Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

جہت سے کیا مراد ہے؟:

  امام ابنِ تیمیہؒ

جہت سے کیا مراد ہے؟:[اعتراض] : ....شیعہ مصنف کا یہ قول : ’’ جو چیز کسی جہت میں محدود ہو وہ حادث ہوگی اور اس جہت کی محتاج ہوگی۔‘‘ [جواب ]: ....یہ اسی صورت میں درست ہوگا جب وہ جہت ایک وجودی اور مثبت حیثیت کی حامل ہو اور اس چیز کے لیے لازم ہو۔ اس میں شبہ نہیں کہ جو شخص اﷲ تعالیٰ کو اس طرح قائم بالمحل مانتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ اس محل سے بے نیاز نہیں ہوسکتا وہ اللہ تعالیٰ کی ذات کو محتاج قرار دیتا ہے۔ حالانکہ کوئی شخص یہ عقیدہ نہیں رکھتا اور نہ ہی ہمارے علم کی حد تک کوئی شخص اﷲ کو مخلوقات کا محتاج تسلیم کرتا ہے۔ اس لئے کہ اﷲ نے عرش کو پیدا کیا، عرش کی تخلیق اس حقیقت کو واضح کرتی ہے کہ وہ عرش کو پیدا کرنے سے پہلے بھی اس سے بے نیاز تھا اور اس کے بعد بھی بے نیاز رہا۔ اﷲ تعالیٰ کے فوق العرش ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ عرش کا محتاج ہے۔ دیکھئے اﷲ تعالیٰ نے عالم ارضی کو پیدا کیا اس میں سے بعض حصے بالا ہیں اور بعض پست۔ ظاہر ہے کہ بلند حصے پست کے ہر گز محتاج نہیں بنائے۔ مزید غور کیجئے کہ پہلے زمین ہے پھر اس کے اوپر ہوا ہے؛ ہوا زمین کی محتاج نہیں ؛ اور ایسے ہی اس کے اوپر بادل ہیں ؛ بادل بھی زمین کے محتاج نہیں ؛ایسے ہی پھر ان کے اوپر آسمان ہیں ؛ جوکہ بادلوں یا ہوا یا زمین کے محتاج نہیں ۔ توپھر کیسے کہا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جو کہ سب سے بلند وبالا اور ہر ایک چیز کا خالق و مالک ہے وہ ان سب سے اوپر اور بلند ہونے میں مخلوقات کا محتاج ہوگا ؟

