Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

کیا یہ درست ہے کہ شیعہ علماء امامیہ عشریہ اپنے ائمہ کو اللہ تعالیٰ کی صفات سے متصف کرتے ہیں؟ اور انہیں اللہ تعالیٰ کے نام دیتے ہیں؟

  الشیخ عبدالرحمٰن الششری

 کیا یہ درست ہے کہ شیعہ علماء امامیہ عشریہ اپنے ائمہ کو اللہ تعالیٰ کی صفات سے متصف کرتے ہیں؟ اور انہیں اللہ تعالیٰ کے نام دیتے ہیں؟

جواب: جی ہاں! وہ ایسا کرتے ہیں۔ اس کا ثبوت ان کی صحیح ترین کتاب میں پایا جاتا ہے، ان کا علامہ کلینی روایت بیان کرتا ہے ابو عبداللہؒ نے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد، وَلِلّٰهِ الۡاَسۡمَآءُ الۡحُسۡنٰى فَادۡعُوۡهُ بِهَا‌ (سورة الاعراف: آیت، 180) 

ترجمہ: ”اور اللہ ہی کے لیے اچھے اچھے نام ہیں، لہٰذا تم اسے ان (ناموں) سے پکارو“ کی تفسیر کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے اس کی یہ تفسیر کی، اللہ کی قسم! ہم ہی اللہ کے اسمائے حسنیٰ ہیں کہ جن کی معرفت کے بغیر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کا کوئی عمل قبول نہیں کرتا۔  

(اصول الکافی: جلد، 1 صفحہ، 103 کتاب التوحید: حدیث نمبر، 4 باب النوادر تفسیر العیاشی: جلد، 2 صفحہ، 40 حوالہ نمبر، 119 سورۃ الاعراف تفسیر الصافی: جلد، 1 صفحہ، 113 سورۃ البقرہ)

شیعہ علماء مزید تفصیل بیان کرتے ہوئے سیدنا ابو جعفرؓ کی زبانی ایک جھوٹی روایت بیان کرتے ہیں کہ وہ فرماتے ہیں: ”ہم ہی وہ سبع مثانی ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے نبی محمدﷺ کو عطا کیے ہیں۔ اور ہم ہی اللہ کا چہرہ ہیں، ہم زمین میں تمہارے درمیان رہتے بستے ہیں ہم اللہ کی مخلوق میں اس کی آنکھ ہیں، اور اس کی مخلوق پر سایہ فگن اس کی رحمت کا ہاتھ ہیں۔ جس نے ہم کو جان لیا سو جان لیا اور جو ہم سے جاہل رہا سو وہ جاہل رہا۔“

(اصول الکافی: جلد،1 صفحہ، 103 کتاب التوحید: حدیث نمبر، 3 باب النوادر)

ابو عبداللہؒ پر افتراء باندھتے ہوئے کہتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا:

”بے شک اللہ تعالیٰ نے ہمیں پیدا کیا تو بہترین پیدا کیا، ہماری صورتیں بنائی تو ہمیں خوبصورت شکلیں عطا کیں، ہمیں اپنی مخلوق میں اپنی آنکھ اور بولنے والی زبان بنایا، اپنی مخلوق پر رحمت و شفقت والا پھیلا ہوا ہاتھ بنایا اور اپنا وہ چہرہ بنایا جس سے وہ عطا کرتا ہے، اور اپنا دروازہ بنایا جو اس کی پہچان کراتا ہے، آسمان و زمین میں اپنا خزانچی بنایا ہمارے ساتھ ہی درختوں کو پھل لگتے ہیں اور پھل پکتے ہیں، ہمارے ذریعے ہی نہریں چلتی ہیں اور ہمارے سبب ہی سے بارش برستی ہے۔ ہماری ہی وجہ سے زمین گھاس اُگاتی ہے ۔ہماری عبادت ہی کی وجہ سے اللہ کی عبادت ہوئی اور اگر ہم نہ ہوتے تو اللہ کی عبادت نہ کی جاتی۔“

(اصول الکافی: جلد، 1 صفحہ، 103 کتاب التوحید: حدیث نمبر، 5 باب النوادر)

