائلِ عقلیہ سے بھی اس کا رد کیا ہے۔ جیسے یہ بات کہ اس دنیا میں یہ آنکھیں رب تعالیٰ کو دیکھنے سے عاجز ہیں ۔اب ان لوگوں کی اہلِ سنت پر نہ کوئی عقلی دلیل ہے اور نہ شرعی۔ مثلاً ان کا رؤیت بادی کی نفی میں یہ کہنا کہ اگر یہ ممکن ہوتا تو کسی جہت میں ہوتا، اور جہت جسم کو لازم ہے، اور یہ دوسرے کہتے ہیں کہ دنیا میں رؤیت ممکن ہے۔ بلکہ وہ کہتے ہیں کہ یہ رؤیت ایک جہت میں ہوگی اور اسی بناء پر اللہ تعالیٰ ایک جسم ہے۔اور یہ لوگ جہت اور جسم کی نفی میں کوئی دلیل پکڑتے ہیں تو پکڑتے ہیں کہ اس کے ساتھ صفات قائم نہیں ہیں ، اور ان کا کہنا ہے کہ اس کے ساتھ صفات قائم ہیں ، اور اگر یہ ان کے ساتھ استدلال پکڑیں تو ان کی دلیل کا منتہی یہ ہو کہ صفات یہ اعراض ہیں ، اور جس کے ساتھ اعراض قائم ہوں وہ حادث ہوتا ہے، اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس کے ساتھ اعراض قائم ہیں اور ان کے نزدیک اعراض بھی قدیم ہیں ۔اور اگر وہ یہ کہتے ہیں کہ: جسم حرکت یا سکون سے خالی نہیں ہوتا، اور جو ان دونوں سے خالی نہ ہو وہ حادث ہوا کرتا ہے۔ کیونکہ حوادث کا کوئی اول نہیں ہوتا۔ یہ ہے معتزلہ اور ان کے متبعین شیعہ کے دلائل کا منتہی۔انہیں دوسرے لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ: ہم اس بات کو تسلیم ہی نہیں کرتے کہ جسم کو وجودی حرکت یا سکون لازم ہے۔ بلکہ جسم کا حرکت سے خالی ہونا ممکن ہے کیونکہ سکون مطلق عدم حرکت کا نام ہے، اور حرکت کا نہ ہونا، اس سے ہوتا ہے جس کی شان یہ ہو کہ وہ حرکت کو قبول کرتا ہے۔ لہٰذا ایسے قدیم اور ساکن جسم کا ثابت ہونا ممکن ہے جو متحرک نہ ہو۔یہ انہیں یہ کہتے ہیں : ہم یہ بات تسلیم نہیں کرتے کہ حوادث کا اول متمنع ہے، اور ان لوگوں کے ان کے مبنی بر نفی دلائل پر بڑے طعن کیے ہیں ۔ حتیٰ کہ حاذق متاخرین جیسے رازی، آمدی اور ابو الثناء الارموی [1] [1] یہ ابو الثناء سراج الدین محمود بن ابی بکر احمد الارموی ہے۔ انہوں نے اصولِ فقہ میں ’’التحصیل‘‘ جو مختصر المحصول ہے۔ اصولِ دین میں اللباب اور منطق میں اصول الدین والبیان والمطالع لکھی۔ انہوں نے رافعی کی کتاب ’’الوجیز‘‘ کی بھی شرح لکھی۔ موصوف شافعی المذہب تھے۔ ۶۸۲ھ میں وفات پائی۔ دیکھیں : طبقات الشافعیۃ: ۸؍ ۳۷۱۔وغیرہ نے ان سب میں طعن کیا ہے، اور رازی نے متعدد مواقع پر اس پر طعن کیا ہے۔ اگرچہ رازی نے اسی پر متعدد مواقع پر اعتماد کیا ہے، اور آمدی نے لوگوں کے طرق پر طعن کیا ہے سوائے اس طریق کے جو انہیں پسند ہے۔ جو دوسروں سے بھی زیادہ ضعیف طریق ہے جس میں دوسروں نے بھی طعن کیا ہے۔ سو یہ دو ایسے عقلی مقام ہیں جن میں ان لوگوں نے اپنے شیوخ پر طعن کیا ہے۔ لیکن اس میں یہ اپنے متقدمین شیوخ پر غالب نہیں آ سکے۔ تو جب یہ دنیا میں رؤیت بادی کی نفی صرف اسی طریق سے ہی کر سکے ہیں ، تو اب ان کے پاس صرف ان لوگوں کے لیے حجت باقی رہی ہے جو اس بات کے قائل ہیں کہ: رب تعالیٰ کی رؤیت اور مصافحہ ممکن ہے اور اس کے علاوہ بھی ان کے اور متعدد نہایت شنیع اقوال ہیں جو اہلِ سنت والجماعت کے ہاں نہایت برے ہیں ، اور اہلِ سنت والحدیث میں سے کوئی ان کا قائل نہیں ہے۔ اور اس کا بیان یہ ہے :پانچویں وجہ:.... یہ کہا جائے کہ: یہ چند لوگوں کا قول ہے اور وہ بھی شیعہ کے معدودے چند لوگ ہیں ان میں سے بعض غالی شیعہ اور کچھ غالی صوفی ہیں ، اور ان میں سے ایک داؤد جواربی ہے۔ [1][1] ابن حجر ’’لسان المیزان: ۲؍ ۴۲۷‘‘ میں لکھتے ہیں : یہ روافض کا سرخیل تھا، اور جہمیہ میں تجسیم کا سرغنہ تھا۔ اس کے اور بھی متعدد گمراہانہ عقائد تھے۔ جیسے یہ کہ معبود کے تمام اعضاء ہوتے ہیں ۔ حتیٰ کہ شرمگاہ اور داڑھی بھی ہوتی ہے۔ ابن اثیر نے اللباب: ۲؍ ۲۹۱۔ میں یہ عبارت نقل کی ہے۔  اشعری ’’المقالات‘‘ ہی کہتے ہیں : داؤد الجواربی اور مقاتل بن سلیمان کا قول ہے: ’’اللہ ایک جسم ہے اور اس کے ہاتھ پیر وغیرہ اعضاء بھی ہیں جو صورتِ انسانی پر ہیں ۔ اس کے بال، خون، گوشت اور ہڈی بھی ہے۔ زبان، سر اور دو آنکھیں بھی ہیں ، اور اس سب کے باوجود نہ کوئی اس کے مشابہ ہے اور نہ یہ کسی کے مشابہ ہے۔ داؤد الجواربی سے بیان کیا جاتا ہے کہ وہ یہ کہا کرتا تھا: رب تعالیٰ منہ سے لے کر سینے تک خالی ہے اور باقی کا حصہ ٹھوس ہے۔ہشام بن سالم جوالیقی[2] [2] جوالیقی شیعہ کا مشہور امام ہے اور ان کے یہاں اسے قطب کا مقام حاصل ہے، قبل ازیں اس کے حالات زندگی تفصیلاً مذکور ہوچکے ہیں ۔  کہتا ہے:’’اﷲ تعالیٰ انسانی شکل و صورت رکھتا ہے، مگر وہ گوشت پوست کا بنا ہوا نہیں ، وہ ایک درخشندہ نور ہے، اس کے حواس خمسہ ایک دوسرے سے جدا جدا ہیں ، بنا بریں اس کی سمع اور ہے اور بصر اور، وہ ہاتھ، پاؤں ، آنکھ ، منہ ، ناک اور سیاہ بال رکھتا ہے۔‘‘[ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ]:میں کہتا ہوں کہ: داؤد جواربی کے منکر اقوال پر اہلِ سنت نے شدید انکار کیا ہے ۔ البتہ مقاتل کی حقیقت کو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ ’’ امام اشعری نے یہ اقوال معتزلہ کی تصانیف سے اخذ کیے ہیں ۔[3] [3] امام اشعری کا ماخذ فرقہ جات کے بارے میں ابو عیسیٰ ورّاق شیعہ عالم کی تحریر کردہ ایک کتاب ہے، ورّاق کا ترجمہ قبل ازیں لکھا جا چکا ہے، شیعہ کے یہاں مقاتل بن سلیمان جیسے بزرگوں پر افترا پر دازی کچھ بھی محل تعجب نہیں ، بلکہ وہ اسے عبادت شمار کرتے ہیں ۔  