ائمہ کی قبروں کا حج کرنا یا ارکان اسلام میں سے پانچویں رکن کو ادا کرنا شیعہ علماء کے نزدیک ان دونوں میں سے کون سا حج زیادہ عظمت والا ہے؟
الشیخ عبدالرحمٰن الششریائمہ کی قبروں کا حج کرنا یا ارکانِ اسلام میں سے پانچویں رکن کو ادا کرنا شیعہ علماء کے نزدیک ان دونوں میں سے کون سا حج زیادہ عظمت والا ہے؟
جواب: ان کے ائمہ کی قبروں کا حج کرنا زیادہ عظمت والا ہے انہوں نے سیدنا ابو عبداللہؒ پر افتراء پردازی کرتے ہوئے ان سے روایت بیان کی ہے کہ ایک آدمی یمن سے سیدنا حسینؓ کی زیارت کے لیے آیا تھا اس سے کہا: بلاشبہ سیدنا ابو عبداللہؒ کی زیارت کرنا رسولﷺ کی معیت میں پاکیزہ تر مقبول و منظور حج کے برابر درجہ رکھتا ہے۔
اس پر اس آدمی کو تعجب ہوا تو آپ نے فرمایا: ہاں اللہ کی قسم! رسولﷺ کے ہمرا ہی میں دو مقبول و مبرور حجوں کے برابر ہے تو اس آدمی کو اس پر اور زیادہ تعجب ہوا تو سیدنا ابو عبداللہؒ ان حجوں کی تعداد بڑھاتے رہے یہاں تک کہ آپ نے فرمایا آپﷺ کی ہمراہی میں تیس مقبول و مبرور حجوں کے برابر ثواب رکھتا ہے۔
( ثواب الاعمال وأعقاب الاعمال لابن بابویه: صفحہ، 121 ح، 40 ثواب من زار قبر حسین وسائل الشیعه للحر العاملی: جلد، 10 صفحہ، 488 باب استحباب اختیار زیارۃ الحسین علی الحج و العمرۃ المندوبین)
شیعہ نے ایک روایت میں رسولﷺ پر جھوٹ گھڑ کر یہ اجر بیان کیا ہے وہ کہتے ہیں رسولﷺ نے فرمایا جس نے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی قبر کی زیارت کی تو اس کے لیے اللہ تعالیٰ میرے حج میں سے ایک حج کا ثواب لکھ دیتے ہیں پوچھا گیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کے حج میں سے ایک حج کا ثواب تو آپﷺ نے فرمایا ہاں! میرے حج میں سے دو حج کا ثواب پھر اس عورت نے کہا یا رسول اللہﷺ کیا دو حج کا ثواب؟
تو آپﷺ نے فرمایا: ہاں چار حج کا ثواب پھر وہ مسلسل پوچھتی رہی اور آپﷺ اضافہ کرتے رہے حتّٰی کہ ایک زیارت کے ثواب میں ایسے 70 حج لکھے جاتے ہیں جو رسولﷺ کے حجوں میں سے ہیں: جنہیں آپ نے ان کی عمروں کے ساتھ ساتھ ادا کیا ہو۔
(وسائل الشیعة :جلد، 10 صفحہ، 489 ح، 14 باب استحباب اختیار زیارۃ الحسین علی الحج و العمرۃ المندوبین)
ایک صاحب نے اس سے بھی بڑا جھوٹ گھڑ کر یہ روایت بھی بیان کی ہے: امام قائم کے ساتھ دس لاکھ حج کا اور رسولﷺ کے ساتھ دس لاکھ عمروں کا ثواب اس کے نامہ اعمال میں لکھ دیا جاتا ہے۔
(کتاب المزار للمفید: صفحہ، 46 (باب فضل الزیارۃ یوم عرفۃ) تہذیب الاحکام: جلد، 6 صفحہ، 1325 ح، 28 کتاب المزار باب فضل الزیارۃ علیہ السلام اور روضۃ الواعظین و بصیرۃ المتعلقین: صفحہ، 223 مجلس فی ذکر مقتل الحسین اور وسائل الشیعہ: جلد، 10 صفحہ، 492 ح، 2 باب تاکد استحباب زیارۃ الحسین لیلۃ عرفۃ و یوم عرفۃ و یوم العید بحار الانوار جلد، 98 صفحہ، 88 ح، 18 باب فضل الزیارۃ فی یوم عرفۃ او العیدین)