ایک روایت میں یوں نقل کیا گیا ہے کہ ”ان کی وجہ سے ہی اللہ تعالیٰ گناہوں کو ختم کرتے ہیں، اور ان ہی کے وسیلے سے تنگی کا خاتمی ہوتا ہے، اور ان ہی کے طفیل رحمتیں نازل ہوتی ہیں۔ اور ان ہی کے ذریعے مردوں کو زندہ کیا جاتا ہے۔ اور زندہ کو مارا جاتا ہے۔ اور ان ہی کے سبب مخلوق کو آزمائش میں ڈالا جاتا ہے۔ اور ان کے ہی سبب مخلوق میں اللہ تعالیٰ کا فیصلہ نافذ ہوتا ہے۔“

(التوحید ابنِ بابویہ: صفحہ، 162 حوالہ، 1باب معنیٰ العین والاذن واللسان بحار الانوار: جلد، 26 صفحہ، 240 حوالہ، 2 باب جوامع مناقبھم وفضائلھم)

ایک روایت میں یہ ہے کہ شیعہ ائمہ نے کہا ”پھر ہمیں لایا جائے گا تو ہم اپنے رب کے عرش پر بیٹھیں گے۔“

(تفسیر العیاشی: جلد، 2 صفحہ، 330 حدیث نمبر، 140 سورۃ بنی اسرائیل تفسیر البرھان: جلد، 4 صفحہ، 607 سورۃ بنی اسرائیل)

اللہ تعالیٰ پر افتراء باندھتے ہوئے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اسراء کی رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سیدنا علیؓ کے بارے میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

"اے محمدﷺ! علی ہی اول ہے، اور علی ہی آخر ہے، وہی ظاہر ہے وہی باطن ہے، اور وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔“

(بصائر الدرجات الکبریٰ: جلد، 2 صفحہ، 407 حدیث نمبر، 37 باب النوادر فی الائمہ بہار الانوار: جلد، 91 صفحہ، 180 حدیث نمبر، 7 باب ادعیۃ الشھادات والعقائد)

شیعہ علامہ الکشی سیدنا ابو جعفرؓ سے روایت کرتا ہے کہ انہوں نے فرمایا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے، ”میں اللہ کا چہرہ ہوں، میں اللہ کا پہلوں ہوں، میں ہی اول ہوں اور میں ہی آخر ہوں، میں ظاہر ہوں اور میں باطن ہوں، میں زمین کا وارث ہوں، میں اللہ کا راستہ ہوں اور میں نے اس کو اسی کی قسم دی ہے۔“

 تعلیق:

شیعہ علماء کا یہ کفریہ قول فرعون کے اس کافرانہ نعرے کے کس قدر مشابہ ہے جس نے کہا تھا:

فَقَالَ اَنَا رَبُّكُمُ الۡاَعۡلٰى (سورة النازعات: آیت، 24)

ترجمہ: میں تمہارا سب سے بڑا رب ہوں۔

شیعہ علماء کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں بھی ان کے ائمہ مراد ہیں حالانکہ اس میں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات شریف مراد لی ہے۔ ارشاد ہے:

وَّيَبۡقٰى وَجۡهُ رَبِّكَ ذُو الۡجَلٰلِ وَالۡاِكۡرَامِ‌ (سورة الرحمٰن: آیت، 27)

ترجمہ: تیرے رب ذوالجلال والا کرام کا چہرہ باقی رہے گا۔

نیز فرمایا: كُلُّ شَىۡءٍ هَالِكٌ اِلَّا وَجۡهَهٗ‌(سورة القصص: آیت، 88) 

ترجمہ: اس کے چہرے کے سوا ہر چیز ہلاک ہونے والی ہے۔

اپنے ائمہ پر افتراء باندھتے ہوئے کہتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: ”ہم لوگ ہی وہ چہرہ ہیں جو ہلاک نہیں ہو گا۔“

(التوحيد ابنِ بابويه: 145 حدیث نمبر، 4 باب تفسير قول اللہ عز وجل كُلُّ شَيْءٍ هَالِكَ إِلَّا وَجْهَهُ تفسير الصافی: جلد، 4 صفحہ، 108 بحار الأنوار: جلد، 24 صفحہ، 201 حدیث نمبر، 33 باب أنهم جنب الله)

