شیعہ مذہب میں تیروں سے قسمت آزمائی کا کیا حکم ہے؟
الشیخ عبدالرحمٰن الششریشیعہ مذہب میں تیروں سے قسمت آزمائی کا کیا حکم ہے؟
جواب: شیعہ مذہب میں یہ عمل مشروع ہے۔
(فروع الکافی: جلد، 3 صفحہ،331 کتاب الصلاة: حديث، 3 باب صفة الاستخارة المصباح في الادعية و الصلوات والزيارات والاحراز و المعوذات: صفحہ، 513 الفصل الخامس والثلاثون في الاستخارات وهي كثيرة)
چنانچہ شیعہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت علیؓ بن ابی طالب کا قسمت آزمائی کا طریقہ یہ تھا: دل میں کوئی ارادہ کرے اور دو ٹکڑوں پر قسمت آزمائی کے الفاظ لکھے۔ ایک پر لکھے یہ کام کر لو دوسرے پر لکھے یہ کام مت کرنا، اس قسمت آزمائی کے نسخے کو ایک مٹی کے برتن میں ڈال کر ایک پانی کے برتن میں ڈبو دے۔ پھر جو ٹکڑا تیر کر اوپر آ جائے اس کے مطابق عمل کرے اور اسکی مخالفت ہر گز نہ کرے۔
(فتح الابواب بين ذوي الالباب وبين رب الارباب في الاستخارات: صفحہ، 263 البابت تاسع عشر وسائل الشیعہ جلد، 5 صفحہ، 127 حدیث، 4 باب الاستخارہ بالرقاع وکفیتھا بحار الانوار: جلد، 88 صفحہ، 238 حدیث نمبر، 4 بابل استخارہ بالبنادق)
بعض شیعی علماء نے قسمت آزمائی کے لیے سیدنا حسینؓ کے سر والی جگہ مقرر کی ہے۔
(وسائل الشیعہ: جلد، 5 صفحہ، 133 باب استحباب الاستخارہ عند راس حسین علیہ السلام مائة مرة)
تعلیق: قسمت آزمائی کا یہ نسخہ اور دیگر بے شمار طریقے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے منافی ہیں:
حُرِّمَتۡ عَلَيۡكُمُ الۡمَيۡتَةُ وَالدَّمُ وَلَحۡمُ الۡخِنۡزِيۡرِ وَمَاۤ اُهِلَّ لِغَيۡرِ اللّٰهِ بِهٖ وَالۡمُنۡخَنِقَةُ وَالۡمَوۡقُوۡذَةُ وَالۡمُتَرَدِّيَةُ وَالنَّطِيۡحَةُ وَمَاۤ اَكَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَكَّيۡتُمۡ وَمَا ذُ بِحَ عَلَى النُّصُبِ وَاَنۡ تَسۡتَقۡسِمُوۡا بِالۡاَزۡلَامِ ؕ ذٰ لِكُمۡ فِسۡقٌ ؕ اَلۡيَوۡمَ يَئِسَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا مِنۡ دِيۡـنِكُمۡ فَلَا تَخۡشَوۡهُمۡ وَاخۡشَوۡنِ ؕ اَ لۡيَوۡمَ اَكۡمَلۡتُ لَـكُمۡ دِيۡنَكُمۡ وَاَ تۡمَمۡتُ عَلَيۡكُمۡ نِعۡمَتِىۡ وَرَضِيۡتُ لَـكُمُ الۡاِسۡلَامَ دِيۡنًا ؕ فَمَنِ اضۡطُرَّ فِىۡ مَخۡمَصَةٍ غَيۡرَ مُتَجَانِفٍ لِّاِثۡمٍۙ فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ ۞(سورۃ المائدة: آیت، 3)
