Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

تعلیمی اداروں میں غیر مسلم نصاب داخل کرنا اور غیر مسلم اساتذہ مقرر کرنا، اسلامی ملک میں غیر مسلم اقلیتوں کے طلبہ کو سرکاری خرچہ پر خلافِ اسلام تعلیم دینے کی اجازت دینا، معصوم بچوں کو غیر مسلموں کے اداروں میں داخل نہ کرے


سوال: اِن دِنوں تعلیمی اِداروں میں عیسائی طلبہ کو اسلامیات کے تبادلہ میں اخلاقیات یا سوکس پڑھنے کی سہولت ہے۔عیسائیوں کو شکایت ہے کہ یہ مضامین خشک ہیں، طلبہ ان میں تھوڑے نمبر حاصل کرتے ہیں اور نتیجتاً میرٹ سے رہ جاتے ہیں۔ آئینی طور پر شہری کو برابر کا حق حاصل ہے اور حکومت اقلیتوں کی پاپند ہے۔ 

اندریں حالات عیسائیوں نے لاہور ہائی کورٹ میں رٹ دائر کی ہے کہ ان کی مقدس کتاب بائبل کو نصابِ تعلیم میں داخل کیا جائے۔ عیسائی طلبہ اس مضمون میں 80 تا 95 فیصد نمبر حاصل کر کے میرٹ پر پورے اتر سکیں گے۔ بائبل پڑھانے کے لیے ایک لاکھ اساتذہ رکھے جائیں گے۔ اس سے یہ روحانی فائدہ بھی ہوگا کہ متواتر 10 سال بائبل پڑھنے کے بعد علم مکمل مسیحی ہو کر نکلے گا۔

  1. جناب کی خدمت میں اس موضوع پر اسلامی موقف واضح فرمانے کی درخواست ہے؟
  2.  کیا اسلامی شریعت میں اسلامی پاکستان کے اندر عیسائی، ہندو، بدھ، سکھ، پارسی، قادیانی اقلیتوں کے طلبہ کو سرکاری خرچے پر اور باقاعدہ نصابِ تعلیم کے طور پر ان کی مذہبی کتب کی کفر و شرک بھری اور خلافِ اسلام تعلیم دینے کی اجازت ہے؟
  3.  کیا اسلامی مملکت میں مذہبی اقلیتوں کا یہ حق مسلّم ہے؟

جواب 1: زمانۂ نبویﷺ اور خلافتِ راشدہؓ کے ادوار پر غور و خوص کرنے سے یہ بات کھُل کر سامنے آ جاتی ہے کہ یہود و نصاریٰ اور دیگر غیر مسلم اقوام کا دینی مناہج تعلیم و تدریس کے ساتھ کسی قسم کا تعلق یا واسطہ نہ تھا بلکہ مختلف ادوار میں ان کے تعلیمی ادارے، مدارس و معاہدہ وغیرہ جداگانہ حیثیت کے نہ حامل تھے، نا غیر مسلم کا مسلم طلبہ سے اختلاط تھا اور نہ یہ غیر مسلم اساتذہ کبھی اسلامی مدارس میں بطورِ معلم مقرر ہوئے۔

امتیازی تہذیب و تمدن اور عقائدی افتراق کا تقاضا یہی ہے، لیکن بعد میں مرورِ زمانہ سے ہوا کہ یہ استعماری عناصر اور اس کے پروردہ اور زر خرید ملحدانہ نظریات کے پرچار کرنے والےاشخاص نے باقاعدہ منظّم سازش کے تحت اسلام کے نام پر اسلامی ثقافت کا حلیہ بگاڑنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی، اس کے نتیجے میں سادہ لوح مسلمان صراطِ مستقیم سے بھٹک کر منزلِ مقصود اور جادۂ حق سے کوسوں دور ہوتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ واپسی کی راہیں مسدود نظر آنے لگی۔

اہلِ دانش کے ہاں مقولہ معروف ہے کہ انگریز پاک و ہندو کو چھوڑ کر چلا گیا لیکن تعلیم و تعلّم اور تہذیب و ثقافت کی صورت میں ذہنی غلامی ورثہ میں چھوڑ گیا۔ اس سے نجات حاصل کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔ اس کے گماشتے نصف صدی سے نظامِ تعلیم پر قابض ہیں جس کسی نے ان کے آڑے آنے کی کوشش کی اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ آج کے انحطاطی دور میں اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ کوئی مردِ مجاہد آگے بڑھ کر موجودہ سیکولر نظام میں انقلاب برپا کر کے اس کا رخ مکہ اور مدینہ کی صاف شفاف فضاء کی طرف موڑے تا کہ اللہ تعالیٰ کے بندے دنیاوی و اُخروی سعادتوں سے بہرہ ور ہوسکیں۔ لہٰذا بنیادی طور پر جد و جہد اس امر کی ہونی چاہیئے کہ معصوم مسلم بچے کو کفر کی مقاربت سے دُور رکھنے کی کوشش کی جائے تا کہ غیر مرئی جراثیم سے محفوظ و مامون رہ سکے۔ اس لئے کہ انسانی فطرت میں یہ ہی مرکوز ہے کہ بیرونی اثرات سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ حديث شريف: لتتبعن سنن من قبلكم شبرا بشبر میں اس بات کی طرف اشارہ ہے۔ اس بناء پر حافظ ابنِ حجرؒ نے فرمایا ہے کہ راسخین فی العلم کے ماسوا عامۃ الناس کیلئے یہود و نصاریٰ کی محترف و مبدل کتابوں کا مطالعہ کرنا ممنوع ہے۔ چہ جائیکہ اسلامی ماحول میں بائبل کی تدریس کی اجازت مرحمت کر کے مخالفینِ اسلام کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ میرے خیال میں اصلاً اربابِ اقتدار سے یہ مطالبہ ہونا چاہیئے کہ قطع نظر آئین سے اقلیتوں کی شہری آزادی اور حقوق اسی طرح متعین کئے جائیں جس طرح کہ اوائل اسلام میں حاصل تھے: الخير كل الخير فی الاتباع و الشر كل الشر فی الابتداع اس طریق سے موجودہ الجھن اور بگاڑ کامل خود بخود نکل آتا ہے۔ 

2: اسلامی نقطہ نظر سے کسی فرد کو ہرگز اس بات کی اجازت نہیں کہ اسلامی بیتُ المال کو کفریہ افکار کی ترویج تشہیر میں ضائع کرے۔ قیامت کے روز ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کے ہاں جوابدہ ہیں۔ 

ہائے افسوس! ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اسلامی خزانہ غلبہ دین کے مصارف میں خرچ ہوتا لیکن غلط کار لوگوں کے ہاتھ چڑھنے کی وجہ سے الٹا چکر چل رہا ہے، اپنے جوتے اپنے سر والا حساب بنا ہوا ہے۔ 

3: اسلامی مملکت میں اس قسم کے حقوق کا تصور تک موجود نہیں ، یہ کیسے ممکن ہے کہ اسلام اپنے ماننے والوں کے خلاف کفر و شرک کو مسلح کرے۔ اسلام نے تو اس بات سے سختی سے روکا ہے کہ کفار کے ہاتھ اسلحہ مت فروخت کیا جائے، کہیں ایسا نہ ہو کہ کل یہی اسلحہ اسلام کے خلاف استعمال ہونے لگے۔ 

(فتاوىٰ ثنائيه مدنية: جلد، 1 صفحہ، 432)