پھر اس میں یہ بھی اضافہ کیا اور کہا: بیس لاکھ حج اور بیس لاکھ عمرہ کرنے کا بیس لاکھ غزوات لڑنے کا ثواب اور ہر حج و عمرہ و غزوہ کا اتنا بڑا ثواب گویا کہ اس نے رسولﷺ اور ائمہ راشدین کے ساتھ حج و عمرہ اور غزوہ کیا ہو۔
(کامل الزیارات والمزار: صفحہ، 167 ح، 9 باب، 71 ثواب من زار الحسین یوم عاشوراء بحار الانوار: جلد، 98 صفحہ، 290 باب کیف زیارۃ الصلوات اللہ علیہ یوم العاشوراء)
پھر اس جھوٹ کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے بولے: ابوالحسن سیدنا الرضاؒ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے فرمایا: جس نے دریائے فرات کے کنارے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی قبر کی زیارت کی تو وہ ایسا ہی ہے جس نے اللہ تعالیٰ کی عرش پر زیارت کر لی۔
(ثواب الاعمال: صفحہ، 112 ح، 1 الثواب من زار قبر الحسین کامل الزیارات: صفحہ، 143 ح، 2 باب، 59 ان من زار الحسین کان کمن زار اللہ فی عرشہ بحار الانوار صفحہ، 98 جلد، 69 ح، 3 باب جوامع ما ورد من الفضل فی زیارته)
نیز یہ روایت بھی کرتے ہیں کہ سیدنا ابو عبداللہؒ نے فرمایا: جس شخص نے سیدنا حسین بن علیؓ کے حق کو پہچانتے ہوئے عاشوراء کے دن ان کی قبر کی زیارت کی وہ اس شخص جیسا ہے جس نے اللہ تعالیٰ کی زیارت اس کے عرش پر کی۔
(کتاب المزار: 51 باب فضل الزیارۃ یوم عاشوراء اقبال الاعمال: صفحہ، 3 جلد، 64 فضل فی ما نذکرہ من فضل الزیارۃ الحسین یوم عاشوراء نور العین فی المشی الیٰ زیارۃ قبر الحسین: صفحہ، 49 حدیث نمبر، 3 باب نمبر، 17 ان من زار الحسین کمن زار اللہ فی عرشہ)
ایک اور روایت اس طرح گھڑی گئی ہے زید بن شحام کہتے ہیں:
میں نے سیدنا ابو عبداللہؒ سے کہا: جو کوئی قبرِ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی زیارت کرے اس کے لیے کیا اجر ہے؟ تو آپ نے فرمایا: گویا کہ اس نے عرش کے اوپر اللہ تعالیٰ کی زیارت کر لی۔
(کامل الزیارات: صفحہ، 143 ح، 1 باب، 59 ان من زار الحسین کمن زار اللہ فی عرشہ مستدرک الوسائل الشیعه: صفحہ، 10 جلد، 185 حدیث نمبر، 11806 رقم خاص، 11 ح، 1 باب تاکید استحباب زیارۃ النبی والاٰئمۃ خصوصا بعد الحج)
ایک اور روایت ان الفاظ میں بھی گھڑی گئی ہے کہ رسولﷺ نے فرمایا:
جس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دونوں بیٹوں کی قبر کی زیارت کی اس کے لئے اللہ کے ہاں ستر مقبول و مبرور حج کا ثواب ہوتا ہے۔ اور جس نے اس قبر کی زیارت کی اور رات وہاں پر گزاری تو گویا کہ اس نے عرش کے اوپر اللہ تعالیٰ کی زیارت کی۔
(فروع الکافی: صفحہ، 4 جلد، 467 کتاب الحج: ح، 4 باب فضل زیارۃ ابی الحسین الرضاء)
کیا یہ مبالغہ آرائی اور غلو کی داستانیں ختم ہو چکی ہیں یا ابھی جاری ہیں؟
تناقض: شیعہ علماء نے روایت بیان کرتے ہوئے حنان بن سدیر سے روایات نقل کی ہیں وہ کہتا ہے: میں نے سیدنا ابو عبداللہؒ سے عرض کی: آپ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی قبر کی زیارت کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ کیونکہ آپ ہی میں سے بعض ائمہ کی طرف سے ہمیں یہ فرمان پہنچا ہے کہ وہ ایک حج اور ایک عمرے کے برابر ہے؟ اس نے کہا آپ نے فرمایا:
ما اضعف ھذا الحدیث ما تعدل ھذا کله ولکن زروہ ولا تجفوہ فانه سید شباب الشھداء و سید شباب اھل الجنة
(قرب الاسناد: صفحہ، 99۔100 حديث نمبر، 326 بحار الانوار: جلد، 98 صفحہ، 35 حدیث نمبر، 44 باب ان زیارته علیہ السلام تعدل الحج و العمرۃ و الجھاد والاعتاق)
یہ حدیث کا درجہ ضعیف ہے، یہ کسی طور پر بھی برابر نہیں ہے، لیکن تم اس کی زیارت کرو اس پر اکھٹے نہ ہوا کرو بلاشبہ وہ شہید نوجوانوں کے اور اہلِ جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں۔
علمائے شیعہ کے لیے زبردست مصیبت: شیعہ مذہب کے لیے الکلینی نے سیدنا ابو عبداللہؒ سے روایت بیان کی ہے کہ سیدنا علیؓ نے فرمایا: بعثنی رسولﷺ فی ھدم القبور و کسر القبور۔
رسول اللہﷺ نے مجھے قبریں منہدم کرنے اور تصاویر پھاڑنے اور توڑنے کے لیے بھیجا تھا.
(فروع الکافی: صفحہ، 6 جلد، 1561 کتاب الزی والتجمل والمروءۃ: حدیث نمبر، 11 باب تزویق البیوت وسائل الشیعة: جلد، 2 صفحہ، 549 ح، 6 باب کراھیۃ البناء علی القبر فی غیر النبیﷺ والائمۃ علیہم السلام و الجلوس علیه وتجصیصه وتغلیبه)
ایک اور روایت میں سیدنا ابو عبداللہؒ سے یہ بھی منقول ہے کہ آپ نے فرمایا: حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا مجھے رسولﷺ نے مدینے کی طرف بہیج کر فرمایا: لاتدع صورۃ آلا محوتھا ولا قبر آلا سویته ولا کلبا آلا قتلته
کسی تصویر کو نہ چھوڑ مگر تو اسے مٹا ڈال اور کسی قبر کو نہ چھوڑ مگر اسے برابر کردے۔
(فروع الکافی: جلد، 6 صفحہ، 1561 کتاب الزی واتجمل والمروۃ: حدیث نمبر، 14 باب تزویق البیوت)
شیعہ علماء کی مصیبت یہ ہے کہ انہوں نے مخلوق کی قبروں کو اللہ تعالیٰ کے گھر سے تشبیہ دے رکھی ہے۔ جب کہ اصل دین یہ ہے کہ ہم صرف ایک اللہ تعالیٰ کی ہی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ ٹھہرائیں۔ اور نہ ہی کسی کو اس کا ہم پلہ یا ہم منصب سمجھیں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
رَّبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَمَا بَيۡنَهُمَا فَاعۡبُدۡهُ وَاصۡطَبِرۡ لِـعِبَادَتِهٖ هَلۡ تَعۡلَمُ لَهٗ سَمِيًّا ۞ (سورۃ المريم: آیت، 65)
ترجمہ: جو آسمانوں کا اور زمین کا اور ان دونوں کے درمیان چیزوں کا رب ہے سو اس کی عبادت کر اور اس کے عبادت پر خوب صابر رہ کیا تو اس کا کوئی ہم نام جانتا ہے
نیز اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَلَمۡ يَكُنۡ لَّهٗ كُفُوًا اَحَدٌ ۞(سورۃ الاخلاص: آیت، 4)
ترجمہ: کوئی بھی اس کا برابر اور ہم پلہ نہیں ہے۔
نیز تعالیٰ کا فرمان ہے:
فَلَا تَجۡعَلُوۡا لِلّٰهِ اَنۡدَادًا وَّاَنۡـتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ۞(سورۃ البقرة: آیت: 22)
ترجمہ: بس اللہ کے لیے کسی قسم کے شریک نہ بناؤ جب کہ تم جانتے ہو۔
پس جو کوئی خالق و مخلوق کو محبت یا خوف یا اس سے امید و نا امیدی میں برابر کرے وہ کافر اور مشرک ہے۔