Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

امّ المؤمنین حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا

  جعفر صادق

                اُمّ المؤمنین حضرت جویریہؓ

نام جویریہ 
والد حارث بن ابی ضرار
سن پیدائش بعثت نبوی سے 2 سال قبل 
قبیلہ بنو مصطلق
زوجیتِ رسولﷺ 5 ہجری 
سن وفات 50 ہجری 
مقامِ تدفین جنت البقیع مدینہ منورہ 
کل عمر 65 سال تقریباً

                        نام و نسب

آپ کا پیدائشی نام برّہ تھا،جسے آپﷺ  نے تبدیل فرما کر جویریہ رکھا۔ سلسلہ نسب اس طرح ہے: برّہ بنت حارث بن ابی ضرار بن حبیب بن عائد بن مالک بن جذیمہ بن سعد بن عرو بن ربیعہ بن حارثہ بن عمرو مزیقیاء۔

                            ولادت

سیدہ جویریہؓ آپﷺ کے اعلان نبوت سے تقریباً 2 سال قبل پیدا ہوئیں۔

                خاندانی پس منظر

سیدہ جویریہؓ  کا تعلق قبیلہ بنو مصطلق سے ہے۔ قبیلہ بنی خزاعہ کی ایک شاخ کا نام بنو مصطلق تھا، جو خزیمہ ابن سعد ابن عمر کی اولاد سے ہے۔ خزیمہ کا لقب” مصطلق“ تھا۔ یہ بہت خوش آواز تھا، بنو خزاعہ میں سب سے پہلے گانا اسی نے گایا۔
سیدہ جویرہؓ  کے والد حارث بن ابی ضرار اسلام لانے سے پہلے اپنے زمانے کے مشہور رہزن اور ڈاکو تھے، ان کو مسلمانوں سے خاص دلی عداوت تھی۔ اپنے قبیلے کے سردار مانے جاتے تھے اس لیے بنو مصطلق کا پورا قبیلہ آپ کے ساتھ رہزنی و ڈکیتی میں ساتھ دیتا۔ رسول اللہﷺ  کے ساتھ اُمّ المؤمنین سیدہ جویریہؓ کے نکاح سے پہلے یہ قبیلہ مسلمانوں کے خلاف تقریباً ہر جنگ کا حصہ رہا۔
لیکن جب سیدہ جویریہؓ اُم المؤمنین بنیں تو اس قبیلے کے اکثر لوگوں نے اسلام قبول کر لیا اور رہزنی و ڈکیتی چھوڑ کر متمدن اور مہذب زندگی اختیار کر لی تھی اور اس کے بعد مسلمانوں کے خلاف کسی جنگ میں حصہ نہیں لیا۔

                            پہلا نکاح

جب سیدہ جویریہؓ بالغ ہوئیں تو آپ کے والدین کو آپ کی شادی کی فکر لاحق ہوئی۔ صفوان بن ابی شفر بن سرح بن مالك بن جذيمہ ایک دن ان کے گھر آئے۔ صفوان اور حارث دوونوں قریبی رشتہ بھی تھے۔ صفوان کے دادا سرح اور حارث کے پردادا عائذ دونوں مالک بن جذیمہ کے بیٹے تھے۔
صفوان بن ابی الشفر نے حارث سے کہا کہ برہ سیدہ جویریہؓ کی شادی کے بارے پریشان ہونے کی چنداں ضرورت نہیں۔ میں خود اپنے بیٹے مسافع کے لیے آپ سے بَرَّہ کا ہاتھ مانگنے آیا ہوں۔ چنانچہ یہ شادی طے ہوگئی اور آپؓ کا نکاح مسافع کے ساتھ ہو گیا۔

              یثرب کا چاند گود میں

انہی دنوں سیدہ جویریہؓ  کو ایک عجیب خواب آیا۔ آپ کیا دیکھتی ہیں کہ یثرب مدینہ منورہ سے چاند چلتا ہوا ان کی گود میں اترتا ہے۔ خواب چونکہ بہت عجیب و غریب تھا اس وجہ سے آپ کی اسی وقت بیدار ہوئیں اور اس کی تعبیر سوچنے لگیں۔ لیکن اس خواب کا کسی سے حتی کہ اپنے شوہر مسافع سے بھی ذکر نہیں کیا۔ کچھ دنوں بعد جب آپ کا نکاح جناب نبی کریمﷺ  کے ساتھ ہوا تو آپ نے اپنے خواب کی تعبیر پا لی۔

