کیا حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ (32ھ) حضرت عثمان رضی اللہ عنہ (35ھ) کے مصحف سے متفق نہ تھے؟
پروفیسر ڈاکٹر حافظ محمود اختراس سلسلے میں ترمذی شریف کی ایک روایت ہے جس میں امام زہری رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ 32 ہجری کو شکایت تھی کہ کتابت قرآن کا کام ان کے سپرد کیوں نہیں کیا گیا جبکہ انہوں نے سیدنا زید بن ثابتؓ کے مقابلے میں زیادہ طویل عرصے تک حضورﷺ کی صحبت سے فیض حاصل کیا تھا۔
(ترمذی، جامع ترمذی، کتاب جمع القرآن، باب القراء من اصحاب النبي، جلد، 6 صفحہ، 299)
اس سلسلے میں حافظ ابن حجر عسقلانیؒ 852 ہجری نے فتح الباری میں اس نقطہ نگاہ کا رد کیا ہے۔ آپؒ فرماتے ہیں کہ حضرت عثمان غنیؓ 35 ہجری کا مؤقف یہ تھا کہ انہوں نے یہ کام مدینہ طیبہ میں شروع کیا تھا اور حضرت ابن مسعودؓ 32 ہجری اس وقت کوفہ میں تھے اور سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ 35 ہجری ان کے انتظار میں اس کام کو مؤخر نہیں کرنا چاہتے تھے۔ اس کے علاؤہ حضرت ابوبکر صدیقؓ 13 ہجری نے بھی سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ ہی کو یہ کام سونپا تھا۔ لہٰذا انہوں نے یہی مناسب سمجھا کہ یہ مرحلہ بھی انہی کے ہاتھ سے تکمیل کو پہنچے۔
(فتح الباری، جلد، 9 صفحہ، 13/15)
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ کی اس توجہ کے علاؤہ اس نقطہ نگاہ کا رد یوں بھی کیا جا سکتا ہے کہ سیدنا عثمان غنیؓ 35 ہجری کو اس وقت جو مسئلہ در پیش تھا اس میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے علمی مقام و مرتبے کو عمل دخل کم تھا بلکہ اس کے مقابلے میں اس مسئلے کا تعلق تجربے سے تھا۔ حضورﷺ نے جن صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے نام علمائے قرآن اور قراء قرآن کے بارے میں ارشاد فرمائے ہوئے تھے۔ ان میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بھی تھے لیکن عہد عثمانی کا مسئلہ کچھ اس سے مختلف تھا۔ کیا سیدنا زید بن ثابتؓ کے لیے یہ اعزاز کچھ کم تھا کہ حضرت ابن مسعودؓ 32 ہجری سے فوقیت رکھنے والے حضرات، حضرت ابوبکر صدیقؓ 13 ہجری اور حضرت عمر فاروقؓ 33 ہجری نے سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ 35 ہجری سے پہلے جمع القرآن کے کام پر سیدنا زید بن ثابتؓ ہی کو مامور فرمایا تھا۔ جب حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو سیدنا عثمان غنیؓ 35 ہجری نے مصحف کی تیاری پر مامور فرمایا اس وقت تو حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ 32 ہجری مدینہ طیبہ کے اندر موجود نہ تھے اور ان کی عدم موجودگی کی وجہ سے اس کام کے لیے حضرت زید بن ثابتؓ کو منتخب کیا گیا تھا۔ لیکن جب حضرات شیخین نے حضرت زیدؓ کو اس کام پر مامور فرمایا تھا، اس وقت تو حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ 32 ہجری مدینہ طیبہ میں موجود تھے۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ سیدنا زید بن ثابتؓ کو مصحف کی تیاری پر کوئی پہلی مرتبہ متعین نہیں کیا گیا تھا بلکہ اس سے پہلے عہد شیخین میں بھی ان کو اس کام کے لیے موزوں ترین قرار دیا گیا تھا۔ حضرت عثمان عنیؓ 35 ہجری نے اپنے متقدمین ہی کی اقتداء میں میں تعینات کیا تھا۔ دونوں مواقع پر انہی کا انتخاب اس سبب سے تھا کہ عرضہ اخیرہ میں وہ حضور ﷺ کے ساتھ تھے۔
(فتح الباری: جلد، 9 صفحہ 13/15)
اس لیے سیدنا ابن مسعودؓ 32 ہجری اور سیدنا زید بن ثابتؓ کے منصب میں موازنہ کرتے ہوئے تمام مذکورہ بالا حقائق کو ذہن میں رکھنا ہو گا۔ احراق مصاحف کے بارے میں ولیم میور 1905/1819) کہتا ہے کہ یہ ایک ناانصافی کہی جا سکتی ہے کہ انہوں نے مجمع علیہ نے کے علاؤہ تمام مصاحف تلف کروا دیئے۔ لیکن میورُ 1819/1905 لکھتے ہیں کہ اس کا جواب یہ ہے کہ اس دور میں کسی نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ 35 ہجری پر الزام نہیں لگایا کہ انہوں نے قرآن میں تحریف و تصحیف کی ہے۔ اگر حقیقت میں سیدنا عثمان غنیؓ 35 ہجری ایسے ہی کرتے تو یہ راز ضرور اشکار ہو کر رہتا مگر حضرت عثمان غنیؓ 35 ہجری پر یہ اتہام متاخرین شیعہ نے اپنے اغراض کے لیے وضع کر لیا۔
دعوے کی صداقت کا عملی مشاہدہ ضرور کریں گے کہ اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے نازل کیا گیا ہوتا تو وہ اس قرآن میں بے شمار اختلافات اور تضادات پاتے۔
اَفَلَا یَتَدَبَّرُوۡنَ الۡقُرۡاٰنَ ؕ وَ لَوۡ کَانَ مِنۡ عِنۡدِ غَیۡرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوۡا فِیۡہِ اخۡتِلَافًا کَثِیۡرًا
(سورۃ النساء: آیت نمبر، 82)
ترجمہ: کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے ؟ اگر یہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو یقیناً اس میں بھی کچھ اختلاف پاتے۔
اور یہ کہ بے شک ہم نے ہی اس کو نازل کیا۔
اِنَّا نَحۡنُ نَزَّلۡنَا الذِّکۡرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوۡنَ.
(سورۃ الحجر: ایت نمبر، 9)
ترجمہ: ہم نے ہی اس قرآن کو نازل فرمایا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