کیا شیعہ شیوخ کے عقیدے کے مطابق اللہ تعالی نے اپنے سوا کسی کو علم غیب کی کنجیاں دی ہیں؟
الشیخ عبدالرحمٰن الششریکیا شیعہ شیوخ کے عقیدے کے مطابق اللہ تعالیٰ نے اپنے سوا کسی کو علم غیب کی کنجیاں دی ہیں؟
جواب: شیعہ شیوخ کا دعویٰ ہے کہ سیدنا علیؓ بن ابی طالب نے فرمایا: (اور وہ اس الزام سے بری ہیں) اللہ نے جو نبی بھی مبعوث کیا، میں نے اس کے دین کو ادا کیا، اس کے وعدوں کی تکمیل کی، یقیناً میرے رب نے مجھے علم اور کامیابی کے ساتھ منتخب فرمایا۔ بلاشبہ میں نے اپنے رب کے پاس بارہ مرتبہ حاضری دی تو اس نے مجھے اپنی معرفت عطا کی اور مجھے علمِ غیب کی کنجیاں عطا کیں۔
(تفسیر فرات: صفحہ، 67 حدیث نمبر، 37 سورة البقرة بحار الانوار: جلد، 39 صفحہ، 350 حوالہ، 23 باب نمبر، 90 مايبين من مناقب نفسه المقدسة)
شیعہ علماء کا دعویٰ ہے کہ سیدنا ابو عبداللہؒ نے فرمایا: میں وہ سب کچھ جانتا ہوں جو آسمانوں اور زمینوں میں ہے۔ میں جانتا ہوں جو کچھ جنت میں ہے اور جو کچھ جہنم میں ہے، میں وہ سب کچھ جانتا ہوں جو ہو چکا ہے اور جو کچھ آئندہ ہو گا ۔
(بحار الأنوار: جلد، 26 صفحہ، 111 حديث نمبر، 8 اب أنهم عليهم السلام يجب عنهم علم السماء والأرض)
اور بعض شیعہ علماء و مشائخ کا عقیدہ ہے کہ:
ان کے ائمہ ہر ایک چیز کا ایسے ہی تفصیلی علم رکھتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کو ان چیزوں کی تفصیل کا علم ہے۔ انہیں ما کان و ما یکون و ما هو كائن (جو کچھ تھا جو ہو گا اور جو ہونے والا ہے سب) کا علم حاصل ہے۔ ان سے کوئی ذرہ بھر بھی چیز پوشیدہ نہیں رہتی۔ تو تمام کائنات اور سب جہانوں میں جو کچھ ہونے والا ہے اس کے بارے میں ان کے عالم ہونے میں کوئی شک نہیں کجا کہ جو ہو گیا ہو اور جو ہونے والا ہو۔ جیسا کہ بہت ساری متواتر احادیث کے مقتضیٰ سے یہ بات ثابت ہے۔ بلکہ یہ دعویٰ کرنا بھی ممکن ہے کہ یہ امامیہ مذہب کے اعتقادات اور ان کے مذہب کی ضروریات میں سے ہے۔
(صراط الحق فی معارف الإسلامية والأصول الاعتقادية: جلد، 3 صفحہ، 290 الباب الثامن فی علوم الأئمة عليهم السلام محمد آصف المحسنى)
ان کے امام اکبر خمینی کا کہنا ہے کہ جان لیجیئے کہ شبِ قدر رسول اللہﷺ اور ائمہ ہدیٰ کے مکاشفہ کی شب ہے۔ پس اس رات ان کے لیے غیب ملکوت کے تمام ملکوتی امور منکشف ہو جاتے ہیں۔ یہ مکاشفہ ملکوتی مکاشفہ ہوتا ہے جو کہ تمام کائنات کے ذرہ ذرہ کو محیط ہوتا ہے۔ اور ولی امر پر اپنی رعیت کے امور میں سے کوئی بھی بات مخفی نہیں رہتی اور یہ روایت بھی وارد ہوئی ہے کہ اس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ ہدیٰ پر لوگوں کے اعمال پیش ہوتے ہیں۔
( الآداب المعنوية للصلاة: صفحہ، 512 از خمينی)
تعلیق: اللہ تعالیٰ اپنے بارے میں قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں:
وَعِنۡدَهٗ مَفَاتِحُ الۡغَيۡبِ لَا يَعۡلَمُهَاۤ اِلَّا هُوَ وَيَعۡلَمُ مَا فِى الۡبَرِّ وَالۡبَحۡرِ وَمَا تَسۡقُطُ مِنۡ وَّرَقَةٍ اِلَّا يَعۡلَمُهَا وَلَا حَبَّةٍ فِىۡ ظُلُمٰتِ الۡاَرۡضِ وَلَا رَطۡبٍ وَّلَا يَابِسٍ اِلَّا فِىۡ كِتٰبٍ مُّبِيۡنٍ (سورۃ الانعام: آیت، 59)
ترجمہ: اور اس کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں، انہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا، اور وہ جانتا ہے جو کچھ خشکی اور تری میں ہے اور کوئی پتا نہیں گرتا جسے وہ نہ جانتا ہو اور زمین کے اندھیروں میں کوئی دانہ ایسا نہیں جسے وہ جانتا نہ ہو، اور کوئی تر چیز اور کوئی خشک چیز نہیں جو واضح کتاب میں لکھی ہوئی نہ ہو۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
قُلْ لَّا يَعۡلَمُ مَنۡ فِى السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ الۡغَيۡبَ اِلَّا اللّٰهُ وَمَا يَشۡعُرُوۡنَ اَيَّانَ يُبۡعَثُوۡنَ(سورۃ النمل: آیت، 65)
ترجمہ: کہہ دیجیے! آسمانوں اور زمین میں اللہ کے سوا کوئی غیب کی بات نہیں جانتا، اور وہ (خود ساختہ معبود) تو یہ بھی نہیں جانتے کہ وہ (قبروں سے) کب اٹھائے جائیں گے۔