Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

شیعہ کی نماز جنازہ میں شرکت کرنے والوں کا حکم


ولی کامل،فقیہ العصر، مفتی اعظم، شیخ التفسیر والحدیث حضرت مولانا مفتی حمیداللہ جانؒ کا فتویٰ (بانی جامعة الحمید لاہور)

شیعہ کی نماز جنازہ میں شرکت کرنے والوں کا حکم

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ ایک شخص جو شیعہ اثناء عشری مذہب رکھتا تھا وہ فوت ہو گیا ہے، اور ایک شخص جو کہ امام اعظم امام ابوحنیفہؒ کا پیروکار ہے اس کے جنازہ پڑھنے میں شامل ہوا ہے، قرآن و حدیث اور فقہائے احناف کی روشن تحقیقات کے مطابق شرعاً ایسے شخص کے بارے میں کیا حکم ہے کہ جس نے ایک اثناء عشری شیعہ کے جنازے کی نماز پڑھی ہے؟

جواب: اگر شیعہ کے عقائد کفریہ تھے جیسے تحریفِ قرآن اور سبّ سیدنا عائشہ صدیقہؓ وغیرہ اور اس کو ان کے عقائد کا علم تھا تو صورت مسئولہ میں اگر جنازہ کو جائز سمجھتے ہوئے پڑھا ہے تو تجدیدِ ایمان اور تجدیدِ نکاح دونوں ضروری ہیں اور اگر ناجائز سمجھتے ہوئے پڑھا ہے(صرف لوگوں کے طعن و تشنیع سے بچنے کے لیئے) تو توبہ و استغفار کریں اور آئندہ کے لیئے احتیاط ضروری ہے۔

 الرافضی ان کان یسبّ الشیخینؓ ویلعنہما (والعیاذ باللہ) فھو کافر وان کان یفضل علیا علی ابی بکرؓ لایکون کافرا الا انه مبتدع، والمعتزلی مبتدع الا اذا قال بماستحالة الرؤیة فحینئذ ھو کافر، ولو قذف عائشةؓ بالزنا کفر باللہ ولو قذف سائر نسوة النبیﷺ لایکفر ویستحق اللعنة ولو قال عمرؓ و عثمانؓ و علیؓ لم یکونوا اصحابا لایکفر ویستحق اللعنة کذا فی خزانة الفقه۔

من انکر امامة ابی بکرؓ فھو کافر وعلی قول بعضھم ھو مبتدع ولیس بکافر والصحیح انه کافر وکذالک من انکر خلافة عمرؓ فی اصح الاقوال کذا فی الظھیریه۔

ویجب اکفارھم باکفار عثمانؓ و علیؓ و طلحةؓ و زبیرؓ و عائشةؓ ۔۔۔۔ ویجب اکفار الروافض فی قولھم برجعة الاموات الی الدنیا وبتناسخ الارواح وبانتقال روح الا له الی الائمة وبقولھم فی خروج امام باطن وبتعطیلھم الامر و النھی الی ان یخرج الامام الباطن وبقولھم ان جبرائیل علیہ السلام غلط فی الوحی الی محمدﷺ دون علیؓبن ابی طالب وھؤلاء القوم خارجون عن ملة الاسلام واحکامھم احکام المرتدین کذا فی الظھیریه۔ (الھندیة:جلد2:صفحہ:264)

ولاتصل علی احد منھم مات ابدا ولاتقم علی قبرہ(سورت التوبہ) قال علماؤنا ھذا نص فی الامتناع من الصلوة علی الکفار ولیس فیه دلیل عل الصلوة علی المؤمنین او اختلف ھل یؤخذ من مفھومه وجوب الصلوة علی قولھن یؤخذ لانه محلل المنع من الصلوة علی الکفار لکفرھم لقوله تعالی: انھم کفروا باللہ ورسوله۔

(الجامع لاحکام القرآن للقرطبی، جلد:8:صفحہ:221)

وفی شرح الوھبانیة للشر نبلا لی مایکون کفرا اتفاقا یبطل العمل والنکاح واولادہ اولاد زنا ومافیه خلا فیؤمر بالاستغفار والتوبة وتجدید النکاح (لقوله والتوبة) ای تجدید الاسلام قوله وتجدید النکاح ای احتیاطا کما فی الفصول العادیة وزادفیھا قسما ثالثا وما کان خطاء من الالفاظ ولایوجب الکفر فقائله یقر علی حاله ولایؤمر بتجدید النکاح ولکن یؤمر بالاستغفار والرجوع عن ذلک و قوله احتیاطا ای یامره المفتی بالتجدید لیکون وطؤه حلالا بالاتفاق۔

(درمع الرد:جلد:3:صفحہ:328)

وشرطھما ای شرط الصلوة علیه اسلام المیت وطھارته۔ اما الاسلام فلقوله تعالیٰ: ولا تصل علی احد منھم مات ابدا۔۔۔۔ یعنی المنافقین وھم الکفرة ولانما شفاعة للمیت اکراما له وطلب المغفرة والکافر لا تنفعه الشفاعة ولا یستحق الاکرام۔

(تبیین الحقائق:جلد:1:صفحہ:239)

(ارشاد المفتین:جلد:2:صفحہ:285)