اس لیے ان میں مقاتل بن سلیمان کے اصلی نظریات کی ترجمانی نہیں کی گئی، بلکہ انہیں بڑھا چڑھا کر بیان کیا گیا ہے۔ ورنہ مقاتل سے ایسے افکار و آراء کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ [4] [4] مستجی نے اس پر یہ حاشیہ رقم کیا ہے: میں کہتا ہوں : خطیب نے اپنی اسناد کے ساتھ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے کہ یہ دونوں شخص جھم بن صفوان اور مقاتل بن سلیمان خبیث تھے۔ جھم نے تنزیہ میں افراط کیا۔ اس نے رب تعالیٰ کو معانی کی قبیل سے نکال کر تعطیل کے زمرے میں ڈال دیا، اور مقاتل نے تشبیہ میں افراط سے کام لیا۔ حتیٰ کہ رب تعالیٰ کے لیے گوشت خون، بال اور ہڈی تک کو ثابت کر دیا۔ امام شافعی رحمہ اللہ مقاتل کے بارے میں فرماتے ہیں ، ’’ جو شخص علم تفسیر کا طالب ہو وہ مقاتل کا بستہ فراک ہو کر رہے اور جو فقہ حاصل کرنا چاہتا ہے ، وہ امام ابو حنیفہ کا دامن تھام لے۔‘‘[1][1] وفیات الاعیان: ۴؍ ۳۴۱۔ میں مقاتل کے ترجمہ میں لکھا ہے: ’’امام شافعی سے منقول ہے: سب لوگ تین کے محتاج ہیں : تفسیر میں مقاتل کے، شعر میں زہیر بن ابی سلمی کے، اور کلام میں ابو حنیفہ کے۔ اور مقاتل بن سلیمان اگرچہ حدیث میں حجت نہیں بخلاف مقاتل بن حیان کے کہ وہ ثقہ ہے۔ [2] [2] یہ خراسان کے عالم الحافظ ابو بسطام ہیں ۔ ابن سعد کہتے ہیں : یہ ابو معان مقاتل بن حیان البلخی الخزار ہیں ۔ ذہبی انہیں امام، صادق، عبادت گزار متبع سنت اور بڑا صاحبِ غیر کہتے ہیں ۔ ابو مسلم خراسانی کے خروج کے دور میں کابل چلے گئے اور بے شمار لوگوں کو مسلمان کیا۔ ابن معین اور ابو داؤد نے انہیں ثقہ کہا ہے۔ دیکھیں : ’’تذکرۃ الحفاظ: ۱؍ ۱۷۴‘‘۔  لیکن اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ان کی تفسیر اور دوسرے علوم پر بے پناہ دسترس تھی۔ [3][3] یہ ابو الحسن بن مقاتل بن سلیمان بن شیرازدی، بلخی، خراسانی مروزی ہیں ۔ خاندان بلخ سے تھا جو بعد میں بصرہ منتقل ہو گیا تھا۔ بغداد جا کر حدیث بیان کی۔ ذہبی ابن حیان کے ترجمہ کے آخر میں لکھتے ہیں : (تذکرۃ الحفاظ: ۱؍ ۱۷) اور رہے مفسر مقاتل بن حیان تو انہوں نے ۱۵۰ھ میں بصرہ میں وفات پائی۔ دیکھیں : الجرح والتعدیل: ص: ۵۴۹۔ جیسا کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کہ اگرچہ لوگوں نے متعدد باتوں میں ان کی مخالفت کی۔ لیکن اس سب کے باوجود کسی کو بھی ان کے علم و فہم اور فقہ میں ادنیٰ سا بھی شک نہیں ۔ لوگوں نے امام موصوف کی برائی بیان کرنے کے لیے ان سے متعدد باتوں کو نقل کیا ہے۔ جو ان پر سراسر بہتان اور جھوٹ ہیں ۔ جیسے بری خنزیر وغیرہ کا مسئلہ۔ تو پھر اس باب میں مقاتل بن سلیمان سے ایسی باتوں کا منقول ہونا کیا بعید ہے۔ اس امامی نے مذکور نقل کو داؤد طائی [4][4] ابو سلیمان داؤد بن نصیر المتوفی ۱۶۰ھ داؤد طائی کے نام سے مشہور تھے، یہ بڑے فقیہ اور عابد شب زندہ دار تھے ذہبی ’’العبد: ۱؍ ۲۳۵‘‘ میں لکھتے ہیں : موصوف نے فقہ میں مہارت حاصل کی، پھر معتزلی ہو گئے۔ انہوں نے عبدالملک اور ایک جماعت سے حدیث روایت کی ہے۔ موصوف زہد و عبادت اور نیکی و خیر میں فقید المثال تھے۔ ذہبی نے سنِ وفات ۱۶۲ھ بتایا ہے۔ دیکھیں : طبقات ابن سعد: ۶؍ ۳۶۷۔ ، یہ امام ابو حنیفہ، ثوری، شریک اور ابن ابی لیلیٰ کے معاصر تھے اور ان سے استفادہ کر چکے تھے، داؤد طائی کے بارے میں یہ مقولہ مشہور ہے کہ ’’اگر وہ زمانہ ماضی میں ہوتے تو اﷲ تعالیٰ قرآن کریم میں ضرور ان کا ذکر فرماتے۔‘‘ شیعہ مصنف کی جہالت کا اندازہ لگائیے کہ داؤد طائی اور داؤد جواربی کے مابین فرق نہ کر سکا۔ سے نقل کیا ہے اور یا تو یہ اس کا جہل ہے یا پھر اس کا جہل ہے۔ جس سے اس امامی نے نقل کیا ہے۔ کیونکہ داؤد طائی تو امام ابو حنیفہ، ثوری، شریک اور ابن ابی لیلیٰ وغیرہ کے دور میں اہلِ کوفہ کے فقیہ اور عابدوز اہد تھے۔ موصوف فقہ حاصل کرنے کے بعد عبادت میں لگ گئے تھے۔ علماء کے ہاں ان کی سیرت اور ان کے احوال مشہور ہیں ۔ انہوں نے ایسی کوئی باطل بات نہیں کہی۔ یہ بات تو داؤد جواربی نے کہی ہے۔ شاید اسی امامی پر یا اس کے شیوخ کو داؤد طائی اور داؤد جواربی میں اشتباہ لگ گیا ہے۔ میرے سامنے موجود نسخہ میں یہ غلطی نہیں ہے۔ میرے خیال میں داؤد جواربی بصری اور ان طائی سے جو کوفی تھے متاخر تھے، اور ان کا قصہ معروف ہے.
اشعری کہتے ہیں : امت میں کچھ لوگ عبادتوں کا غلط انتساب کرتے ہیں ، اور ان کو اللہ تعالیٰ پر جائز سمجھتے ہیں ۔ یہ لوگ اجسام میں حلول کے قائل ہیں ۔ اس لیے کسی عمدہ شے کو دیکھ کر یہ کہہ اٹھتے ہیں کہ شاید یہ وہی ہو، اور ان میں سے کوئی یہ کہتا ہے کہ اس نے رب تعالیٰ کو اس دنیا میں اپنے اعمال کے بقدر دیکھا ہے۔ پس جس نے اپنا عمل اچھا دیکھا اس نے اپنے معبود کو اچھا دیکھا۔ان میں سے بعض کے نزدیک اس دنیا میں رب تعالیٰ سے معانقہ، مجالست اور ملامست جائز ہے، اور کوئی یہ کہتا ہے کہ رب تعالیٰ کا جسم، اعضاء اور ابعاض ہیں ۔ جیسے خون، گوشت وغیرہ جو انسانی صورت پر ہیں ، اور اللہ تعالیٰ کے انسان کی طرح اعضاء و جوارح ہیں ۔ان صوفیہ میں ابو شعیب نامی ایک شخص تھا۔ جو یہ کہتا تھا کہ رب تعالیٰ اپنے اولیاء کی اطاعت گزاری سے خوش ہوتا ہے اور ان کی نافرمانی پر افسردہ اور غم زدہ ہو جاتا ہے۔