                          غزوہ مُرَیْسِیع

اسی دوران ایک اہم واقعہ یہ پیش آیا کہ نبی کریمﷺ کو یہ اطلاع ملی کہ قبیلہ بنومصطلق کا سردار حارث بن ابی ضرار اپنے قبیلے اور کچھ دیگر قبائل کے لوگوں کے ہمراہ اہلِ اسلام کے ساتھ جنگ کرنے کے لیے تیاریاں کر رہا ہے۔ چنانچہ آپﷺ  نے حضرت بریدہ بن حصیب اسلمیؓ  کو حقیقت حال معلوم کرنے کے لیے بنو مصطلق کی طرف روانہ کیا۔ انہوں نے وہاں پہنچ کر حارث بن ضرار سے ملاقات کی اور بات چیت کی اور واپس آکر رسول اللہﷺ کو حالات سے باخبر کیا کہ واقعی بنو مصطلق اور دیگر قبائل کے لوگ حارث بن ابی ضرار کی قیادت میں مسلمانوں پر حملہ آور ہونے والے ہیں۔
چنانچہ آپﷺ نے صحابہ کرامؓ کوجنگ کی تیاری کا حکم دیا اورمورخہ 2 شعبان 5 ہجری کو بنی مصطلق کی طرف روانہ ہوئے۔ اس سفر میں اُمہات المؤمنین میں سے سیدہ عائشہؓ  اور سیدہ اُمِ سلمہؓ بھی آپﷺ کے ہمراہ تھیں۔ روانہ ہوتے وقت آپﷺ نے مدینہ منورہ کے انتظامی معاملات سیدنا زید بن حارثہؓ  یا حضرت ابو ذرؓ یا پھر نمیلہ بن عبداللہ لیثیؓ کو سونپے۔ اس غزوے میں آپﷺ  کے ہمراہ منافقین کی بھی ایک جماعت ساتھ تھی جو اس سے پہلے کسی غزوے میں شریک نہیں ہوئی تھی۔
دوسری طرف حارث بن ابی ضرار نے بھی اسلامی لشکر کی نقل و حرکت، سپاہیوں کی تعداد اور اسلحہ کی مقدار معلوم کرنے کے لیے ایک جاسوس بھیجا، یہ جاسوسی کرتے ہوئے پکڑا گیا اور مسلمانوں نے اسے قتل کر دیا۔
حارث بن ابی ضرار اور اس کے قبیلے کے لوگوں کو جب یہ اطلاع ملی کہ لشکر اسلام اپنے رسول اللہﷺ  کی قیادت میں بنو مصطلق کی طرف آ رہا ہے مزید یہ کہ انہیں اپنے جاسوس کے قتل کیے جانے کا علم ہوا تو وہ سخت خوفزدہ ہوئے۔ بنو مصطلق کے علاوہ جو دیگر قبائل کے لوگ ان کے ساتھ تھے وہ سب خوف کے مارے واپس ہوگئے۔ ادھر لشکرِ اسلام رسول اللہﷺ  کی قیادت میں مقام قدید کے قریب چشمۂ مریسیع تک پہنچ گئے۔
نوٹ: مُرَیْسِیْع۔ م کو پیش جبکہ راء کو زبر ساتھ پڑھنا ہے۔
حارث بن ابی ضرار نے یہ صورت حال دیکھی تو آمادۂ جنگ ہوگئے۔ رسول اللہﷺ نے صحابہ کرامؓ کی صف بندی فرمائی۔ اسلامی لشکر کا جھنڈا سیدنا ابو بکر رضیؓ کو دیا اور خاص انصار کا جھنڈا حضرت سعد بن عبادہ انصاریؓ  کے ہاتھ میں۔
یہ جنگ کچھ دیر تک جاری رہی، دونوں طرف سے تیروں کا تبادلہ ہوا۔ اس کے بعد رسو ل اللہﷺ  کے حکم سے صحابہ کرامؓ نے یکبارگی حملہ کیا اور بنو مصطلق کے قدم اکھڑ گئے، مسلمان فتح یاب ہوگئے اور مشرکین نے شکست کھائی۔ بنو مصطلق کے گیارہ آدمی مارے گئے جن میں سیدہ جویریہؓ کے پہلے شوہر مسافع بن صفوان بھی شامل تھے اور چھ سو کے قریب گرفتار ہوئے۔ ان قیدیوں میں بنو مصطلق کے سردار حارث بن ابی ضرار کی بیٹی برہ سیدہ جویریہؓ بھی تھیں۔
مسلمانوں میں سے صرف ایک صحابی حضرت ہشام بن صباحہؓ  شہادت پر فائز ہوئے تھے،یہ بھی ایک شبہ کی وجہ سے شہید ہوئے، ایک انصار ی صحابی کو ان کی پہچان نہ ہو سکی اور انہوں نے آپ کو دشمن کا آدمی سمجھ کر قتل کر دیا تھا۔ حارث بن ابی ضرار اور دیگر چند لوگوں نے راہ فرار اختیار کی اور بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔

                          مالِ غنیمت

اس جنگ میں مسلمانوں کو دو ہزار اونٹ، پانچ ہزار بکریاں مالِ غنیمت میں ملیں اور دو سو گھروں کے چھ سو مرد، عورتیں اور بچے اسیر ہوئے۔ مالِ غنیمت کو مجاہدین میں بانٹ دیا گیا اور قیدیوں کو لوگوں میں تقسیم کردیا گیا۔

                          قبولِ اسلام

ان قیدیوں میں حارث بن ابی ضرار کی بیٹی برہ بھی موجود تھیں۔ اُم المؤمنین سیدہ عائشہؓ  فرماتی ہیں کہ جویریہ بنت حارث؛ سیدنا ثابت بن قیس بن شماسؓ  یا ان کے چچا زاد کے حصے میں آئی۔ چنانچہ جویریہ نے اپنے بارے میں مکاتبت کر لی۔
نوٹ: مکاتب اس غلام اور مکاتبہ اس لونڈی کو کہتے ہیں جو اپنے مالک سے یہ طے کر لے کہ وہ ایک مقررہ رقم مالک کو ادا کر کے آزاد ہوجائے گا / ہو جائے گی۔

سیدہ عائشہؓ  فرماتی ہیں کہ جویریہ حسن صورت کی مالک خاتون تھی یہ رسول اللہﷺ  کے پاس آئی کہ اپنی مکاتبت ادائیگی رقم سے مشروط آزادی کے سلسلے میں آپﷺ  سے پاس آئی۔ سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں:میں نے دیکھا کہ جویریہ دروازے پر کھڑی ہوئی تھی ۔جویریہ نے کہا: اے اﷲ کے رسولﷺ ! میں حارث کی بیٹی جویریہ ہوں، میرا معاملہ آپ سے مخفی نہیں ہے ( کہ جنگی قیدی ہوں اور لونڈی بنائی گئی ہوں ) میں ثابت بن قیس بن شماس کے حصے میں آئی ہوں۔ میں نے ان سے اپنے بارے مکاتبت کر لی ہے۔ میں آپ کی خدمت میں اس لیے حاضر ہوئی ہوں کہ آپ اس بارے میرے ساتھ تعاون فرمائیں۔
آپﷺ  نے فرمایا:” کیا تم اس سے بہتر معاملہ پسند نہیں کرتی ہو؟ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسولﷺ ! وہ کیا ہے؟ آپﷺ  نے فرمایا:” میں تمہاری طرف سے تمہاری رقم ادا کر دیتا ہوں اور آپ سے شادی کر لیتا ہوں۔“
انہوں نے کہا: میں راضی ہوں۔ علامہ ذہبیؒ  نے لکھا ہے کہ سیدہ جویریہؓ  نے اسی وقت اسلام قبول فرمایا۔

          سیدہ جویریہؓ اُم المؤمنین بنتی ہیں

قبول اسلام کے بعد نبی کریمﷺ نے سیدہ جویریہؓ  کی طرف سے رقم ادا کی۔ سیدہ جویریہؓ  کو اپنی ازواج مطہرات میں شامل فرما کر” اُم المؤمنین سیدہ جویریہؓ بنا دیا۔ اور حق مہر کے طور پر ان کے قبیلے کے 40 غلام آزاد فرمائے۔