ہم جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی ہر ایک چیز کے خالق و مالک ہیں ؛ اور ہر قسم کی قوت و طاقت صرف اﷲ کے ہاتھ میں ہے۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ عرش ربانی اور حاملین عرش جس قوت سے بہرہ ور ہیں وہ اﷲ تعالیٰ کی پیدا کردہ ہے۔اور حاملین عرش ملائکہ کے افعال کے پیدا کرنے والے بھی اللہ تعالیٰ ہیں ؛ جب اللہ تعالیٰ ہی ہر ایک چیز کے خالق و مالک ہیں ؛ اور ہر ایک قوت و طاقت بھی اسی کی طرف سے ہے توپھر یہ بات ممتنع ہے کہ وہ کسی دوسرے کے محتاج ہوں ۔اگراس سے تمہارے شیعہ اسلاف میں سے کوئی مثلاً یونس بن عبدالرحمن القمی (مشہور شیعہ عالم) اور اس کے امثال و ہمنوا یہ دلیل پیش کریں اور یہ کہے کہ عرش نے اﷲ تعالیٰ کو اٹھا رکھا ہے، (جیسا کہ اس کا عقیدہ ہے)؛ تو تم اس کے حق میں کوئی دلیل پیش کرنے سے قاصر رہو گے۔جو لوگ اﷲ تعالیٰ کو فوق العرش قرار دیتے ہیں وہ یہ نہیں کہتے کہ اﷲ تعالیٰ عرش کا محتاج ہے، بلکہ صرف یہ کہتے ہیں کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ جب ہم نے ذات الٰہی کو ایک ایسی چیز پیدا کرنے پر قادر تسلیم کر لیا جس نے اسے اٹھا رکھا ہے، تو اس سے اس کی قدرت کاملہ کا اظہار ہوتا ہے، نہ کہ دوسروں کی طرف عجز و درماندگی کا۔ہم قبل ازیں بیان کرچکے ہیں کہ جہت سے امر موجود بھی مراد لیا جا سکتا ہے اور امر معدوم بھی۔ جو شخص اﷲ تعالیٰ کو فوق العالم تسلیم کرتا ہے، وہ یہ نہیں کہتا کہ وہ کسی ایک موجودجہت میں ہے۔البتہ یہ ممکن ہے کہ جہت سے عرش مراد لیا جائے، اور باری تعالیٰ کے اس میں ہونے کا مطلب یہ سمجھا جائے کہ وہ اس کے اوپر ہے۔ جیسے روایات میں آیا ہے کہ: ’’ اِنَّہُ فِی السَّمَآئِ‘‘ (وہ آسمان میں ہے) یعنی’’ وہ آسمان کے اوپر ہے ۔‘‘پس اس اعتبار سے جب وہ تمام عالم سے اوپر ہے تو ایسے ہی تمام مخلوقات سے بے نیاز بھی ہے۔پھر جہت سے مراد ان کے نزدیک ایسی وجودی چیز نہیں ہوگی جس میں اللہ تعالیٰ موجود ہوں ؛ چہ جائے کہ وہ اس کا محتاج ہو۔ اور اگر جہت سے مراد فوق العالم ہے تو پھر اس میں کوئی حرج والی بات نہیں ۔ یہ کوئی امر وجودی نہیں کہ یہ کہا جائے کہ وہ اس کا محتاج ہے ؛ یا کوئی دوسرا اس کا محتاج ہے۔مگر یہ لوگ جہت کو ایک مشترک لفظ قرار دیتے ہیں اور اس زعم فاسد میں مبتلا ہیں ؛اور دوسروں کواس زعم میں مبتلا کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ جب وہ کسی جہت میں ہے ؛ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ اپنے علاوہ ہر ایک چیز میں موجود ہے ۔ جیسے آدمی اپنے گھر میں ہوتا ہے ؛ اور جیسے شمس و قمر اور کواکب آسمان میں ہیں ؛ پھر اس سے اور ایک نتیجہ نکالا جس سے اﷲ تعالیٰ کا محتاج الی الغیر ہونا لازم آتاہے۔جب کہ اللہ تعالیٰ ہر ایک چیز سے غنی اور بے نیاز ہے۔ اوریہ سب مقدمات باطل ہیں ۔مثلاً ان کا یہ قول کہ ’’ اﷲ تعالیٰ اگر کسی جہت میں ہوگا تو وہ مجسم ٹھہرے گا، اور جو چیز جسم دار ہو وہ حادث ہوتی ہے، کیونکہ جسم حوادث سے خالی نہیں ، لہٰذا اس سے اﷲ تعالیٰ کاحادث ہونا لازم آئے گا۔‘‘
یہ سب مقدمات متنازع فیہا ہیں ۔ اس لیے کہ بعض لوگوں کے نزدیک یہ ضروری نہیں کہ جہت میں قیام پذیر ہونے والی چیز جسم دار ہو۔ بلکہ غیر مجسم اشیاء کا قیام بھی جہت میں ممکن ہے۔ جب اس کے جواب میں کہا جاتا ہے کہ یہ خلاف عقل ہے تو وہ کہتا ہے کہ کسی موجود چیز کے متعلق یہ کہنا کہ وہ عالم میں داخل ہے اور نہ خارج ؛اس سے بھی زیادہ خلاف عقل ہے۔اگر عقل اُس نظریہ کو قبول کرے تو یہ نظریہ بطریق اولیٰ قبولیت کا حق دار ہے۔ اور اگر اس نظریہ کو رد کیا جائے تو پھر پہلا نظریہ بطریق اولیٰ رد کئے جانے کا مستحق ہے۔ اور جب پہلے نظریہ کو رد کردیا جائے تو جہت میں ہونا متعین ہوگیا۔ تو ہر دو صورت میں جہت کا ہونا ثابت ہوتا ہے۔بعض لوگ یہ بھی تسلیم نہیں کرتے کہ ہر جسم حادث ہوتا ہے، مثلاً کرامیہ اور اس مؤلف کے اسلاف متقدمین شیعہ۔یہاں پر گفتگو ان ہی لوگوں کے ساتھ ہے۔ اسی طرح بعض لوگ اس نظریہ کو نہیں مانتے کہ جسم حوادث سے خالی نہیں ہوتا،بلکہ ان کے نزدیک جائز ہے کہ کوئی جسم حوادث اور حرکت سے خالی ہو۔ جیسا کہ ان سے تنازع کرنے والے صانع کو کسی فعل کے انجام دینے تک افعال سے خالی قرار دیتے ہیں ۔ اسی طرح بہت سے اہل الحدیث؛ متکلمین اور فلاسفہ جو کہ ان ساتھ اختلاف رکھتے ہیں ان کے نزدیک یہ بات درست نہیں کہ جو چیز حوادث سے خالی نہ ہو وہ خود بھی حادث ہوتی ہے۔ان مقامات میں سے ہر ایک مقام ایسا ہے کہ رافضی مشائخ اور ان کے ہمنوا اپنے متقدمین کے افکار و عقائد کو ثابت کرنے کے لیے دلائل پیش کرنے سے عاجز ہیں دوسرے فرقوں کی تو بات ہی چھوڑیے۔٭٭دوسری جلد ختم ہوئی ٭٭