سیدنا ابو عبداللہؒ نے فرمانِ باری تعالیٰ: كُلُّ شَيْءٍ هَالِكٌ إِلَّا وَجْهَهُ(سورة القصص: آیت، 88) کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: اس سے ہم مراد ہیں۔

(التوحيد ابنِ بابويه، 145 حدیث نمبر، 5 باب تفسير قول الله عز وجل كُلُّ شَيْءٍ هَالِكَ إِلَّا وَجْهَهُ)

ایک اور من گھڑت افسانہ تراش لیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان: وَيُحَذِّرُكُمُ اللّٰهُ نَفۡسَهٗ‌(سورة آل عمران: آیت 30) 

ترجمہ: اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی ہستی سے ڈراتا ہے۔ کی تفسیر میں سیدنا رضاؒ نے فرمایا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نام سے لوگوں کو ڈراتا ہے۔

(مناقب آل ابی طالب: جلد، 3 صفحہ، 866 فصل فج الشواذ من مناقبه بحار الانوار: جلد، 39 صفحہ، 88 الباب 73)

 ایک اور افسانہ ان الفاظ میں تراشا ہے کہ: ابو المضمار نے سیدنا رضاؓ سے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان فَاَيۡنَمَا تُوَلُّوۡا فَثَمَّ وَجۡهُ اللّٰهِ‌ (سورة البقرہ: آیت، 115)

ترجمہ: تو تم جس طرف رخ کرو، سو وہیں اللہ کا چہرہ ہے۔ کی تفسیر میں روایت کیا ہے۔ اس سے مراد سیدنا علیؓ ہیں۔

(مناقب آل ابی طالب: جلد، 3 صفحہ، 866 فصل فی الشواذ من مناقبه) 

 اور پھر حضرت علیؓ پر یہ تہمت باندھ لی کہ آپ اسی (مذکورہ بالا) آیت کے بارے میں فرماتے ہیں: ” اس سے مراد اللہ تعالیٰ کی بقایا یعنی امام مہدی ہیں۔ 

(الاحتجاج للطبرسی جلد 1، صفحہ 252) احتجاجه على زنديق جاء مستدلا عليه بأی من القرآن ....)

 پیٹھ میں خنجر:

 ابو عبد اللہؒ شیعہ علماء کے بارے میں فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ کے بارے میں جو کچھ یہ بیان کرتے ہیں، اللہ کی ذات اس سے بہت بلند و برتر ہے، وہ پاک ہے ساتھ اپنی تعریف کے۔ ہم اس کے علم میں شرکاء نہیں ہیں اور نہ اس کی قدرت میں حصہ دار ہیں، بلکہ اس کے سوا کوئی علم غیب نہیں جانتا جیسا کہ اس نے اپنی محکم کتاب میں فرمایا:

قُلْ لَّا يَعۡلَمُ مَنۡ فِى السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ الۡغَيۡبَ اِلَّا اللّٰهُ‌(سورة النمل: آیت، 65) 

ترجمہ: کہہ دیجیے آسمانوں اور زمین میں اللہ کے سوا کوئی بھی غیب کی بات نہیں جانتا۔ 

 یقیناً جاہل اور احمق شیعہ نے ہمیں سخت اذیت دی ہے۔ جس شخص کا دین مچھر کے پر جتنا ہو، وہ بھی ان سے اعلیٰ ہے۔ 

میں اس اللہ کو گواہ بناتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں اور وہ گواہ کافی ہے، بے شک میں اللہ اور اس کے رسولﷺ کی طرف اپنی براءت کا اعلان کرتا ہوں ہر شخص سے جو کہتا ہے کہ ہم غیب جانتے ہیں یا ہم اللہ کی بادشاہی میں شریک ہیں یا وہ ہمیں ہمارے مقام و مرتبے کے سوا کسی مقام پر بٹھائے گا جس پر وہ راضی ہے اور جس کے لیے اس نے ہمیں پیدا فرمایا ہے۔

(الاحتجاج: جلد، 2 صفحہ، 273 توقيعات الناحية المقدسة بحار الأنوار: جلد، 25 صفحہ، 266 حديث نمبر، 9 باب نفى الغلو فی النبیﷺ والأئمة)