ان میں ایک گروہ اس بات کا بھی قائل ہے کہ یہ عبادت انہیں ایسے مرتبہ تک لے جاتی ہے۔ جہاں جا کر عبادت معاف ہو جاتی ہے اور اب ان کے زنا وغیرہ جیسے محظورات جائز اور حلال ہو جاتے ہیں ، اور بعض یہ سمجھتے ہیں کہ وہ عبادت کرتے کرتے اس حد تک جا پہنچے کہ انہوں نے اسی دنیا میں رب تعالیٰ کو دیکھا اور جنت کے پھل بھی کھائے اور حورین سے گلے بھی ملے، اور انہوں نے شیطان سے لڑائی بھی کی، اور بعض تو یہ تک سمجھتے ہیں کہ وہ عبادت کرتے کرتے انبیاء اور فرشتوں تک سے افضل ہو گئے ہیں ۔یہ سب باتیں اشعری نے نقل کی ہیں اور ان سے بھی زیادہ بھاری باتیں ذکر کی ہیں جو اس زمانہ سے پہلے لوگوں میں موجود تھیں ۔ اس زمانہ میں بعض لوگ خوبصورت اجسام میں رب تعالیٰ کے حلول کے قائل ہیں ۔ یہ لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ بے ریش کو دیکھنے سے انہیں اپنے معبود کا یا اس کی صفات کا یا اس کے جمال کے مظاہر کا مشاہدہ ہوتا ہے۔ پھر ان میں سے بعض تو بے ریش کو سجدہ تک کرتے ہیں ۔پھر ان میں سے بعض عمومی حلول اور اتحاد کے قائل ہیں ۔ البتہ وہ مظاہر جمال کی عبادت کرتے ہیں ۔ کیونکہ اس میں اسے لذت ملتی ہے۔ یوں وہ اپنی خواہشِ نفس کو اپنا معبود بنا لیتا ہے۔ فقر و تصوف کی طرف منسوب بے شمار لوگوں میں سے بات موجود رہے۔پھر بعض کا قول ہے کہ میں نے رب تعالیٰ کو مطلق دیکھا ہے۔ وہ کسی متعین حسین صورت کو ذکر نہیں کرتا۔ بلکہ یہ کہتا ہے کہ اس نے رب تعالیٰ کو مختلف صورتوں میں دیکھا ہے۔کوئی یہ کہتا ہے کہ رب تعالیٰ سبزہ پر چلتا ہے تو وہ اور زیادہ سرسبز ہو جاتا ہے۔ غرض اس باب میں بے شمار حکایات ہیں ۔ ان کو کہاں تک بیان کیجئے۔رہا اباحت اور محرمات کے حلال ہونے کاعقیدہ ؛ تو وہ ان عبادت اور علم میں کاملین میں بہ نسبت دیگرعقائد کے زیادہ ہے۔ کیونکہ یہ باطنی اسماعیلی قرامطی آئمہ، غیر اسماعیلی اور دیگر بے شمار فلسفیوں کا قول ہے۔ اسی لیے ان کے بارے میں یہ مثل مشہور ہے کہ ’’فلاں تو میرا خون یوں حلال سمجھتا ہے۔ جیسے یہ فلاسفہ محظورات شرعیہ کو حلال سمجھتے ہیں ، اور تصوف اور کلام کی طرف منسوب اکثر لوگوں کا یہ قول ہے، اسی طرح وہ لوگ جو اپنے آپ کو یا اپنے متبوع کو نبیوں سے افضل سمجھتے ہیں ، اسی طرح فلاسفہ، باطنیہ اور غالی صوفیہ میں یہ کلام سمجھتے ہیں ۔ اسے ایک دوسرے موقع پر مفصل ذکر کیا جا چکا ہے۔غرض یہ اقوال اہلِ سنت کے نزدیک سخت برے ہیں جو شیعہ میں پائے جاتے ہیں ۔