             حجاب کے حکم کی حکمت

سیدنا عمرؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے سیدہ جویریہؓ کو حجاب کا حکم دیا اور باقی ازواج مطہرات کی طرح ان کے لیے بھی آپ نے باری مقرر فرمائی۔
نوٹ: سیدنا عمرؓ  نے جو یہ فرمایا ہے کہ آپﷺ  نے سیدہ جویریہؓ  کو حجاب کا حکم دیا۔ اس بات کو سمجھنے کے لیےاس کا پس منظر سمجھنا ضروری ہے۔ جب پردے کے احکام نازل ہوئے تو آزاد عورت اور باندی میں فرق کرنے کے لیے یوں کیا جاتا، کہ آزاد عورت مکمل پردہ فرماتی جبکہ لونڈیوں کو چہرہ کھلا رکھنے کی اجازت تھی۔ سیدنا عمرؓ  کی بات کا مطلب یہ ہے کہ سیدہ جویریہؓ  نبی کریمﷺ  کی لونڈی نہیں تھی بلکہ آپﷺ نے انہیں آزاد فرما کر نکاح فرمایا تھا۔ چونکہ یہ پردہ کا حکم دینے والی بات اُم المؤمنین سیدہ صفیہؓ کے حالات میں بھی آ رہی ہے اس لیے یہاں اس کی وضاحت کر دی ہے تاکہ وہاں بھی سمجھنے میں آسانی رہے۔

        حارث بن ابی ضرار کا سفر مدینہ

آپؓ کے والد حارث بن ابی ضرار کو کسی نے یہ اطلاع دی کہ برہ کو لونڈی بنا لیا گیا ہے۔ تو حارث بن ابی ضرار اپنی بیٹی کی رہائی کے لیے بہت سا مال واسباب اونٹوں پر لاد کر مدینہ کی طرف عازم سفر ہوئے۔ ان اونٹوں میں دو اونٹ حارث کو بہت پسند تھے، چنانچہ دوران سفر انہوں نے وہ دو اونٹ مقام عقیق پر کسی گھاٹی میں باندھ دیے اور باقی مال و اسباب سے لدے ہوئے اونٹ لے کر مدینہ پہنچے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی:
‘‘ میری بیٹی آپ کی قید میں ہے میں اس کی رہائی کے لیے یہ مال و اسباب لایا ہوں۔ یہ لے لیں اور میری بیٹی کو آزاد کر دیں۔”

       حارث بن ابی ضرار کا قبول اسلام

اسی دوران اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو یہ بتلا دیا کہ حارث نے فلاں مقام پر دو اونٹ چھپا دیے ہیں۔ چنانچہ آپﷺ نے فرمایا:’’دو اونٹ جو تم چھپا آئے ہو وہ کہاں ہیں؟‘‘حارث بن ابی ضرار نے یہ سنا تو حیران ہوا اسے یقین ہو گیا کہ آپﷺ  سچے نبی ہیں اور اللہ تعالیٰ ان پر وحی بھیجتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے بھی اسلام قبول کر لیا۔
روایات میں آتا ہے کہ اُم المؤمنین سیدہ جویریہ بنت حارثؓ  کے گھر والے بھائی وغیرہ بھی دولت اسلام سے مالا مال ہو گئے تھے۔یہاں پہنچ کر حارث بن ابی ضرارؓ رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوا کہ میری دختر جویریہؓ سے نبی کریمﷺ  نے نکاح فرمالیا ہے اس پر آپ بے حد خوش ہوئے۔

                    بابرکت شادی

سیدہ عائشہؓ بیان کرتی ہیں: جب صحابہ کرامؓ کو معلوم ہوا کہ رسول اللہﷺ نے سیدہ جویریہؓ  سے شادی فرما لی تو انہوں نے بنو مصطلق کے قیدیوں کو اس لیے آزاد کر دیا کہ یہ قبیلہ رسول اللہﷺ  کا سسرالی رشتہ دار بن گیا ہے۔ چنانچہ محدثین نے لکھا ہے کہ اس موقع پر بنو مصطلق کے سو خاندان آزادی کی نعمت سے بہرہ مند ہوئے۔
اسی لیے سیدہ جویریہؓ  کے اُم المؤمنین بننے پر سیدہ عائشہؓ  فرماتی ہیں’’:میں نے جویریہ سے بڑھ کر کسی عورت کو اپنے قبیلے کے لیے باعث رحمت نہیں پایا۔‘‘