ترجمہ: تمہارے لیے حرام کیے گئے ہیں مردہ جانور، خون، سور کا گوشت، اور وہ جانور جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام پکارا جائے اور گلا گُھٹنے سے مرنے والا، چوٹ لگ کر مر جانے والا، اوپر سے گر کر مرنے والا، کسی کا سینگ لگ کر مر جانے والا اور وہ جانور بھی جسے درندے کھا جائیں، سوائے اس کے جسے تم ذبح کر لو اور وہ جانور جو آستانوں پر ذبح کیا جائے اور یہ کہ تم فال کے تیروں سے قسمت آزمائی کرو۔ یہ سب گناہ (کے کام) ہیں۔ آج وہ لوگ نا امید ہو گئے۔ جنہوں نے تمہارے دین کا انکار کیا، لہٰذا پس تم ان سے نہ ڈرو اور مجھ ہی سے ڈرو۔ آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت مکمل کر دی، اور تمہارے لیے دین اسلام کو پسند کر لیا۔ پس جو شخص بھوک سے بے بس ہو جائے جب کہ وہ گناہ پر مائل نہ ہونے والا ہو تو یقیناً اللہ بخشنے والا، نہایت رحم کرنے والا ہے۔
شیعہ کا یہ فال نامہ اس شیعی روایت کے بھی منافی ہے جس کے مطابق رسول اللہﷺ اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو تمام معاملات میں استخارے کا طریقہ سکھاتے تھے جیسے انہیں قرآن مجید کی کوئی سورت اہتمام کے ساتھ سکھاتے تھے۔
آپﷺ فرماتے جب کسی شخص کو کوئی اہم معاملہ در پیش ہو تو وہ دو رکعت نماز نفل ادا کرے پھر یہ دعا پڑھے:
اللَّهُمَّ إِلَى اسْتَخِيرُكَ بِعِلْمِكَ وَاسْتَقْدِرُكَ بِقُدْرَتِكَ وَاسْئلْكَ مِنْ فَضْلِكَ الْعَظِيمِ فَإِنَّكَ تَقْدِرُ وَلَا اقْدِرُ وَتَعْلَمُ وَلَا أَعْلَمُ وَأَنتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ اللَّهُمَّ إِن كُنتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا الْأَمْرَ خَيْرٌ لِي فِي دِينِي وَمَعَاشِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِي فَاقْدِرُهُ لِى وَيَسْرُهُ لِى ثُمَّ بَارِكْ لِي فِيْهِ وَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا الْأَمْرَ شَرْ لِي فِي دِينِي وَمَعَاشِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِى فَاصْرِفْهُ عَنِّى وَاصْرِفْنِي عَنْهُ وَاقْدِرُ لِيَ الْخَيْرَ حَيْثُ كَانَ ثُمَّ أَرْضِنِي بِه.
اے اللہ! بے شک میں تجھ سے تیرے علم کے ساتھ بھلائی طلب کرتا ہوں، اور تجھ سے تیری قدرت کے ساتھ طاقت طلب کرتا ہوں اور میں تجھ سے تیرے فضلِ عظیم کا سوال کرتا ہوں۔ کیونکہ تو قدرت رکھتا ہے اور میں قدرت نہیں رکھتا، تو جانتا ہے اور میں نہیں جانتا اور تو غیبوں کو خوب جانتا ہے، اے اللہ! تو جانتا ہے کہ بے شک یہ کام میرے لیے میرے دین، میرے معاش اور میرے انجام کار کے لحاظ سے بہتر ہے۔ توں اس کا میرے حق میں فیصلہ کر دے اور اسے میرے لیے آسان کر دے، پھر میرے لیے اس میں برکت ڈال دے۔ اور اگر تو جانتا ہے کہ بے شک یہ کام میرے لیے میرے دین، میرے معاش اور میرے انجام کار کے لحاظ سے برا ہے تو اسے توں مجھ سے دور کر دے اور مجھے اس سے دور کر دے اور میرے لیے بھلائی کا فیصلہ کر دے جہاں بھی وہ ہو، پھر مجھے اس پر راضی کر دے۔
(مكارم الأخلاق: 323 الباب العاشر فی آداب من الادعية الفصل الرابع في نوادر من الصلوات بحار الأنوار: جلد، 88 صفحہ، 228 حدیث نمبر، 4 باب الاستخارة بالرقاع)