اکثر عبادت گزار یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے رب تعالیٰ کو اس دنیا میں اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں سے ایک عبادت کی کثرت کی وجہ سے اپنے اندر وہ انوار دیکھتا ہے جو اس کی ظاہری حس سے پوشیدہ ہوتے ہیں ، اور وہ یہ سمجھ لیتا ہے کہ اس نے ان چیزوں کو اپنی ظاہری آنکھوں سے دیکھا ہے۔ حالانکہ وہ اس کے دل میں ایک خیال ہوتا ہے۔ پھر ان میں سے بعض ان نظر آنے والی صورتوں سے یوں خطاب کرتے ہیں ۔ جیسے وہ ان کا رب ہو، اور وہ یہ سمجھتا ہے کہ یہ سب خارج میں موجود ہے۔ حالانکہ وہ اس کے نفس میں ہوتا ہے۔ جیسے کوئی نیند میں حسب حال اپنے رب کو دیکھے۔ ایسی باتیں ہمارے زمانے میں اور پہلے زمانے میں بہت ہوئی ہیں ۔ ان لوگوں کو غلط فہمی یہ ہوتی ہے کہ وہ ان چیزوں کو خارج میں موجود سمجھتے ہیں ۔ ان میں سے بہت سے لوگوں کے سامنے شیطان متمثل؍ مجسم ہو کر آتا ہے اور وہ نور کو یا عرش کو یا عرش پر نور کو دیکھتے ہیں ، اور شیطان انہیں یہ کہتا ہے کہ میں تمہارا رب ہوں اور کسی کو یہ کہتا ہے کہ میں تمہارا نبی ہوں ۔ ایسا بہتوں کے ساتھ ہوا ہے۔ پھر ان میں سے بہت سے لوگوں کو خدا بن کر آواز میں سنائی دیتی ہیں ۔ حالانکہ وہ آواز جن کی ہوتی ہے۔ غرض یہ موقع اس بات کی تفصیل کا نہیں کہ وہ خارج کی آواز باطل ہوتی ہے، اور وہاں حق اور باطل میں کیونکر تمیز کی جائے۔بہت سے جاہل اہلِ حال یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ: انہوں نے اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کو عیاناً دیکھا ہے، اور اللہ تعالیٰ نے چند قدم چل کر بھی دکھایا ہے۔ پھر یہ لوگ اس کے ساتھ کفر سے بھی بڑھ کر باتیں کرتے ہیں ۔ مثلاً اگر فلاں شیخ نے مجھے روزی نہ دی تو مجھے یہ روزی چاہیے ہی نہیں ، اور یہ کہ اس کا شیخ تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول تک کا شیخ ہے۔ یہ سب غالی شیوخ کا اقوال ہیں ۔ البتہ اسماعیلیہ اور نصیریہ شیعہ میں اس سے بھی بڑھ کر غالبانہ اور کفریہ اقوال پائے جاتے ہیں ۔ ایسے اقوال ان گمراہ نام نہاد اہل سنت ہی بھی نہیں پائے جاتے۔ پھر بعض شیعہ دوسروں سے بھی زیادہ خبیث ہیں ۔پھر وحدۃ الوجود کے قائلین جیسے ابن عربی اور ابنِ سبعین [1][1] یہ ابو حفص عمر بن مرشد بن علی شرف الدین ابن الفارض ہے، جو الحموی الاصل ہے۔ جبکہ ولادت مصر میں ہے، اور سکونت اور وفات بھی مصر میں ہی ہوئی۔ سلطان العاشقین لقب تھا۔ سن ولادت ۵۷۶ھ اور سنِ وفات ۶۳۲ھ ہے۔ دیکھیں : وفیات الاعیان: ۳؍ ۱۲۶ ۔ ۱۲۷۔ وغیرہ کا یہ دعویٰ ہے کہ انہیں ہر وقت رب تعالیٰ کا مشاہدہ حاصل ہے۔ ان کے نزدیک دنیا و آخرت کا مشاہدہ ایک ہی ہے۔ کیونکہ اس کی مطلق ذات ساری کائنات میں جاری و ساری ہے۔اس قسم کی باتیں اور اقوال لوگوں میں موجود ہیں ۔ البتہ شیعہ کے اقوال زیادہ قبیح و شنیع ہیں ۔ جیسا کہ غالی نصیریہ وغیرہ کے اقوال ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ نصیریہ وحدۃ الوجود کے قائلین کی بے حد تعظیم کرتے ہیں ، اور تلمسانی [1][1] یہ عفیف الدین سلیمان بن عبداللہ بن علی الکومی التلمسانی ہے جس کا ترجمہ گزر چکا ہے۔ وحدت کے قائلین کا شیخ تھا۔ جس نے النفری [2] [2] یہ ابو عبداللہ محمد بن عبدالجبار بن حسن النضری ہے۔ یہ النفر نامی شہر کی طرف منسوب ہو کر النفری کہلاتے ہیں جو کوفہ کا ایک پر گند ہے۔ شعرانی نے الطبقات الکبری: ۱؍ ۱۷۴ ۔ ۱۷۵۔ میں اس کا ترجمہ ذکر کیا ہے، اور کہا ہے کہ: موصوف کا قول کے طریق میں بڑا عالی کلام تھا۔ ’’المواقف‘‘ جیسی کتاب لکھی۔ جسے شیخ محی الدین ابن العربی نے ان سے نقل کیا ہے۔ ۳۵۴ھ میں وفات پائی۔ دیکھیں : المشتبہ للذہبی: ۲؍ ۶۶۴۔ عیسی الحلبی۔  کی ’’موافقت‘‘ کی شرح کی ہے، اور اس کے علاوہ بھی کتابیں لکھیں ۔ نصیریہ کی طرف مائل ہوئے تو ان کے لیے بھی ایک کتاب لکھی۔ اس لیے نصیریہ تلمسانی کی بے حد تعظیم کرتے ہیں ۔ مجھے نقیب الاشراف تلمسانی سے بیان کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے تلمسانی سے پوچھا کہ کیا آپ نصیری ہیں ؟ تو کہنے لگے کہ نصیری تو میرا ایک جز ہیں ۔ روافض کاعقیدہ : ’’رب تعالیٰ کی آنکھ دکھی اوروہ رویا بھی‘‘ پر تبصرہ:٭ رہا اس امامی کا یہ کہنا کہ: رب تعالیٰ کو آشوب چشم ہوا اور فرشتوں نے اس کی عیادت کی اور رب تعالیٰ طوفانِ نوح پر رویا وغیرہ۔ تو ہم دیکھتے ہیں کہ ان لوگوں نے اس قسم کے اقوال یہود سے نقل کیے ہیں ۔ جتنے مسلمانوں کو میں جانتا ہوں ، یہ ان میں سے کسی کا بھی قول نہیں ، اور اگر اہلِ قبلہ میں سے کسی نے یہ قول کیا بھی ہے تو قابلِ افکار نہیں ۔ (کوئی ایک آدھ ایسا گمراہ نکل بھی آتا ہے) کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :’’تم قدم بہ قدم اپنے سے پہلوں کی چال چلو گے۔ یہاں تک کہ اگر وہ کسی گوہ کے بل میں بھی داخل ہوئے تھے تو تم بھی اس میں داخل ہو کر رہو گے۔‘‘ [3][3] صحیح البخاری، کتاب الانبیاء باب ما ذکر عن بنی اسرائیل عن ابی سعید الخدری رضی اللّٰہ عنہ مع اختلاف اللفظ: ۴؍ ۱۶۹۔لیکن چونکہ یہ روافض یہود کے مشابہ ہیں ۔ اس لیے ان میں ایسے لوگوں کا پایا جانا بہ نسبت اہلِ سنت کے زیادہ ظاہر ہے۔روافض کے عقیدہ: ’’عرش چہار جانب سے رب تعالیٰ سے انگشت بڑا ہے‘‘ پر تبصرہ:٭ رہا اس امامی کا یہ قول کہ عرش ہر جانب سے رب تعالیٰ سے چہار انگشت زیادہ بڑا ہے۔ تو میں نہ تو اس کے کسی قائل کو جانتا ہوں اور نہ ناقل کو۔ البتہ عبداللہ بن خلیفہ کی حدیث میں یہ ضروری مروی ہے کہ: عرش کی چار انگشت برابر جگہ بھی فالتو نہیں ۔ [1] [1] کتب رجال میں اس نام کے دو آدمی ملتے ہیں : (۱) عبداللہ بن خلیفہ طائی کوفی ہمدانی (دیکھیں : طبقات ابن سعد: ۶؍ ۱۲۱) اور (۲) عبداللہ بن خلیفہ یا خلیفہ بن عبداللہ (دیکھیں : تقریب التہذیب، ص: ۴۱۲) اب میں نہیں جانتا کہ یہاں دونوں میں سے کون مراد ہے۔  کہ یہ روایت نفی کے ساتھ بھی ہے اور اثبات کے ساتھ بھی۔ متعدد محدثین نے اس حدیث میں طعن کیا ہے۔ جیسے اسماعیلی، ابن جوزی، بعض نے اس حدیث کے شواہد ذکر کر کے اسے قوی بھی کیا ہے۔ اب نفی کے لفظ پر کوئی اشکال نہیں ۔ کیونکہ ایسا لفظ احادیث میں نفی کے عموم کے لیے آتا ہے۔ جیسے حدیث میں ہے کہ: ’’آسمان میں چار انگشت برابر بھی جگہ نہیں مگر وہاں کوئی نہ کوئی فرشتہ قیام و قعود میں رکوع و سجدہ میں ہے۔‘‘ [2][2] الدر المنثور للسیوطی: ۱؍ ۲۹۲ ۔ ۲۹۶۔  یعنی آسمان میں سرے سے کوئی جگہ خالی ہی نہیں ہے۔ اس معنی میں عربوں کا یہ قول ہے کہ: ’’آسمان میں ہتھیلی کے بقدر بھی بادل نہیں ۔‘‘ کیونکہ ہتھیلی کے ذریعے مساحت کی جاتی ہے۔ جیسا کہ گز کے ذریعے کی جاتی ہے، اور آدمی کے اعضاء میں مساحت کا سب سے چھوٹا عضو ہتھیلی ہے۔ لہٰذا یہ سب سے کم مقدار کے لیے مثل بن گئی۔پس جب یہ کہا جائے کہ عرش کی چار انگشت برابر جگہ بھی فاضل نہیں اور معنی یہ ہو کہ زائد اور فالتو نہیں ، تب پھر یہاں یہ بیان کرنا مقصود ہوگا کہ رب تعالیٰ عرش سے عظیم اور بڑا ہے۔اب یہ بات معلوم ہے کہ یہ حدیث قولِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہو تو ہم پر اس میں سے کچھ واجب نہیں ، اور اگر یہ قولِ نبی ہو تو یہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نفی اور اثبات کو یکجا نہیں کیا۔ اگر تو یہاں نفی ہے تو اثبات نہیں ۔ اب جو لوگ یہاں اثبات کے قائل ہیں ۔ انہوں نے یہاں اپنے اصول کے مناسب کلام کیا ہے۔ اس کی تفصیل دوسرے مقام پر ہے۔یہ اور اس جیسی باتیں چاہے حق ہوں یا باطل، نہ تو اہلِ سنت کے مذہب میں قادح ہیں اور نہ مضر۔ کیونکہ اگر ان کو باطل مانیں تو یہ ان کا قول نہیں ہو سکتا۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ ان میں سے کسی ایک فرقہ کا قول ہوگا جسے کچھ لوگوں نے روایت کر دیا ہوگا۔اور جو باطل ہوگا اسے جمہور نے رد کر دیا ہوگا۔ جیسا کہ وہ دیگر اقوال کو بھی رد کر دیا کرتے ہیں ۔ بہت سارے مسلمانوں نے باطل اقوال کیے ہیں ۔ لیکن یہ اقوال مسلمانوں کے دین کے حق میں مضر نہیں ۔ امامیہ کے متعدد ایسے منکر اقوال ہیں جن میں ایسی باتیں مذکور ہیں ۔ چاہے ان کو بعض اہلِ سنت نے بھی کہا ہو۔