              بیت نبی کی اہل بیت

سیدہ جویریہؓ کے لئےدیگر امہات المؤمنین کے حجروں کے متصل مسجد نبوی کے قریب ہی ایک حجرہ تعمیر کرایا گیا تھا۔ اس کی دیواریں کچی اینٹوں کی اور چھت کھجوروں کی شاخوں سے بنائی گئی تھی جسے گارے سے لیپ دیا گیا تھا، دروازے پر اونی ٹاٹ کا پردہ تھا۔

                    امتیازی خصوصیت

سیدہ جویریہؓ نے ایک بار جناب نبی کریمﷺ  سے عرض کی:یارسول اللہﷺ ! آپﷺ کی دیگر ازواج فخر کرتی ہیں۔آپﷺ  نے پوچھا کہ کس بات پر؟ آپؓ  نے عرض کی کہ زیادہ حق مہر پر؟ آپﷺ  نے فرمایا: کیا میں نے آپؓ کے مہر میں بڑی رقم ادا نہیں کی؟ کیا میں نے آپؓ کی قوم کے 40 غلام آزاد نہیں کیے؟

            اوصاف و کمالات

سیدہ جویریہؓ نہایت عبادت گزار، تقویٰ و للہیت، قناعت پسند، پیکر صبر ورضا، اور جود و سخا میں بہت آگے تھیں۔ اللہ کریم نے آپؓ  کو تمام عمدہ اوصاف عطا فرمائے تھے۔

                چار کلمات کا ورد

ایک دن آپﷺ نماز فجر کے بعد سیدھے سیدہ جویریہؓ  کے پاس سے باہر تشریف لائے تو اس وقت وہ اپنے مصلے پر بیٹھی مشغول عبادت تھیں،آپﷺ  کافی دیر بعد دوبارہ ان کے پاس تشریف لائے تو ان کو بدستور مصلے پر بیٹھے مصروف عبادت پایا تو فرمایا:جب سے میں باہر گیا ہوں کیا تم اسی وقت سے اسی جگہ یونہی مصروف عبادت ہو؟
آپؓ نے عرض کی: جی ہاں!آپﷺ نے فرمایا: میں جس وقت سے تمہارے یہاں سے اٹھ کر گیا ہوں میں نے تین مرتبہ چار کلمے ایسے پڑھے ہیں اگر ان کا موازنہ آپ کی عبادت کے ساتھ کیا جائے تو وہ چار کلمات فضیلت کے اعتبار سے بڑھ جائیں۔
آپؓ رضی  نے عرض کی کہ مجھے بھی وہ کلمات سکھلا دیں۔ چنانچہ آپﷺ نے ارشاد فرمایا:
سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ عَدَدَ خَلْقِهِ، وَرِضَا نَفْسِهِ وَزِنَةَ عَرْشِهِ، وَمِدَادَ كَلِمَاتِهِ۔
آپﷺ  کے ان کلمات بتانے کا مقصد یہ تھا کہ اپنے روزمرہ کے اذکار میں ان کلمات کو بھی شامل کر لیا جائے۔
سیدہ جویریہؓ کے پاس ایک دن رسول اللہﷺ  تشریف لائے اور پوچھا:’’ کیا کچھ کھانے کو ہے؟‘‘
آپؓ نے عرض کی:’’میری کنیز نے صدقہ کا گوشت دیا تھا، بس وہی موجود ہے۔‘‘
رسول اللہﷺ نے فرمایا:’’ لے آؤ جس کو صدقہ دیا گیا تھا اس کو پہنچ چکا۔‘‘
نوٹ: یہاں یہ بات ملحوظ رہے کہ خاندان بنی ہاشم کے لیے براہ راست صدقہ لینا یا صدقے کی کوئی چیز کھانا پینا جائز نہیں، ہاں اگر صدقہ دینے والا ہاشمی خاندان کے علاوہ کسی اور خاندان کے شخص کو صدقہ دے پھر وہ ہاشمی خاندان کے شخص کو ہدیہ میں وہی چیز دے دے تو اب ہاشمی خاندان والے کے لیے جائز ہوگا۔

                   وفات

سیدہ جویریہؓ  نے 65 سال کی عمر میں 50 ہجری ربیع الاول کے مہینے میں وفات پائی مدینہ منورہ کے حاکم مروان بن حکمؒ  نے نماز جنازہ پڑھائی اور آپ کو جنت البقیع میں دفن کیا گیا