کیا شیعہ علماء کے اعتقاد کے مطابق اللہ تعالی کے علاوہ کسی اور کو بھی چیزوں کو حلال اور حرام کرنے کا حق حاصل ہے؟
الشیخ عبدالرحمٰن الششریکیا شیعہ علماء کے اعتقاد کے مطابق اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کو بھی چیزوں کو حلال اور حرام کرنے کا حق حاصل ہے؟
جواب: جی ہاں! ان لوگوں کا یہی عقیدہ ہے کہ سیدنا ابو جعفرؒ نے فرمایا ہے: ہم ائمہ کو ہی یہ حق سونپا گیا ہے لہٰذا جسے وہ حلال ٹھہرا دیں وہی حلال ہے اور جسے وہ حرام قرار دے دیں وہی حرام ہے۔
(بصائر الدرجات: جلد، 2 صفحہ، 238 حصہ، 3 باب فی ان ما فوض الی رسول اللہﷺ وفقد فرض الی الائمۃ اور الاختصاص: صفحہ، 230 انھم علیھم السلام مدثون بحار الانوار: جلد، 25 صفحہ، 333 حدیث نمبر، 12 فصل فی بیان التفویض ومعانیه)
اور ان لوگوں نے یہ بہتان بھی تراش لیا ہے کہ سیدنا الرضاؓ نے فرمایا ہے: (حالانکہ وہ ایسا نہیں کہہ سکتے)
النَّاسُ عَبِيدٌ لَنَا فِي الطَّاعَةِ
ترجمہ: لوگ اطاعت کے معاملے میں ہمارے غلام ہیں ـ
(الامالی: صفحہ، 253 حديث نمبر، 3 المجلس الثلاثون بحار الانوار' جلد، 25 صفحہ، 279 حديث نمبر، 21 باب نفی الغلو فی النبی والائمه علیھم السلام و بیان معانی تفویض وما لا ینبغی ان ینسب)
کمر شکن: ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اِتَّخَذُوۡۤا اَحۡبَارَهُمۡ وَرُهۡبَانَهُمۡ اَرۡبَابًا مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ وَالۡمَسِيۡحَ ابۡنَ مَرۡيَمَ ۚ وَمَاۤ اُمِرُوۡۤا اِلَّا لِيَـعۡبُدُوۡۤا اِلٰهًا وَّاحِدًا لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ سُبۡحٰنَهٗ عَمَّا يُشۡرِكُوۡنَ ۞ (سورۃ التوبة: آیت، 31)
ترجمہ: ان لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے عالموں اور درویشوں کو رب بنایا ہے اور مریم کے بیٹے مسیح علیہ السلام کو حالانکہ انہیں صرف ایک اکیلے اللہ ہی کی عبادت کا حکم کیا گیا تھا جس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ پاک ہے ان کے شریک مقرر کرنے سے
نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
قَالُوۡا وَهُمۡ فِيۡهَا يَخۡتَصِمُوۡنَ ۞ تَاللّٰهِ اِنۡ كُنَّا لَفِىۡ ضَلٰلٍ مُّبِيۡنٍ ۞ اِذۡ نُسَوِّيۡكُمۡ بِرَبِّ الۡعٰلَمِيۡنَ ۞ وَمَاۤ اَضَلَّنَاۤ اِلَّا الۡمُجۡرِمُوۡنَ ۞ فَمَا لَـنَا مِنۡ شٰفِعِيۡنَ ۞ وَلَا صَدِيۡقٍ حَمِيۡمٍ ۞ فَلَوۡ اَنَّ لَـنَا كَرَّةً فَنَكُوۡنَ مِنَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ ۞ اِنَّ فِىۡ ذٰ لِكَ لَاٰيَةً وَّمَا كَانَ اَكۡثَرُهُمۡ مُّؤۡمِنِيۡنَ ۞ (سورۃ الشعراء: 96 تا 103)
ترجمہ: وہ کہیں گے جب کہ وہ اس میں جھگڑ رہے ہوں گے۔ اللہ کی قسم! بے شک ہم یقیناً کھلی گمراہی میں تھے۔ جب ہم تمہیں جہانوں کے رب کے برابر ٹہراتے تھے۔ اور ہمیں گمراہ نہیں کیا مگر ان مجرموں نے ۔ اب نہ ہمارے لیے کوئی سفارش کرنے والے ہیں اور نہ کوئی دلی دوست تو کاش کہ واقعی ہمارے لیے واپس جانے کا ایک موقع ہو، تو ہم مومنوں میں سے ہو جائیں بے شک اس میں یقیناً ایک نشانی ہے اور ان کے اکثر ایمان والے نہیں تھے۔
اور سیدنا ابو عبداللہؒ نے فرمایا: اللہ کی قسم! انہوں(ائمہ)نے لوگوں کو اپنی ذات کی عبادت کرنے کی دعوت نہیں دی اگر وہ انہیں دعوت دیتے بھی تو وہ قبول نہ کرتے لیکن انہوں نے ان کے لیے حرام کو حلال قرار دیا ہے اور ان پر حلال کو حرام کہا ہے اس طریقے سے کہ وہ شعور نہ رکھتے تھے۔
(اموال الکافی: جلد، 1 صفحہ، 43 کتاب فصل العلم حدیث نمبر،1 باب التقلید)