کافر کی موت پر اظہارِ افسوس کرنا
ایک کافر، مشرک موت پر: إِنَّا لِلَّٰهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ (سورۃ البقرہ: آیت، 156) پڑھنا یا اظہار کا افسوس نہیں کرنا چاہیئے۔ قرآنِ مجید نے فرعون اور اس کی قوم کی ہلاکت کا تناظر بیان فرمایا ہے:
فَمَا بَكَتْ عَلَیْهِمُ السَّمَآءُ وَ الْاَرْضُ وَ مَا كَانُوْا مُنْظَرِیْنَ۔ (سورۃ الدخان: آیت، 29)
ترجمہ: پھر اُن پر نہ تو آسمان اور زمین کو رونا آیا اور نہ اُن کو مہلت دی گئی۔ پھر مومن کے لیے کیسے لائق ہے کہ کافر کی موت پر افسوس کا اظہار کرے؟ ہرگز نہیں اور سیدنا عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا: قال ابو لہب (علیہ لعنۃاللہ) للنّبیﷺ تبّالک سائر الیوم، فنزلت: تَبَّتْ یَدَاۤ اَبِیْ لَهَبٍ وَّ تَبَّ(سورۃ الہب: آیت، 1)
ترجمہ: یعنی ابو لہب نے(اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو) نبی کریمﷺ کو کہا تھا: تبّالک سائر الیوم۔
اس سے معلوم ہوا کہ کافر کے فقدان پر افسوس کی بجائے اظہارِ ناراضی ہونا چاہیئے دوسری روایت میں ہے سیدنا علیؓ نے فرمایا کہ میں نے نبی کریمﷺ سے عرض کی :آپﷺ کا گمراہ چچا ابو طالب مر گیا۔آپﷺ فرمایا نے اسے دفن کر دے۔ کوئی نیا کام مت کرنا حتیٰ کہ تو میرے پاس آ جائے۔ پس میں گیا اس کو دفن کر کے واپس آیا تو آپﷺ نے مجھے غسل کا حکم دیا اور میرے لیے دعا فرمائی۔
اگر کافر کی موت پر اظہارِ افسوس روا ہوتا تو حضور اکرمﷺ خواہ ادنیٰ سے ادنیٰ الفاظ میں کرتے، یہاں ضرور کرتے، کیونکہ ابو طالب نے دنیاوی زندگی میں حضور اکرمﷺ کا بھرپور ساتھ دیا تھا، ابو طالب ہی نے حضور اکرمﷺ کو کہا تھا:
فاصدع بامرک ما علیک غضاضۃ،حتیٰ اوسد فی التراب دفینا۔
ترجمہ: یعنی جب تک قبر کی مٹی میرا تکیہ نہیں بن جاتی لوگوں کو اپنا پیغام دل کھول کر پہنچا دیجیئے۔
(فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ: جلد، 1 صفحہ، 511)