کفار کے تہوار کی تعظیم کرنا ان میں شریک ہونا اور پھر انکو مبارک باد پیش کرنا کیسا ہے!!
خادم الحدیث سید محمد عاقب حسینکفار کے تہوار کی تعظیم کرنا ان میں شریک ہونا اور پھر انکو مبارک باد پیش کرنا کیسا ہے!!
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے :
وَالَّـذِيْنَ لَا يَشْهَدُوْنَ الزُّوْرَۙ وَاِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا كِـرَامًا
اور جو جھوٹی گواہی نہیں دیتے اور جب کسی بیہودہ بات کے پاس سے گزرتے ہیں تو اپنی عزت سنبھالتے ہوئے گزر جاتے ہیں ۔
( سورۃ الفرقان :- 72 )
حافظ عماد الدین ابن کثیر دمشقی م774ھ رحمه الله اس کے تحت فرماتے ہیں :
وقال أبو العالية وطاوس وابن سِيرِينَ وَالضَّحَّاكُ وَالرَّبِيعُ بْنُ أَنَسٍ وَغَيْرُهُمْ: هِيَ أَعْيَادُ الْمُشْرِكِينَ..
ابو العالیہ ٬ طاوؤس ٬ ابن سیرین ٬ ضحاک ٬ اور ربیع بن انس رحمهم الله نے کہا اس آیت میں ( جھوٹی گواہی نہیں دیتے سے مراد ) مشرکین کی عیدیں ہیں ۔
( كتاب تفسير ابن كثير - ط العلمية 6/118 )
اس آیت مبارکہ کی یہی تفسیر سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما ٬ سعید بن جبیر ٬ مجاہد بن جبیر ٬ اور قاضی ابویعلی رحمهم الله سے بھی مروی ہے ۔
( اقتضاء الصراط المستقيم ص427/28 )
( أحكام أهل الذمة 3/1244 )
حافظ ابن قیم الجوزیہ رحمه الله فرماتے ہیں امام احمد بن حنبل رحمه الله نے یہودیوں اور عیسائیوں کی عیدوں میں شرکت کی حرمت پر اسی آیت سے استدلال کیا ہے ۔
( كتاب أحكام أهل الذمة - ط رمادي 3/1249 )
① حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :
«مَنْ بَنَى فِي بِلَادِ الْأَعَاجِمِ فَصَنَعَ نَيْرُوزَهُمْ وَمِهْرَجَانَهُمْ، وَتَشَبَّهَ بِهِمْ حَتَّى يَمُوتَ وَهُوَ كَذَلِكَ، حُشِرَ مَعَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ»
غیر مسلموں کی سر زمین میں رہنے والا مسلمان ان کی عید کو انہی کی طرح منائے اور اسی رویّہ پر اس کی موت ہو تو قیامت کے دن بھی وہ انہی کے ساتھ اٹھایا جائے گا ۔
( كتاب السنن الكبرى - البيهقي - ط العلمية 18863 وسندہ صحیح )
( كتاب الكنى والأسماء - للدولابي رقم:- 1843 )
اس اثر کو حافظ ابن تیمیہ م728ھ رحمه الله نے صحیح قرار دیا ۔
( كتاب اقتضاء الصراط المستقيم 1/513 )
اس اثر کو حافظ ابن قیم الجوزیہ م751ھ رحمه الله نے جید قرار دیا ۔
( كتاب أحكام أهل الذمة - ط رمادي 3/1248 )
اس اثر کو امام نجم الدین الغزی م1061ھ رحمه الله نے صحیح قرار دیا ۔
( كتاب حسن التنبه لما ورد في التشبه 8/419 )
② امام ابن حجر الہیتمی الشافعی م974ھ رحمه الله نے فرمایا :
من أقبح البدع موافقة المسلمين النصارى في أعيادهم بالتشبه بأكلهم والهدية لهم وقبول هديتهم فيه
بدترین بدعات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کا نصاریٰ کی عیدوں پر ان کے ساتھ موافقت کرنا ان کے ساتھ کھانا انہیں تحفہ دینا ان سے تحفہ قبول کرنا ۔
( كتاب الفتاوى الفقهية الكبرى 4/239 )
③ امام ابن قدامہ م620ھ امام اہلسنت احمد بن حنبل رحمه الله کا قول نقل کرتے ہیں :
قَالَ أَحْمَدُ، فِي الرَّجُلِ لَهُ الْمَرْأَةُ النَّصْرَانِيَّةُ: لَا يَأْذَنُ لَهَا أَنْ تَخْرُجَ إلَى عِيدٍ، أَوْ تَذْهَبَ إلَى بِيعَةٍ، وَلَهُ أَنْ يَمْنَعَهَا ذَلِكَ.
