کیا شیعہ علماء کے عقیدے کے مطابق ان کے ائمہ مردوں کو زندہ کرنے کی قدرت رکھتے ہیں؟
الشیخ عبدالرحمٰن الششریکیا شیعہ علماء کے عقیدے کے مطابق ان کے ائمہ مردوں کو زندہ کرنے کی قدرت رکھتے ہیں؟
جواب: جی ہاں! انہوں نے ابنِ ابی قبیصہ کے نام پر ایک روایت گھڑ لی ہے۔ وہ کہتا ہے:
جابر بن یزید الجعفی نے مجھ سے کہا: میں نے اپنے آقا سیدنا باقرؒ کو دیکھا انہوں نے مٹی سے ایک ہاتھی پیدا کیا۔ پھر اس ہاتھی پر سوار ہوئے تو وہ ہوا میں اڑنے لگا۔ یہاں تک کہ آپ مکہ گئے اور وہاں سے واپس آ گئے۔ میں نے اس بات کی تصدیق اس وقت تک نہیں کی جب تک خود سیدنا باقرؓ سے نہیں ملا۔ میں نے ان سے پوچھا: جابر نے مجھے آپ کے متعلق ایسے ایسے بتایا ہے۔ تو آپ نے پھر ایسے ہی کیا اور مجھے اپنے ساتھ مکہ لے گئے اور پھر واپس بھی لے آئے۔
(مدينة معاجز الائمہ: جلد، 5 صفحہ، 10 الباب الخامس)
چنانچہ حضرت علیؓ پر افتراء باندھتے ہیں کہ انہوں اپنے ننھیال بنو مخزوم کے ایک نوجوان کو زندہ کر دیا تھا۔ انہوں نے اس کی قبر کو پاؤں سے ٹھوکر ماری تو نوجوان قبر سے باہر نکل آیا لیکن اس کی زبان الٹی ہو چکی تھی کیونکہ شیعہ کے دعوے کے مطابق وہ سيدنا ابوبکرؓ اور سيدنا عمرؓ کی سنت پر مرا تھا۔
(اصول الكافی: جلد، 1 صفحہ، 347 كتاب الحجة: حدیث نمبر،7 باب مولد أمير المؤمنین)
اسی طرح انہوں نے جبانہ قبرستان کے تمام مردے زندہ کر دیئے تھے۔ لہٰذا شیعی روایت کہتی ہے ”پھر جب وہ جبانہ قبرستان کے درمیان میں پہنچے تو ایک بات کی جس سے ان کے دل دہل گئے اور ڈر گئے، اور ان کے دلوں میں اس قدر خوف داخل ہو گیا کہ اس کی مقدار اللہ ہی جانتا ہے، اور ان کے رنگ خوف سے بدل گئے۔“
(بحار الانور: جلد، 41 صفحہ، 198 حدیث نمبر، 5 باب استجابة دعواته)
اسی طرح ایک روایت یہ بھی گھڑ رکھی ہے کہ امیر المومنینؓ نے ایک پتھر کو مارا تو اس سے سو اونٹنیاں نکلیں۔ شیعہ خرافات کہتی ہیں ”پھر انہوں نے رسول اللہﷺ کی لاٹھی سے پتھر کو چوٹ ماری تو اس سے ایسی کراہ نکلی جیسی اُونٹنی بچہ جنتے وقت نکالتی ہے۔ آپ ابھی ادھر ہی تھے کہ پتھر پھٹ گیا اور اس سے اُوٹنی کا سر نکلا اور اس کے سر پر لگام کا سرا بندھا تھا۔ امیر المومنینؓ نے اپنے بیٹے حسنؓ سے کہا اسے پکڑ لو۔ تو اس پتھر سے سو اونٹنیاں اپنے بچوں سمیت نکل آئیں، سب کے رنگ سیاہ تھے۔(بحار الأنوار: جلد، 41 صفحہ، 198 حدیث نمبر، 10 باب استجابة دعواته)
اور شیعہ یہ بھی کہتے ہیں کہ حضرت علیؓ نے سام بن نوح اور اصحابِ کہف کو زندہ کیا تھا۔
(مناقب آل ابی طالب: جلد، 3 صفحہ، 810 فصل فی مساواته مع عيسىٰ عليه السلام)
تبصره: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
أَمَّنْ يَّبْدَوُا الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيْدُهُ وَمَنْ يَّرْزُقُكُمْ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ ءَ إِلَهُ مَّعَ اللہِ قُلْ هَاتُوْا بُرْهَانَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَدِقِيْنَ (سورت النمل: آیت، 63)
ترجمہ: یا وہ جو پیدائش کی ابتداء کرتا ہے پھر اسے دہراتا ہے اور جو تمہیں آسمان و زمین سے رزق دیتا ہے کیا اللہ کے ساتھ کوئی (اور) معبود ہے؟ کہہ لاؤ اپنی دلیل اگر تم سچے ہو۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
أَوَلَمْ يَرَ الْإِنْسَانُ أَنا خَلَقْتُهُ مِنْ نُّطْفَةٍ فَإِذَا هُوَ خَصِيْمٌ مُّبِيْنٌ- وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَّنَسِیَ خَلْقَهٗ. قَالَ مَنْ يُّحْيِ الْعِظَامَ وَهِيَ رَمِيْمٌ قُلْ يُحْيِيْهَا الَّذِيْ اَنْشَاَهَا أَوَّلَ مَرَّةٍ ّوَهُوَ بِكُلّ ِخَلْقٍ عَلِيْمُ ، الَّذِي جَعَلَ لَكُمْ ِمّنَ الشَّجَرِ الْأَحْضَرِ نَارًا فَإِذَا انْتُمْ مِنْهُ تُوْقِدُوْنَ أَوَلَيْسَ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضَ بِقٰدِر عَلَى أَنْ يَّخْلُقَ مِثْلَهُمْ بَلٰى وَهُوَ الْخَلْقُ الْعَلِيْمُ إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَنْ يَّقُوْلَ لَهُ كُنْ فَيَكُوْنُ فَسُبْحَنَ الَّذِيْ بِيَدِهِ مَلَكُوْتُ كُلِّ شَيْءٍ ّوَّإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ (سورۃ یس: آیت، 77 تا 83)
ترجمہ: کیا انسان نے دیکھا نہیں کہ بے شک ہم نے اسے نطفے سے پیدا کیا ہے پھر یکایک وہ کھلا جھگڑالو ہو گیا اور اس نے ہمارے لیے مثال بیان کی اور وہ اپنی پیدائش کو بھول گیا۔ اس نے کہا ہڈیوں کو کون زندہ کرے گا جب کہ وہ گلی سڑی ہوں گی؟ آپ کہہ دیجیے انہیں وہی زندہ کرے گا جس نے انہیں پہلی بار پیدا کیا تھا اور وہ ہر طرح کے پیدا کرنے کو خوب جانتا ہے۔ وہ اللہ جس نے تمہارے لیے سبز درخت سے آگ بنا دی۔ پھر یکایک تم اس سے آگ سلگا لیتے ہو۔ کیا وہ اللہ جس نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا اس بات پر قادر نہیں کہ وہ ان جیسے انسان پیدا کر دے؟ کیوں نہیں وہی تو سب کچھ پیدا کرنے والا ،خوب جاننے والا ہے۔ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو بس اس کا حکم صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ اس سے کہتا ہے ہو جا تو وہ ہو جاتی ہے۔ چنانچہ پاک ہے وہ اللہ جس کے ہاتھ میں ہر چیز کی بادشاہی ہے اور اس کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے۔