اگر کسی شخص کی بیوی عیسائی ہو تب بھی وہ اس کو عیسائیوں کی عید میں شرکت کی اجازت نہ دے کیونکہ ﷲ نے گناہوں پر تعاون کو منع قرار دیا ہے ۔
( كتاب المغني لابن قدامة - ط مكتبة القاهرة 9/364 )
حنابلہ کا یہی مذہب ہے جیسا کہ منصور البھوتی نے کہا :
(وَيَحْرُمُ شُهُودُ عِيدِ الْيَهُودِ وَالنَّصَارَى) وَغَيْرِهِمْ مِنْ الْكُفَّارِ
یہود و نصاری اور دیگر کفار کی عیدوں میں شرکت کرنا حرام ہے ۔
( كتاب كشاف القناع عن متن الإقناع - ت مصيلحي 3/131 )
④ علامہ علاؤ الدین حصکفی م1088ھ رحمه الله نقل کرتے ہیں :
قال أبو حفص الكبير: لو أن رجلا عبد الله خمسين سنة ثم أهدى لمشرك يوم النيروز بيضة يريد تعظيم اليوم فقد كفر وحبط عمله اهـ
امام ابو حفص الکبیر الحنفی م218ھ رحمه الله نے فرمایا اگر کوئی شخص پچاس سال اللہ کی عبادت کرے، پھر مشرکین کی عید کے موقع پر اُس دن کی تعظیم کرتے ہوئے، کِسی مشرک کو ایک انڈہ ہی تحفہ دے دے؛ تو اُس نے کفریہ کام کیا، اور اپنے تمام اعمال ضائع کر لیے!"
( كتاب الدر المختار شرح تنوير الأبصار وجامع البحار ص759 )
⑤ امام الحافظ ابن قیم الجوزیہ م751ھ رحمه الله نے فرمایا :
وأما التهنئة بشعائر الكفر المختصة به فحرام بالاتفاق، مثل أن يهنئهم بأعيادهم وصومهم، فيقول: عيد مبارك عليك، أو تهنأ بهذا العيد ونحوه، فهذا إن سلم قائله من الكفر فهو من المحرمات، وهو بمنزلة أن يهنئه بسجوده للصليب، بل ذلك أعظم إثماً عند الله، وأشد مقتاً من التهنئة بشرب الخمر وقتل النفس وارتكاب الفرج الحرام ونحوه. وكثير ممن لا قدر للدين عنده يقع في ذلك، ولا يدري قبح ما فعل، فمن هنأ عبداً بمعصية أو بدعة أو كفر فقد تعرض لمقت الله وسخطه... إلخ
کفریہ شعائر پر تہنیت (مبارک باد) دینا حرام ہے، اور اس پر سب کا اتفاق ہے، مثال کے طور پر انکے تہواروں اور روزوں کے بارے میں مبارکباد دیتے ہوئے کہنا: "آپکو عید مبارک ہو" یا کہنا "اس عید پر آپ خوش رہیں" وغیرہ، اس طرح کی مبارکباد دینے سے کہنے والا کفر سے تو بچ جاتا ہے لیکن یہ کام حرام ضرور ہے، بالکل اسی طرح حرام ہے جیسے صلیب کو سجدہ کرنے پر اُسے مبارکباد دی جائے، بلکہ یہ اللہ کے ہاں شراب نوشی ، قتل اور زنا وغیرہ سے بھی بڑا گناہ ہے، بہت سے ایسے لوگ جن کے ہاں دین کی کوئی وقعت ہی نہیں ہے ان کے ہاں اس قسم کے واقعات رونما ہوتے ہیں، اور انہیں احساس تک نہیں ہوتا کہ وہ کتنا برا کام کر رہا ہے، چنانچہ جس شخص نے بھی کسی کو گناہ، بدعت، یا کفریہ کام پر مبارکباد دی وہ یقینا اللہ کی ناراضگی مول لے رہا ہے"
( أحكام أهل الذمة لابن قيم 1/161 )
⑥ امام جرح و تعدیل حافظ شمس الدین ذہبی م748ھ رحمه الله نے کافروں کے تہواروں سے متعلق ایک مستقل رسالہ تالیف فرمایا ہے اور بڑے ہی سخت انداز میں کافروں کی عیدوں اور تہواروں میں کسی بھی قسم کی شرکت سے روکا ہے رسالہ کا نام درج ذیل ہے ۔
[ تشبه الخسيس بأهل الخميس في رد التشبه بالمشركين ]
اس موضوع پر لکھنے کو بہت لکھا جا سکتا ہے کئی ائمہ کے اقوال پیش کئے جا سکتے ہیں لیکن سمجھدار کے لیے اشارہ ہی کافی ہے اپنی تحریر کا اختتام سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے فتوے سے کرتے ہیں ۔
عن عطاء بن دينار، قال: قال عمر رضي الله عنه: " لا تعلموا رطانة الأعاجم ولا تدخلوا على المشركين في كنائسهم يوم عيدهم، فإن السخطة تنزل عليهم "
حضرت عطاء بن دینار بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : عجمیوں کی گفتگو نہ سیکھو اور مشرکوں کے تہواروں کے دن ان کی عبادت گاہوں میں نہ جاؤ کیونکہ ان پر اللہ تعالی کا غضب نازل ہوتا ہے ۔
حافظ ابن تیمیہ اور حافظ ابن کثیر نے اسکی سند کو صحیح قرار دیا ہے ۔
( كتاب السنن الكبرى - البيهقي - ط العلمية 9/392 وسندہ صحیح )
( كتاب اقتضاء الصراط المستقيم لمخالفة أصحاب الجحيم 1/511 )
( كتاب مسند الفاروق لابن كثير ت إمام 2/344 )
هذا ما عندي والعلم عندالله عزوجل
سید محمد عاقب حسین